جوش خبر ہے کہ نہیں ؟

خبر ہے کہ نہیں
اب صبا کوچہ جاناں میں گزر ہے کہ نہیں
تجھ کو اس فتنۂ عالم کی خبر ہے کہ نہیں
بجھ گیا مہر کا فانوس ،کہ روشن ہے ابھی​
اب ان آنکھوں میں لگاوٹ کا اثر ہے کہ نہیں
اب میرے نام کا پڑھتا ہے وظیفہ کوئی​
اب مرا ذکر وفا ورد سحر ہے کہ نہیں
اب بھی تکتی ہیں مری راہ وہ کافر آنکھیں​
اب بھی دزدیدہ نظر جانب در ہے کہ نہیں
چھپ کے راتوں کو مری یاد میں روتا ہے کوئی​
موجزن آنکھ میں اب خون جگر ہے کہ نہیں
حسن کو پرسش بیمار کا ہے اب بھی خیال​
مہر کی ذرۂ خاکی پہ نظر ہے کہ نہیں
بے خبر مجھ کو زمانے سے کیا ہے جس نے​
کچھ اسے میری تباہی کی خبر ہے کہ نہیں
کھائے جاتا ہے مجھے درد غریب الوطنی​
دل پر اس جان وطن کے بھی اثر ہے کہ نہیں
جوش خاموش بھی ہو پوچھ رہا ہے کیا کیا​
کچھ تجھے تاڑنے والوں کی خبرہے کہ نہیں
حضرت جوش ملیح آبادی لکھنوی​
 
Top