خبر سے حشر تک

کہتے ہیں کہ دورہ ہمیشہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے لیکن دنیا کی تاریخ میں پہلا ایسا دورہ ہے جو خوشیوں کا باعث بنا۔ جی ہاں ناظرین میں دورہ نریندرہ مودی کی بات کر رہا ہوں۔ آپ کو پروگرام خبر سے حشر تک میں بے نام کلاسرہ اور عامر کی طرف سے خوش آمدید کہتے ہیں اور آج ہم ان تمام تجزیہ کاروں سے بات کریں گےجن کو دن بھر میڈیا نےمنہ نہیں لگایا۔

عامر صاحب میرے پاس آج بہت بڑے بڑے سکینڈلز ہیں لیکن سب سے بڑا اور اہم سکینڈل جس کو میڈیا نے نظر انداز کیا۔ میں داد دیتا ہوں لاہور ائیرپورٹ کے ایک ملازم نے مودی صاحب کے طیارے کی ری فیولنگ ہوتے ہوئے دیکھ لی اور مجھے کچھ پیسوں کے عوض یہ خبر دی۔ ہمارے ذرائع کے مطابق مودی صاحب نے طیارے میں ری فیولنگ کے پیسے نہیں دیے اور ان کے یہاں آنے کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عامر صاحب سے پوچھتے ہیں کہ وہ مودی کی آمد پر کیا کہتے ہیں۔

عامر :۔ اب اس موضوع پر میں کیا بات کروں، وہ مودی جس کو ہماری فضاؤں سے بھی گزرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے نواز شریف نے اس کو صرف کیک کاٹنے کے لیے ملک میں اترنے کی اجازت دے دی۔ایک غریب ملک کے امیر وزیرِ اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اس طرح ہمسایہ ممالک کے ساتھ عیاشیاں کرتا پھرے۔ اس دورے کو تنقید کی نگاہ سے دیکھنے والے ہمارے ایک مہمان ہمارے ساتھ ہیں۔ جی ہاں! زید حامد پہلے افغانستان میں باغی رہے اور کچھ عرصہ سعودی عرب کی جیل میں بھی مقیم رہے اس لیے زید صاحب مسلم لیگ ن کے لیے خصوصی محبت رکھتے ہیں۔زید صاحب آپ کو مودی کی آمد کا کیا مقصد لگتا ہے؟

ذید حامد:۔ بہت شکریہ کہ مجھے اتنے لمبے عرصے بعد دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع دیا گیا۔ ہم نے یہ بات بہت پہلے بتا دی تھی کہ کفار طرح طرح کی سازشوں کے ذریعے وطن عزیز میں داخل ہونے کی کوشش کریں گےاگر ہمارے ملک کے حکمرانوں میں تھوڑی سی بھی غیرت ہوتی تو مودی کے طیارے کو لاہور میں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام آباد میں اتارتے اور جی ایچ کیو کے حوالے کر دیتے تا کہ آئندہ دشمن کو ہمارے عزائم کا پتا چل جاتاکہ ہم کس طرح دھوکہ دے کا مارتے ہیں۔اور دوسری طرف اپنی فوجیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کلاسرہ:۔ ہمیں یہاں وقفہ لینا پڑے گا کیونکہ زید صاحب کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گئے تھے اور گالیاں دینا شروع ہو گئےتھے۔ ناظرین ہمیں ندامت ہے کہ زید صاحب جیسے لوگ ابھی بھی موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملتے ہیں وقفے کے بعد۔

!!!!!

ایک دفعہ پھر خوش آمدید۔ ابھی ہمارے ساتھ نئے مہمان موجود ہیں۔ ہر دلعزیز، یک جان اور یک لخت جیسے الفاظ تو سنے ہوں گےلیکن اس کی مثال اگر دیکھنی ہو تو شیخ رشید سے زیادہ بہتر اور مؤثر شخص آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ اپنی پارٹی کی ایک امید اور ایک سیٹ کے ساتھ پورے ملک کی نمائندگی کا دعویٰ شیخ صاحب ہی کر سکتے ہیں۔۔

شیخ صاحب السلام علیکم ۔ آپ میڈیا کے رویے اور مودی کے دورے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔؟

شیخ رشید:۔ میں۔۔۔۔اب کیا کہوں، دیکھیں جب عوام کے ایک مقبول لیڈر ، اور اس پارٹی کے لیڈر جس کے سارے ممبران پارلمینٹ میں نمائندگی رکھتے ہیں(ایک ہی ہے) اس کا کوئی میڈیا والا دن بھر فون نا اٹھائے تو سمجھ لیں کہ اس حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں اسی لیے تو نواز شریف اب مودی کے ساتھ پینگیں چڑھا رہے ہیں اور فوج کو براہ راست پیغام دیا جا رہا ہے کہ میں اکیلے برتھ ڈے نہیں منا سکتا۔ اب یہ فوج کو فیصلہ کرنا ہےکہ کیا وہ مجھ جیسے قومی لیڈران کی بے عزتی ایسے ہی برداشت کرے گی یا نواز شریف کو سمجھائے گی کہ لیڈر کا درجہ پارلیمنٹ میں سیٹوں سے نہیں بلکہ ٹی وی ٹاک شوز کی زینت بننے پر بڑھتا ہے۔ میں نے میڈیا پر تقریریں کر کے اپنی انگلش ٹھیک کر لی ہے لیکن ان ہمارے لیڈروں کو ۔۔۔ ماسوائے عمران خان کے باقی سب گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ اور دیکھیں اب وقت بہت کم ہےاب ہم مودی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کلاسرہ:۔ شیخ صاحب ذرا رک جائیں ہمیں یہاں وقفے کا کہا جا رہا ہے۔

شیخ رشید:۔ کلاسرہ صاحب مجھے روکیں مت، میں آج سارا دن چپ رہا ہوں ، میں میڈیا پر اس لیے آتا ہوں کہ میں جب تک کسی کو دو چار سنا نہ لوں مجھے رات کو سکون سے نیند نہین آتی۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ میں وہ واحد لیڈر ہوں جو اپنا موبائل اپنی جیب میں لیے پھرتا ہے۔ اور میرے اور میری پارٹی کے لال حویلی کے سوا کوئی اثاثے نہیں ہیں۔

کلاسرہ:۔ شیخ صاحب آپ کا بہت شکریہ ہمیں اب وقفہ لینا پڑے گا آپ کی باتیں تو ختم نہیں ہوں گے ، ہر پروگرام میں ایک ہی لیکچر دیتے ہیں آپ۔

ملتے ہیں ایک بریک کے بعد۔۔۔

!!!!!!!!

ناظرین ہمارے ساتھ سیٹھی صاحب موجود ہیں، ان کا تجزیہ نا صرف ملکی صورتِ حال بلکہ دنیا بھر کے معاملات پر صادق آتا ہے۔

کلاسرہ:۔ سیٹھی صاحب السلام علیکم۔ آپ مودی اور نواز شریف کے اچانک ملنے پر کیا کہتے ہیں۔؟

سیٹھی:۔ وعلیکم السلام ، میں نے آج صبح ہی جب میڈیا پر مودی کے ٹویٹ کا تذکرہ ہونے لگا تو میں نے اپنی چڑیا کو فضاؤں کی طرف روانہ کر دیا کہ مودی کے جہاز میں گھس کر اندر کی بات معلوم کر سکے۔ لیکن بیڑہ غرق ہو باز کااس نے چڑیا کو گردن سے پکڑ لیا ہے اور اب مودی جائے بھاڑ میں، مجھے نئی چڑیا کا بندوبست کرنا ہےوگرنہ جیو والے مجھے منہ نہیں لگائیں گے۔

میں اب جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا خافظ۔

کلاسرہ:۔ عامر میں نے کہا تھا نا کہ مودی جہاں بھی جاتا ہے وہاں کوئی نا کوئی آفت لازمی آتی ہے اب ہمیں نجم سیٹھی سے سبق سیکھتے ہوئے پروگرام کو یہیں بند کر دینا چاہیے کہیں ہمارے سائیکل بھی چوری نا ہو جائیں، ویسے بھی مودی اکیلا نہیں ہے بلکہ سینکڑوں میں ہیں اور جہاز بھی بڑا ہے۔

ہمیں آج کے پروگرام سے اجازت دیجیئے کیونکہ ہم نے اپنے بھی سائیکل بچانے ہیں۔ خدا خافظ

یہ ایک مزاحیہ اور طنزیہ تحریر ہے۔
 
Top