رانا
محفلین
پرانے وقتوں کی بات ہے۔ یہی کوئی چار ارب سال پہلے کی۔جب زمین اس شکل میں تو نہیں تھی۔دربار سلطانی سے ایک پیغامبر ایک منصوبے کی تفصیلات لے کر ہاتف سردار کے پاس پہنچا اور اسے ایک پیغام دیا۔ ہاتف سردار نے منصوبے کی تفصیلات پڑھیں اور جزیات ذہن نشین کرکے اپنی ہزاروں فرشتوں کی ٹیم ساتھ لے کر منصوبے کے مطابق زمین کو تیار کرنے کے لئے مناسب حالات پیدا کرنے شروع کردئیے۔ کروڑوں سال گزرگئے۔ ہاتف سردار اور اسکی ٹیم کی سخت محنت کے نتیجے میں زمین ایک خوبصورت سیارے کی شکل میں نکھر کر سامنے آگئی جس میں ہر طرف سمندر، پہاڑ اور دریا بکھرے ہوئے تھے۔ ہاتف سردار اور اسکی ٹیم زمین کی خوبصورتی دیکھتے اور دربار سلطانی کی لاجواب منصوبہ بندی پر بے اختیار سبحان اللہ کہہ اٹھتے۔ دن اسی طرح گزرتے رہے کہ ایک صبح دربار سلطانی سے پھر ایک پیغامبر فرشتہ ایک نئے منصوبے کی تفصیلات لے کرآیا اور ساتھ ہی زمین پر زندگی کی فلائٹ کی خبر لایا۔ اس فلائیٹ کے وقت مقام وغیرہ کی تفصیلات سمجھا کر پیغامبر تو چلا گیا اور ہاتف سردار کچھ فرشتوں کے ساتھ مقررہ دن فلائٹ کا استقبال کرنے مطلوبہ جگہ پہنچ گیا جہاں فلائٹ نے اترنا تھا۔ مقررہ وقت پر فلائیٹ آگئی۔ یہ ایک دم دار ستارے کا ٹکڑا تھا۔ جس پر زندگی کی ابتدائی شکل براجمان تھی۔ ہاتف سردار نے اس کے پنپنے کے لئے ساز گار حالات پیدا کرنے شروع کروادئیے۔ مختلف فرشتوں کو اس حوالے سے مختلف اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ کیونکہ دربار سلطانی کا پیغامبر یہ تاکید کرگیا تھا کہ زندگی کا اصل مقصود انسان کی پیدائش ہے اس لئے ہاتف سردار اور اسکی ٹیم زندگی کی نشونما کو بہت دلچسپی سے دیکھتے رہتے تھے کہ کب یہ اپنے مقصود کو پہنچے گی اور کیسا ہی وہ مقصود انسان ہوگا جس کے لئے اتنے سارے اہتمام کئے جارہے ہیں۔
زندگی نشونما پاتی رہی اور اس سے مختلف قسم کے جاندار اور نباتات پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ جن سے زمین کی خوبصورتی دوچند ہوگئی۔ خشکی پر ہرے بھرے جنگل اور سبزہ، مختلف رنگ برنگ پرندے اور جانور، سمندر میں مچھلیاں اور انواع و اقسام کی حیات پیدا ہوگئیں۔ یہ سب دیکھ کر ہاتف سردار اور اسکی ٹیم دنگ ہی تو رہ گئے کہ اس قدر خوبصورتی کا تصور تو ان کے گمان میں بھی نہ تھا۔ لیکن ابھی تک انسان اپنے ارتقا کو نہیں پہنچا تھا اور اسکی نشونما جاری تھی۔ زندگی کے یہ خوبصورت رنگ دیکھ کر ہاتف سردار اور اسکی ٹیم کو اب بے تابی سے انتظار رہنے لگا کہ جب زندگی کی ادنیٰ شکلیں اتنی لاجواب ہیں تو مقصود بالذات انسان کیا زبردست تخلیق ہوگی۔ آخر کار وہ دن بھی آگیا جب انسان اپنے تمام قویٰ اور پورے جوبن کے ساتھ ان کے سامنے تھا۔سب فرشتے اس کے آگے پیچھے گھوم پھر کر اسے حیرت سے دیکھتے کہ یہ مٹھی بھر خاک میں ایسا کیا ہے جس کے لئے یہ سب اہتمام کیا گیا۔ دربار سلطانی سے حکم نامہ پہنچا کہ سب کے سب انسان کی فرمانبرداری کا جوا اپنی گردن میں ڈال لیں۔ سب نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور انسان کی خدمت میں لگ گئے لیکن ابلیس کو یہ گوارا نہ ہوا کہ وہ اس کی فرمانبرداری کرے لہٰذا وہ الگ جاکھڑا ہوا۔ دوسروں نے حیرت سے اسے دیکھا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ اس کا تو مادہ ہی سرکشی سے مرکب ہے اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔ البتہ حیرت انہیں بھی ضرور ہوئی کہ اس خاک کی مٹھی کو ہم پر فضیلت دی گئی ہے لیکن اس میں فضیلت والی کوئی بات تو نظر آتی نہیں۔ نہ تو ہماری طرح پلک جھپکتے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتا ہے نہ اڑسکتا ہے نہ کوئی غیر معمولی طاقت ہے کہ اس سے زیادہ طاقت تو معمولی حیوانوں میں پائی جاتی ہے۔اتنا کمزور سا وجود لیکن اتنی اہمیت کا حامل ٹھہرا۔ آخر کچھ تو اس میں قابلیت ہوگی جو شائد آئندہ کبھی ظہور میں آئے۔
دن گزرتے رہے ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلتے رہے۔انسان کچھ مہذب ہونا شروع ہوا اور تمدن ترقی کرتا رہا۔ لیکن اسکی ترقی کی رفتار سے ہاتف سردار مطمئن نہ تھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ سینکڑوں سال گزر گئے اور بس معمولی سی بودوباش میں تبدیلی کبھی کبھار دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ ہاتف سردار اپنے ساتھی فرشتوں کے سامنے انسان کی اس سستی بھری ترقی کا بڑی حیرت سے ذکر کرتا کہ اس میں تو کچھ بھی خاص نظر نہیں آتا۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ ہمیں تو کام سے غرض ہے ہمیں کیا۔
ادھر بیسویں صدی میں انسان نے قدم رکھا۔ پھر تو انسان کی پھرتیوں کو اچانک ہی جیسے پر لگ گئے۔ لیکن ہاتف سردار اس سے بے خبر تھا کہ جس خاک کی مٹھی کو وہ سست المخلوق کہا کرتا تھا وہ اب اس کا ناک میں دم کرنے والی ہے۔ ایک دن ہاتف سردار اپنے دفتر میں بیٹھا روٹین کے کام دیکھ رہا تھا۔ مختلف فرشتے اپنی اپنی ذمہ داریوں میں مشغول تھے۔ہر انسان کا ان کے رجسٹروں میں ریکارڈ ہوتا تھا۔ جو مرجاتا اس کا نام رجسٹر سے نکال دیا جاتا۔تمام کاروبار زندگی معمول کے مطابق چل رہا تھا جب پہلی بار اس پرسکون ماحول میں ہلچل مچی۔
ایک فرشتہ پریشان حال آیا اور آتے ہی ہاتف سردار سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا کہ ہمارے ریکارڈ کے مطابق تبت کے علاقے میں اس وقت بارش ہونی چاہئے تھی جس کے بعد مجھے اپنی کچھ متعلقہ ذمہ داریاں ادا کرنی تھیں لیکن بارش ہی نہیں ہوئی جبکہ ہمارا ریکارڈ بالکل درست ہے۔ ہاتف سردار نے فورا اس فرشتے کوبلابھیجا جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ تبت تک بادلوں کو ہانک کرلائے۔ ابھی وہ پہنچا بھی نہ تھا کہ ایک دوسرا فرشتہ بڑی تیزی سے اندر داخل ہوا اور ہاتف سردار سے کہا کہ ہندوستان کے فلاں علاقے میں تو ہمارے ریکارڈ کے مطابق اگلے سال بارش ہونی تھی تو وہاں آج کیوں بارش کروادی گئی۔ میرا سارا پروگرام الٹ پلٹ ہوگیا ہے۔ ہاتف سردار بڑا حیران ہوا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ اتنی دیر میں تبت میں بادل ہنکانے والا فرشتہ حاضر ہوگیا۔ اس سے ہاتف سردار نے تبت میں بارش کی غیر حاضری کا سبب پوچھا تو اس نے اپنی بپتا سنائی کہ میں تو بادل تبت ہی لے جارہا تھا لیکن ہندوستان کے اوپر سے گزرتے ہوئے وہاں برس پڑے اور اس میں انسان ملوث ہے۔ ہاتف سردار بڑا حیران ہوا کہ انسان ، وہ خاک کی مٹھی، وہ کیسے ہمارے کام میں آڑے آسکتا ہے۔ فرشتے نے بتایا کہ انسان نے کوئی ایسا کیمیکل ایجاد کیا ہے جو بادلوں پر ڈالنے سے بادل وہیں برس پڑتے ہیں۔ یہی حرکت میرے ساتھ انہوں نے کی ہے کہ راستے میں ہی میرے بادلوں کو انہوں نے ہائی جیک کرلیا۔ہاتف سردار بڑا پریشان ہوا کہ اسطرح تو بڑا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ ہمارا تو سارا ریکارڈ درہم برہم ہوجائے گا اور ایمرجنسی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا۔ بہرحال ہاتف سردار نے فرشتے کو تبت کے لئے نئے بادلوں کا بندوبست کرنے کو کہا اور خاص تاکید کی کہ اس بار راستہ بدل کر بادل لے جائے مبادا پھر کہیں انسان کے ہتھے چڑھ جائیں۔ لیکن یہ معاملہ اب رکنے کانہیں تھا کہ ہر جگہ ہی تو انسان بستے تھے۔ بے چارےفرشتے کہاں کہاں راستہ بدلتے۔ کبھی نہ کبھی انسان کے ہتھے ان کے بادل چڑھ جاتے اور پھر فرشتوں کو نئے سرے بادلوں کا بندوبست کرنا پڑتا ۔
ایک دن ایک فرشتہ آیا اور ہاتف سردار کوایک عورت کا رجسٹریشن نمبر بتا کر کہا کہ ان کو بچہ دینا ہے لیکن ہمارے ریکارڈ کے مطابق ان خاتون کے لئے کوئی بچہ نہیں ہے۔ اس لئے اب متعلقہ ڈیپارٹمنٹ سے کہہ کر ایمرجنسی میں ایک بچے کا بندوبست کرایا جائے۔ ہاتف سردار بڑا حیران ہوا کہ جب ہمارے ریکارڈ میں اس عورت کے لئے کوئی بچہ ہی نہیں تو پھر یہ مطالبہ کیوں۔ فرشتے نے بتایا کہ ہمارا ریکارڈ تو بالکل ٹھیک ہے اور واقعی اس کے لئے کوئی اولاد کا کوٹہ نہیں تھا۔ لیکن انسان نے ٹیسٹ ٹیوب بےبی کا کوئی طریقہ ایجاد کیا ہے اس لئے بچے کا بندوبست اب ناگزیر ہے۔ ہاتف سردار کے چہرے پر کچھ ناگواری کے تاثرات ابھرے کہ حد ہوگئی اب اس شعبے میں بھی ایمرجنسی نافذ کرنے پڑے گی۔ مجبورا ہاتف سردار کو اس شعبے میں فرشتوں کی مزید نفری کا اضافہ کرنا پڑا کہ اس طرح کی ایمرجنسی صورت حال سے بروقت نپٹا جاسکے۔ بہرحال ہاتف سردار اور اسکی ٹیم کو انسان کی خدمت کے لئے لگایا گیا تھا اس لئے خدمت تو کرنی ہی تھی۔ لیکن اب اس شعبے میں بھی کام بہت زیادہ بڑھ گیا تھا کہ اکثر ایمرجنسی کی صورت میں ریکارڈ سے ہٹ کر بچوں کی پروڈکشن کرنا پڑتی تھی۔
پھر یہ ہوا کہ ہر وقت انسان کی حفاظت پر معمور رہنے ولے شعبے کا سردار فرشتہ آیا اور ہاتف سردار سے کچھ مزید نفری کامطالبہ کیا کہ کچھ سرپھرے انسان چاند کی طرف جارہے ہیں ان کے ساتھ روانہ کرنے کو نفری درکار ہے۔ ہاتف سردار تو پہلے ہی انسان کی گذشتہ حرکتوں پر جلا بھنا بیٹھا تھا۔ اسے بڑا غصہ آیا کہ اب چاند پر کیا لینے جارہے ہیں۔ وہاں کون سی ان کی خالہ بیٹھی ہے۔ شعبے کے سردار نے بڑے ادب سے انسان کے چاند پر جانے کے مقصد سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ مجبوراً ہاتف سردار کو کچھ اضافی نفری دینی پڑی۔ ایک دستہ فرشتوں کا انسان کے اس راکٹ کے ساتھ محو پرواز ہوا جو چاند کی جانب گامزن تھا۔ کئی ہفتوں کے سفر کے بعد وہاں پہنچ کر فرشتوں نے سوچا کہ پتہ نہیں اب یہاں ان کا کتنا لمبا قیام ہوگا ۔ وہ سب ایک طرف بیٹھ کر ان سرپھروں کو دیکھنے لگے جو پہلے تو کچھ گھنٹے مٹی پر اچھل کود کرتے رہے۔ پھر ایک پائپ کے ساتھ جھنڈا باندھ کر مٹی میں ٹھونک دیا اور واپس روانہ ہوگئے۔ فرشتوں کادستہ بڑا حیران ہوا کہ اتنی دور سے یہاں صرف یہ اچھل کود کرنے آئے تھے یا پھر ایک پائپ زمین میں گاڑنے کو۔۔
ایک دن ہاتف سردار اموات کے شعبے کا ریکارڈ اپنے ماسٹر ریکارڈ سے چیک کررہا تھا کہ اسے پتہ لگا اموات کے شعبے میں ایک شخص کی موت درج نہیں کی گئی اور وہ بدستور حیات کے رجسٹر میں موجود ہے۔ جبکہ اس کے ماسٹرریکارڈ کے مطابق اس شخص کی موت چھ ماہ قبل ہوکر اس کا نام رجسٹر سے خارج ہوجانا چاہئے تھا۔ اس نے متعلقہ فرشتوں سے دریافت کیا کہ اس شخص کی موت کا اندراج کیوں نہیں تو پتہ لگا کہ وہ ابھی مرا ہی نہیں۔ ‘‘لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہے ہمارا ریکارڈ تو ازل سے درست ہے’’ ہاتف سردار نے انتہائی حیرت سے پوچھا۔ فرشتوں نے بتایا کہ اصل میں تو اس کی روح کو چھ ماہ قبل ہی قبض کرنے کو ایک کارکن بھیجا ہوا ہے لیکن وہاں انسان نے کوئی وینٹی لیٹر نامی چیز ایجاد کردی ہوئی ہے جس پر اس شخص کو رکھا ہوا ہے۔ ہمارا کارکن فرشتہ بیچارا چھ ماہ سے اس کے بیڈ کے پاس ڈیوٹی پر موجود ہے کہ کب روح نکلے اور کب وہ اسے دبوچ کر یہاں لے آئے لیکن آخری اطلاعات کے مطابق وینٹی لیٹر نے ابھی تک روح نہیں چھوڑی ہے۔ یا خدایا! ہاتف سردار بڑبڑایا۔ یہ خاک کی مٹھی تو جان کو آگئی ہے۔ اس طرح تو ہر وینٹی لیٹر کے پاس ایک فرشتہ مسلسل موجود رہنا چاہئے۔ جی سر! اسی لئے تو پریشانی ہے کہ نفری ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہاتف سردار نے دربار سلطانی سے فرشتوں کی مزید نفری طلب کرلی کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ لیکن اب ہاتف سردار اور اسکے ساتھ فرشتوں کی ٹیم انسان سے بہت زچ ہوچکے تھے کہ جس کی وجہ سے اب کوئی وقت آرام کا نہیں ملتا تھا کیونکہ ہر وقت ہی کہیں نہ کہیں کوئی کام ان کے رجسٹروں میں درج ریکارڈ سے ہٹ کر ہورہا ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہر وقت سب فرشتوں کی دوڑیں لگی رہتی تھیں۔ کہاں تو وہ لاکھوں سال سے سکون سے لگی بندھی روٹین سے کام کرتے تھے اور کہاں یہ عالم کہ کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کب کہاں کس طرح کی ایمرجنسی ڈیوٹی کرنی پڑجائے۔
اب تو ہاتف سردار اس خاک کی مٹھی کو بڑی حیرت سے دیکھتا کہ یہ اچانک ہی اسے کیا ہوگیا ہے کہ ناک میں دم کردیا ہے۔ پھر ایک دن مزید نفری کامطالبہ آپہنچا کہ نظام شمسی کے پار ستاروں کی طرف کوئی خلائی جہاز روانہ ہورہا ہے اس کے ساتھ بھیجنے کو کچھ فرشتوں کی ضرورت ہے۔ ہاتف سردار نے سر پکڑ لیا کہ اب یہ خاک کی مٹھی انسان ستاروں پر کمند ڈالے گا۔ ستارے نہ ہوئے خالہ جی کا گھر ہوگیا جس پر آنکڑا ڈالنے چلا ہے۔ اس خاک کی مٹھی کی خدمت اب روز بروز اس کے بس سے باہر ہوتی جارہی تھی۔
ایک دن تو حد ہی ہوگئی۔ ایک فرشتہ بھاگا بھاگا آیا اور ایک رجسٹر میں سے ایک بندے کے کوائف سامنے رکھ کر بولا کہ اس کے ساتھ کی میچنگ کی ایک روح فوری طور پر درکا ر ہے۔ ہاتف سردار نے فرشتے کو یوں دیکھا جیسے اس کا دماغ چل گیا ہو۔ ‘‘تمہیں پتہ ہے کہ ایک بندے کی خصوصیات کی ایک ہی روح بنائی جاتی ہے۔ اب دوسری کیوں درکار ہے؟’’ سر وہ بات دراصل یہ ہے کہ انسان نے کلوننگ کا طریقہ ایجاد کرلیا ہے اور اس بندے کا کلون اب پیدائش کے مرحلے میں پہنچ گیا ہے اس لئے مجبوری ہے۔ کیا!!! یہ خاک کی مٹھی!! ہاتف سردار جھنجلا سا گیا۔ تو اب ہمیں روحیں بھی ڈپلیکیٹ بنوانی پڑیں گی۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ ایک بندے کا ایک ہی کلون بنتا ہے۔ نہیں سر جتنے مرضی بنالیں انہوں نے طریقہ ہی ایسا ایجاد کیا ہے۔ ‘‘یعنی کہ اس شعبے میں بھی ایمرجنسی!!! حد ہوگئی یہ معاملہ تو حد سے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ مجھے دربار سلطانی سے بات کرنی ہی پڑے گی۔’’ پھر ہاتف سردار نے تمام فرشتوں سے مشورہ کیا کہ اس خاک کی مٹھی کے ساتھ مزید گزارا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہم کام سے نہیں گھبراتے لیکن کوئی طریقہ بھی تو ہو یہاں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کہاں کیا ایمرجنسی آن پڑے۔ مشورے سے یہ طے ہوا کہ ہاتف سردار دربار سلطانی میں اپنے اور اپنی ٹیم کے کسی دوسرے سیارے پر تبادلے کی درخواست کرے گا۔ دربار سلطانی میں رسائی ہوئی ۔ ہاتف سردارنے اپنی پوری بپتا سنائی اور کہا کہ سلطان عالی مقام ہمیں آپ بے شک کوئی نئی کہکشاں بنانے کا کام دے دیں ہم اربوں سال لگا کر وہ کام کرلیں گے لیکن یہاں زمین پر انسان کےساتھ چلنا مشکل ہورہا ہے۔ دربار سلطانی سے ارشاد ہوا کہ ٹھیک ہے۔ تمہارے پاس دو اختیار ہیں۔ ایک تو یہ کہ دو ڈھائی سو سال مزید زمین پر گزارا کرلو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے تمہاری پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ تمہارا اور تمہاری ٹیم کا کسی دوسرے سیارے پر تبادلہ کردیا جائے۔ ہاتف سردار نے کچھ دیر کو سر جھکا کر سوچا۔ دو ڈھائی سو سال !! یہ بہت مشکل ہے۔ دوسرا آپشن ٹھیک ہے۔ دوسرا سیارہ ہے وہاں کوئی ٹینشن والی بات ہی نہ ہوگی۔ ہاتف سردار نے دوسرے آپشن کو ترجیح دی۔ دربار سلطانی سے حکم نامہ جاری ہوگیا کہ ہاتف سردار اور اسکی ٹیم اگلے ہفتے سے دوسرے سیارے پر ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ سیارے کا انتخاب بھی ہاتف سردار پر چھوڑا گیا اور اس نے مریخ کے لئے رضامندی ظاہر کردی۔ اگلے ہفتے ہاتف سردار اور اسکی پوری ٹیم مریخ پر موجود تھے۔
ہاتف سردار اور اسکی ٹیم کو مریخ پر ڈیوٹی کرتے ہوئے کافی عرصہ ہوچلا تھا۔ ایک دن ہاتف سرادر اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھا تھا کہ زمین کی طرف سے ایک خلائی جہاز مریخ پر اترا۔ جس میں سے چند انسان برآمد ہوئے۔ ہاتف سردار نے حیرت سے ان پر نظر ڈالی اور پھر اپنے ساتھیوں کو پُر تشویش نگاہوں سے دیکھا۔ جو فرشتے انسان کے ساتھ اس سے پہلے چاند کی ڈیوٹی دے چکے تھے انہوں نے ہاتف سردار کو تسلی دی کہ سر فکر کی کوئی بات نہیں یہ یہاں دو گھنٹے اچھل کود مچائیں گے پھر ایک پائپ مٹی میں گاڑیں گے اور واپس چلے جائیں گے۔ ہاتف سردار نے کچھ ملے جلے تاثرات کے ساتھ ان کی بات سنی۔ دل میں دعا مانگی کہ خدایا ایسا ہی ہو۔ لیکن جب پورا دن گزر گیا اور نہ تو انہوں نے اچھل کود مچائی اور نہ واپس جانے کا نام لیا تو ہاتف سردار نے ان کے ساتھ آئی فرشتوں کی ٹیم سے انسان کے اس نزول کا مقصد پوچھا۔ ان فرشتوں کے سردار نے بتایاکہ زمین کا انسان نے ستیاناس کردیا ہے اور اب خطرناک قسم کی جنگوں اور تابکاری اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث اب وہ ان کے رہنے کے قابل نہیں رہ گئی ہے۔ اس لئے اب یہ مستقل مریخ پر رہنے آئے ہیں ۔ ان کے پیچھے ہزاروں خلائی جہاز انسانوں سے بھرے اور ضروری سازوسامان سے لیس آرہے ہیں جو مریخ کو انسان کے رہنے کے قابل بنائیں گے۔ ہاتف سردار نے زمین کی طرف نظر دوڑائی تو خلائی جہازوں کے غول کے غول مریخ کی طرف بڑھتے دکھائی دئیے۔ ہاتف سردار کی آنکھوں تلے اندھیرا چھاگیا اور وہ چکرا کر نیچے گرا۔ گرتے ہوئے اس کے ذہن میں یہ الفاظ گونج رہے تھے کہ دو ڈھائی سوسال زمین پر گزارا کرلو یہ تمہارے حق میں بہتر ہوگا۔
زندگی نشونما پاتی رہی اور اس سے مختلف قسم کے جاندار اور نباتات پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ جن سے زمین کی خوبصورتی دوچند ہوگئی۔ خشکی پر ہرے بھرے جنگل اور سبزہ، مختلف رنگ برنگ پرندے اور جانور، سمندر میں مچھلیاں اور انواع و اقسام کی حیات پیدا ہوگئیں۔ یہ سب دیکھ کر ہاتف سردار اور اسکی ٹیم دنگ ہی تو رہ گئے کہ اس قدر خوبصورتی کا تصور تو ان کے گمان میں بھی نہ تھا۔ لیکن ابھی تک انسان اپنے ارتقا کو نہیں پہنچا تھا اور اسکی نشونما جاری تھی۔ زندگی کے یہ خوبصورت رنگ دیکھ کر ہاتف سردار اور اسکی ٹیم کو اب بے تابی سے انتظار رہنے لگا کہ جب زندگی کی ادنیٰ شکلیں اتنی لاجواب ہیں تو مقصود بالذات انسان کیا زبردست تخلیق ہوگی۔ آخر کار وہ دن بھی آگیا جب انسان اپنے تمام قویٰ اور پورے جوبن کے ساتھ ان کے سامنے تھا۔سب فرشتے اس کے آگے پیچھے گھوم پھر کر اسے حیرت سے دیکھتے کہ یہ مٹھی بھر خاک میں ایسا کیا ہے جس کے لئے یہ سب اہتمام کیا گیا۔ دربار سلطانی سے حکم نامہ پہنچا کہ سب کے سب انسان کی فرمانبرداری کا جوا اپنی گردن میں ڈال لیں۔ سب نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور انسان کی خدمت میں لگ گئے لیکن ابلیس کو یہ گوارا نہ ہوا کہ وہ اس کی فرمانبرداری کرے لہٰذا وہ الگ جاکھڑا ہوا۔ دوسروں نے حیرت سے اسے دیکھا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ اس کا تو مادہ ہی سرکشی سے مرکب ہے اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔ البتہ حیرت انہیں بھی ضرور ہوئی کہ اس خاک کی مٹھی کو ہم پر فضیلت دی گئی ہے لیکن اس میں فضیلت والی کوئی بات تو نظر آتی نہیں۔ نہ تو ہماری طرح پلک جھپکتے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتا ہے نہ اڑسکتا ہے نہ کوئی غیر معمولی طاقت ہے کہ اس سے زیادہ طاقت تو معمولی حیوانوں میں پائی جاتی ہے۔اتنا کمزور سا وجود لیکن اتنی اہمیت کا حامل ٹھہرا۔ آخر کچھ تو اس میں قابلیت ہوگی جو شائد آئندہ کبھی ظہور میں آئے۔
دن گزرتے رہے ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلتے رہے۔انسان کچھ مہذب ہونا شروع ہوا اور تمدن ترقی کرتا رہا۔ لیکن اسکی ترقی کی رفتار سے ہاتف سردار مطمئن نہ تھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ سینکڑوں سال گزر گئے اور بس معمولی سی بودوباش میں تبدیلی کبھی کبھار دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ ہاتف سردار اپنے ساتھی فرشتوں کے سامنے انسان کی اس سستی بھری ترقی کا بڑی حیرت سے ذکر کرتا کہ اس میں تو کچھ بھی خاص نظر نہیں آتا۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ ہمیں تو کام سے غرض ہے ہمیں کیا۔
ادھر بیسویں صدی میں انسان نے قدم رکھا۔ پھر تو انسان کی پھرتیوں کو اچانک ہی جیسے پر لگ گئے۔ لیکن ہاتف سردار اس سے بے خبر تھا کہ جس خاک کی مٹھی کو وہ سست المخلوق کہا کرتا تھا وہ اب اس کا ناک میں دم کرنے والی ہے۔ ایک دن ہاتف سردار اپنے دفتر میں بیٹھا روٹین کے کام دیکھ رہا تھا۔ مختلف فرشتے اپنی اپنی ذمہ داریوں میں مشغول تھے۔ہر انسان کا ان کے رجسٹروں میں ریکارڈ ہوتا تھا۔ جو مرجاتا اس کا نام رجسٹر سے نکال دیا جاتا۔تمام کاروبار زندگی معمول کے مطابق چل رہا تھا جب پہلی بار اس پرسکون ماحول میں ہلچل مچی۔
ایک فرشتہ پریشان حال آیا اور آتے ہی ہاتف سردار سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا کہ ہمارے ریکارڈ کے مطابق تبت کے علاقے میں اس وقت بارش ہونی چاہئے تھی جس کے بعد مجھے اپنی کچھ متعلقہ ذمہ داریاں ادا کرنی تھیں لیکن بارش ہی نہیں ہوئی جبکہ ہمارا ریکارڈ بالکل درست ہے۔ ہاتف سردار نے فورا اس فرشتے کوبلابھیجا جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ تبت تک بادلوں کو ہانک کرلائے۔ ابھی وہ پہنچا بھی نہ تھا کہ ایک دوسرا فرشتہ بڑی تیزی سے اندر داخل ہوا اور ہاتف سردار سے کہا کہ ہندوستان کے فلاں علاقے میں تو ہمارے ریکارڈ کے مطابق اگلے سال بارش ہونی تھی تو وہاں آج کیوں بارش کروادی گئی۔ میرا سارا پروگرام الٹ پلٹ ہوگیا ہے۔ ہاتف سردار بڑا حیران ہوا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ اتنی دیر میں تبت میں بادل ہنکانے والا فرشتہ حاضر ہوگیا۔ اس سے ہاتف سردار نے تبت میں بارش کی غیر حاضری کا سبب پوچھا تو اس نے اپنی بپتا سنائی کہ میں تو بادل تبت ہی لے جارہا تھا لیکن ہندوستان کے اوپر سے گزرتے ہوئے وہاں برس پڑے اور اس میں انسان ملوث ہے۔ ہاتف سردار بڑا حیران ہوا کہ انسان ، وہ خاک کی مٹھی، وہ کیسے ہمارے کام میں آڑے آسکتا ہے۔ فرشتے نے بتایا کہ انسان نے کوئی ایسا کیمیکل ایجاد کیا ہے جو بادلوں پر ڈالنے سے بادل وہیں برس پڑتے ہیں۔ یہی حرکت میرے ساتھ انہوں نے کی ہے کہ راستے میں ہی میرے بادلوں کو انہوں نے ہائی جیک کرلیا۔ہاتف سردار بڑا پریشان ہوا کہ اسطرح تو بڑا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ ہمارا تو سارا ریکارڈ درہم برہم ہوجائے گا اور ایمرجنسی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا۔ بہرحال ہاتف سردار نے فرشتے کو تبت کے لئے نئے بادلوں کا بندوبست کرنے کو کہا اور خاص تاکید کی کہ اس بار راستہ بدل کر بادل لے جائے مبادا پھر کہیں انسان کے ہتھے چڑھ جائیں۔ لیکن یہ معاملہ اب رکنے کانہیں تھا کہ ہر جگہ ہی تو انسان بستے تھے۔ بے چارےفرشتے کہاں کہاں راستہ بدلتے۔ کبھی نہ کبھی انسان کے ہتھے ان کے بادل چڑھ جاتے اور پھر فرشتوں کو نئے سرے بادلوں کا بندوبست کرنا پڑتا ۔
ایک دن ایک فرشتہ آیا اور ہاتف سردار کوایک عورت کا رجسٹریشن نمبر بتا کر کہا کہ ان کو بچہ دینا ہے لیکن ہمارے ریکارڈ کے مطابق ان خاتون کے لئے کوئی بچہ نہیں ہے۔ اس لئے اب متعلقہ ڈیپارٹمنٹ سے کہہ کر ایمرجنسی میں ایک بچے کا بندوبست کرایا جائے۔ ہاتف سردار بڑا حیران ہوا کہ جب ہمارے ریکارڈ میں اس عورت کے لئے کوئی بچہ ہی نہیں تو پھر یہ مطالبہ کیوں۔ فرشتے نے بتایا کہ ہمارا ریکارڈ تو بالکل ٹھیک ہے اور واقعی اس کے لئے کوئی اولاد کا کوٹہ نہیں تھا۔ لیکن انسان نے ٹیسٹ ٹیوب بےبی کا کوئی طریقہ ایجاد کیا ہے اس لئے بچے کا بندوبست اب ناگزیر ہے۔ ہاتف سردار کے چہرے پر کچھ ناگواری کے تاثرات ابھرے کہ حد ہوگئی اب اس شعبے میں بھی ایمرجنسی نافذ کرنے پڑے گی۔ مجبورا ہاتف سردار کو اس شعبے میں فرشتوں کی مزید نفری کا اضافہ کرنا پڑا کہ اس طرح کی ایمرجنسی صورت حال سے بروقت نپٹا جاسکے۔ بہرحال ہاتف سردار اور اسکی ٹیم کو انسان کی خدمت کے لئے لگایا گیا تھا اس لئے خدمت تو کرنی ہی تھی۔ لیکن اب اس شعبے میں بھی کام بہت زیادہ بڑھ گیا تھا کہ اکثر ایمرجنسی کی صورت میں ریکارڈ سے ہٹ کر بچوں کی پروڈکشن کرنا پڑتی تھی۔
پھر یہ ہوا کہ ہر وقت انسان کی حفاظت پر معمور رہنے ولے شعبے کا سردار فرشتہ آیا اور ہاتف سردار سے کچھ مزید نفری کامطالبہ کیا کہ کچھ سرپھرے انسان چاند کی طرف جارہے ہیں ان کے ساتھ روانہ کرنے کو نفری درکار ہے۔ ہاتف سردار تو پہلے ہی انسان کی گذشتہ حرکتوں پر جلا بھنا بیٹھا تھا۔ اسے بڑا غصہ آیا کہ اب چاند پر کیا لینے جارہے ہیں۔ وہاں کون سی ان کی خالہ بیٹھی ہے۔ شعبے کے سردار نے بڑے ادب سے انسان کے چاند پر جانے کے مقصد سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ مجبوراً ہاتف سردار کو کچھ اضافی نفری دینی پڑی۔ ایک دستہ فرشتوں کا انسان کے اس راکٹ کے ساتھ محو پرواز ہوا جو چاند کی جانب گامزن تھا۔ کئی ہفتوں کے سفر کے بعد وہاں پہنچ کر فرشتوں نے سوچا کہ پتہ نہیں اب یہاں ان کا کتنا لمبا قیام ہوگا ۔ وہ سب ایک طرف بیٹھ کر ان سرپھروں کو دیکھنے لگے جو پہلے تو کچھ گھنٹے مٹی پر اچھل کود کرتے رہے۔ پھر ایک پائپ کے ساتھ جھنڈا باندھ کر مٹی میں ٹھونک دیا اور واپس روانہ ہوگئے۔ فرشتوں کادستہ بڑا حیران ہوا کہ اتنی دور سے یہاں صرف یہ اچھل کود کرنے آئے تھے یا پھر ایک پائپ زمین میں گاڑنے کو۔۔
ایک دن ہاتف سردار اموات کے شعبے کا ریکارڈ اپنے ماسٹر ریکارڈ سے چیک کررہا تھا کہ اسے پتہ لگا اموات کے شعبے میں ایک شخص کی موت درج نہیں کی گئی اور وہ بدستور حیات کے رجسٹر میں موجود ہے۔ جبکہ اس کے ماسٹرریکارڈ کے مطابق اس شخص کی موت چھ ماہ قبل ہوکر اس کا نام رجسٹر سے خارج ہوجانا چاہئے تھا۔ اس نے متعلقہ فرشتوں سے دریافت کیا کہ اس شخص کی موت کا اندراج کیوں نہیں تو پتہ لگا کہ وہ ابھی مرا ہی نہیں۔ ‘‘لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہے ہمارا ریکارڈ تو ازل سے درست ہے’’ ہاتف سردار نے انتہائی حیرت سے پوچھا۔ فرشتوں نے بتایا کہ اصل میں تو اس کی روح کو چھ ماہ قبل ہی قبض کرنے کو ایک کارکن بھیجا ہوا ہے لیکن وہاں انسان نے کوئی وینٹی لیٹر نامی چیز ایجاد کردی ہوئی ہے جس پر اس شخص کو رکھا ہوا ہے۔ ہمارا کارکن فرشتہ بیچارا چھ ماہ سے اس کے بیڈ کے پاس ڈیوٹی پر موجود ہے کہ کب روح نکلے اور کب وہ اسے دبوچ کر یہاں لے آئے لیکن آخری اطلاعات کے مطابق وینٹی لیٹر نے ابھی تک روح نہیں چھوڑی ہے۔ یا خدایا! ہاتف سردار بڑبڑایا۔ یہ خاک کی مٹھی تو جان کو آگئی ہے۔ اس طرح تو ہر وینٹی لیٹر کے پاس ایک فرشتہ مسلسل موجود رہنا چاہئے۔ جی سر! اسی لئے تو پریشانی ہے کہ نفری ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہاتف سردار نے دربار سلطانی سے فرشتوں کی مزید نفری طلب کرلی کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ لیکن اب ہاتف سردار اور اسکے ساتھ فرشتوں کی ٹیم انسان سے بہت زچ ہوچکے تھے کہ جس کی وجہ سے اب کوئی وقت آرام کا نہیں ملتا تھا کیونکہ ہر وقت ہی کہیں نہ کہیں کوئی کام ان کے رجسٹروں میں درج ریکارڈ سے ہٹ کر ہورہا ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہر وقت سب فرشتوں کی دوڑیں لگی رہتی تھیں۔ کہاں تو وہ لاکھوں سال سے سکون سے لگی بندھی روٹین سے کام کرتے تھے اور کہاں یہ عالم کہ کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کب کہاں کس طرح کی ایمرجنسی ڈیوٹی کرنی پڑجائے۔
اب تو ہاتف سردار اس خاک کی مٹھی کو بڑی حیرت سے دیکھتا کہ یہ اچانک ہی اسے کیا ہوگیا ہے کہ ناک میں دم کردیا ہے۔ پھر ایک دن مزید نفری کامطالبہ آپہنچا کہ نظام شمسی کے پار ستاروں کی طرف کوئی خلائی جہاز روانہ ہورہا ہے اس کے ساتھ بھیجنے کو کچھ فرشتوں کی ضرورت ہے۔ ہاتف سردار نے سر پکڑ لیا کہ اب یہ خاک کی مٹھی انسان ستاروں پر کمند ڈالے گا۔ ستارے نہ ہوئے خالہ جی کا گھر ہوگیا جس پر آنکڑا ڈالنے چلا ہے۔ اس خاک کی مٹھی کی خدمت اب روز بروز اس کے بس سے باہر ہوتی جارہی تھی۔
ایک دن تو حد ہی ہوگئی۔ ایک فرشتہ بھاگا بھاگا آیا اور ایک رجسٹر میں سے ایک بندے کے کوائف سامنے رکھ کر بولا کہ اس کے ساتھ کی میچنگ کی ایک روح فوری طور پر درکا ر ہے۔ ہاتف سردار نے فرشتے کو یوں دیکھا جیسے اس کا دماغ چل گیا ہو۔ ‘‘تمہیں پتہ ہے کہ ایک بندے کی خصوصیات کی ایک ہی روح بنائی جاتی ہے۔ اب دوسری کیوں درکار ہے؟’’ سر وہ بات دراصل یہ ہے کہ انسان نے کلوننگ کا طریقہ ایجاد کرلیا ہے اور اس بندے کا کلون اب پیدائش کے مرحلے میں پہنچ گیا ہے اس لئے مجبوری ہے۔ کیا!!! یہ خاک کی مٹھی!! ہاتف سردار جھنجلا سا گیا۔ تو اب ہمیں روحیں بھی ڈپلیکیٹ بنوانی پڑیں گی۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ ایک بندے کا ایک ہی کلون بنتا ہے۔ نہیں سر جتنے مرضی بنالیں انہوں نے طریقہ ہی ایسا ایجاد کیا ہے۔ ‘‘یعنی کہ اس شعبے میں بھی ایمرجنسی!!! حد ہوگئی یہ معاملہ تو حد سے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ مجھے دربار سلطانی سے بات کرنی ہی پڑے گی۔’’ پھر ہاتف سردار نے تمام فرشتوں سے مشورہ کیا کہ اس خاک کی مٹھی کے ساتھ مزید گزارا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہم کام سے نہیں گھبراتے لیکن کوئی طریقہ بھی تو ہو یہاں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کہاں کیا ایمرجنسی آن پڑے۔ مشورے سے یہ طے ہوا کہ ہاتف سردار دربار سلطانی میں اپنے اور اپنی ٹیم کے کسی دوسرے سیارے پر تبادلے کی درخواست کرے گا۔ دربار سلطانی میں رسائی ہوئی ۔ ہاتف سردارنے اپنی پوری بپتا سنائی اور کہا کہ سلطان عالی مقام ہمیں آپ بے شک کوئی نئی کہکشاں بنانے کا کام دے دیں ہم اربوں سال لگا کر وہ کام کرلیں گے لیکن یہاں زمین پر انسان کےساتھ چلنا مشکل ہورہا ہے۔ دربار سلطانی سے ارشاد ہوا کہ ٹھیک ہے۔ تمہارے پاس دو اختیار ہیں۔ ایک تو یہ کہ دو ڈھائی سو سال مزید زمین پر گزارا کرلو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے تمہاری پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ تمہارا اور تمہاری ٹیم کا کسی دوسرے سیارے پر تبادلہ کردیا جائے۔ ہاتف سردار نے کچھ دیر کو سر جھکا کر سوچا۔ دو ڈھائی سو سال !! یہ بہت مشکل ہے۔ دوسرا آپشن ٹھیک ہے۔ دوسرا سیارہ ہے وہاں کوئی ٹینشن والی بات ہی نہ ہوگی۔ ہاتف سردار نے دوسرے آپشن کو ترجیح دی۔ دربار سلطانی سے حکم نامہ جاری ہوگیا کہ ہاتف سردار اور اسکی ٹیم اگلے ہفتے سے دوسرے سیارے پر ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ سیارے کا انتخاب بھی ہاتف سردار پر چھوڑا گیا اور اس نے مریخ کے لئے رضامندی ظاہر کردی۔ اگلے ہفتے ہاتف سردار اور اسکی پوری ٹیم مریخ پر موجود تھے۔
ہاتف سردار اور اسکی ٹیم کو مریخ پر ڈیوٹی کرتے ہوئے کافی عرصہ ہوچلا تھا۔ ایک دن ہاتف سرادر اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھا تھا کہ زمین کی طرف سے ایک خلائی جہاز مریخ پر اترا۔ جس میں سے چند انسان برآمد ہوئے۔ ہاتف سردار نے حیرت سے ان پر نظر ڈالی اور پھر اپنے ساتھیوں کو پُر تشویش نگاہوں سے دیکھا۔ جو فرشتے انسان کے ساتھ اس سے پہلے چاند کی ڈیوٹی دے چکے تھے انہوں نے ہاتف سردار کو تسلی دی کہ سر فکر کی کوئی بات نہیں یہ یہاں دو گھنٹے اچھل کود مچائیں گے پھر ایک پائپ مٹی میں گاڑیں گے اور واپس چلے جائیں گے۔ ہاتف سردار نے کچھ ملے جلے تاثرات کے ساتھ ان کی بات سنی۔ دل میں دعا مانگی کہ خدایا ایسا ہی ہو۔ لیکن جب پورا دن گزر گیا اور نہ تو انہوں نے اچھل کود مچائی اور نہ واپس جانے کا نام لیا تو ہاتف سردار نے ان کے ساتھ آئی فرشتوں کی ٹیم سے انسان کے اس نزول کا مقصد پوچھا۔ ان فرشتوں کے سردار نے بتایاکہ زمین کا انسان نے ستیاناس کردیا ہے اور اب خطرناک قسم کی جنگوں اور تابکاری اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث اب وہ ان کے رہنے کے قابل نہیں رہ گئی ہے۔ اس لئے اب یہ مستقل مریخ پر رہنے آئے ہیں ۔ ان کے پیچھے ہزاروں خلائی جہاز انسانوں سے بھرے اور ضروری سازوسامان سے لیس آرہے ہیں جو مریخ کو انسان کے رہنے کے قابل بنائیں گے۔ ہاتف سردار نے زمین کی طرف نظر دوڑائی تو خلائی جہازوں کے غول کے غول مریخ کی طرف بڑھتے دکھائی دئیے۔ ہاتف سردار کی آنکھوں تلے اندھیرا چھاگیا اور وہ چکرا کر نیچے گرا۔ گرتے ہوئے اس کے ذہن میں یہ الفاظ گونج رہے تھے کہ دو ڈھائی سوسال زمین پر گزارا کرلو یہ تمہارے حق میں بہتر ہوگا۔
آخری تدوین: