اسکین دستیاب حیات شیخ چلی

مومن فرحین

لائبریرین
55

اپنی عزت اپنے ہاتھ
راجہ بھگونداس والی جیلمبر کے بیٹے کے جینو کی رسم میں بڑا جلسہ اکبرآباد میں ہوا منی بائی کا مجرا ہورہا تھا کسی حریف کے اشارہ سے اس نے
یہ شعر گایا۔ اور شیخ کی طرف ہاتھ اٹھاکے بتایا
ریش سفید شیخ پہ ہرگز نہ جائیو
اس مکر چاندنی پہ نہ کرنا گمان صبح
شیخ نے جھپٹ کے ایک طمانچہ اس زورسے رنڈی کے مارا کہ سارا جلسہ درہم برہم ہوگیا ۔
خاموشی اورحفظ لسان _
شیخ کبھی بے موقع بات نہ کرتا تھا ۔ اور خاموشی کے فوائد سے پورا آگاہ تھا۔ وہ ایک بار سخت علیل ہوا اورجان بر نوبت آگئی - شهنشاه اکبر نے اپنے خاص طبيب مہاراج اندر مان ویدانت برہمن کو علاج کے لیے بھیجا شیخ سے حال پوچھا اس نے مطلق جواب نہ دیا بڑی سر کھپی کے بعد ارشادہوا۔ بیمار ہوں مگر نہ بیماری کا حال کہا نہ انکے اسباب ۔طبيب نے اپنی اٹکل سے نسخہ لکھ دیا اور چلا آیا اس طرح اس کے گھر میں آگ لگی۔ نوکر چاکر باہر تھے شیخ صحن میں ٹہلا کیا سب جل کے خاک ہو گیا مگر اس نے بے فائدہ بات نا پسند کی ۔
جھوٹ کی برداشت نہیں
شیخ کی بستی میں دوسری جگہ سے ایک برات آئی اور اسکے دروازہ کے سامنے سے نکلی وہ متین تو تھا مگر شوقین لڑکیاں اورخود اسکی بیوی کوٹھے پر چڑھ گئین۔ شیخ کابھی جی چاہا مگر دروازہ پر ہوکے دیکھنا خلاف تهذيب اورکسر شان سمجھ کے وہ بھی کوٹھے پہنچا منظور یہ تھا کہ یہاں بھی کوئی پہچانے نہیں۔ اس لیے لال دوپٹہ اوڑھ کے عورتون مین ملگیا اور برات دیکھنے لگا بنده بشر ہے چہرہ چھپانا بھول گیا۔ ایک شریر لڑکے کی نظر پڑ گئی اسنے گھبرا کے دوسرے لڑکے سے کہا " ارے غضب داڑھی مونچھوں والی عورت" اور شیخ کی طرف اشارہ کیا ۔ اس جھوٹ اوراتہام پر شیخ کے آگ لگ گئی۔ پھر بھی تہزیب کو ہاتھ سے نہ دیا۔ اور دوپٹہ اتار کے کہا ۔ عورت آپکی والدہ ہونگی ہم تو مرد ہین۔
دوراندیشی
مرزاشاہ نواز بیگ قاقشال جب اکبرکی طرف سے ابراہیم عادل شاہ کے پاس سفارت پر گیا - ابراہیم نے اکبر اعظم کے لیے بہت سے تحفے دیے اسمین


56
تمباکو کا بھی ایک ڈبہ تھا ۔ یہ نئی چیز جب دربار اکبری میں پہنچی اس پر بڑے مباحثے ہوئے۔آخر خاص طبیب شاہی شفاء الملک کے امتحان اور مشورے کے بعد تمباکو حقے میں بھراگیا۔ اور سر دربار اکبر کے سامنے پیش ہوا۔ شیخ نے اسکے پینے سے بے محابا اختلاف کیا ۔ اور وجہ یہ بیان کی کہ چلم سے جسطرح دھواں کھچ کے منہ میں پہنچتا ہے ۔ اگر کوئی چنگاری پیٹ مین اتر جائے تو غضب ہی ہوجائے۔
فن تعمیر کا کمال
نواب بیرم خان نے مسجد بنوائی جب اس کے مینار اونچے ہونے لگے ۔ شیخ نے رائے دی کہ اس طرح مینار تیڑھے بننے کا احتمال ہے پہلے دو گہرے کنوون مین اینٹ چونا خوب بھر دیا جائے جب سوکھ جائیں مینار بنے بناے نکل آئینگے ۔ وہی کھڑے کر دیے جائیں۔
تمیز بزدقات
حکیم افراطونوس یونانی کا قصہ کے سامنے الہ وردی خان نے بیان کیا کہ ایک سو ایک ادویہ کی مرکب معجون کو اس نے چکھ کے سب دواوں کے
نام بتادیے تھے ۔ شیخ نے ہنس کے فرمایا۔ یہ کونسی بڑی بات ہے ہم ہمیشہ باجری کا ملیدہ اور بیسن کی کڑھی کھا کے بتا دیاکرتے ہیں کہ ایک مین گڑ ملا ہوا ہے دوسرے مین نم - مرچ- ہلدی - پیاز۔ اور میتھی کا بگھار بھی ہے بغیر چکھے وہ حکیم بتادیتا تو اک بات بھی تھی
بشپ انڈریو سے انگریزی سیکھی
اکبر کے دربار مین پرتگیرون کاسفیر رہتاہی تھا۔
اسی کی وساطت سے انگلستان کے لاٹ پادری بشب انڈر کو بھی منظوری حاصل ہوئی ۔ یہ بڑے لائق اور ملنسار تھے فیضی نے اسی سے انگریزی زبان سیکھی چونکہ شیخ اکژ فیضی کے یہان جایا کرتا تھا فیضی کو انگریزی پڑھتے دیکھ کے آپ کو بھی شوق چرایا مگر ضد یہ کہ شاگردی کاننگ کون گوارا کرے شیخ کی ذہانت مسلمہ ہے اس نے فیضی کے سبق سننا شروع کیے اور آپ سے اس میں جو لگا کے انگریزی الفاظ یاد کرلیے۔ یہ مشهور شعر
اے نامے توژژد کرسٹو سبحانک لا الہ یا ہو
فیضی کے نام سے مشہور ہے مگر تذکروں سے ثابت ہے کہ شیخ نے اپنی انگریزی دانی کے اظہار میں کہا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۰

معترض نہیں ہوتا۔ اور گویا سانڈ بنا کے چھوڑ دیا ہے۔ اس وجہ سے اس کو اپنی مطلق العنانی کا لفط خاصی طرح مل رہا ہے۔

جوانی میں اُس کی عقل بھی زیادہ پرزور ہو گئی ہے۔ ایک بات اُس نے جامن کھانے میں گٹھلی نگل لی۔ اے ہے غضب ہو گیا اُس نے فوراً علم فلاحت کے اصول سے یقین کر لیا کہ ضرور میرے پیٹ میں درخت اُگے گا۔ وہ اس بات کی پروا کبھی نہ کرتا کہ درخت اُگنے سے کیا نتیجہ ہو گا۔ اگر اس کو اس بات کا افسوس نہ ہوتا کہ وہ کیسے پھیلے گا اور بڑھے گا۔ کیونکر پھل لگیں گے۔ پیٹ کی وسعت اور بساط وے سہ ناواقف نہ تھا اس لیے اُس نے اہتمام بلیغ کیا کہ کسی طرح تخم خارج ہو جائے ورنہ درخت بیکار جائے گا۔ چنانچہ ستفراغ کر کے اُس نے اپنا اطمینان کر لیا کہ اب کچھ خطرہ نہیں ہے۔

اُس کے بات کے زراعت ہونے سے ہر قسم کے جانور گھر میں موجود تھے۔ ایک گائے دو دھاری تھی جس کا دودھ ہمیشہ گھر کا نوکر دوہا کرتا تھا۔ ایک دن نوکر نہ تھا۔ شیخ چلی نے باپ سے اپنے وسیع تجربہ کے بھروسے پر دودھ دوہنے کی درخواست کی جو منظور ہوئی۔ اور دودھ کا ظرف لے کے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ مگر گائے کے تھن سے ایک قطرہ بھی نہیں نکلتا۔ گھنٹہ بھر تک اوس نے محنت کی اور تمام تدابیر عمل میں لایا لیکن ناکامی ہوئی۔ آخر جھنجھلا کے اُٹھ کھڑا ہوا اور لوٹا ٹپک دیا۔ باپ نے پوچھا یہ کیا حرکت ہے، غصہ میں بھرا ہوا تھا ہی جواب دیا گائے سب دودھ چڑھا گئی۔ اِس کو بیچ ڈالنا چاہیے۔ جب باپ نے زیادہ تحقیق کی معلوم ہوا کہ ایک بڈھے بیل کو دوہتا رہا۔ جو بدھیا بھی تھا۔ اس غلطی کی صفائی میں شیخ چلی کا یہ جواب کہ اندھیرے میں شناخت نہ ہو سکی۔ بالکل مُسکت اور کافی تھا۔

اللہ اللہ اس کی قابلیتوں اور دانشمندیوں کا ایک گنج شائگان ہے جس کو اہل زمانے کی بے خبری یا ناقدردانی نے خاک میں ملا رکھا ہے اور کسی نے اُس سے نفع اُٹھانے کا ارادہ نہ کیا۔ ایسے اہل کمال ہوتے کاہے کو ہیں۔

دنیاوی کاروبار میں اُس کو اس درجہ وقت نظر حاصل تھی ممکن نہیں کہ


صفحہ ۲۱

وہ کہیں پر چوک جاتا۔ اور اپنا نقصان کر لیتا۔ پورے حالات تو اپنے موقع پر بیان ہوں گے۔ یہاں صرف ایک قصہ نمونہ کے طور پر لکھا جاتا ہے۔

اُس کے باپ نے اپنی بی بی کے لیے چاندے کے کڑے سُنار کو بنانے کے لیے دیے ایسے پیشے والے جھوٹے ہوتے ہی ہیں۔ کئی بار وعدے کرتا رہا اور تیار کر کے نہ دیے۔ ایک دن شیخ چلی کو اس نے تقاضے کے لیے بھیجا۔ سُنار کڑے تیار کر چکا تھا صرف جلا باقی تھی۔ اُس نے شیخ چلی کو ٹھہرا لیا کہ ذرا دیر میں کڑے لیتے جاؤ۔ شیخ کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہی کڑے جو بن رہے ہیں میری ماں کے ہیں چپکا بیٹھ گیا۔

سُنار نے کڑوں کو سُہاگے میں لتھ کر کے آگ میں ڈالا اور خوب تپانے کے بعد نکال کے اور صاف کر کے شیخ کے حوالے کیے۔ شیخ بگڑ گیا کہ واہ جلے ہوئے کڑے میں کبھی نہ لے جاؤں گا۔ ماں پہن کے گھر کا دھندا کرے گی۔ پھر پانی لگا اور یہ پگھلے۔ سُنار نے بہت سمجھایا۔ مگر وہ ہوشیار آدمی ایسے چکموں میں کب آتا تھا۔ آخر کہ طے ہوا کہ باپ کو لیجا کے دکھاؤ۔ اگر وہ چلے ہوئے سمجھ کے پھیر دی گا، میں دوسرے کڑے بنا دوں گا۔ شیخ اس پر راضی ہوا اور کڑے لے کے گھر چلا۔ اُس کی شوخ طبعی اور تیزی گھر تک پہونچنے کی کہاں متحمل تھی، اس لیے راستہ کے تالاب میں اُس نے خود ہی امتحان کے واسطے کڑے ڈالے جو فوراً گُھلے کہ غائب ہو گئے۔ لپکا ہوا باپ کے پاس آیا اور تمام واقعہ بیان کر کے کہا کہ سُنار نے ایک تو کڑے جلا دیے دوسرے یہ ظلم کیا کہ ایسی دوا لگا کے جلائے تھے کہ میں نے جب پانی میں ڈالے ذرا بھی چاندی کی سفیدی نہ معلوم ہوئی اور بالکل گُھل کے اس میں مل گئے۔باپ بیچارہ نے بیٹے کی اس کارستانی کو اس وجہ سے کہ بیٹے کو نظر نہ لگ جائے کسی سے نہیں کہا اور چپکا ہو را۔

ایک مرتبہ اس کے گھر کے جانور تالاب میں پانی پی رہے تھے۔ ایک بیل پانی پینے میں پیشاب بھی کرنے لگا۔ اُس نے دیکھا اور اُسی وقت ذبح کر ڈالا کہ ٹوٹا ہوا بیل کس کام کا۔
 

مقدس

لائبریرین
5


حالات زندگی لکھنے کی طرف کسی نے توجہ تک نہ کی بلکہ چند مشہور مہمل نقلین جو یقینا اتہام اور بہتان سے بھری ہیں۔ اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ حالانکہ اس کا رتبہ ان حکایتوں سے کہیں بلند تر تھا اور اس کے کارنامے اہل روزگار کے لیے دستور العمل قرار پانے کے قابل ہیں۔

شیخ چلی اپنے زمانے میں مشہور و معروف شخص تھا۔ افسوس اتنا ہی گمنامی کے غار میں پڑا ہوا ہے۔ اس کی سوانح عمری تو الگ رہی۔ پیدائش اور موت کی صحیح تاریخ کوئی نہیں بتا سکتا۔ اور یہ صرف اہل زمانہ کی بے مروتی بے توجہی کا باعث ہے۔ ہرچند دنیا کے بہت سے نامور اسی طرح طاق نسیاں پر بٹھا دیے گئے اور ان کے تاریخی واقعات کروڑوں آدمیوں میں ایک بھی نہیں جانتا۔ چنانچہ جو سلوک شیخ کے ساتھ کیا گیا وہیں لال بھجکڑ سے ہوا۔ ایشیائی منصفین صرف اس عذر پر کہ ان کے ہاں اس قسم کی سوانح عمریاں لکھنے کا دستور ہی نہ تھا۔ کسی قدر معاف ہوسکتے ہیں۔ مگر اہل یورپ سے ہمیشہ یہ شکایت رہے گی کہ انہوں نے کیوں ایسے نامور ادبی کی طرف توجہ نہ فرمائی۔ کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ بجز اس کے کہ یہ فخر اس ناچیز کے حصے میں تھا۔

این کار من ست درکار جس نیست

اندازہ اختیار کس نیست


میں نے شیشے کے حالات جمع کرنے میں معمولی سامانوں کا بھروسہ نہ کیا نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ بلکہ جہاں تک میرے امکان میں تھا واقعات کی ترتیب محض تنقید اور درایت پر رکھی ہے۔ روایت سے جس قدر کام چل سکا وہ بہت تھوڑا تھا اور لازم اور لازم ہو گیا کہ ایسی مہمل روایتوں پر درایت کی روشنی ڈالی جائے۔


الغرض حتی الامکان میں نے اس کے حالات زندگی کے ہر پہلو کو لیا ہے اور جہاں تک بن پڑا خاصی دارد تحقیق دی ہے۔ بااینمہ مجھے اطمینان نہیں کہ کل حالات میں دریافت کر سکا۔ اور یہ محال بھی ہے کہ اتنے بڑے آدمی کے حالات زندگی اس قدر مختصر ہو نہیں سکتے اور محال عقل ہے کہ اس کے کارنامے سب کے سب محفوظ اور قلم بند ہو سکیں۔ تاہم جو کچھ ہے غنیمت ہے۔ اور اہل روزگار کے لئے ایک مکمل دستور العمل ضروری سمجھنا چاہیے ۔


6

اور مجھے کبھی اس قدر ناز فخر کا موقع نہ ملا ہو گا۔ جیسا سو اس سوانح مفید کی ترکیب سے ہوا۔ یہ گنج شائیگان ملک اور قوم کے لئے میری طرف سے مفت نذر ہے۔


صد شکر کے این نگارخانہ

بگرفت نگارےجاودانہ

بس رنگ بے نو بہار بستم

کین غنچہ بہ خون نگار بستم

بانگ قلم در ین شب تار

بس معنے خفتہ کر دبیدار

ازہر چہ گزشت روئے برتاب

دین بادہ سرگزشت درباب

خورشید گوست اندرین کار

من بودم و صبح ہر دو بیدار

میر یخت زخردہ کاری رف

از صبح ستارہ وزمن حرف

دا رم ز قلم بہ غیب را ہے

کوہے بہ نہفتہ زیر کا ہے

این خط کہ دہد بہ نور مایہ

از کلک منست نیم سایہ

ہر معنی از وچو آب درجوے

ہر نکتہ دروچوں آب درجوے

صد سحر و فسون بہ تار بستم

کاین نقش بر دے کار بستم

ترکیب طلسم خوانیم بین

این خدمت جاودانیم بین

صد دیدہ بورط دل افتاد

کین موج گہر بساحل افتاد

دکان ہنر بہ چین کشودم

سامان سخن چنین نمودم

بگد اختہ آبگینہ دل

آئینہ وہم بدست محفل

بگد اختہ آم دل و زبان را

کین نقش نمودہ ام جہان را

آتش کدہ ہا گداز دا دم

کین شعلہ بستہ باز دا دم

آ نم کہ ی سحرکاری ۔۔۔۔رف

از شعلہ تراش کردہ ام برف

افشاندہ نہرار در نایاب

درد امن موج جیب گرداب

کلکم زسر بلند نامی

طغراکش قادر الکلامی

بکشود کلید آسمانی

بر فکرت من در معانی

دارد قلم بہ نکتہ سازی

چون مغچگان شرارہ بازی

را این گل تازہ نقش بستم

دردست خسان قلم شکستم

طرز دگراں و داع کردم

طرز دلر اختراع گردم


7


نادان کند فسانہ خوانی

بازیچہ شمار این معانی

ایزد چونہفت درد لم راز

کے این گرہ ازخسان شودبار

کس را قدم سلوک من نیست

این کا ردلست کا رتن نیست

رو بہ منشاں بمن چہ دارند

پیشانی شیر راچہ خار ند

من سیر نظر زخوان قدسم

نعمت خورد و دمان قدسم

با عیسی جان صبوح کردم

دریوزہ عمر نوح کردم

بس گرد شرر زسینہ رفتم

کین لعل بنوک آہ سفتم

الماس بدشنہ تاب دادن

یاقوت بشعلہ آب دادم

از خامہ ہزار دام بستم

بر کیک رہ خر ام بستم

نشتر برگ قلم شکستم

کین نقش بہفت پردہ بستم

چون از نقش من این سخن زاد

خضر آمد و عمر خود بمن داد


نوٹ: مجھے انگریزی نہیں آتی۔ اس لیے درخواست ہے کہ ملک کے لائق اور انگریزی دانوں میں کوئی صاحب اس کتاب کو انگریزی میں ضرور ترجمہ فرمائیں۔ تاکہ ہمارے یورپین بھائی اس گرانمایہ سوانح عمری کے فوائد سے محروم نہ رہیں۔ دیکھیں اس مفید کام کر سہرا شمس العلما مولوی سید علی بلگرامی کے سر رہتا ہے یا آنریبل مسٹر محمود کے۔ کوئی ہو


اسراف معا نیم نظر کن

زین گنج بہ مفلساں خبر کن


خاکسار

سجاد حسین نمکخوار۔ سرکار نظام
 
ص 42
گھوڑا ہو نہیں سکتا۔ نہ برہنہ سے وہ گائے بیل ہو جائے گا۔ انسانی خوبیاں تمام لباس اور آرائش سے افضل ہیں۔ اور کامل آدمی کبھی اس کا مقید ہو ہی نہیں سکتا۔ ستر عورت کے متعلق اس کا انوکھاخیال آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ یعنی جب تمام اعضا ایک ہی جسم میں ایک ہی انسان کی ملکیت ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر عضو کے کھولنےیا چھپانے پر تو آدمی آزاد ہو۔ اور خاص چیز کو ہمیشہ بند اورڈھکا رکھنے پر مجبور ہے کیا اس پر ہم کو حق ملکیت حاصل نہیں ہے۔ کیا ہم اس کے مطیع ہیں کہ ہمیشہ ڈھانپتے رہیں۔
اصول صحت کے اعتبار سے بھی وہ اس پر بحث کرتا تھا کہ اعضا کو ہوا پہنچنے سے تازگی اور تندرستی رہتی ہے پھر کیوں سب کے ساتھ یکساں برتاؤنہ کیا جئے اس حکیمانہ خیال سے وہ کہیں کہیں مخلع بالطبع ہو کے بالکل برہنہ ہو جاتا یا جسم اسفل کو کھلا رکھتا اور اعلی کو ڈھانپ لیتا۔
اخلاق کے اعتبار سے وہ ایک سراپا تہذیب بلکہ شرح تہذیب تھا اس نے بارہا لوگوں سے محض اخلاقا ایسے وعدے کر لیے جن کے پورے کرنے کا اسے خیال بھی نہ آیا۔وہ کسی کی دل شکنی گناہ کبیرہ سمجھتا تھا اکثر اس نے دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیزکے بھروسے پر سازشی گواہی دی اور کسی مجرم کو بچا لیا دعوتیں تو اکثر دے دیا کرتا اور مہمانوں کی خاطر مدارات یا کھاناموجود ہونے کی صورت میں وہ کسی پڑوسی کے مال پر تصرف کرتا نہ صرف ضروری سمجھتا تھا بلکہ واجب خیال کرتا تھا۔
لڑکیوں کے ڈھیلوں کا اس نے کبھی خیال ہی نہ کیا اور تحمل کے ساتھ ان کی اذیت گوارا کر لیا کرتا مگر محض اس خیال ہمدرسی سے کہ لڑکے زیادہ شوخ نہ ہو جائیں اور ایسی ہی کوئی حرکت اپنے والدین سے نہ کر بیٹھیں۔ راہ چلتے کسی لڑکے کو پکڑ کے وہ قرار واقعی گو شمالی کر دیا کرتا تھا۔ یہ اس کی انسانی ہمدردی قابل تعریف ہے۔
وہ زاہد خشک تو خدانخواستہ کیوں ہونے لگا بلکہ بذلہ شیخ خوش مزاج آدمی تھا۔ ظرافت اور مزاج میں کہیں نہ چوکتا۔ ایک بار اس نے اپنی مہمان کو

ص 43
جمال گوٹے دے کہ اس سے زیاہ تفریح کا مشغلہ بھی نہ تھا۔ ملا دو پیازہ کے طہارت کے لوٹے میں مرچیں گھول دیں۔ ملا صاحب کا خفا ہونا اور اس کا مارے ہنسی کے لوٹنا عجب سمان تھا۔ ایک بڑھیا اکبر آباد امین میں رستے سے جا رہی آپ نے اس کے قریب جا کے باد مخالف صادر کر دی اور بڑھیا سے کہا "لے دے میرا نام"
حاضر جوابی میں اس کا کوئی مقابل ہی نہ تھا۔ شیخ اور میخ کے قافیہ کا مہشور لطیفہ اسی کا طبیعت خداداد کا نتیجہ ہے۔ جس سے جاٹ بیچارہ کو لہو کا نام سن کے حیران رہ گیا۔ ایک شیعی عالم سے اکبر نے اس کا مناظرہ کرا دیا اور انصافا بازی شیخ کے ہاتھ رہی۔ عالم نے کہا کہ ہاتھ باندھ کے نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ مشرکین مکہ آستینوں میں بت رکھ کے نماز میں شریک ہوتے تھے۔ آنحضرت صلعم نے ممانعت فرمائی کہ ہاتھ باندھ کے نماز نہ پڑھی جائے اس کا جواب شیخ نے یہ دیا کہ ہاں واقعی حکم ہوا تھا مگر جن کی آستینوں سے وہ بت نکلے ان کو تو ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کا ارشاد ہوا اور جن کے پاس نہیں نکلے وہ باندھ کے پڑھتے رہے۔
اس کا حافظہ معمول سے زائد قوی تھا۔ اکبر آباد میں جب وہ آیاتو پہلے پہل ہاتھی دیکھنے کا اتفاق تھا۔ اس نے اس کو اپنی کتاب یا یاداشت میں ٹانک لیا۔ ہاتھی چند روز کے بعد فصلی میوہ امرود بازار میں دیکھا اس کا نام بھی پوچھ کے لکھ لیا۔ امرود زمانہ گزر گیا اور یہ دونوں لفظ اس کے پاس لکھے رہے جب وہ دربار سے خفا ہو کے گھر چلا آیا اور جھونپڑے میں رہنے لگا۔ ایک دن ایک ہاتھی چرکٹالے کے ادھر سے نکلا گاؤں کے لگوں نے ایسی عجیب چیز دیکھ کے بڑی حیرت کی اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ ہی کیا شیخ چلی کو خبر ہوئی اور ہاتھی دیکھ کے فورا حافظہ نے یاد دلایا کہ میں نے اس کو دیکھا ہے اور لکھ بھی لیا ہے جلدی جلدی یاداسشت نکالی اور لوگوں سے کہنے لگا میں سمجھ گیا۔ تم گھبراؤنہیں یا تو یہ ہاتھی ہے ورنہ امرود ضرور ہی ہے۔ یہ کہہ کے شیخ رو پڑا کہ ہمارے بعد یہ باتیں کون بتائے گا۔

ص 44
شیخ کی شجاعت کا رتبہ تہور تک پہنچ گیا تھا۔ جس کی نظیر توہیمو کے واقعہ سے مل سکتی ہے۔ اس کی پرقوت طبیعت میں خوف و ہراس پیدا ہی نہ ہوئے تھے۔ نہ اس نے کبھی چین سے کام لیا۔ مستقل مزاجی شجاعتکا ایک خاص جوہر ہے وہ شیخ کو پوری پوری حاصل تھی۔ جس کی وجہ سے اس کے کسی کام میں ہلایتی اور بے ترتیبی ہونے ہی نہ پاتی تھی۔ گھبرانا یا پریشان ہونا تو اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ مگر تمام عمر میں ایک بار وہ ایسا بوکھلا گیا اور اتنا بدحواس ہوا کہ گویاوہ مجنون ہو جائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ جب گھر سے نکل کر سفر کر رہا تھا ایک دن ایک قصبہ میں پہنچا۔ وہاں ایک متبدل سرا تھی جس میں وہ فروکش ہوا۔
کوٹھریاں تنگ سائبان ندارد صحن چھوٹا اور غلیظ لید اور گوبر کے انبار لگے ہوئےکوڑا کچرا ڈھیروں پڑا ہوا۔ اور برسات کا موسم نیم کے پھل تمام سڑے ہوئےصحن میں پھیلے ہوئے تھےکیچڑ کی انتہا نہیں۔ ایسی خراب جگہ میں اس طرح کا میرزا منش اور نازک مزاج آدمی ایک گھڑی نہیں ٹھہر سکتا۔ مگر مجبوری لاچاری سب کچھ کراتی ہے۔ شیخ بیچارہ ایک کوٹھری میں ٹھہرا امس اور گرمی کا تو اس نے کچھ خیال نہ کیا نہ اس کی اصلی حالت صحت اور طبعی قوت ان خارجی امور کو مانتی تھی۔ مگر رات کو مچھڑوں نے شیخ کی گرمی صحبت کو اپنا افتخار سمجھا اور چاروں طرف سے دل کے دل ٹوٹ پڑے۔ شیخ نے پہلے تو ہاتھوں سے کام لیا اور بعض دفعہ کان کے پاس مچھڑ نے جب نفیری بجائی اور باضابطہ نوٹس دی کہ میں آ پہنچا غصہ میں ایسا لپڑجمایا کہ اپنی ہی کنپٹی جھنا گئی۔ جب مچھروں نے زیادہ نرغہ اور دست درازی کی تو بہادر شیخ نے جھپٹ کے تلوار گھسیٹ لی اور بزن بول دیا مچھروں کے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ لاش پر لاش گرتی تھی۔ سارا پلنگ تمام کوٹھری لہولہان ہو گئی اور یہ بہادر شیردل برابر دو دوستی پھینک رہا ہے مچھر نے چیں کی اور شپ سے رسید کر دی۔ کان کے پاس بولا اور پینترا بدل کے طمانچے کا ہاتھ مارا مگر مچھر بھی بلائے بے درماں تھے۔ ایک ہوں دو ہوں ۔ سو ہوں ہزار ہوں تو کوئی مارے یہ تو لاکھوں تھے اور تابڑ توڑ مدد آ رہی تھی۔ فوجوں پر فوجیں چلی آتی ہیں ۔ جس طرح آج کل ٹرنسوال پر
 

نور وجدان

لائبریرین
پرتگیزی سفر کوزک: ڈپورنڈ شیوری ۔ پرتگیزون کا سفر نہایت متکبر تھا مگر اکبر کی جبروت کے سامنے اسکی نخوت کیا چل سکتی تھی .تاہم اہل دربار اسکی رعونت کے چرچے کیا کرتے تھے. شیخ کو بھی یہ حال معلوم تھا مگر کبھی اس سے بات نہیں کرتے تھے .نواب بیرم خان نے اک دن اشارہ کردیا کہ اس نصرانی کی خبر لیجیے. یہ بہت ہی بڑھ چلا ہے. فوراً ہی اس کے دل میں ایک بات آئی اورآپ مستعد ہو گئے .آج ڈیورنڈ جس وقت دربار پہنچا، شیخ نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور کسی حیلے سے سفیر کی کرسی کے پیچھے کھڑے ہوگئے .وہ آداب گاہ میں پہنچ کے مجرا اور ڈنڈوت اٹھا لایا اور ادب سے پچھلے پاؤں ہٹتا ہوا اپنی کرسی کے قریب پہنچا . بیٹھنے کے لیے جھکا، شیخ نے پیچھے سے کرسی کھینچ لی اور سفیر صاحب انٹاچت.

موسیوباریو دنیو فرانسیسی سے یارانہ: شیخ کو دربار میں موسیو باریو دنیو اک فرانسیسی ملک التجار سے نہایت تعلق اور محبت تھی. باریو بڑاظریف تھا اور شیخ کی ظرافت کو اس سے زیادہ کوئی پسند نہیں کرتا تھا اور بڑی وجہ شیخ کو اس کے ساتھ یارانہ کی یہ تھی کہ فرانس کے سنگھاڑے ، اور کمرکھین شیخ کو کھلایا کرتا تھا مگر شیخ نے اپنے یار کو بھی نہ چھوڑا اور اک دن بھرے دربار میں اس کی بری درگت بنائی . واقعہ یہ ہے کہ موسیو بارلو اکبر کے لیے فرانس سے بنی ہوئی سنہری لیس، کٹہل کا مربہ، اندر سے گولیان، لونگ چڑھے کباب اور مٹر کے چڑھے گدگدے تحفہ میں لایا.شیخ نے مربہ کی قاش اس کی طرف بڑھائی اسکے ہاتھ رکے ہوئے تھے، کہا منہ میں دیدو .شیخ اس کے منہ کے پاس لے گیا، اسے منہ پہ پھیلا یاکہ شیخ نے جھپ سے اپنے منہ سے قاش رکھ لی
دفع ضرر کی تدبیر: شیخ کی چارپائی میں کھٹمل پیدا ہوگئے . گرم پانی کی

صفحہ ۵۸
معمولی ترکیب پر اسکی طبیعت نہ لڑی نہ کچھ مفید سمجھی مگر کھٹمل ہیں کہ سارا خون چوس لیتے ہیں .شیخ نے ایک دن اور غور کیا اور ساری ترکیب سمجھ میں آگئی .چار تولہ سنکھیا خرید لایا . ایک بار پیس کے تمام جسم میں اس کا ابٹن مل لیا .اب کاٹو

بدلا: شیخ مبارک کے مرنے پر فیضی اور ابولفضل نے حسب آئین اکبری بھنڈارا کیا، داڑھی مونچھیں منڈوا لیں . دونوں بھائیوں کا تقرب اور اکبر اعظم کی مرضی سے اہل دربار کو داڑھی مونچھ منڈوانی پڑی .شیخ بھی انہی میں شریک تھے .مولانا عبد القادر بدوائی اور صدر جہاں وغیرہ نے البتہ مطلق انکار کیا . خیر بات گزر گئی مگر شیخ کو اس کا خیال ضرور رہا . سال بھر کے بعد شیخ کی گائے مر گئی اور آپ نے اپنی داڑھی مونچھ کآ صفایا سو کیا ہی کیا ، فیضی اور ابولفضل کے بھی سر ہوگئے کہ ہم نے تمھارے باپ کے سوگ میں بھنڈار کیا تھا. تم ہماری گئو ماتا کا بھنڈار کیوں نہیں کرتے . ہر چند دونوں بھائیوں نے فلسفہ بگھارا اور حکمت کے سارے رموز کھول کے بیسیوں دلیلیں دیں . مگر میرے شیر نے ایک نہ مانی، آخر اکبر تک یہ قصہ پہنچا اور راجہ بیربل دیوان ٹوڈرمل مہاراجہ مان سنگھ کچھوا نے تائید کی .دونوں بھائیوں کی داڑھی مونچھیں گئو ماتا کے بھنڈار میں بھینٹ چڑھانا پڑا، تب جا کے شیخ نے دم لیا.

دروغ مصلحت آمیز: شہزادہ سلیم اکبر سے باغی ہوگیا .مریم مکانی (اکبر کی ماں) الہ باد گئیں کہ لاڈلے پوتے کو منالائیں. وہ خبر پاتے کشتیونکے نولڑے میں بیٹھ کے بنگالہ چلدیا . مریم کو سخت رنج ہوا . اکبر کامل کی مہم پر حکیم مرزا کے مقابل صف آرا تھا. اس خبر کو سنتے بے چین ہوگیا. ارکان دولت نے تدبیروں کے بادہوائی کبوتر اڑائے مگر ایک نے بھی چھتری پر پنجے نہ ٹیکے. سب مہمل، شیخ ہی ہمراہ رکاب تھے. بادشاہ کو متردد پاکے آپ نے بیرہ اٹھایا کہ میں شہزادے کو لے آؤں گا . اکبر نے کچھ سوار ساتھ کیے اور شیخ جی روانہ ہوئے، شہزادہ قلعہ بہار میں مقیم تھا کہ یہ پہنچ گئے

صفحہ نمبر ۵۹

اور جاتے ہی مژدہ سنایا کہ اکبر اعظم حکیم مرزا کے مقابلے میں مارا گیا .چلیے، تخت و سلطنت آپ کے لیے خالی ہے .شہزادہ اٹھ کھڑا ہوا اور یلغار کرکے آگرہ پہنچا. ادھر سے اکبر بھی حکیم مرزا کی مہم فصیک کرکے آگرہ پہنچ گیا . اس تدبیر سے باپ بیٹوں میں ملاپ ہوگیا اور شیخ کو بڑا انعام عطا ہوا

شیطان پورہ: اکبر نے آگرہ میں کسبیوں کے چکلہ کے نام شیطان پورہ رکھا .شیخ لہری بندے تھے، ادھر بھی کبھی کبھی ہو نکلتے . اکثر سے یاد اللہ کی بھی ہوگئی، لینے دینے کا سبق آپ نے نہیں پڑھا تھا .جہاں جاتے نایکہ بڑبڑاتی، یہ سنتے اور پی جاتے .اک دن پتلی بائی کے کمرے میں پہنچے، پان کھائے، الائچیاں چکھیں. اٹھے تھے کہ نائکہ کو زینے پر چڑھتے دیکھا .ادھر سے یہ اترے کہ بیچ میں ٹکر ہوگئی . نائکہ لڑھکتی پھڑکتی نیچے آرہی تھی . شیخ نے خود ہی منہ پیک اس کے اوپر تھوک کے غل مچا دیا "نائکہ جی گر گئیں، سر پھٹ گیا .پتلی بائی دوڑی تو دیکھا سر لہولہان . حالانکہ وہ حضرت شیخ کے اوگال کا رنگ تھا

مخبری: اسی شیطان پورہ میں ایک بار شیخ جی راجہ بیربل کو بھری دیکے لے آئے . راجہ جی مہاتما گنوان پنڈت ہی نہ تھے بلکہ شوقین مزاج بھی تھے . راجہ جی تو دیوی جی کی پوجا میں لگے . ادھر شیخ بھاگے اور جاتے ہی اکبر سے جڑ دی . اکبر نے بلا کے بری درگت بنائی اور بڑی بے فصیحتی ہوئی

زنانہ بازار: اکبر کی ہزار ایجادوں میں زنانہ بازار تھا. امراء، شرفاء کی بیٹیاں اس بازار میں جمع ہوتیں . دوکانیں لگاتیں. شاہی بیگمات خان و خوانین کی مستورات سودے کرتیں . خریدار بنتیں. بیربل خلوت کا یار تھا .اکبر اسے چرا چھپا کے جانے دیتا .شیخ کو خبر لگی، شوق ہوا اور غصہ بھی آیا کہ ہم نہ جائیں اور بیربل جائے . دربار میں گئے تو روٹھے ہوئے پھیلائے بیٹھے ہیں. اکبر نے پہلے خیال بھی نہ کیا .جب ذرا غور سے حضرت شیخ کی طرف دیکھا تو سمجھ گیا، آج کچھ دال میں کالا ہے .پاس بلایا اٹھے مگر کچھ بڑبڑاتے ہوئے حال پوچھا تو ارشاد ہوا . بیربل تو زنانے اور ہم نہیں.

بھوکے اشراف سے ڈرو: دھرم پورہ میں اکبر کی طرف سے ہندوؤں کے لیے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دیباچہ

ہندوستانیوں میں ایجاد کا مادہ ہی نہیں۔ غلط؟ تقلید اور نقل میں کمال ہے۔ نیم غلط! پہلی بات اس لیے غلط کہ ہمارے اسلاف بڑی بڑی باتوں کے موجد ہوئے ہیں! دعوے بے دلیل بھی کبھی ثابت تسلیم کیا ہے!! دوسری بات نیم غلط یوں ہوئی کہ ہم نے تقلید اور نقل میں ضرورت بے ضرورت کاکبھی بھول کے بھی لحاظ نہیں کیا۔

ایک میرے عنایت فرما چمچہ کانٹے سے شریفہ کھاتے تھے ۔ ایک اور جنٹلمین کے خاصہ پر صرف دال روٹی کے ستھ چُھری کانٹا ضرور میز پر لگایا جاتا تھا۔ چُھری زنگ آلود، کانٹا میلا، سیاہ، ایک برہمن عنایت فرما کو میز پر لکھنے کا شوق تھا۔ مگر بجٹ میں میز خریدنے کی گنجائش کہیں سے نہ نکلی۔ تو چیڑ کا صندوق اُلٹ لیا اور دھوتی اڑا دی۔ سامان آرایس میں ایک بیل کی گھنٹی (کال بل) دو عد لوہے کے قلم، اور بہت سیاہی پیئے ہوئے جاذب کا ایک ورق۔ ہاں بھول گیا ایک تاسدانی بھی تھی۔

ایک فیشن ایبل افسر نے یورپین معاشرت میں کمال سلیقہ حاصل کر لیا تھا مگر رنگ کالا تھا اور بہت کالا۔ ہر طرح کے صابن نے جب جواب دیا تو بیچارے مہینوں بلکہ برسوں آدھا پیٹ کھانا کھاتے رہے۔ تاکہ نقاہت سے چہرے


صفحہ 3

پر کچھ تو زردی آ جائے۔

لباس میں جسقدر تقلید کی مٹی پلید ہوئی ہے اس کا اندازہ اسی سے ہوتا ہے کہ گرمیوں میں ڈبل ٹوئیڈ کا کوٹ پتلون پہنا اور سر پر لگائی ہیٹ۔ بس کئی آدمی سڑی ہو گئے۔ دماغ پر انجرے چڑھ جانا دل لگی نہیں ہے۔

اس سے بھی بڑھ کے کچے گھڑے کی جو چڑہتی ہے تو پردے نا معقول پر اتارے ہو گئے۔ بیویوں کو باہر نکالو۔ بہنوں کو یاروں (۱) کے ساتھ پبلک گارڈن جانے دو۔ بیٹیوں کو دوستوں کے ساتھ تھیٹر بھیج دو اور پھر دیکھو کیسا بھیرون ناچتا ہے۔ تہذیب اور تقلیدی تہذیب کا اس سے زیادہ کھرا مال ولایت سے آج تک ہندوستان میں ایک نہیں آیا۔

حُسن معاشرت کی تقلید اور نقل تو یوں ہوئی۔ لیاقت کے دریا الگ بہا دیے گئے۔۔

یورپ میں نیچرل شاعری ہے۔ ہم نے بھی مدار کے درخت اور دہاتی دوشیزہ لڑکی اور برسات کا خال نیچرل نظم کیا ہے۔ بس عین مین مدار کا درخت سامنے کھڑا ہے۔ اور دوشیزہ لڑکی گوبر کی ٹوکری لا رہی ہے اور پانی تو برس جانے میں گفتگو ہی نہیں۔

زردی اور گرمی چڑھی تو ناول لکھے اور اتنے لکھے اتنے لکھے، کہ اب ان کی انگیٹھیا سُلگیں۔ اور پنساری جدا نوش جاں فرمائیں تب بھی دو چار کرور برس تک چُکنے والے نہیں۔

ناول کے ساتھ سوانعمریوں کا بم جو پھوٹا ہے تو مجہول سے مجہول اور گمنام سے گمنام آدمی کو بھی نہ چھوڑا۔

میں نے کہا کہ یورپی معاشرت کو تو مجھے سلیقہ قیامت تک نہ آئے گا۔ مگر لکھا پڑھا ہوں۔ بس کچھ مضامین اخباروں میں دے دیے۔ نیچرل نظم میں اخبار اودھ پنچ میں شایع ہو چکی ہے۔ ایک ناول لکھ ڈالا جسکو نشتر کہتے ہیں۔

سوانعمری کی کسر بھی مگر کوئی ڈھب پر نہ چڑھتا تھا۔

جتنے وائسرائے آئے اں کے کسی کو چین کا حال معلوم نہ ہو سکا۔ نصرالدین حیدر والی
--------------------------------------------------------------------------
(۱) مطلب یہ کہ اپنے یاروں کے ساتھ۔ خدا نخواستہ ان کے یار کہاں سے آئے۔


صفحہ 4

دھنیا مہری کا طرز انداز زندگی کچھ زیادہ اچھا نہ معلوم ہوا۔ ملا دو پیازہ کے حالات ایک اور ہی صاحب لے اُڑے۔ تان سین خدا جانے تھا بھی یا فرضی نام ہے۔ سور داس کا چکارہ بارہا سُنا مگر اُس کی زندگی اور خاندانی خصوصیات پر آج تک پردہ پڑا رہا۔

دکن میں ترسو نام کا ایک آسیب ہے جو سارے گھروں پیں منڈلایا منڈلایا پھرتا ہے اور بلا مبالغہ ہر گھر میں وہ کچھ نہ کچھ تکلیف پہونچاتا رہتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اسکی اتنی حقیقت بھی دریافت ہو سکی جتنی شیخ سدو کی۔

الغرض میں نے راس کماری سے ہمالیہ کی چوٹیوں تک اور خلیچ بنگالہ سے بحر عرب تک چپہ چپہ ڈھونڈھ مارا۔ کوئی نہ مال، جسکی سوانعمری لکھتا۔ یورپین آلو فروش اور سور چرانے والے بہت دور ہیں، وہاں کون جانے۔

بڑا دلگیر ہوا کہ یہ تو بہت بُری ہوئی ہماری نقالی میں بٹہ ہی لگا جاتا ہے، کیا منہ دکھائیں گے انگریزوں کا۔

خدا کا شکر ہے کہ ہیرو ملا۔ اور لاجواب ملا۔ نامور، ذہین، عقیل، فخر روزگار، خاندانی، موجد، فلسفی، حکیم، شاعر، تمام خوبیوں اور بلند ناکامیوں کا انجن، مخزن جس گھڑی "شیخ چلی" کا نام ذہن میں آیا، شادی مرگ کے قریب ہو گیا مگر ساتھ ہی ایک خیال اور آیا کہ جیسے کوئی چیز ہاتھ سے گر جاتی ہے۔ وہ یہ کہ ایسے نامور دانشمند کے ساتھ ایشیا والوں نے اگر بخل کیا ہے تو یورپ والوں نے کب چھوڑا ہو گا۔ یہ شخص تو اُن کے ڈھب کا تھا۔ اُس کے تجربات، اس کی قوت ایجاد انتقالات ذہنی سریع الفہمی، طباعی، نازک خیالی، لطافت طبع سے سارے یورپ کو فائدہ پہونچنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس بدگمانی نے مجھے نچوڑ لیا۔ اور سر دھو کے رہ گیا۔ انگریزی آتی نہیں کہ خود دیکھ لوں۔ ایک لائق انگریزی دان دوست سے قسم دے کے پوچھا اور خدا اُس کا بھلا کرے کہ مجھے اطمینان دلا دیا کہ شیخ کے حالات کسی اہل یوفپ نے نہیں لکھے ہیں۔ جان آئی اور گویا لاکھوں پائے۔

میرے نزدیک اس دانشمند روزگار معنی آفرین شخص کے ساتھ اہل زمانہ نے واقعی بڑی بے مروتی اور بے انصافی کی ہے۔ غضب خدا کا آجتک اس کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 33

مولانا نے ملا صاحب سے مسکرا کے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ سے ملحد بادشاہ کے دربار نورتن میں ایک آدمی کی جگہ آجکل خالی ہے۔ ہمارے شیخ صاحب اس کمی کو پورا کر دیں گے۔ ملا صاحب نے شیخ کے ناصیۂ حال اور مجمل قیل و قال سے اندازہ کر لیا کہ ایسا باخر اور ضروری شخص بیشک دربار ہی کے قال ہے۔ اُسی وقت ساتھ لے کے مکان پر آئے اور دوسرے دن جب دربار میں جانے لگے تو شیخ صاحب سے کہہ گئے کہ میں چوبدار بھجوا دوں گا۔ تم دربار میں چلے آنا اور دربار کے ادب آداب بھی بتا دیے، جس کی ضرورت ہماری راے میں ایسے ذہین شخص کے لیے بالکل نہ تھی۔

خلاصہ یہ کہ آج ملا صاحب نے جب اکبر کو گرما گرم لطیفوں میں اپنےت ڈھب پر لگا لیا تو شیخ صاحب کی تقریب کی۔ اور کچھ اس برجستگی اور شوخی سے ادا کیا کہ اکبر پھڑک گیا اور فوراً حاضری کا حکم دیا۔ شیخ صاحب بایں ہیئت کذائی دربار میں پہونچے کہ لوٹا ڈور کاندھے پر تھا اور شترنجی سے کمر کسے ہوئے تھے۔ سر پر ملا صاحب کا پُرانا، فیدہ ڈھانک لیا تھا جو مقدار علم سے ذرا بھی زائد نہ تھا۔ اکبر نے ایسے باخبر شخص کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وجہ یہ تھی کہ جس شخص کی سادگی اور بے تکلفی کا یہ عالم ہو کہ ہر وقت سفر پر تیار رہے، اُس سے عجیب و غریب کام بن پڑنےکی توقع ہرگز غلط نہیں ہے۔ چنانچہ اُسی وقت شیخ صاحب کا سیاہہ ہو گیا اور نورتن میں داخل ہو گئے۔

آٹھواں (8) باب

کمال باعث و اقبال

شیخ چلی دربار میں اپنے جوہر قابلیت لطافت مزاج حُسن سلیقہ، جذاقت ذہن، قوت اختراع سے ہر دلعزیز ہو رہا ہے۔ علامہ ابع الفیاض فیضی اور اور علامہ ابو الفضل نے دھوم دھام سے الگ الگ اُسکی دعوتیں کیں مگر بایں ہمہ وہ اپنی بے روک طبیعت اور خالص آزادی سے


صفحہ 34

کی نوکری نہیں کرتے۔ سلام علیک، خدا حافظ۔ بادشاہ نے جواب بھی نہ دیا تھا کہ دربار سے چلے آئے۔ اور سیدھے ہمیو کے پاس پہونچے۔ وہ بنیا اور کیسا بنیا کہ کچے گھڑے کی چڑھی ان کا آنا غنیمت سمجھا کہ دربار کے آدمی ہمارے پاس ٹوٹ کے آنے لگے۔ مگر شیخ چلی نے نہ اپنا کوئی ارادہ ظاہر کیا نہ کوئی درخواست بیان کی۔ چپ چاپ وہاں ٹھہر گئے، تیسرے دن ہمو دن کر رہا تھا اور شیخ صاحب سامنے کھڑے تھے۔ اُس نے تھوکا تو ایک چھینٹ اُن پر پڑ گئی۔ پس اللہ دے اور بندہ لے، چھاتی پر چڑھ بیٹھے اور دانت سے ناک اوتار لی (۱)۔ پرچہ نویس تو لگے ہی ہوئے تھے فوراً اکبر کو خبر ملی، اُدھر شیخ جی بھاگے اور سیدھے چکر کا ۔۔۔۔۔۔ مگر بادشاہ نے سانڈنی سوار دوڑا دیے کہ جہاں ملیں پکڑ لا اور ایسا ہی ہوا کہ جنگل میں پکڑے گئے اور مچل مچل کے دربار میں حاضر کئے گئے۔ اکبر نے بڑی عزت کی اور اس کارگزاری کی قدر فرمائی۔ منصب اور تنخواہ میں اضافہ ہوا۔ ۔۔۔۔۔ شیخ صاح اپنے بیوی بچوں کو یاد بہت کرتے تھے مگر کچھ خرچ نہیں بھیجتے تھے۔ اور اُس زمانہ میں یہ بات مشکل بھی تھی۔ مگر ملا صاحب ان کی تنخواہ اور انعام اُس سے لے لیا کرتے اور بغیر ان کی اطلاع کے خفیہ طور پر اُن کے گھر پر ہزارہا روپیہ بھیجتے رہے۔ وہاں بڑا لڑکا سیانا ہو گیا تھا اور خداداد دولت نے ہر طرح کا حوصلہ پیدا کر دیا تھا، چنانچہ اُس نے بڑا عالیشان مکان بنوایا اور ہر طرح کی آسائش اور آرایش کے سامان مہیا کر لیے۔

ادھر شیخ صاحب تجرد کی وجہ سے زیادہ گھبرا گئے۔ احتیاط کا اقتضاہی سمجھنا چاہیے کہ کوئی ۔۔۔۔۔۔ تعلق نہیں پیدا کیا۔ مگر ملا صاحب ان کو صلاح دیا کرتے تھے نکاح کر لو۔ آخر جب بہت تنگ ہوئے دربار سے رخصت چاہی مگر نا منظور ہوئی۔ ناچار ایک رات چھپ کے دل دیئے۔ جو کچھ روپیہ اشرفی
---------------------------------------------------------------------------------------
(۱) ہیں واقعہ کو تاریخ سے مطابقت نہیں دینی چاہیے۔ تاریخ میں ایسی فروگذاشتیں ہزاروں ہیں یہ خاص تحقیقات اور ۔۔۔۔۔ کی باتیں ہیں جنکے لیے لہو پانی ایک کر دیا گیا ہے۔ مؤلف۔


صفحہ 35

بچا کھچا پاس تھا کمر میں باندھا اور سیدھے چلہ کو پہونچ گئے۔ ع:

طبیعت پختہ مغزون کی جدھر آئی اُدھر آئی

نواں (9) باب

بے اعتباری اور موت

محلہ میں پہونچ کے مکان ڈھونڈھتے ہیں تو پتہ ہی نہیں۔ لوگوں سے پوچھا تو ایک عالیشان محل بتایا گیا۔ یقین کس کو یہ ہمارا جھوپڑا بگڑ کے محل ہو گیا۔ دروازہ پر ٹھہر گئے اور لوگوں پر خفا ہونے لگے کہ ہم سے دل لگی کرتے ہیں۔ اندر سے بیٹا نکل آیا اور سعادتمندی کے ساتھ قدمبوس ہوا، مگر شیخ صاحب نے غصہ میں مکان پوچھا، اس نے بیان کیا کہ آپ نے جو روپیہ بھیجا اُس کا مکان تیار ہوا۔ یہ سب آپ ہی کا ہے۔ والدہ صاحبہ نے چند روز ہوئے انتقال کیا۔ اس کا صدمہ ایسا ہوا کہ شیخ کے حواس جاتے رہے۔ مکان کی تبدیل ہیئت کا اعتبار ہی نہ تھا کیونکہ خود تو روپیہ بھیجا نہ تھا۔ اسپر بیوی کا واقعہ سُن لیا۔ چُپ سُن ہو کے رہ گئے۔ اور بیٹے سے الگ ہٹ کھڑے ہوئے۔ اُس نے ہر چند سمجھایا، محلہ والوں نے لاکھ سر مارا مگر ایک نہ مانی اور بستی سے باہر ایک جھوپڑی اپنے اُسے روپیہ سے بنوا لی جو ساتھ تھا اور پاؤں توڑ کے بیٹھ رہے۔ سن بھی اب زیادہ ہو گیا تھا اور دنیا کی بے اعتباریوں سے گھبرا گئے تھے، سب سے کنارہ ہی مناسب معلوم ہوا۔ بیوی کی وفات سے اور بھی دل سرد ہو گیا تھا اور ایسی ہمخیاں اور غمخوعار بیوی ملتی کہاں ہے، غرضیکہ یہ اسباب تھے جنکی وجہ سے ایسا بے نظیر شخص دنیا کو فائدہ پہونچانے سے ہاتھ کھینچ کے بیٹھ گیا۔

سات برس تک مسلسل اُسی جگہ گذار دی اور رجب ۱۰۱۲ھ کو اکسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی اور حسب وصیت اُسی جھوپڑی میں دفن کے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ع : حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 36

دسواں (10) باب

شیخ کا مذہب

مذہب کے اعتبار سے کسی کو پتہ نہیں لگا کہ شیخ کا معتقد تلیہ کوں مذہب تھا۔ چونکہ وہ اطول کا یادگار اور مضافات ماوراء النہر میں اس کے بزرگ رہتے تھے، اس نظر سے اس کا باپ یقیناً اُ بدوی عربوں کا ہم مذہب ہو گا جو اس نواح میں رہتے ہیں۔ مگر شیخ کی نسبت جہانتک معلوم ہوا اُس نے اپنے مذہب کو کسی خاص طریقے کے ساتھ پابند اور مقید نہیں کیا تھا۔ دربار اکبری میں پہونچنے سے پہلے وہ وحدانیت اور رسالت کے متعلق تو کبھی کچھ کہہ گذرتا تھا جس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ ان دونوں ارکان ایمان کا قائل ضرور تھا اور عملی طور پر بھی وہ نماز وغیرہ فرایض اسلامی ادا کر لیا کرتا تھا مگر کسی کی تقلید اُس نے نہیں کی اور نہ وہ پابدنی کے ساتھ ائمہ اربعہ یا مذہب اثنا عشری کا معتقد تھا اور جب کبھی ان امور کے متعلق اُس سے سوال کیا گیا اُس نے لاپروائی کے ساتھ جواب دی کہ ہم کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بذاتہ قوت اجتہاد رکھتا تھا اور کسی امام یا مجتہد کی تقلید اُسکے لیے ضروری نہ تھی۔ اسی وجہ سے وہ ہر طریقہ میں عبادت اور عمل کیا کرتا تھا۔ اور کبھی اُس کو ایک طریقہ پر اصرار یا قیام نہ تھا۔ اکبر آباد میں وہایک ایسے دربار سے تعلق رکھتا تھا جہاں ہر عقیدہ اور مذہب کے لوگ بلکہ اگر تاریخ صحیح ہے تو لامذہب بھی جمع تھے اور علوم و فنون کے معرکہ آرائیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی مباحثے اور دینی مناظرے آئے دن ہوا کرتے تھے۔ خصوص اس زمانہ میں امام غزالی کے رسالہ تھا فۃ لگلا سفہ پر زور شور سے نکتہ چینیاں اور اعتراض ہو رہے تھے اور امام صاحب کی مخالفت فلسفہ پر بڑی ناراضی پھیلی ہوتی تھی ایسی حالت میں چونکہ وہ فطرتاً حکیمانہ خیال کا آدمی تھا فیضی کی صحبت نے اُسے اسے اور بھی چمکا دیا۔


صفحہ 37

اس لیے آخر میں اُس کا رحجان فلاسفہ کی جانب بہت ہو گیا تھا اور گو رہ معتزلی تھا نہ مشائی کیونکہ وہ تقلید سے سخت متنفر تھا، تاہم فلسفی اصول اُسے کچھ ایسے پسند آ گئے تھے کہ ان کے دل سے قدر کرنا مثلاً وہ آگ کو جلا دینے والی چیز ہمیشہ تسلیم کرتا رہا اور برق کی تاثیر اُسکے ذہن میں بھی رہی کہ جب چمکے تو ضرور کانوں میں انگلیاں دے لینی چاہیے۔ اسطرح قضا و قدر کے مسئلہ میں اُس نے حجت قائم کی تھی کہ صرف مرنے کے لیے اُس کی ضرورت ہر شخص کو ہے۔ جبر و اختیار میں وہ مطلق سکوت کرتا تھا۔ کسی نے اس اہم مسئلہ کے متعلق ایک حرف کبھی نہیں سُنا۔ صرف ایک بار فیضی کو اُس نے یہ نکتہ بتا دیا تھا کہ کسی کا مال چھین لینا جبر ہے اور دے دینا اختیار علت العقل کے مسئلہ میں اُس کی وقت نظر نے ایک نئی بات پیدا کی تھی کہ جب خدا کے متعلق ایس بات کہی جائے تو بہت چپکے سے کہنی چاہیے تاکہ وہ سُن نہ لے۔

جزا و سزا کے بارہ میں اُس کا قطعی فیصلہ یہ تھا کہ مٹی کے نیچے نہ آگ زندہ رہ سکتی ہے جو انسان کو بعد مرنے کے جلائے گی۔ نہ باغ پیدا ہو سکتے ہیں، جسکے مزے لوٹیں گے۔ دوزخ کا لفظ اُس نے اچھی طرح جی لگا کے نہیں سُنا کیونکہ بجز دل پریشان ہونے کے اس میں دھرا ہی کیا تھا۔ جنت کا جب حال سننے میں آیا تو اسُ کو ہمیشہ قصبہ چلہ کی جامن، امرود، بیر، آم یاد آ جاتے تھے۔ حوروں کا ذکر سُن کر جی ضرور للچاتا تھا کہ اللہ اتنی دور آسمان پر چڑھ کے اُن کے لیے کون جائے۔ ہمارا یہیں سے سلام ہے ۔ بندہ ایسا طوطا نہیں پالتا۔ چونکہ فلسفہ کا شیدائی تھا اس لیے حکمت کے بعض مسائل میں جزولا متیخری پر خاص دلچسپی کے ساتھ غور کیا کرتا تھا اور کبھی باور نہیں آتا تھا کہ چھوٹے چھوٹے ذرے جو اُس کو اپنے گھر کے روشندان کے سامنے اُڑتے نظر آتے ہیں یہ بھی کوئی چیز ہیں۔ اکبر دربار میں مذہب ہنود کی بڑی آؤ بھگت تھی اور حکماے دربار میں جید شاستری ویدانت لوگ جمع تھے ۔۔۔۔۔۔ متعلق اُس نے ایک لحظہ کے لیے یقین نہ مانا کہ آدمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ 38

پیدا ۔۔۔۔۔ وہ کہتا تھا کہ مرنے کے بعد خاک ہو گئے چلو چھٹی ملی۔ مگر یہ خیال اُس کا اُس وقت سے ہوا تھا جبکہ اُس نے کئی آدمی مرتے اور قبر میں رکھے جاتے دیکھے تھے ورنہ پہلے وہ صرف اس لیے کہ میں نہیں مرا ہوں، مرنے ہی کا قائل نہ تھا تو آواگون کجا، اس کا خیال تھا کہ بتوں کے سامنے پوجا کرنے میں بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ کسی بات کا جواب نہیں دیتے، البتہ آفتاب کی پرستش پر اُس کا بیان تھ وہ اس لیے تھا کہ جب اس کو پوجتے ہیں تب ہی تو جاڑوں میں دھوپ کھانے کا موقع ملتا ہے اور سردی سے وہ ہمکو بچاتا ہے ورنہ خفا ہو جائے۔اور نہ نکلے تو مارے جاڑے کے اکڑ جائیں۔ ندیوں کی پوجا کو بھی وہ اچھا جانتا تھا کہ اُن پانی گرمیوں میں بہت شفاف اور ٹھنڈا ہوتا ہے۔ برگد کے درخت کے پوجنے سے وہ متفق نہ تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ اس کے پھل صرف چڑیوں کے کام آتے ہیں وہی کریں، آدمیوں کو اُس سے کچھ فائدہ نہیں ہے۔ گئو ماتا کو وہ بہت ادب کرتا تھا کہ سیروں دودھ دیتی ہے۔ گھی الگ چھکنے میں آتا ہے۔ دہی میں گُڑ ملا کے کھانے کا مزہ کچھ نہ پوچھو۔ اس وجہ سے ایسی عمدہ چیز کو ضایع کرنا حماقت ہے۔ وہ تو بکریوں کے ساتھ بھی ہمدردی کرتا مگر اُس کا گوشت پوست انہیں سے بنا تھا اس لیے کچھ زیادہ خیال نہ کیا علاوہ اس کے دودھ دہی ان میں اس افراط سے کہاں جو گائے میں ہے، الغرض اس کا مذہب کچھ عجیب سمویا ہوا تھا۔ اور حق یہ ہے کہ اُسے ہر طرح کے اجتہاد کی قدرت حاصل تھی۔ وہ جو مذہب کرتا یا خود موجد بنتا اُس کے حق بجانب تھا۔ مگر اُس نے عمداً ان جھگڑوں میں پڑنا پسند نہ کیا اور ایک گومگو حالت میں بسر کر دی۔ ورنہ آج شیخ چلی کا مذہب بھی بہتر میں ایک نمبر لیے ہوتا۔ اُس کو درحقیقت ایسی پڑی ہی کیا تھا کہ اس درد سری کو مول لیتا، وہ بجائے خود یہ تسلیم کر چکا تھا کہ انسان کو جہانتک ممکن ہو آزادی اور سادگی سے بسر کرنا چاہیے۔ اور جس ڈھب سے کام چلے چلا لیا جائے۔ زیادہ غور کرنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الگ تھکتا ہے۔ طبیعت جُدا پست ہو جاتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس استغنا کی خاص وجہ یہ تھی کہ اُس کی ذہنی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 60

سدا برت جاری تھا۔ برہمن دیوتا۔ رسوئی پرستے۔ اور وارد و صادر۔ غریب ٖغربا۔ ہندو، ۔۔۔۔۔ دعائیں دیتے۔ شیخ ایک دن ادھ سے نکلے بھوکے تھے۔ دیکھا پنگھٹ جمی ہے اور پتیلیاں خالی ہو رہی ہیں۔ مانگ کے کھائیں شان کے خلاف۔ گائے ہڈا پڑا تھا، اُٹھا کے پنگھٹ میں پھینک دیا۔ رام رام کر کے ہندو اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ نے ہتے مارے چکھ چکھہا کے چلتے بنے۔

لطیفہ
اکبر نے امراء دربار کو چیلہ بنانا شروع کیا۔ بڑے بڑے گیانی پنڈت اور علمائے دین بھی اسکے مرید ہوئے۔ ڈنڈوت، سجدہ، آفتاب کی پوچا، سب کے لیے شرط رتھی۔ شجرہ کیسا، اس کی جگہ بادشاہ کی تصویر دی جاتی تھی۔ شیخ اگرچہ ایسی تقلیدی باتوں سے کوسوں بھاگتے تھے مگر فیضی کا منتر چل گیا اور یہ بھی مونڈے گئے۔ تصویر عنایت ہوئی۔ گھر میں رکھیں تو چور لے جائیں۔ کھو جائے، قبا میں سامنے ٹانک دی۔ اور جسوقت جی چاہا روشن کر لیے۔ ع

جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

لطیفہ
بادشاہ نے حکم دیا کہ بارہ مہینوں کی خصوصیات قلمبند ہوں۔ اور آئین میں داخل کی جائیں۔ حکیم، حمام، میر فتح اللہ شیرازی، ابو الفضل، فیضی، راجہ توڈر مل سب نے مل کے ہر مہینے کا زیچ قائم کر کے اُس کے خواص معین کئے۔ محرم – جانوروں کو نہ ستاؤ، صفر – بندے آزاد کرو۔ اسی طرح جمادی الثانی کو قرار پای – چمڑا ۔۔۔۔۔ میں نہ لاؤ۔ جب بادشاہ کے سامنے تعینات سُنائے گئے، شیخ چلی بول اٹھے "جہاں پناہ کیا جیتا مرا دونو۔"


اپنی اپنی پسند

اکبر نے امرا کو کام تقسیم کئے مثلا عبد الرحیم خان خانماں، گھوڑوں کی نگہداشت، راجہ ٹوڈر مل – ہاتھی اور غلہ، شریف خان – بھیڑ بکری، ابو الفضل – پشمینہ، غرض اسی طرح سب کے کام تھے۔ شیخ نے اپنی درخواست سے جمنا کی لہریں گننے کا کام اپنے ذمہ لیا اور پورا کیا۔


اللہ رے اطمینان

بدگمان لوگ اسے بزدلی سے تعبیر کریں گے مگر ہم ایسے بے وجہ شبہے نہیں کرتا۔ واقعہ یہ ہے کہ خان زمان علی قلی خان اور اس کا بھائی بہادر
 
Top