مومن فرحین
لائبریرین
55
اپنی عزت اپنے ہاتھ
راجہ بھگونداس والی جیلمبر کے بیٹے کے جینو کی رسم میں بڑا جلسہ اکبرآباد میں ہوا منی بائی کا مجرا ہورہا تھا کسی حریف کے اشارہ سے اس نے
یہ شعر گایا۔ اور شیخ کی طرف ہاتھ اٹھاکے بتایا
ریش سفید شیخ پہ ہرگز نہ جائیو
اس مکر چاندنی پہ نہ کرنا گمان صبح
شیخ نے جھپٹ کے ایک طمانچہ اس زورسے رنڈی کے مارا کہ سارا جلسہ درہم برہم ہوگیا ۔
خاموشی اورحفظ لسان _
شیخ کبھی بے موقع بات نہ کرتا تھا ۔ اور خاموشی کے فوائد سے پورا آگاہ تھا۔ وہ ایک بار سخت علیل ہوا اورجان بر نوبت آگئی - شهنشاه اکبر نے اپنے خاص طبيب مہاراج اندر مان ویدانت برہمن کو علاج کے لیے بھیجا شیخ سے حال پوچھا اس نے مطلق جواب نہ دیا بڑی سر کھپی کے بعد ارشادہوا۔ بیمار ہوں مگر نہ بیماری کا حال کہا نہ انکے اسباب ۔طبيب نے اپنی اٹکل سے نسخہ لکھ دیا اور چلا آیا اس طرح اس کے گھر میں آگ لگی۔ نوکر چاکر باہر تھے شیخ صحن میں ٹہلا کیا سب جل کے خاک ہو گیا مگر اس نے بے فائدہ بات نا پسند کی ۔
جھوٹ کی برداشت نہیں
شیخ کی بستی میں دوسری جگہ سے ایک برات آئی اور اسکے دروازہ کے سامنے سے نکلی وہ متین تو تھا مگر شوقین لڑکیاں اورخود اسکی بیوی کوٹھے پر چڑھ گئین۔ شیخ کابھی جی چاہا مگر دروازہ پر ہوکے دیکھنا خلاف تهذيب اورکسر شان سمجھ کے وہ بھی کوٹھے پہنچا منظور یہ تھا کہ یہاں بھی کوئی پہچانے نہیں۔ اس لیے لال دوپٹہ اوڑھ کے عورتون مین ملگیا اور برات دیکھنے لگا بنده بشر ہے چہرہ چھپانا بھول گیا۔ ایک شریر لڑکے کی نظر پڑ گئی اسنے گھبرا کے دوسرے لڑکے سے کہا " ارے غضب داڑھی مونچھوں والی عورت" اور شیخ کی طرف اشارہ کیا ۔ اس جھوٹ اوراتہام پر شیخ کے آگ لگ گئی۔ پھر بھی تہزیب کو ہاتھ سے نہ دیا۔ اور دوپٹہ اتار کے کہا ۔ عورت آپکی والدہ ہونگی ہم تو مرد ہین۔
دوراندیشی
مرزاشاہ نواز بیگ قاقشال جب اکبرکی طرف سے ابراہیم عادل شاہ کے پاس سفارت پر گیا - ابراہیم نے اکبر اعظم کے لیے بہت سے تحفے دیے اسمین
56
تمباکو کا بھی ایک ڈبہ تھا ۔ یہ نئی چیز جب دربار اکبری میں پہنچی اس پر بڑے مباحثے ہوئے۔آخر خاص طبیب شاہی شفاء الملک کے امتحان اور مشورے کے بعد تمباکو حقے میں بھراگیا۔ اور سر دربار اکبر کے سامنے پیش ہوا۔ شیخ نے اسکے پینے سے بے محابا اختلاف کیا ۔ اور وجہ یہ بیان کی کہ چلم سے جسطرح دھواں کھچ کے منہ میں پہنچتا ہے ۔ اگر کوئی چنگاری پیٹ مین اتر جائے تو غضب ہی ہوجائے۔
فن تعمیر کا کمال
نواب بیرم خان نے مسجد بنوائی جب اس کے مینار اونچے ہونے لگے ۔ شیخ نے رائے دی کہ اس طرح مینار تیڑھے بننے کا احتمال ہے پہلے دو گہرے کنوون مین اینٹ چونا خوب بھر دیا جائے جب سوکھ جائیں مینار بنے بناے نکل آئینگے ۔ وہی کھڑے کر دیے جائیں۔
تمیز بزدقات
حکیم افراطونوس یونانی کا قصہ کے سامنے الہ وردی خان نے بیان کیا کہ ایک سو ایک ادویہ کی مرکب معجون کو اس نے چکھ کے سب دواوں کے
نام بتادیے تھے ۔ شیخ نے ہنس کے فرمایا۔ یہ کونسی بڑی بات ہے ہم ہمیشہ باجری کا ملیدہ اور بیسن کی کڑھی کھا کے بتا دیاکرتے ہیں کہ ایک مین گڑ ملا ہوا ہے دوسرے مین نم - مرچ- ہلدی - پیاز۔ اور میتھی کا بگھار بھی ہے بغیر چکھے وہ حکیم بتادیتا تو اک بات بھی تھی
بشپ انڈریو سے انگریزی سیکھی
اکبر کے دربار مین پرتگیرون کاسفیر رہتاہی تھا۔
اسی کی وساطت سے انگلستان کے لاٹ پادری بشب انڈر کو بھی منظوری حاصل ہوئی ۔ یہ بڑے لائق اور ملنسار تھے فیضی نے اسی سے انگریزی زبان سیکھی چونکہ شیخ اکژ فیضی کے یہان جایا کرتا تھا فیضی کو انگریزی پڑھتے دیکھ کے آپ کو بھی شوق چرایا مگر ضد یہ کہ شاگردی کاننگ کون گوارا کرے شیخ کی ذہانت مسلمہ ہے اس نے فیضی کے سبق سننا شروع کیے اور آپ سے اس میں جو لگا کے انگریزی الفاظ یاد کرلیے۔ یہ مشهور شعر
اے نامے توژژد کرسٹو سبحانک لا الہ یا ہو
فیضی کے نام سے مشہور ہے مگر تذکروں سے ثابت ہے کہ شیخ نے اپنی انگریزی دانی کے اظہار میں کہا تھا۔
اپنی عزت اپنے ہاتھ
راجہ بھگونداس والی جیلمبر کے بیٹے کے جینو کی رسم میں بڑا جلسہ اکبرآباد میں ہوا منی بائی کا مجرا ہورہا تھا کسی حریف کے اشارہ سے اس نے
یہ شعر گایا۔ اور شیخ کی طرف ہاتھ اٹھاکے بتایا
ریش سفید شیخ پہ ہرگز نہ جائیو
اس مکر چاندنی پہ نہ کرنا گمان صبح
شیخ نے جھپٹ کے ایک طمانچہ اس زورسے رنڈی کے مارا کہ سارا جلسہ درہم برہم ہوگیا ۔
خاموشی اورحفظ لسان _
شیخ کبھی بے موقع بات نہ کرتا تھا ۔ اور خاموشی کے فوائد سے پورا آگاہ تھا۔ وہ ایک بار سخت علیل ہوا اورجان بر نوبت آگئی - شهنشاه اکبر نے اپنے خاص طبيب مہاراج اندر مان ویدانت برہمن کو علاج کے لیے بھیجا شیخ سے حال پوچھا اس نے مطلق جواب نہ دیا بڑی سر کھپی کے بعد ارشادہوا۔ بیمار ہوں مگر نہ بیماری کا حال کہا نہ انکے اسباب ۔طبيب نے اپنی اٹکل سے نسخہ لکھ دیا اور چلا آیا اس طرح اس کے گھر میں آگ لگی۔ نوکر چاکر باہر تھے شیخ صحن میں ٹہلا کیا سب جل کے خاک ہو گیا مگر اس نے بے فائدہ بات نا پسند کی ۔
جھوٹ کی برداشت نہیں
شیخ کی بستی میں دوسری جگہ سے ایک برات آئی اور اسکے دروازہ کے سامنے سے نکلی وہ متین تو تھا مگر شوقین لڑکیاں اورخود اسکی بیوی کوٹھے پر چڑھ گئین۔ شیخ کابھی جی چاہا مگر دروازہ پر ہوکے دیکھنا خلاف تهذيب اورکسر شان سمجھ کے وہ بھی کوٹھے پہنچا منظور یہ تھا کہ یہاں بھی کوئی پہچانے نہیں۔ اس لیے لال دوپٹہ اوڑھ کے عورتون مین ملگیا اور برات دیکھنے لگا بنده بشر ہے چہرہ چھپانا بھول گیا۔ ایک شریر لڑکے کی نظر پڑ گئی اسنے گھبرا کے دوسرے لڑکے سے کہا " ارے غضب داڑھی مونچھوں والی عورت" اور شیخ کی طرف اشارہ کیا ۔ اس جھوٹ اوراتہام پر شیخ کے آگ لگ گئی۔ پھر بھی تہزیب کو ہاتھ سے نہ دیا۔ اور دوپٹہ اتار کے کہا ۔ عورت آپکی والدہ ہونگی ہم تو مرد ہین۔
دوراندیشی
مرزاشاہ نواز بیگ قاقشال جب اکبرکی طرف سے ابراہیم عادل شاہ کے پاس سفارت پر گیا - ابراہیم نے اکبر اعظم کے لیے بہت سے تحفے دیے اسمین
56
تمباکو کا بھی ایک ڈبہ تھا ۔ یہ نئی چیز جب دربار اکبری میں پہنچی اس پر بڑے مباحثے ہوئے۔آخر خاص طبیب شاہی شفاء الملک کے امتحان اور مشورے کے بعد تمباکو حقے میں بھراگیا۔ اور سر دربار اکبر کے سامنے پیش ہوا۔ شیخ نے اسکے پینے سے بے محابا اختلاف کیا ۔ اور وجہ یہ بیان کی کہ چلم سے جسطرح دھواں کھچ کے منہ میں پہنچتا ہے ۔ اگر کوئی چنگاری پیٹ مین اتر جائے تو غضب ہی ہوجائے۔
فن تعمیر کا کمال
نواب بیرم خان نے مسجد بنوائی جب اس کے مینار اونچے ہونے لگے ۔ شیخ نے رائے دی کہ اس طرح مینار تیڑھے بننے کا احتمال ہے پہلے دو گہرے کنوون مین اینٹ چونا خوب بھر دیا جائے جب سوکھ جائیں مینار بنے بناے نکل آئینگے ۔ وہی کھڑے کر دیے جائیں۔
تمیز بزدقات
حکیم افراطونوس یونانی کا قصہ کے سامنے الہ وردی خان نے بیان کیا کہ ایک سو ایک ادویہ کی مرکب معجون کو اس نے چکھ کے سب دواوں کے
نام بتادیے تھے ۔ شیخ نے ہنس کے فرمایا۔ یہ کونسی بڑی بات ہے ہم ہمیشہ باجری کا ملیدہ اور بیسن کی کڑھی کھا کے بتا دیاکرتے ہیں کہ ایک مین گڑ ملا ہوا ہے دوسرے مین نم - مرچ- ہلدی - پیاز۔ اور میتھی کا بگھار بھی ہے بغیر چکھے وہ حکیم بتادیتا تو اک بات بھی تھی
بشپ انڈریو سے انگریزی سیکھی
اکبر کے دربار مین پرتگیرون کاسفیر رہتاہی تھا۔
اسی کی وساطت سے انگلستان کے لاٹ پادری بشب انڈر کو بھی منظوری حاصل ہوئی ۔ یہ بڑے لائق اور ملنسار تھے فیضی نے اسی سے انگریزی زبان سیکھی چونکہ شیخ اکژ فیضی کے یہان جایا کرتا تھا فیضی کو انگریزی پڑھتے دیکھ کے آپ کو بھی شوق چرایا مگر ضد یہ کہ شاگردی کاننگ کون گوارا کرے شیخ کی ذہانت مسلمہ ہے اس نے فیضی کے سبق سننا شروع کیے اور آپ سے اس میں جو لگا کے انگریزی الفاظ یاد کرلیے۔ یہ مشهور شعر
اے نامے توژژد کرسٹو سبحانک لا الہ یا ہو
فیضی کے نام سے مشہور ہے مگر تذکروں سے ثابت ہے کہ شیخ نے اپنی انگریزی دانی کے اظہار میں کہا تھا۔