حیاء پر خوفناک حملہ - کالم از ذوالفقار احمد چیمہ سابقہ آئی جی موٹروے پولیس

زیک

مسافر
یورپ کے کئی ممالک میں بھی دفتروں اور تعلیمی درسگاہوں کے لیے ڈریس کوڈ مقرر کیے گئے ہیں جنکے مطابق ٹائٹ جینز پہننے اور سینے نمایاں کرکے پھرنے کی ممانعت ہے۔
سکول میں ڈریس کوڈ ہوتا ہے لیکن ان صاحب کے مطابق وہ بھی کافی بیہودہ ہی کہلائے گا۔ ہر دفتر کا ماحول فرق ہوتا ہے اور اسی حساب سے یہ توقع بھی کہ کیا پہننا ٹھیک ہے
 

زیک

مسافر
یورپ اور امریکا میں پڑھی لکھی مسلم اور نومسلم خواتین سمجھتی ہیں کہ حجاب عورتوں کو جنسی استحصال سے محفوظ رکھتا ہے وہ سر اور سینہ ڈھانپ کر وہاں دفتروں میں کام بھی کرتی ہیں اور اپنے اسلامی لباس پر فخر محسوس کرتی ہیں وہ اپنے آپ کو مسلم تہذیب کا نمائیندہ اور حجاب کو اپنے لیے وقار اور افتخار کا باعث سمجھتی ہیں
امریکہ میں مسلم خواتین کی اکثریت حجاب نہیں کرتی۔ جو حجاب کرتی بھی ہیں وہ مغربی لباس میں۔ یورپ میں بھی شاید ایسا ہی ہے۔
 

زیک

مسافر
میرے خیال میں امریکہ میں درسگاہوں میں ڈریس کوڈ ہے۔ مثلاً اگر کسی لڑکی کے بازو/شانے ننگے ہوں یا گلا کھلا ہو، یا ہنسلی کی ہڈی نظر آ رہی ہو تو اس کو گھر بھیج دیا جاتاہے۔
تصدیق امریکہ میں رہنے والے کر سکتے ہیں۔
زیک
بازو سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شارٹس یا سکرٹ کی کم از کم لمبائی مقرر ہے
 

یاز

محفلین
پیشگی معذرت کے ساتھ کچھ نکات عرض کرنا چاہوں گا

۔ مضمون نگار کسی خیالی اور تصوراتی دنیا کے باسی لگتے ہیں۔ نیز یہ کہ ان کا خیال ہے کہ ان کے علاوہ کسی نے دنیا یا مغرب نہیں دیکھا۔ ایسے قصے کہانیاں نصف صدی قبل کے زمانے میں چل جاتے تھے جب مصنفین (ابنِ انشا، تارڑ وغیرہ) اپنے سفرناموں میں دیگر ممالک کی اخلاق سوزی کے قصے بڑھا چڑھا کر پیش کیا کرتے تھے۔ کیونکہ اس وقت عام عوام کا باقی دنیا کے ساتھ ربط تھا ہی نہیں سوائے ان کتب، اخبارات یا فلموں کی ویڈیو کیسٹ کے۔ مضمون نگار ہنوز پرانی روش پہ چلنے پر بضد ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ منجن ابھی بھی اچھا بکتا ہے ہمارے ہاں۔
۔ مغرب کے بارے میں کچھ یونیورسل ٹرتھ ہمارے ہاں ایجاد کر لئے گئے ہیں، جن کی نہ تصدیق کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے نہ تحقیق کی۔ جیسے کہ سارے بوڑھوں کو اولڈ ہوم میں چھوڑ آتے ہیں۔ ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے پہ سزا ہے۔ فحاشی عام ہے۔ سارے مغرب کو اور کوئی کام نہیں سوائے ہمارے خلاف سازش کرنے کے۔ سارا علم اور سائنس وغیرہ ہسپانیہ سے لوٹا گیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ
۔ ان سب سے بڑھ کر جارج آرویل کے الفاظ میں مضمون نگار "دو خیالی" یعنی ڈبل تھنک کے شکار ہیں۔ اسی بات کا تذکرہ زیک بھائی پہلے کر چکے ہیں۔ خود بیس سال گزارنے کے بعد اچانک مغربی معاشرے کی خرابیاں ان پہ آشکار ہو گئیں۔
۔ ایک ایسے دور میں کہ جب گلوبلائیزیشن کے بغیر گزارہ ہی مشکل ہے، وہ معاشرے کو آہنی پردوں کے پیچھے دھکیلنے میں بہتری دیکھ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے بچوں کو اے لیول ہی کرانا ہے۔

کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔ لیکن فی الحال اتنا ہی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
۔ مغرب کے بارے میں کچھ یونیورسل ٹرتھ ہمارے ہاں ایجاد کر لئے گئے ہیں، جن کی نہ تصدیق کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے نہ تحقیق کی۔ جیسے کہ سارے بوڑھوں کو اولڈ ہوم میں چھوڑ آتے ہیں۔ ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے پہ سزا ہے۔ فحاشی عام ہے۔ سارے مغرب کو اور کوئی کام نہیں سوائے ہمارے خلاف سازش کرنے کے۔ سارا علم اور سائنس وغیرہ ہسپانیہ سے لوٹا گیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ

آپ کی بات درست کہ پاکستان میں ایسا سمجھا جاتا ہے اور کچھ زیادہ ہی سمجھا جاتا ہے ۔تاہم یہ سب باتیں بالکل بے بنیاد بھی نہیں ہیں۔

خود بیس سال گزارنے کے بعد اچانک مغربی معاشرے کی خرابیاں ان پہ آشکار ہو گئیں۔

ہمارے ہاں سے جب کوئی شخص کمانے کی غرض سے باہر جاتا ہے تو عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تو وہاں بالغ ہو کر پہنچا تھا اور اُسے اس بات کا شعور تھا کہ وہ اس معاشرے کا کتنا اثر لے اور کتنا نہ لے۔ لیکن وہیں پیدا ہونے والے کہ جنہوں نے کبھی مشرقی طور طریقے دیکھے ہی نہ ہوں اُن کے ہاں یکطرفہ رُجحانات کا نمو پا جانا بعید از قیاس نہیں ہوتا۔

۔ ایک ایسے دور میں کہ جب گلوبلائیزیشن کے بغیر گزارہ ہی مشکل ہے، وہ معاشرے کو آہنی پردوں کے پیچھے دھکیلنے میں بہتری دیکھ رہے ہیں۔

بلاشبہ، گلوبلائزیشن کے اثرات سے بچنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔

اس کے باوجود اپنے بچوں کو اے لیول ہی کرانا ہے۔

اس بات کی طرف ہم نے بھی اشارہ کیا ہے۔
 
حصہ دوم
۔
مشرق کے بے مثل مفکّر ، شاعر اور دانائے راز علامہ اقبال ؒنے جاوید نامہ میں اپنی ایک خوبصورت فارسی نظم میں جاب کی حکمت بڑے دلپذیر انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کائناتوں کو تخلیق کرنے والے ربّ ِ ذوالجلال کو ہم دیکھ نہیں سکتے کیونکہ خالق پوشیدہ رہتا ہے اسی طرح تخلیق کرنے والی ہر ہستی کو نظروں سے اوجھل رکھا جاتا ہے کیونکہ تخلیق کی حفاظت کے لیے خلوت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے صدف کا موتی خلوت میں ہی جنم لیتا ہے۔

حفظ ہر نقش آفریں از خلوت است
خاتم اِورانگیں از خلوت است

جاپانی نو مسلمہ خولہ لکاتا حجاب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں میرے دل میں روحانیت کی اتنی اشتہا تھی کہ میں نے سب سے پہلے اسلامی لیکچر کے ہر لفظ کو اس طرح جذب کرلیا جیسے خشک اسفنج پانی کو جذب کرتا ہے۔ حجاب پہنکر میں اپنے آپ کو پاکیزہ اور محفوظ سمجھنے لگی اور مجھے احساس ہوا کہ میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوگئی ہوں۔

میرا حجاب دوسروں کے لیے اللہ تعالیٰ کے وجود کی یاددہانی ہے اور میرے لیے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے کی یاد دہانی۔ میرا حجاب مجھے آمادہ کرتا ہے کہ ہوشیارہوجاؤ تمہارا لباس اور طرزِ عمل ایک مسلم کی طرح ہونا چاہیے، جس طرح پولیس اور فوج کا سپاہی وردی میں اپنے پیشے کے تقاضوں کا خیال رکھتا ہے اسی طرح حجاب بھی مجھ سے کچھ تقاضے کرتا ہے۔ اسلام عورتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غیر مردوں سے اپنا جسم پوشیدہ رکھیں۔ اس کی حکمت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے۔

ٹائٹ پینٹ، منی اسکرٹ یا ہیجان انگیز لباس کا مطلب ہوتا ہے اگر آپ کو میری ضرورت ہے تو مجھے لے جاسکتے ہیں۔ حجاب صاف طور پر بتاتا ہے میں آپکے لیے ممنوع ہوں۔ اسلام میں عورت صرف اپنے شوہر کے لیے دلکش بننے کی کوشش کرسکتی ہے۔کوئی شادی شدہ عورت دلکش بنکر کسی مرد کی توجّہ کیو ں اپنی طرف مبذول کرانا چاہتی ہے؟ کیا وہ اس بات کو پسند کریگی کہ دوسری عورتیں اس کے شوہر کو اپنی طرف مائل کریں؟ اسلام سے بغض رکھنے والے متعصّب لوگ ایسی عورت کی عظمت کا اندازہ نہیں لگاسکتے جو حجاب میں پراعتماد، پرسکون ، باوقار اور پرمسّرت ہے اور اپنے حجاب پر فخر کرتی ہے۔

15فروری کو حیاء پر حملے کے بارے میں پہلا کالم چھَپنے کے بعد ممتاز ماہرِ تعلیم اور لاہور کالج فارویمن کی سابق وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ متین صاحبہ نے فون کیا اور فرمایا مجھ سے کچھ طالبات حیاء کے بارے میں سوال پوچھتے ہوئے جب کہتی تھیں کہ میڈم حیاء تو دل میں یا آنکھوں میں ہوتی ہے۔ اس کا لباس سے کیا تعلق ہے تو میں انھیں بتاتی تھی بیٹا ! یہ صرف فلمی ڈائیلاگ ہیں اور کچھ لوگ بیہودہ لباس کے دفاع میں ایسی باتیں کرتے ہیں۔ حیاء کا لباس سے گہرا تعلق ہے جو لڑکی اپنے جسم کے فیچرز اور اُبھار ڈھانپتی ہے وہ باحیاء ہے اور جولڑکی اپنے فیچرز اور خدّوخال سرِ عام دکھانے میں شرم محسوس نہیں کرتی لوگ اسے با حیا کیسے کہیں گے؟ ڈاکٹر صاحبہ نے مزید کہا کہ کچھ مائیں اور خود لڑکیاں بھی آجکل کا نامناسب لباس پسند نہیں کرتیں مگر سماجی دباؤ کی وجہ سے خاموش ہوجاتی ہیں اور تنہائی کا شکار ہونے کے ڈر سے وہ بھی بیہودہ لباس پہننا شروع کردیتی ہیں۔

انھیں چاہیے کہ ہمّت سے کام لیں اس بیہودگی کے خلاف ڈٹ جائیں، بے حیائی کے خلاف نفرت کا اظہار کریں اور اپنی تہذیب اور اَقدار کے مطابق باحیاء اور باوقار لباس پہنیں۔ انھوں نے بتایا کہ میری ایک بیٹی ڈاکٹر ہے، ایک دن اس نے مجھے خود کہا کہ امّی میں پورے بازوؤں والی قمیض پہن کر اسپتال جایا کروں گی کیونکہ میں یہ پسند نہیں کرتی کہ وارڈمیں مریض میرے ننگے بازو دیکھتے رہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے درست کہا کہ نئی نسل کو بے حیائی سے بچانا ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے۔ دہشتگردی سے بھی بڑا! اس کے لیے ان کی ماؤں اور ٹیچرزکو بھرپور اور فوری کردار ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے اپنے فرائض سے کوتاہی برتی تو وہ مجرم ٹھہریں گی، تاریخ کے کٹہرے میں بھی اور اللہ کی عدالت میں بھی ۔

پچھلے کالم کے بعد اسلام آباد کے ایک گرلز کالج کی پرنسپل صاحبہ ملنے کے لیے تشریف لائیں، کالم کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ تحریر نے انتہائی اہم اور تشویشناک اِشوکی نشاندہی کی ہے اور بروقت دستک دی ہے۔ پھر کہنے لگیں صاف نظر آرہا ہے کہ کچھ طاقتوں نے منصوبہ بندی کے تحت حیا کے قلعے کا محاصرہ کیا ہے اور اس پر مسلسل گولہ باری کرکے اسے جگہ جگہ سے منہدم کردیا ہے اس حملے میں وہ سب سے زیادہ میڈیا اور انٹرنیٹ کو استعمال کررہی ہیں۔ میڈیا ہاؤسز اشتہاروں کے لیے ان کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔

میں طالبات سے اکثر کہتی ہوں کہ ہماری پبلک لائف کی معروف ترین خواتین کیطرف دیکھیں محترمہ فاطمہ جناح دوپٹہ لیتی تھیں، محترمہ بینظیر بھٹوہمیشہ دوپٹے سے سرڈھانپتی تھیں، موجودہ خاتونِ اوّل بیگم کلثوم نوازاور ان کی بیٹی مریم نواز حجاب میں حجاب محسوس نہیں کرتیں، پہلی خاتون اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور موجودہ وفاقی کابینہ کی تینوں خواتین وزراء دوپٹہ لیتی ہیں۔ صوبائی وزیر بیگم ذکیہ شاہنوازصاحبہ تو گریس اور وقارکی دیوی لگتی ہیں۔ یہ ملک کی ویمن لیڈرز ہیں، لڑکیوں کو لباس کے معاملے میں ان کی پیروی کرتے ہوئے سَر اور چَیسٹ کوcoverکرنا چاہیے اور گھٹیا قسم کی ایکٹرسوں یا اخلاق باختہ عورتوں کی پیروی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔

قاضی حسین احمد صاحب مرحوم و مغفور کی صاحبزادی اور سابق ایم این اے محترمہ سمیعہ راحیل قاضی نے عالمی یومِ حجاب کے سلسلے میں بڑا خوبصورت کتابچہ مرتب کیا ہے۔اس کتابچے میں انھوں نے حجاب اور مسلم تشخّص کے تحفّظ کے لیے مروہ الشربینی سمیت کئی خواتین کی قربانیوں کے روح پرور واقعات تحریرکیے ہیں۔

مروہ الشربینی ایک مصری نژاد جرمن مسلمان خاتون تھیں جو اُس بے حیائی کے ماحول میں بھی اپنی عصمت و عفت کی حفاظت سے غافل نہیں تھیں اور مکمل حجاب کا اہتمام کرتی تھیں۔ مغرب کے انتہا پسندوں کو یہ بات پسند نہ تھی۔ ان کے ایک بدمعاش پڑوسی ایگزل نے اسوقت ان کی توہین کی جب وہ ایک پارک میں اپنے بچے کے ساتھ موجود تھیں۔ الشربینی بہادر خاتون تھیں انھوں نے اس کے خلاف مقدمہ درج کرادیا، عدالت نے ایگزل کو جرم ثابت ہونے پر دوہزار یورو جرمانے کی سزا سنادی۔ یہ سنتے ہی جنونی ایگزل نے الشربینی پر عدالت میں ہی حملہ کردیا، وہ حاملہ تھیں، مجرم نے ان کا حجاب پھاڑ دیا، ان کے پیٹ پر لاتیں ماریں اور پھرچاقو کے کئی وار کرکے الشربینی کو عدالت میں ہی شہید کردیا۔ مروہ الشربینی شہید کی یاد میں دنیا بھر کی مسلم خواتین یومِ حجاب مناتی ہیں۔ یقیناً جنّت کے اعلیٰ ترین حصّے میں حضور نبی کریم ﷺ نے خود مروہ شہید کا استقبال کیا ہوگا۔

مسلم عورتوں سے حیا کی چادر اتار نے والے کون ہیں؟ ذرا غور سے دیکھیں ایک ہاتھ سے بیٹیوں کا دوپٹہ کھینچنے والے دوسرے ہاتھ سے ڈالر وصول کررہے ہیں، یہ بھی دیکھیں کہ اس حملے کے منصوبہ ساز ، فنانسر اور ہدایتکار کون ہیں؟ کیاوہ ہمارے خیرخواہ اور well wisher ہیں؟ ہرگز نہیں! وہ بدنیّت بھی ہیں اور ہمارے بدخواہ بھی ۔ انھیں ہمارے ملک کا امن اور استحکام بھی پسند نہیں اور وہ ہماری بقاء اور حیاء کے بھی مخالف ہیں، انھیں پہچانیں۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں خونِ مسلم کو اَرزاں کردیا ہے۔

جنہوں نے بم اور بارود سے عراق، شام، لیبیا، مصر اور افغانستان میں لاکھوں معصوم بچوں ، عورتوں اور بے گناہ شہریوں کے چیتھڑے اڑا دیے ہیں ، جو عورتوں کو جانگیئے پہنا کر ان کی کُشتیاں کراتے ہیںجوعورت کی عورت سے شادی کو جائز قرار دیتے ہیں، ان کا عورت سے صرف ہوس اور حرص کا رشتہ ہے۔ ہر قوم کی اپنی تہذیب اور اپنا کلچر ہو تا ہے اور لباس اس تہذیب کا آئینہ دار ہوتا ہے۔کیا ہماری اپنی کوئی تہذیب نہیں ہے؟۔ ہماری تہذیب تو اتنی توانا ہے کہ اس سے خود مغرب خوفزدہ ہے ۔ اپنی مسلم تہذیب اور مسلم تشخّص کے تحفّظ کے لیے ہی قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں نے انڈیا سے علیحدہ ہوکر پاکستان بنایا تھا۔ تو کیا اب ہماری شناخت ختم ہوجائے گی؟ کیا ہم خود اپنی علیحدہ شناخت ختم کردیں گے؟

نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اس پاک سرزمین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات خود اٹھ کھڑی ہوں گی۔ وہ بہت جلد اپنی تہذیبی اَقدار کا پرچم لے کر نکلیں گی، حیا دشمن کلچر کو مسترد کردیں گی اور بیہودگی کے طوفان کا رخ موڑ دیں گی، ان کی للکار ہر سمت گونجے گی اور ان کی آواز ہر گھر میں ہر بیٹی اور ہر ماں تک پہنچے گی ۔ وہ حیاء کے قلعے پر ہونے والے حملے کو پَسپاکردیں گی اور ان کا یہ اعلان پورے خطّے میں گونجے گا کہ 147ہماری حیاء ، ہمارا ایمان ہے۔ یہ ہماری پہچان ہے اور یہی وجۂ پاکستان ہے۔ ہم ہر قیمت پر اپنی حیاء کے قلعے کا تحفّظ کریں گی۔
۔

ماخذ
 

آصف اثر

معطل
یہ سوچ ہی غلط ہے۔ زیادہ تر مذہبی و غیر مذہبی جانتے ہیں کہ بیٹیوں کے لئے مغرب پاکستان سے بہتر ہے۔
دوسرے خود بیس سال گزار لئے مگر بیٹیوں کی بار حیا آ گئی۔ یہ کیسا مذہب ہے؟
بہتر ہونے سے کیا مراد ہے؟
بیس سال انہوں نے کیسے گزاریں؟ آپ جملے سے ایسا تاثر دے رہے ہیں کہ خود تو مزے لیے اور بیٹیوں کی باری آنے پر حیا یاد آگئی۔
 
زیادہ بڑی اخلاقیات کی ضرورت شاید کبھی بھی نہیں رہی۔ مذہبی کتب کو چھان جائیے۔ خواتین اور مردوں کے حوالے سے جو بحثیں ہمیشہ جاری رہتی ہیں ان پر خلافِ توقع بہت ہی کم توجہ دی گئی ہے۔ قرآن اور عہدنامہ ہائے عتیق و جدید میں اگر میں غلطی پر نہیں تو شاید کل مباحث کا ایک فیصد بھی ان موضوعات پر نہ نکلے۔
اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ معاملہ اتنا پیچیدہ ہے نہیں جتنا نظر آتا ہے یا مباحثہ باز اسے بنانے پر تلے رہتے ہیں۔ بنیادی اصول محض ایک ہے۔ مرد مرد ہے اور عورت عورت۔ مرد کے لیے عورت بننا حقیر ہے اور عورت کے لیے مرد بننا ذلیل۔ دونوں کا اپنا شرف ہے۔ اس شرف کو برضا و رغبت قبول کر لیا جائے تو کسی فتنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ اہلِ مغرب کی زیادتی یہ ہے کہ وہ گیند اور بلے سے ایک ہی کام نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم مشرقیوں کا ابتلا یہ ہے کہ ہم گیند کو بلے کی ہوا بھی نہیں لگنے دینا چاہتے!
 

آصف اثر

معطل
مشرقیوں کا ابتلا یہ ہے کہ ہم گیند کو بلے کی ہوا بھی نہیں لگنے دینا چاہتے!
مشرقیوں سے اگر مراد مسلمان ہیں تو میرے خیال میں ہمیں نکاح کی شکل میں ایک بہترین انتخاب دیا گیا ہے۔ (یہ اگرچہ تمام الہامی مذاہب میں ہے لیکن مسلمان طبقہ اس پر سب سے زیادہ عمل پیرا ہے۔)
میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس پوری بے حیائی کے پیچھے شریعت کا سدباب اور مسلمانوں کو ایمانی لحاظ سے کمزورتر کرنے کی مذموم کوششیں ہیں۔ لیکن کامیابی نہیں ملے گی۔ انجام اچھا نہیں ہوگا ان صہیونیوں اور ان کے دانستہ اور نادانستہ پیروکاروں کا۔
جاپان جیسے ”معصوم اور مہذب“ معاشرے کی ہی جھلک دیکھ لیجیے۔ مجھے افسوس ہے لیکن موقع محل کے مطابق ایک گرما گرم بحث ضرور ملاحظہ کیجیے۔
جاپان میں ہیجان انگیز لباس پہننے کے سبب جنسی ہراساں کرنے کے واقعات میں ہوش رُبا اضافہ۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اسے میں اقبالی narcissism قرار کہتا ہوں۔
ورنہ مشرق کے بڑے نمائندگان میں چینی، جاپانی، کورین اقوام بھی شامل ہیں۔
اس کے لیے "بر صغیروی" بہتر رہے گا۔ :) ورنہ تو بالی وڈ کی فلموں میں "مشرقی لڑکی" ااور "مشرقی عورت" کو اتنا دہرایا گیا ہے کہ ہم ہی اپنے کو اصل مشرقی سمجھتے ہیں :)

مشرق بہت بڑا ہے، اور کم از کم چار خطے ایسے ہیں کہ جن کی اپنی اپنی جداگانہ پہچان ہے اور ایک سے دوسرا نہیں ملتا۔ عرب ممالک ہیں، ساؤتھ ایسٹ ایشا کے ممالک ہیں، فار ایسٹ کے ممالک ہیں اور سنڑل ایشیا و ایران و ترکی ہیں۔
 
Top