جوش حُور کے اشارے

حسان خان

لائبریرین
بھری برسات میں جس وقت بادل گھِر کے آتے ہیں
بجھا کر چاند کی مشعل، سیہ پرچم اُڑاتے ہیں
مکاں کے بام و در، بجلی کی رَو میں جب جھلکتے ہیں
سبک بوندوں سے دروازوں کے شیشے جب کھنکتے ہیں
سیاہی اتنی چھا جاتی ہے جب ہستی کی محفل میں
تصور تک نہیں رہتا سحر کا رات کے دل میں
امنگیں روح میں اٹھتی ہیں جب یادِ الٰہی کی
فضا میں پیچ و خم کھاتی ہیں زلفیں جب سیاہی کی
ستارے دفن ہو جاتے ہیں جب آغوشِ ظلمت میں
لپک اٹھتا ہے اک کوندا سا جب شاعر کی فطرت میں
کڑک سے آنکھ کھل جاتی ہے جب کمسن حسینوں کی
جھلک اٹھتی ہے موجِ برق سے افشاں جبینوں کی
ہوائے دلستاں جب راگ ساون کے سناتی ہے
کسی کافر کی جب رہ رہ کے دل میں یاد آتی ہے
لبِ فطرت جب اتنے متصل ہوتے ہیں کانوں سے
کہ گونج اٹھتا ہے دل عشق و محبت کے فسانوں سے
سمٹ جاتی ہے جب بجلی، دکھا کر ابر سے جھلکی
فلک پر دفعتاَ جب سانس رک جاتی ہے بادل کی
فلک پر نور کی جس وقت بن جاتی ہیں تصویریں
شگافِ ابر میں جب کانپنے لگتی ہیں تنویریں
نظر آتے ہیں کچھ شعلے سے جب ظلمت کے دامن میں
شکن بجلی کی جب تبدیل ہو جاتی ہے روزن میں
معاً اک حُور اُس روزن میں آ کر مسکراتی ہے
اشاروں سے مجھے اپنی گھٹاؤں میں بلاتی ہے
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۲۵ء
 
Top