حفاظتِ حدیث كا ذمہ دار کون؟

بسم اللہ الرحمن الرحيم
حفاظتِ حدیث كا ذمہ دار کون؟

بعض لوگوں كا كہنا ہے كہ قرآن مجيد تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اسکی حفاظت کی ذمہ داری تو خود اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ليكن حديث رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى حفاظت كا ذمہ اللہ تعالى نے نہيں ليا ۔
اس دعوے كى دليل يہ پیش كى جاتى ہے كہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔ سورة الحجر15: آية 9
اس رائے كے قائلين كا كہنا ہے كہ مذكورہ آيت ميں "الذكر " سے مراد صرف قرآن ہے اور حفاظت كی يہ ذمہ دارى صرف قرآن مجيد كے ليے مخصوص ہے۔
يہ رائے اس شد و مد كے ساتھ پيش كى جاتى ہے كہ بعض سادہ لوح افراد حديث نبوى شريف كى عظمت كے بارے ميں شكوك و شبہات كا شكار ہونے لگتے ہيں ۔

آئيے خود قرآن مجيد كى روشنى ميں اس دعوى كا جائزہ ليتے ہيں۔

1- يہ لوگ اس بات كو دانستہ بھلا دينے كى كوشش كر رہے ہيں كہ شريعت اسلامى كى اساس اطاعت الہی اور اطاعت رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم پر قائم ہے۔ يہ اصول كلام الہی ميں متعدد مقامات پر مذكور ہے ، بطور مثال صرف ايك آيت مباركہ پر غور كيجيے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّ۔هَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّ۔هِ وَالرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّ۔هِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ۔ (سورة النساء 4 : آيت 59)
ہمارا سوال ہے كہ اگر اللہ تعالى نے صرف قرآن مجيد كى حفاظت كا ذمہ ليا ہے اور حديث رسول كى حفاظت كى ذمہ دارى نہيں لى تو پھر
الف- اطيعواالرسول ( رسول كى اطاعت كرو) كا حكم كيا معنى ركھتا ہے؟
ب- جب آج كے مسلمان كے ليے رسول كى سنت ہی محفوظ نہيں تو اس كى اطاعت كيسے ہو گی؟
ج- كيا نعوذ باللہ خدا كسى معدوم شے كى اطاعت كا حكم دے سكتا ہے؟
د- كيا يہ حكم صرف نبي صلى اللہ عليہ وسلم كے زمانے كے ليے تھا ؟ اگر ايسا ہے تو كيا نعوذ باللہ قرآن مجيد آج کے مسلمان كى ضرورت كے ليے ناكافى ہے؟
دوسرا ضمنى سوال : باہمى اختلافات اور تنازعات كے وقت اللہ اور رسول كى طرف رجوع كا حكم اسى آيت ميں ہے ( فردوہ الى اللہ و الرسول )
ايك مرتبہ پھر وہی سوالات اس رائے كے قائلين كے سامنے موجود ہيں:
الف- فردوہ الى اللہ والرسول (اللہ اور رسول كى طرف رجوع كرو) كا حكم كيا معنى ركھتا ہے؟
ب- جب بقول ان حضرات كے ...آج كے مسلمان كے ليے رسول كى سنت ہی محفوظ نہيں تووہ اپنے تازعات اور اختلافات كے فيصلے كے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف رجوع كيسے كرے؟
ج- جب بقول ان كے سنت محفوظ نہيں تو كيا نعوذ باللہ خدا كسى معدوم شے كى طرف رجوع كا حكم دے سكتا ہے؟
د- كيا يہ حكم صرف نبي صلى اللہ عليہ وسلم كے زمانے كے ليے تھا ؟ اگر ايسا ہے تو كيا نعوذ باللہ قرآن مجيد آج کے مسلمان كى ضرورت كے ليے ناكافى ہے؟
ان ہی سوالات سے بچنے كے ليے ان كو آخر كار پينترا بدل كر "سنت جاريہ " جيسى مضحكہ خيز اصطلاحات ايجاد كرنا پڑیں ليكن سوال يہ ہے كہ جب بقول ان كے سنت محفوظ ہی نہيں تو سنت جاريہ كيسے محفوظ ہے؟ خود كو جديد علم كلام كے رائد بتلانے والے سادہ سى بات نہيں سمجھ سكتے۔
اصل بات يہ ہے سورة الحجر كى آيت مباركہ ميں الذكر كا معنى صرف قرآن كريم نہيں مكمل شريعت الہی ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
ہم نے ہی اس شريعت کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔ سورة الحجر15: آية 9
اور اس شريعت ميں :
كتاب اللہ بھی شامل ہے اور
سنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم بھی۔
كيوں کہ سنت رسول صلى الله عليہ وسلم ، قرآن مجيد كى تشريح و توضيح ہے ، قرآن مجيد كى حفاظت كى تكميل تب ہوتى ہے جب اس كى تشريح كى حفاظت كا اہتمام بھی ہو اور يہ بات بھی قرآن مجيد سے ثابت ہے۔
ارشاد بارى ہے:
1-وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُ‌ونَ
اور اب ہم نے یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں (سورة النحل : آيت 44)
2- سورة القيامة ميں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے فرمايا جا رہا ہے:
لَا تُحَرِّ‌كْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْ‌آنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَ‌أْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْ‌آنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾
اے نبیؐ، اِس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو (16) اِس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے (17) لہٰذا جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں اُس وقت تم اِس کی قرات کو غور سے سنتے رہو (18)پھر اس کا بيان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔
ان دو آيات مباركہ كو پڑھنے والا بخوبى سمجھ سكتا ہے كہ پہلى آيت ميں بتايا گيا ہے كہ نبي كا وظيفہ ہے كتاب الہی كا بيان ، گويا حديث رسول صرف اور صرف كتاب اللہ كا بيان ہے اور آخرى آيت ميں بيان كى اس كٹھن ذمہ دارى كے متعلق اللہ تعالى كا وعدہ مذكور ہے " اس كا بيان بھی ہمارے ذمہ ہے" .
كيا اب بھی خانہ ساز مفكرين مصر ہيں كہ حديث رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى حفاظت كى ذمہ دارى اللہ تعالى كى نہيں؟
تتمہء بحث كى غرض سے عرض ہے كہ كسى چيز كى تكميل سے مراد ہے كہ اب اس ميں مزيد اضافے ، رد وبدل يا تغيير كى ضرورت نہيں رہی۔ مكمل سے يہ بھی مراد ہوتا ہے كہ اب اس چيز ميں كوئى كمى باقى نہيں ، مكمل سے مراد نقائص وعيوب سے خالى ہونا بھی ہوتا ہے ، اس تمہيد کے بعد كلام الہی كى اس آيت مباركہ پر غور كيجيے:
الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ‌ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ‌ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّ۔هَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣﴾
آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ (سورة المائدة )
اگر ان كے بقول : كلام الہی كى تشريح اور بيان ہی محفوظ نہيں تو اسلام كے مكمل ہونے كا كيا مطلب ہے؟ اگر - بقول ان كے - قرآن كريم كى تشريح ہی تحريف و تغيير سے محفوظ نہيں تو دين اسلام مكمل كيسے ہوا؟ اللہ كى نعمت تمام (مكمل ) كيسے ہوئى اور آخر ايسے تغيير و تحريف كے خطرے سے دوچار اسلام كو اللہ تعالى نے ہمارے ليے بطور دين پسند كيسے كر ليا ؟ ( ورضيت لكم الاسلام دينا )
بعض افراد كو حديث كا نام سنتے ہی جو غثيان لاحق ہوتا ہے اس كى رعايت كرتے ہوئے اس تحرير ميں صرف قرآنى آيات سے استدلال كيا گيا ہے ۔ جو شخص كھلے ذہن سے ان سوالات كے جوابات تلاش كرے گا اس كو حق اس كتاب مبين ہی سے مل جائے گا۔
يہ صرف اور صرف قرآن مجيد سے مستنبط دلائل اس بات كے يقين كے ليے كافى ہيں کہ اللہ تعالى نے صرف قرآن كريم كى حفاظت كا ہی ذمہ نہيں ليا بلكہ حديث شريف جو اس قرآن كريم كى تشريح و توضيح وبيان ہے اس كى حفاظت كا ذمہ بھی ليا ہے۔ اسى ليے اس نے اپنے كلام ميں دين اسلام كو مكمل دين كہا ہے اور كتاب اللہ كا حرف حرف سچا ہے۔ ومن أصدق من الله قيلا ؟
 
Top