سلطان باہو حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ کا مکمل پنجابی کلام معنی اور ترجمہ کے ساتھ

یوسف سلطان

محفلین
السلام علیکم !
مجھے ایک کتاب ملی ہے پی ڈی ایف میں جس میں حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ کا پنجابی کلام "الف الله چنبے دی بوٹی " ہے، ترجمہ کے ساتھ اور میں روز کچھ نہ کچھ ان شاء الله (جتنی الله پاک نے توفیق دی )ادھر لکھوں گا اوپرسے دیکھ کر۔ اس سے پہلے مختصر سا تعارف حضرت سلطان با ہو رحمتہ الله علیہ کا ۔

تعارف :
حضرت سلطان باہو (1631-1691)
نجاب کے صوفی ۱کابرین میں سلطان باہو کو بھی ممتاز ترین مقام حاصل ہے۔ سلطان باہو اپنے عہد کے کامل بزرگ اور پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر ہیں. آپ کے کلام میں ایک روح پرور تاثیر، مٹھاس اور چاشنی ہے. آپ سلطان العارفین کے لقب سے مشہور ہیں. آپ کا تعلق شاہ جہاں کے عہد کے ایک جاگیردار خاندان سے تھا جس کا تعلق پنجاب کے ضلع جھنگ سے تھا۔ آپ کے والد بایزید محمد ایک صالح شریعت کے پابند حافظ قرآن، فقیہہ ، دنیاوی تعلقات سے آشنا سلطنت دہلی کے منصب دار تھے۔ حضرت سلطان باہو 1631ء (1039ھ) میں جھنگ کے موضع اعوا ن میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ظاہری علوم کا اکتساب باقاعدہ اور روایتی اندز میں نہیں کیا بلکہ زیادہ ترابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی ۔ خود ہی ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
”اگرچہ میں ظاہری علوم سے محروم ہوں لیکن علم باطنی نے میری زندگی پاک کر دی ہے۔“
مرشد کی تلاش میں سرگرداں ہوئے تو آپ کی ملاقات شور کوٹ کے نزدیک گڑھ بغداد میں سلسلہ قادر یہ کے ایک بزرگ شاہ حبیب اللہ سے ہوئی۔ اور جب مرید مرشد سے بھی آگے بڑھ گیا تو مرشد نے آپ کو سید عبدالرحمٰن کی جانب رجوع کرنے کا مشور ہ دیا۔ اورنگزیب کے عہد میں آپ سید عبدالرحمٰن سے ملنے دہلی پہنچے مگر معروضی حالات کی بنا پر آپ کے عالمگیر کے ساتھ تضادات پیدا ہو گئے۔ اسی بنا پر آپ دہلی سے واپس چلے گئے اور بقیہ زندگی روحانی ریاضتوں اور لوگوں کو روحانی فیض پہنچانے میں بسر کی۔ آپ دوسرے صوفیا کی طرح محض درویشانہ زندگی نہیں گزارتے تھے بلکہ ایک بڑے خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کی زندگی کا انداز بلاشبہ روایتی صوفیانہ زندگی سے مختلف تھا۔ زندگی کے آخری دنوں میں آپ نے سب کچھ تیاگ دیا تھا۔ آپ کی تصانیف کی طویل فہرست عربی، فارسی اور پنجابی زبانوں پر محیط ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو نہ صرف مروجہ زبانوں پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ مذہبی علوم سے بھی کماحقہ فیض یاب ہوتے تھے۔
آپ کی شاعری میں ایک سرور انگیز مقدس آواز کی صورت میں لفظ ” ہو“ کا استعمال آپ کو تمام صوفی شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ آپ بظاہر فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے اور سیدھی سادھی باتیں خطیبانہ انداز میں کہے چلے جاتے، جن کا مطالعہ بلاشبہ ہماری دیہاتی دانش کا مطالعہ ہے۔ آپ کی شاعری سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ سلسلہ قادریہ کے دوسرے صوفیا سے مختلف نہیں ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
”میں نہ تو جوگی ہوں نہ جنگم ، نہ ہی سجدوں میں جا کر لمبی لمبی عبادتیں کرتا ہوں نہ میں ریاضتیں کرتا ہوں ۔ میرا ایمان محض یہ ہے، جو لمحہ غفلت کا ہے وہ لمحہ محض کفرکا ہے۔جو دم غافل سو دم کافر۔“
حضرت سلطان باہو سرچشمہ علوم و فیوض ہیں، مشہور ہے کہ آپ نے ایک سو چالیس کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتابیں امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں ناپید ہیں ۔ تاہم اب بھی آپ کی بہت سی کتابیں دستیاب ہیں اور علمائے ظاہر کے مقابلے میں سلطان باہو فقر کا تصور پیش کرتے ہیں جہاں علما لذتِ نفس و دنیا میں مبتلا ہو کر نفس پیروی کرتے ہیں اور لذتِ یادِ الٰہی سے بیگانہ رہتے ہیں ، وہاں فقراء شب و روز یادِ خدا میں غرق ہو کر امر ہو جاتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں ترکِ دنیا اور نفس کشی کے خیالات بکثرت ملتے ہیں۔آپ کے نقطہ نظر کے مطابق دین و دنیا دو ایسی متضاد قوتیں ہیں جن کے باہم تفاوت کو حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سلطان باہو کا وصال 1691ء بمطابق اسلامی تاریخ یکم جمادی الثانی 1102ھ میں تریسٹھ سال کی عمرمیں ہوا۔ آپ کا مزار مبارک دریائے چناب کے مغربی کنارے ایک گاؤں جو آپ ہی کے نام سے موسوم ہے اور جھنگ سے پچاس میل دور جنوب کی جانب قصبہ گڑھ مہاراجہ کے نزدیک تحصیل شورکوٹ میں مرجعِ خاص و عام ہے.
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
01

الف ۔الله چمبے دی بوٹی،میرے من وچ مرشد لائی ھو ۔
نفی اثبات دا پانی مِلسیں،ہر رَگے ہر جائی ھو ۔
اندر بوٹی مُشک مچایا،جاں پُھلاّں تے آئی ھو ۔
جیوے مرشد کامل باہو ،جیں ایہہ بوٹی لائی ھو ۔
الف- الله : اسمِ اللہ ذات
چمبے دی بوٹی: چنبلی کا بوٹا
من : دل ،روح، باطن
وچ :میں
لائی :لگائی
نفی اثبات": ناں اور ہاں ۔ نفی سے مراد لا إِلَهَ (نہیں کوئی معبود ) ہے ۔ اس سے مرشد دل سے غیر الله کو نکالتا ہے ۔جب دل یا باطن غیر الله سے خالی ہو جاتا ہے۔ تو اثبات الا الله (مگر الله ) کا مقام آ جاتا ہے ،یعنی دل میں الله پاک کی ذات جلوہ گر ہوتی ہے ۔
مِلسیں: ملیا
ہر رَگے ہر جائی : رگ رگ ، ریشہ ریشہ
مشک مچایا: مہک یا خوشبو پھیلائی
پُھلاّں تے آئی: پھلوں کا لگنا
جیں: جس نے
ایہہ : یہ


ترجمہ :
اس بیت میں حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ نے اسمِ الله ذات کو چمبیلی کے پودے جسے موتیا بھی کہتے ہیں ، سے تشبیہ دی ہےسلطان العارفین سلطان باہو رحمتہ الله علیہ پہلے عارف ہیں جنہوں نے اسم الله ذات کے لئے "چمبے دی بوٹی " کا استعارہ استمعال فرمایا ہے ۔ چمبیلی کے پودے کی پہلے پنیری (بوٹی ) لگاٸى جاتی ہے ۔ اور جب وہ آہستہ آہستہ نشوونما پا کر ایک مکمل پودا بن جاتا ہے تو چنبیلی کے پھولوں سے لد جاتا ہے ۔ اور اس کی خوشبو پورے ماحول کو مہکا دیتی ہے ۔ اسی طرح جب مرشد طالب کو ذکر و تصور اسمِ اللهُ ذات عطا فرماتا ہے تو گویا اس کے دل میں ایک پنیری لگا دیتا ہے اور اسمِ اللهُ ذات کا نور مرشد کی نگہبانی میں آہستہ آہستہ طالبِ صادق کے پورے وجود میں پھیل کر اس کو منور کر دیتا ہے ۔ اپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں میرا مرشد کامل ہمیشہ حیات رہے جس نے مجھ پر فضل و کرم اور مہربانی فرمائی اور اسمِ الله ُذات عطا فرما کر اپنی نگاہِ کامل سے میرے دل میں اسمِ اللهُ ذات کی حقیقت کو کھول دیا ہے ۔اور نفی ( لا الہٰ ) سے تمام غیراللہ اور بتوں کو دل سے نکال دیا ہے اور اثبات (الااللہ ) کے راز نے مجھے اسم سے مسمّی تک پہنچا دیا ہے اب یہ راز اور اس کے اسرار میری رگ رگ ،ریشہ ریشہ اور مغزو پوست تک سرایت کر گے ہیں ۔ اب تو اسمِ اللهُ ذات پورے وجود كے اندر اتنا سرايت كر چكا ہے كہ جى چاہتا ہے كہ جو اسرار اور راز مجھ پر كُھل چكے ہيں ان كو سارى دنيا پر ظاہر كر دو ليكن خواص كے يہ اسرار عام لوگوں پر ظاہر نہيں كيے جا سكتے اسى ليے ان اسرار اور رازوں كو سنبھالتے سنبھالتے جان لبوں تک آ چکی ہے اور ظاھر باطن میں جدھر بھی نظر دوڑاتا ہوں اب مجھے اسِم اللهُ ذات ہی نظر اتا ہے اور حالت اس آیت کی مثل ہو چکی ہے کہ تم جس طرف بھی دیکھو گے تمہیں الله کا چہرہ ہی نظرآ ے گا ۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
02
الف-الله پڑھیوں پڑھ حافظ ہویوں،ناں گیا حجابوں پردا ھو ۔
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویوں،پر طالب ہویوں زَر دا ھو ۔
سَے ہزار کتاباں پڑھیاں،پر ظالم نفس نہ مردا ھو ۔
باجھ فقیراں کسے نہ ماریا باہو، ایہہ ظالم چوراندر دا ھو ۔
پڑھیوں: پڑھ لیا
حافظ ہویوں: حافظ ہو گیا
ناں :نہ
حجابوں : حجاب کی جمع یعنی پردہ
ہویوں : ہوا ۔ ہوے
طالب : طلب کرنے والا ، خواھش مند
زر : سونا ،مال و دولت
ظالم نفس : نفسِ امارہ
باجھ : بغیر ۔ سوائے
پر : مگر۔ لیکن
اندر : باطن
سَے : سینکڑوں


ترجمہ :
تو نے اسمِ اللهُ ذات کا ذکر مرشد کامل اکمل نورالہدیٰ کی رفاقت ، راہبری اور اجازت کے بغیر کیا اور تو اس کا حافظ بھی بن چکا ہے مگر تیرا حجاب دور نہ ہوا اور یہ حجاب اس وقت تک دور نہیں ہو سکتا جب تک صاحب مسمیّٰ مرشد کامل ذکر اور تصورِ اسمِ الله ُذات عطا نہ فرمائے اور پھر تصورِ اسمِ اللهُ ذات کے ذریعے رازِ پنہاں سے پردہ نہ اٹھائے تو نے ذکر الله کے ساتھ ساتھ مختلف دینی اور دنیاوی علوم پر مشتمل ہزاروں کتابیں بھی پڑھ ڈالی ہیں اور ان کتب کا تو عالم بھی ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود تیرا نفس نہیں مر سکا اور تو نفسِ امارہ سے چھٹکارا حاصل کر کے نفسِ مطمئینہ کی منزل تک نہیں پہنچ سکا بلکہ ان علوم کو حاصل کر کے تیری نفسانی خواہشات میں اضافہ ہی ہوا ہے اور اب تو نے ان علوم کو دنیا ، دولت اور شہرت کے حصول کا ذریعہ بنا لیا ہے یہی وجہ ہے کے تیری نظر اور دل پر پڑھے ہوے حجاب کا پردہ نہیں اٹھ سکا اور تو حق تعالٰی کی پہچان میں نہ کام رہا یاد رکھ "نفس " انسانی جسم کے اندر چھپا ہوا ایک ایسا چور ہے جس کو مرشد کامل اکمل کی نگاہ ہی مارسکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ کتب میں اس بیت کے دوسرے مصرعہ کا آخری حصہ اس طرح لکھا گیا ہے "بھی طالب ہوں یوں زر دا ہو"یعنی پر کی جگہ 'بھی' استمعال ہوا ہے ۔ جو مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
03


الف-احد جد دتی وکھالی،از خود ہویا فانی ھو ۔
قرب وصال مقام نہ منزل،ناںاوتھے جسم نہ جانی ھو ۔
نہ اوتھے عشقَ محبت کائی،نہ اوتھے کون مکانی ھو ۔
عینو عین تھیؤسے باہو،سر وحدت سبحانی ھو ۔

احد : یکتا ، مرتبہ لاتعین۔ مرتبہ احدیت (ھا ہویت ) مراد ہے
جد : جب
دتی : دی
وکھالی: تجلی ۔ دیدار
فانی : فنا
جسم نہ جانی : روح و جسم مراد ہے
قرب : قربت ۔ نزدیکی
وصال :ملاپ
کائی : کوئی
کون مکانی : کون ومکاں یعنی کائنات اور مکان
عینو عین: ہو بہو
تھیؤسے: ہو گے
سِرّ : راز
وحدت سبحانی : الله پاک کی ذات میں فنا ہو کر اپنی ہستی ختم کرلینا


ترجمہ :
مقام احدیت میں جب الله پاک نے تجلی ذات وارد فرمائی دوئی ختم ہو گئی اور میں ذات میں فنا ہو کر فانی اور توحید میں فنا ہو کر ہمہ تن توحید ہو گیا یعنی فنانی
ھُو ہو گیا یہاں پر قرب و وصال، مقام و منزل،عشق و محبت ، جسم و روح اور کون و مکاں کا تصور حتم ہو جاتا ہے آپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں اس حال میں ہم وحدت سبحانی کا "عین" ( ہو بہو ) ہو گے ۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
04

الف-الله صحی کیتوسے جداں ، چمکیا عشقَ اگوہاں ھو ۔
رات دیہاں دیوے تاہ تکھیرے،نِت کرے اگوہاں سُوہاں ھو ۔
اندر بھائیں اندر بالن،اندر دے وچ دُھوہاں ھو ۔
باہو شوہ تداں لدھیوسے،جداں عشقَ کیتوسے سُوہاں ھو ۔

صحی: صحیح ۔ درست ۔
کیتوسے: کر لیا۔ حقیقت معلوم ہو گئی
جداں: جب
چمکیا: روشن ہوا ۔ منور ہوا
اگوہاں: اور اگے
رات دیہاں: رات اور دن
تکھیرے: تیز تر
نت : ہر وقت ، ہمیشہ
سُوہاں: واقف ۔ بھیدی
بھائیں: آگ
بالن: جھلنے والی لکڑیاں ، ایندھن
دُھوہاں: دھواں
شوہ : محبوب ، مراد اللہ تعالٰی
تداں : تب
دیوے: دیتا ہے
تاہ : تپش،گرمی
لدھیوسے: ملے گا


ترجمہ :
جب ہم نے "اسمِ اللهُ ذات " کی حقیقت کو پہچان لیا اور اس کا راز ہم پر منکشف ہو گیا تو عشق کی آگ ہمارے "اندر" بھڑک اٹھی اور اس کی تپش سے محبوب حقیقی سے ملنے کے لئے ہماری بے چینی و بے قراری بڑھتی جا رہی ہے اور عشق کی تپش ہمیں راہِ فقر میں اگلی منزل کی طرف قدم بڑھانے پر مجبور کر رہی ہے اور الله تعالٰی سے قرب و وصال کی بے قراری کے درد اور تڑپ نے من میں طوفان برپا کر رکھا ہے۔ جب عشق نے راہِ فقر کی رسومات سے ہمیں واقف کرا دیا تو ہم نے محبوبِ حقیقی ( الله تعالٰی) کو پا لیا
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
04

الف- ایہہ دنیاں زن حیض پلیتی،کیتی مَل مَل دھوون ھو ۔
دنیاں کارن عالم فاضل،گوشے بہہ بہہ روون ھو ۔
جیندے گھر وچ بوہتی دنیا ،اوکھے گھوکر سووَن ھو ۔
جنہاں ترک دنیاں تھیں کیتی باہو،واہندی نکل کھلووَن ھو ۔
زن: عورت
پلیتی: نا پاکی
مَل مَل: خوب اچھی طرح
دھوون: دھونا
کارن: کیلئے
گوشے: کونے
بہہ بہہ: بیٹھ بیٹھ کر
جیندے: جس کے
بوہتی: وافر، زیادہ
گھوکر: گہری ، اطمینان اور سکون
دنیاں تھیں: دنیا سے
واہندی: بہتی ندی ، رواں دریا
کھلووَن: پار نکل جانا


ترجمہ :
یہ دنیا اسی طرح پلید اور نا پاک ہے جس طرح عورت خیض کی حالت میں نا پاک ہوتی ہے خواہ کتنا ہی پاکیزہ ہونے کی کوشش کرے، پاک نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح جو حُبِّ دنیا میں مبتلا ہوتا ہے اس کی کوئی عبادت و ریاضت قبول نہیں ہوتی ۔ کتنے ہی عالم فاضل' دنیا اور اس کی لذات کو ریاضت اور چلہ کشی کے ذریعے ترک کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوتے ۔ جس کے گھر اور من میں جتنی زیادہ دنیا اور مال و دولت ہوتی ہے وہ اتنا ہی بے چین اور بے سکون ہوتا ہے اور آرام کی نیند بمشکل ہی سوتا ہے ۔ کیونکہ اس کی حفاظت ہی اسے سونے نہیں دیتی ۔ اپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے مقصد حیات کو سمجا اور خواہشات دنیا سے منہ موڑ لیا وہ اس جہان سے کامیاب و کامران گئے ۔


 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
06

الف- اَلَسْتُ بِرَبِکُم سُنیا دل میرے،جند قَالوُابَلیٰ کوکیندی ھو ۔
حُبّ وطن دی غالب ہوئی،ہکّ پل سون نا دیندی ھو ۔
قہر پوے تینوں رہزن دنیا،تو تاں حق دا راہ مریندی ھو ۔
عاشقاں مول قبول نا کیتی باہو،توڑے کر کر زاریاں روندی ھو ۔

اَلَسْتُ بِرَبِکُم: کیا میں تمہارا رب نہیں (سورہ اعراف )
قَالوُابَلیٰ:سب نے کہاہاں بیشک(سورہ اعراف) اس آیت میں ارواح سے روزِازل جو وعدہ لیا گیا ہے اس کا ذکر ہے ۔
جند: روح
کوکیندی: ہجر و فراق میں گریہ و زاری
وطن:یہاں عالم ِارواح مراد ہے جو روح کا وطن ہے
ہکّ پل: ایک لمحہ
حُبّ : محبت
سون :سونے
تینوں : تجھے
رہزن: راہ میں لوٹنے والی یعنی لٹیری
تو تاں:توُ تو
حق دا راہ : راہِ فَقر ، راہ ِحق تعالیٰ
مریندی: مارتی ہے ، گمراہ کرتی ہے
مول: ہرگز
توڑے: اگرچہ
زاریاں: آہ و زاری
روندی: رونا ، روتی ہے ۔


ترجمہ:
روز ازل جب سے اَلَسْتُ بِرَبِکُم (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں )سنا ہے اس وقت سے میری روح مسلسل قَالُوا بَلٰی پکاررہی ہے ۔ دنیا میں آنے کے بعد بھی مجھ پر وطن (عالم لا هُوت) کی محبت اس قدر غالب ہے کہ ایک لمحہ بھی چین اور سکون نہیں ہے ۔ اے رہزن دنیا ! تجھ پر قہر نازل ہو کیونکہ تو حق تعالیٰ تک جانے کی راہ میں حائل ہے ۔یہ دنیا خواہ کتنی ہی رنگین اور دلکش کیوں نہ ہو جائے عاشقینِ ذاتِ الہٰی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اپنی منزل وصالِ الہٰی تک پہنچ ہی جاتے ہیں ۔
_________________________________
بعض کتب میں اس بیت کے پہلے مصرعہ میں "جند" کی جگہ لفظ "نِت " استمعال ہوا ہے ۔ چونکہ روح کا تعلق روزِ ازل سے ہے اس لئے نِت کی بجائے جند ہی مناسب ہے ۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
07

الف- ایہو نفس اساڈا بیلی،جو نال اساڈے سِدّھا ھو ۔
زاہد عالم آن نوائے،جتھے ٹکڑا ویکھے تِھدا ھو ۔
جو کوئی اس دی کرے سواری،اس نام اﷲ دا لِدھا ھو ۔
راہ فقر دا مشکل باہو،گھر ماں نہ سیرا رِدّھا ھو ۔

ایہو:یہی
اساڈا:ہمارا
بیلی:دوست،یار
نال :ساتھ
اساڈے:ہمارے
سِدّھا:سیدھا
آن نوائے:جھک گئے،گرگئے،گمراہ ہو گئے
جتھے: حہاں
ٹکڑا:روٹی
تِھدا:روغنی،گھی والی، لذیذ اورمرغن کھانا مراد ہے
سواری: مراد نفس پر قابو پا لے
نام اﷲ دا : اسمِ اللہُ ذات
لِدھا:پایا ، ڈھونڈھا ،حاصل کیا
سیرا:حلوہ
رِدّھا:پکایا ہوا


ترجمہ :
يه نفس اب مطمئنہ ہو كر همارا دوست اور ساتھى بن چكا ہے اور اب ہمارے ساتھ صراطِ مستقيم پر ہے جبكه اسى نفس نےاماره كى حالت ميں کئی عالموں ،فاضلوں اور زاہدوں كو خواهشات كا غلام اور مال و دولت كا حريص بنا ديا هے اور جہاں سے مال و زر ملنے كى اميد هوتى ہے وہيں دين كے ذريعے دنيا خريد ليتے هيں۔ جس نے مرشد كامل سےاسمِ اَللهُ ذات حاصل كر ليا ہے اور اس كے ذكر اور تصور سے اس كا نفس اماره سے مطمئنہ هو گيا۔ فقر كے راستہ ميں بڑھے مشكل مراحل ، منازل اور آزمائشیں هيں يہ كوئی اماں جى كا گھر ميں پكا پكايا حلوه نہيں ہے كہ جسے آسانى سے كھا ليا جائے۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
08

الف-ازل ابد نوں صحی کیتوسے،ویکھ تماشے گزرے ھو ۔
چوداں طبق دلےِ دے اندر،آتش لائے حجرے ھو ۔
جنہاں حق نہ حاصل کیتا،اوہ دوہیں جہانی اجڑے ھو ۔
عاشق غرق ہووے وچ وحدتباہو، ویکھ تنہاندے مجرے ہو ۔

ازل:ابتدائے کائنات،آغاز
ابد:منتہائے کائنات
نوں:کو
صحی :صحیح
کیتوسے:کیا
چوداں طبق:تمام کائنات جو "کُن " سے تخلیق ہوئی
دلےِ دے:دل کے
آتش لائے حجرے: عشقِ الہیٰ کی اگ نے مستقل دل
جنہاں:جنہوں نے
کیتا: کیا
دوہیں جہانی: دونوں جہانوں میں
اجڑے: اجڑ گئے ، تباہ ہو گئے
وچ : اندر
وحدت: ذات حق تعالیٰ
تنہاندے: ان کے
مجرے: ناچ گانا ، فضول کام یہاں دنیا دار لوگوں کا دنیا میں مشغول ہونا مراد ہے

ترجمہ :
ہم نے ازل سے ابد تک كا سارا كھيل تماشا دیکھ ليا ہے چوده طبق (تمام كائنات) باطن كے اندر پوشيده ہيں جہاں عشقِ الہىٰ كا مستقل ٹھكانہ ہے۔ جنہوں نے اپنا مقصدِ حيات (وصالِ الہىٰ) حاصل نہ كيا وه دونوں جہانوں ميں تباه وبرباد ہو گئے اور عاشق ہى اهلِ دنيا كى فضوليات اور ہنگاموں سے منه موڑ كروحدتِ ذات ميں غرق ہو كر "عين ذات" ہو گئےہيں۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
09

الف- اندرھو تے باہر ھو،ایہ دم ھو دے نال جِلیندا ھو ۔
ھو دا داغ محبت والا،ہر دم پیا سِڑیندا ھو ۔
جتھے ھو کرے رُشنائی،اوتھوں چھوڑ اندھیرا وِیندا ھو ۔
میں قربان تنہا توں باہو،جیہڑاھونوں صحی کریندا ھو ۔

دم : سانس
جِلیندا :رہتا ہے
سِڑیندا :تڑپا رہا ہے۔ جلا رہا ہے
رشنائی :روشنی مراد نور
اوتھوں :وہاں سے
اندھیرا :ظلمت
وِیندا : بھاگ جاتا ہے، چلا جاتا ہے
تنہا توں :اُن کے
نوں: کو
صحی: صحیح۔درست
کریندا : کرتا


ترجمہ:
فقراء اور عارفين نے" ھُو" كو اسمِ اعظم اور سلطان الا اذكار بتايا ہے۔
سلطان العارفين حضرت سخى سلطان باہو رحمتہ الله عليه بيان فرماتے ہيں:
* اسمِ اللهُ جلّ جلاله، كے چار حروف ہيں " ا،ل،ل،ه "۔ جب اسمِ اللهُ سے"الف"جدا كيا جائے تو يہ لِلہ ره جاتا ہےجب الف كے بعد پہلا "ل" بھى جدا ہو جائے تو "لَهُ"ره جاتا ہے اور جب دوسرا "ل" بھى جدا كر ديا جائے تو يہ"ھو" ره جاتا ہےاور يہ چاروں اسمائے اعظم "اللهُ،لِله،لَهُ اورهُو اسمِ اللهُ ذات ہيں (عين الفقر)۔
* شيخِ اكبر محى الدين ابنِ عربى رحمتہ الله عليه فتوخاتِ مكيہ جلد دوم ميں فرماتے هيں "ھُو" عارفين كا آخرى اور انتہاٸى ذكر ہے"۔
* سلطان العارفين خضرت سخى سلطان باهو رحمتہ الله عليه نے "هُو" كو عارفین کا آخرى اورانتہاٸى ذكر قرار ديا ہے:
ذاكراں را انتہا" ھُو" شد تمام
ترجمہ: ذكرِ ھُو ذاكرين كا آخرى ذكر ہے۔
* اسمِ اللهُ ذات سے چار اسم ظاہر ہوتے ہيں اول اسمِ اللهُ جس كا ذكر بہت ہى افضل ہے جب اسمِ اللهُ سے "الف" جدا كيا جائے تو يہ اسمِ لِلہ بن جاتا ہےاسمِ لِلہ كا ذكر فيضِ الہٰى ہے جب اسمِ لِلہ كا پہلا "ل" جدا كيا جائے تو یہ اسم "لَهُ"بن جاتا ہے اسم "لَهُ " کا ذکر عطائے الہیٰ ہے جب دوسرا "ل " بھی جدا کر دیا جائے تو یہ "ھُو " بن جاتا ہے اور اسمِ "ھُو " کا ذکر عنایتِ الہیٰ ہے۔ (محک الفقر کلاں)
ابتدا "ھُو " انتہا "ھُو "ہر کہ با "ھُو" می رسد
عارفِ عرفاں شود ہر کہ با "ھُو" "ھُو " شود
ترجمہ : ابتدا بھی "ھُو" ہے انتہا بھی "ھُو" ہے جو کوئی "ھُو" تک پہنچ جاتا ہے وہ عارف ہو جاتا ہے اور "ھُو" میں فنا ھو کر "ھُو" بن جاتا ہے ۔
اس بیت میں حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ الله علیہ سلطان الا اذکار ھُو کے اسرار بیان فرما رہے ہیں کہ جو طالب "تصور اسمِ اللهُ ذات"،ذکرِ ھُو اور مرشد کامل اکمل کی مہربانی سے ھُو کا راز حاصل کر لیتا ہے اسے ظاھر و باطن میں ہر طرف "ھُو" ہی نظر اتا ہے اور حالت یہ ہو جاتی ہے "تم جدھر چہرہ کرو گئے تمہیں الله تعالیٰ کا ہی چہرہ نظر آئے گا"(القرآن ) ۔ ھُو کی محبت جب دل کے اندر گھر کر لیتی ہے تو دوسری ہر محبت جل کر راکھ ھو جاتی ہے اور صرف ذاتِ باری تعالیٰ کی محبت اور عشق ہی باقی رہ جاتی ہے ۔ الله بس ماسویٰ الله ہوس ۔ آپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں کہ میں ان لوگوں کے قربان جاؤں جو ھُو کے راز کو حاصل کرنے کے لیے ہر لمحہ بے قرار اور بے سکون رہتے ہیں اور اپنی منزل ھُو کو پا ہی لیتے ہیں۔

 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
10

الف- ادھی لعنت دنیاں تائیں،تے ساری دنیاں داراں ھو ۔
جیں راہ صاحب دے خرچ نہ کیتی،لین غضب دیاں ماراں ھو ۔
پیواں کولوں پترکوہاوے،بھٹھ دنیاں مکاراں ھو ۔
جنہاں ترک دنیاں کیتی باہو،لیسن باغ بہاراں ھو ۔

اَدّھی : آدھی
تائیں : پر
تے : اور
دنیاں داراں : دنیا دار ، طالبان دنیا
جیں : جس نے
راہ صاحب دے : الله تعالیٰ کی راہ میں
کیتی : کی
لین : لیتے ہیں
غضب دیاں ماراں : سخت سزائیں
پیواں : باپوں باپ کی جمع
کولوں : سے
پتر : بیٹے
کوہاوے : مروائے ، ذبح کروائے
بھٹھ : بھٹی میں جل جائے
مکاراں : مکار
جنہاں : جنہوں نے
ترک دنیاں کیتی : دنیا ترک کی
لیسن : لیں گئے
باغ بہاراں : مزے


ترجمہ :
ترکِ دنیا سے مراد ترک حُبِّ دنیا ہے اس بیت میں آپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں آدھی لعنت دنیا پر اور ساری دنیا داروں پر ہے جو الله تعالیٰ کی محبت کو چھوڑ کر دنیا اور خواھشاتِ دنیا کی محبت میں مبتلا ہیں ۔ جنہوں نے دنیا 'مال و دولت 'جان اور اولاد الله کی رضا کے لیے خرچ نہ کی وہ دنیا اور آخرت میں سخت سزا کے مستحق ہیں ۔ دنیا انسان کو اس قدر حرص اور حسد میں مبتلا کر دیتی ہے کہ باپ اپنے بیٹے تک کو اس کے لیے قتل کر دیتا ہے ۔ اے مکار دنیا ! خدا کرے تجھے آگ لگ جائے ، جو لوگ دنیا کی محبت ترک کر کے الله پاک کی محبت میں مبتلا ھو جاتے ہیں وہی آخرت اور دنیا میں کامیاب اور سرخرو ہوتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
11

الف- ایہہ دنیاں زن حیض پلیتی،ہرگز پاک نہ تھیوے ھو ۔
جیں فقر گھر دنیاں ہووے،لعنت اس دے جیوے ھو ۔
حُبّ دنیا دی ربّ تھیں موڑے،ویلے فکر کچیوے ھو ۔
سہ طلاق دنیا نوں دئیے باہو ،جیکرسچ پچھیوے ھو ۔


زن: عورت
نہ تھیوے: نہیں ہوتی
جیں: جس نے
جیوے: جینے پر۔ زندہ رہنے پر
ربّ تھیں موڑے: الله تعالیٰ سے دور کرے
ویلے: بروقت
کچیوے: کیا جائے
سہ طلاق: تین طلاقیں
دنیا نوں دئیے : دنیا کو دیں
جیکر: اگر
پچھیوے: پوچھا جائے


ترجمہ :
جس طرح حائضہ عورت خیض کی حالت میں کتنی بار غسل کر لے یا پاک ہونے کی کوشش کرے، پاک نہیں ہو سکتی یہی مثال دنیا کے ہے۔ اس نجس و ناپاک دنیا کو کوئی پاک نہیں کر سکتا اور جو دعویٰ تو فقر کا کرتا ہو لیکن گھر میں مال و متاعِ دنیا جمع کر رکھا ہو اور دل میں ان کی محبت رکھتا ہو اس پہ خدا تعالیٰ کی لعنت ہے کیونکہ دنیا اور دنیاوی مال و متاع تو راہِ فقر سے گمراہ کر کے اپنی محبت میں جھکڑ لیتے ہیں۔ آپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں کہ طالب کو اس سے بچنا چاہیے اور جس طرح عورت کو تین طلاقیں دے دیں تو اس جدائی ہو جاتی ہے اور وہ شرعی تور پر حرام ہو جاتی ہے اور اس سے کوئی تعلق یا واسطہ باقی نہیں رہتا اُسی طرح تو دنیا سے پیچھا چھوڑا لے۔
 

یوسف سلطان

محفلین
الف
12

الف- ایمان سلامت ہر کوئی منگے،عشقَ سلامت کوئی ھو ۔
منگن ایمان شرماون عشقوں،دل نوں غیرت ہوئی ھو ۔
جس منزل نوں عشق پچاوے ،ایمان نوں خبر نہ کوئی ھو ۔
میراعشق سلامت رکھیں باہو، ایمانوں دیاں دھروئی ھو ۔
سلامت: سلامتی ، محفوظ
منگن: مانگنا
شرماون: شرمانا
عشقوں: عشق سے
نوں: کو
پچاوے: پہنچائے
ایمانوں: ایمان کو
دیاں: دوں
دھروئی: قسم ، واسطہ دینا


ترجمہ :
ایمان کی سلامتی تو ہر کوئی طلب کرتا ہے لیکن عشق کی نعمت اور سلامتی کوئی کوئی ہی طلب کرتا ہے۔ یہ طالبانِ دنیا و عقبٰی ہیں جو صرف ایمان کی سلامتی کے طلب گار ہیں اور عشقِ الہیٰ سے ڈرتے ہیں کیونکہ یہ کوئی آسان راستہ نہیں ہے ان کی یہ حالت دیکھ کر میرے دل کے اندر غیرتِ فقر و عشقِ الہیٰ اجاگر ہو رہی ہے حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جن منازل و مقامات تک عشق کی رسائی ہے ایمان کو اس کی خبر تک نہیں ہے۔ آخری مصرعہ میں آپ رحمتہ الله علیہ دعا گو ہیں کہ میرے عشق کو سلامت رکھنا اور مجھے استقامت عطا کرنا کیونکہ یہ عشق مجھے ایمان سے زیادہ عزیز اور محبوب ہے۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
13

الف- ایہہ تن میرا چشماں ہووے،تےمیں مرشد ویکھ نہ رَجّاں ھو ۔
لُوں لُوں دے مُڈھ لکھ لکھ چشماں،ہِکّ کھولھاں تے ہِکّ کَجاں ھو ۔
اتنا ڈِٹھیاں صبر نہ آوے، میں ہور کِتے ول بَھجاں ھو ۔
مرشد دا دیدار ہے باہو،مینوں لکھ کروڑاں حَجاں ھو ۔

تن: جسم
چشماں: چشم کی جمع آنکھیں
ہووے: ہو
تے: تو
ویکھ : دیکھ کر۔ دیدار کر کے
رَجّاں: دل کا بھرنا ۔ سیر ہونا
لُوں لُوں: ایک ایک بال
دے: کے
مُڈھ: جڑ
لکھ لکھ : لاکھ لاکھ
کھولھاں: کھولتا ہوں
تے: اور
ہِکّ: ایک
کَجاں: بند کرتا ہوں
ڈِٹھیاں: دیکھ کر
صبر نہ آوے: صبر نہیں اتا
ہور کِتے ول: اور کس جانب ۔ اور کس طرف
بَھجاں: بھاگوں ۔ جاؤں
مینوں : مجھے
حَجاں : حج کی جمع


ترجمہ :
کاش میرا سارا جسم آنکھ بن جائے تا کہ وہ یکسو ہو کر ہر لمحہ مرشد کا دیدار کرتا رہے بلکہ یہ بھی کم ہے۔ میری طلب تو یہ ہے کہ میرے جسم کے ہر بال میں لاکھ لاکھ آنکھیں ہوں تا کہ آنکھ جھپکتے وقت لمحہ بھر کے لئے کچھ آنکھیں بند بھی ہو جائیں تو میں باقی کھلی آنکھوں سے مرشد کے دیدار میں محو رہوں۔ مرشد کے دیدار میں ہر لمحہ محو رہنا ہی طالب کے لیے کامیابی کی کلید ہے۔ اتنی آنکھوں سے دیدار کرنے کے باوجود دیدار کی طلب اور خواہش کم نہیں ہو رہی بلکہ دیدار کے لیے بے چینی اور بے قراری بڑھتی ہی جا رہی ہے اور یہی بےقراری اور بے چینی مجھے فقر کی اگلی منزل تک رسائی کی خبر دیتی ہے اور مرشد کا دیدار تو میرے لیے کروڑو ہا حج کے برابر ہے۔ الله کرے یہ حالت مجھے ہمیشہ نصیب رہے ۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
14

الف- اندر وچ نماز اساڈی،ہکسے جا نتیوے ھو ۔
نال قیام رکوع سجودے،کر تکرار پڑھیوے ھو ۔
ایہہ دل ہجر فراقوں سڑیا،ایہہ دم مرے نہ جیوے ھو ۔
سچا راہ محمؐد والا باہو،جیں وچ ربّ لبھیوے ھو ۔


اساڈی:ہماری
ہکسے جا: ایک ہی جگہ
نتیوے: نیت کرنا ،نماز قائم کرنا
نال: ساتھ
سجودے: سجدے
ہجر: دوری
فراقوں: فراق
سڑیا: جل گیا ہے
جیوے: جیتا ہے
سچا راہ : صراطِ مستقیم ۔ سیدھا راستہ
لبھیوے: ملے


ترجمہ :
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ الله علیہ اس بیت میں "دائمی نماز" یعنی قلبی ذکر و تصور اسمِ اللهُ ذات کو بیان فرما رہے ہیں:
ہم باطن میں ہر لمحہ نمازِعشق ادا کر رہے ہیں یہ نمازِعشق قیام 'رکوع اور سجدے سمیت ہر سانس اور ہر دم ایک ہی جگہ ادا کی جا رہی ہے لیکن اس قدر قربِ الہیٰ اور حضورِحق کے باوجود دل ہجر اورفراق کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور ہر لمحہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ صراطِ مستقیم تو فقرِ محمدی صلی الله علیہ وسلم ہے جس میں دیدارِ حق تعالیٰ نصیب ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
15

الف- اکھیں سرخ موہیں تے زردی،ہر ولوں دل آہیں ھو ۔
مہا مہاڑ خشبوئی والا،پہونتا ونج کداہیں ھو ۔
عشق مُشک نہ چھپے رہندے،ظاہر تھین اُتھاہیں ھو ۔
نام فقیر تنہاندا باہو،جنہاں لامکانی جائیں ھو ۔

اکھیں: آنکھیں
موہیں: منہ
تے: پر
زردی: رنگ زرد ہونا
ہر ولوں: ہر طرف سے
مہا : عظیم ۔ بڑا
مہاڑ: رخ ، سمت
خشبوئی والا: خوشبو والا
پہونتا: پہنچا
ونج: جا کر
کداہیں : کہیں کا کہیں
چھپے : پوشیدہ
تھین : ہو جائیں
اتھاہیں : یہیں پر ۔ اسی جگہ
تنہاندا : ان کا
جنہاں : جن کا
لامکانی : لا مکان
جائیں : جگہ ۔ مقام


ترجمہ :
عشقِ الہیٰ کی شدت نے شوقِ دیدار کو اور بڑھا دیا ہے یارِ حقیقی کے ہجرو فراق میں جسم زرد ہے اور آنکھوں میں غم کے آنسو ہیں اور ہر سانس کے ساتھ یارِ حقیقی کی جدائی میں درد، ہجراور فراق سے ایک "آہ" نکلتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عشق اور مُشک کبھی بھی چھپے نہیں رہتے،ہمارا حال سب پر عیاں ہے۔ فقیر تو وہ ہے جس کا مقام "لا مکان" ہے۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
16

الف-اندر کلمہ کِل کِل کردا،عشقَ سکھایا کلماں ھو ۔
چوداں طبق کلمے دے اندر،قرآن کتاباں علماں ھو ۔
کانے کپ کے قلم بناوَن،لکھ نہ سَکن قلماں ھو ۔
باہو ایہہ کلمہ مینوں پیر پڑھایا،ذرا نہ رَہیاں اَلماں ھو ۔

کِل کِل : بے سکون ۔ شور ۔ بے چین
کردا: کرتا ہے
کلماں: کلمہ
چوداں طبق : تمام کائنات
کلمے دے اندر: کلمہ میں ہے
کانے: ایک محسوس سرکنڈا جس سے تحریر کرنے کے لیے قلم تیار کیا جاتا ہے
کپ کے: کاٹ کر
بناوَن: بنائیں
لکھ نہ سَکن: نہیں لکھ سکتی
قلماں : قلم کی جمع
رَہیاں : رہیں
اَلماں : غم والم


ترجمہ:
اس بیت میں توحید کے اسرار پوشیدہ ہیں۔ توحید کا مرتبہء اول زبان سے کلمہ پڑھنا،مرتبہء دوم تصدیق قلب سے کلمہ پڑھنا ہے، مرتبہء سوم یہ ہے کہ کلمہ کی حقیقت کا مشاہدہ ہو جائے۔ یہ مقربین کا مقام ہے ۔ مرتبہء چہارم یہ ہے کہ جملہ موجودات کے وجود میں بجز ذاتِ الله، کسی اور کو نہ دیکھنا اور کلمہ کی اس حقیقت اور کنہہ تک پہنچنا طالب کا اور پہنچانا مرشد کا کام ہے۔ اپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں :
" میرے اندر کلمہ کی جو حقیقت موجود ہے اسے میں نے عشق کی وجہ سے پایا ہے اور کلمہ کی حقیقت نے باطن کے اندر ہل چل مچا رکھی ہے۔ پوری کائنات'تمام انسانی کتابوں اور قرآنِ مجید کا علم کلمہ طیبہ کے اندر ہے۔ دنیا کے تمام مفسرین اور اہلِ قلم اس کلمہ کی شرح لکھتے چلے آ رہے ہیں لیکن ابھی تک اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکے۔"
آپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں "یہ کلمہ مجھے میرے مرشد نے سمجھایا اور تلقین کیا ہے (یعنی مرشد کی تلقین کے بغیر کلمہ کی حقیقت بھی سمجھ میں نہیں آتی) اور میں نے اس کی حقیقت اور کنہہ کو پا لیا ہے اب مجھے کوئی غم اور فکر نہیں ہے۔"
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
17

ا لف- ایہہ تن ربّ سچے دا حجرا،وچ پا فقیراں جھاتی ھو ۔
نہ کر منت خواج خضر دی،تیرے اندر آب حیاتی ھو ۔
شوق دا دِیوا بال ہَنیرے،متاں لبھی وست کھڑاتی ھو ۔
مرن تھیں اَگے مر رہے باہو،جنہاں حق دی رمز پچھاتی ھو ۔

تن: جسم
حجرا: مکان۔ جائے قیام
وچ: اندر
فقیراں : فقیر۔ طالبِ مولیٰ
جھاتی: دیکھ
خواج خضر: حضرت خضر علیہ سلام
آب حیاتی: آبِ حیات
دِیوا: دیا۔ چراغ
بال: روشن کر۔ جلا
ہَنیرے: اندھیرے
متاں: شاید
لبھی: مل جائے
وست : چیز۔ اثاثہ
کھڑاتی : گُم شدہ
مرن تھیں اَگے مر رہے : مرنے سے پہلے مر گئے( حدیث پاک
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا مرنے سے پہلے مرجاؤ)
رمز: راز
پچھاتی : جان لی۔ پہچان لی


ترجمہ:
آپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں کہ تیرا جسم اللہ پاک کی جلوہ گاہ ہے تو اپنے جسم کے اندر جھانک کر تو دیکھ اور اس خضر علیہ سلام کا محتاج نہ بن جس نے آبِ حیات پی کر حیاتِ جاودانی حاصل کر لی۔ بلکہ تیرے اندر تو عشقِ الہیٰ کا آبِ حیات موجود ہے۔ اپنے اندر عشق کا چراغ روشن کر شاید تجھے کھوئی ہوئی امانتِ حقیقی (ذاتِ حق تعالیٰ) مل جائے جو تیرے دل کے اندر ازل سے پوشیدہ ہے اورجنہوں نے اس راز کو پا لیا وہ موت سے پہلے مر گئے اور انہوں نے حیاتِ جاودانی حاصل کر لی۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
18

الف- ایہہ تن ربّ سچے دا حجرا،دل کھڑیا باغ بہاراں ھو ۔
وِچے کوزے وِچے مُصَلّے،وچ سجدے دیاں تھاراں ھو ۔
وچے کعبہ وچے قبلہ،وچے اِلاََّ اللہ پکاراں ھو ۔
کامل مرشد ملیا باہو،اُوہ آپے لَیسی ساراں ھو ۔
کھڑیا : کِھلا
بہاراں: بہار
وِچے:اس میں
کوزے:کوزہ کی جمع وہ برتن جس سو وضو کیا جائے
مُصَلّے: مصلی جس پر نماز ادا کی جائے
دیاں: کی
تھاراں : جگہ ۔ مقامات
اِلاََّ اللہ : اثبات ۔ مگر الله
پکاراں: پکارنا ۔ بلانا
اُوہ: وہ
آپے: خود
لَیسی: لے گا
ساراں: خبر گیری ۔ نگہبانی

ترجمہ:
جب سے "باطن" کی یہ حقیقت ہم پر ظاھر ہوئی ہے کہ میرا دل تو محبوبِ حقیقی کی جلوہ گاہ ہے' میری خوشی اور مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ میرے اندر ہی کوزے ہیں کہ ان سے دل کی طہارت اور پاکیزگی کا وضو کر کے اور تزکیہ نفس کے مُصَلے پر کھڑے ہو کر جب محبوبِ حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہوا تو مجھ پر اِلاّ الله (اثبات) کی حقیقت آشکار ہوئی کہ کائنات میں سوائے الله تعالیٰ کے کچھ موجود نہیں ہے۔ یہ سب کچھ مجھے اپنے مرشد کامل سے نصیب ہوا ہے اور میرا مرشد ہمیشہ میرا نگہبان اور محافظ ہے ۔


 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
19

الف- اُوجَھڑ جھل تے مارو بیلا،جتھے جالن اساڈی آئی ھو ۔
جس کدھی نوں ڈھاہ ہمیشاں،اوہ اج ڈھٹھی کَل ڈھائی ھو ۔
نِیں جنہاں دے وَہے سراندی،اوہ سکھ نہ سوندے راہی ھو ۔
ریت تے پانی جتھےہون اکٹھے باہو،اتھے بنی نہ بَجھدی کائی ھو ۔

اُوجَھڑ : جھاڑ جھنکار سے بھرا علاقہ جہاں سے گزرنا مشکل ہو
جھل : گھنا جنگل
مارُو: ویرانے
بیلا: دریا کے کنارے گھاس اور کائی کا جنگل
جالن: زندگی گزارنا ۔ گزر اوقات
اساڈی: ہماری
کدھی: کنارہ
نوں: کو
ڈھاہ: دریا کے کنارہ کا دریا میں گرنا
ہمیشاں: ہمیشہ
ڈھٹھی: گری
نِیں: ندی
جنہاں دے: جن کے
وہے : بہتی ہے
سراندی: سرہانے
سُکھ : سکون
سوندے: سوتے
راہی: راہگیر ۔ مسافر
اُتھے: وہاں
بَنی: بند
بَجھدی: باندھی جاتی
کائی: کوئی


ترجمہ:
یہ دنیا خطرناک 'گھنے' خوفناک جنگل اور ویرانے کی مانند ہے اور ہمیں اس میں زندگی گزارنی پڑھ رہی ہے اور اس دنیا کی مثال کسی دریا کے کنارے کی طرح ہے جو ہمیشہ گرنے کے خطرہ سے دو چار رہتا ہے۔ اور ہماری مثال تو اس آدمی کی طرح ہے جو کسی ندی کے کنارے لیٹا ہو اور اس ڈر سے بیدار رہتا ہو کہ کہیں سوتے ہوئے ندی میں نہ گر جائے۔ ریت اور پانی کو ملا کر کوئی مستقل بند نہیں باندھا جا سکتا آخر پانی ریت کو بہا کر لے جائے گا اسی طرح یہ دنیا ریت کی طرح ہے جو ایمان کو بہا لے جاتی ہے اور پھر یہ دنیا فانی ہے اور ریت کے بند کی طرح باقی نہیں رہے گی ۔
جاری ہے ۔۔۔
 
Top