حسن نثار کی نعت

تيرے ہوتے جنم ليا ہوتا
کوئ مُجھ سا ، نہ دُوسرا ہوتا
سانس لیتا توں، اور میں جی اُٹھتا
کاش مکّہ کی میں فضا ہوتا
ہِجرتوں ميں پڑاؤ ہوتا ميں
اور تُو کُچھ دير کو رُکا ہوتا
تيرے حُجرے کے آس پاس کہيں
ميں کوئی کچاراستہ ہوتا
بيچ طائف بوقتِ سنگ زنی
تيرے لب پر سجی دُعا ہوتا
کِسی غزوہ ميں زخمی ہو کر ميں
تيرے قدموں پہ جاگِرا ہوتا
کاش اُحد ميں شريک ہو سکتا
اور باقی نا پِھر بچا ہوتا
تیری کملی کا سوت کیوں نہ ہوا
کہ تیرے شانوں پہ جھولتا ہوتا
چوب ہوتا میں تیری چوکھٹ کی
یا تیرے ہاتھ کا عصا ہوتا
تيری پاکيزہ زِ ندگی کا ميں
کوئ گُمنام واقِعہ ہوتا
لفظ ہوتا میں کسی آیت کا
جو تیرے ہونٹ سے ادا ہوتا
ميں کوئ جنگجُو عرب ہوتا
جو تيرے سامنے جُھکا ہوتا
ميں بھی ہوتا تيرا غُلام کوئی
لاکھ کہتا ، نہ ميں رِہا ہوتا
سوچتا ہوں تب جنم لیا ہوتا
جانے پھر کیا سے کیا ہوا ہوتا
چاند ہوتا تیرے زمانے کا
پھر تیرے حکم سے بٹا ہوتا
پانی ہوتا اُداس چشموں کا
تیرے قدموں میں بہہ گیا ہوتا
پودا ہوتا میں جلتے صحرا میں
اور تیرے ہاتھ سے لگا ہوتا
تیری صحبت مجھے ملی ہوتی
میں بھی تب کتنا خوش نما ہوتا
مجھ پر پڑتی جو تیری نظر کرم
آدمی کیا، میں معجزہ ہوتا
ٹکڑا ہوتا ، میں ایک بادل کا
اور تیرے ساتھ گھومتا ہوتا
آسماں ہوتا، عُہد نبوی کا
تجھ کو حیرت سے دیکھتا ہوتا
خاک ہوتا ميں تيری گليوں کی
اور تيرے پاؤں چُومتا ہوتا
پيڑہوتا کھجُور کا ميں کوئی
جِس کا پھل تُو نے کھا ليا ہوتا
بچّہ ہوتا اِک غريب بيوہ کا
سر تيری گود ميں چُھپا ہوتا
رستہ ہوتا تيرے گُزرنے کا
اور تيرا رستہ ديکھتا ہوتا
بُت ہی ہوتا ميں خانہ کعبہ کا
جو تيرے ہاتھ سے فنا ہوتا
مُجھ کو خالق بناتا غار ،حسن
اور ميرا نام بھی حِرا ہوتا
 
Top