حرفِ افسوس زباں تک کبھی آنے نہ دیا - ریحان اعظمی

حسان خان

لائبریرین
حرفِ افسوس زباں تک کبھی آنے نہ دیا
دامنِ صبر تجھے ہاتھ سے جانے نہ دیا
خواب منت کشِ تعبیر کہاں سے ہوتا
چشمِ بے خواب تلک نیند کو آنے نہ دیا
مجھ کو تسلیم کہ پندارِ انا نے میرے
کسی روٹھے ہوئے انساں کو منانے نہ دیا
زخمِ دل نے بڑا ماحول بنائے رکھا
درد کو اٹھ کے مرے پاس سے جانے نہ دیا
ہجر میں قرض تھے کچھ اشک مری آنکھوں پر
میرے احباب نے وہ قرض چکانے نہ دیا
لاکھ مفلس سہی اک دیپ جلا سکتا تھا
پر ہوا نے مجھے اک دیپ جلانے نہ دیا
شکریہ اے غمِ جاناں کہ مرے ہونٹوں کو
دو گھڑی بارِ تبسم بھی اٹھانے نہ دیا
خود تو وہ بچھڑا مگر چھوڑ گیا ہے یادیں
جشنِ تنہائی بھی جی بھر کے منانے نہ دیا
غمِ جاناں، غمِ ہجراں تو کبھی فکرِ معاش
چین ریحان کو تُو نے بھی زمانے نہ دیا
(ریحان اعظمی)
 
Top