اقتباسات حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد بن محمد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔حیات الحیوان۔

الشفاء

لائبریرین
شیخ عارف باللہ ابوالحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی کہ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام سے امام غزالی کے متعلق مفاخرت فرما رہے ہیں۔ پس آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، کیا آپ دونوں کی امت میں غزالی جیسا عالم ہوا ہے؟ پس حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰی علیھم السلام نے فرمایا کہ نہیں۔۔۔ (رواہ الشیخ ابوالحسن شاذلی)

شیخ الامام عارف باللہ استاذ رکن الشریعت والحقیقت ابوالعباس مرسی نے امام غزالی کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کے لئے صدیقیت عظمٰی کی شہادت دی ہے۔ اسی طرح شیخ جمال الدین الاسنوی نے اپنی کتاب “المہمات“ میں امام غزالی کے متعلق لکھا ہے کہ “ آپ ہر موجود کے لیے قطب الوجود وخلاصہ اہل الایمان و بطریف کے روح رواں تھے جو ان کو رضائے رحمٰن تک پہنچاتی تھی۔ امام غزالی کے وسیلہ سے ہر صدیق اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا تھا۔ آپ سے بغض نہیں رکھتا مگر ملحد یا زندیق۔ آپ اپنے زمانے کے مشاہیر میں منفرد شخصیت تھے اور کوئی شخص بھی آپ کا ہم پلہ نہیں تھا۔۔۔(کتاب المہمات)

حجۃ الاسلام زین الدین محمد الغزالی بغداد میں مدرسہ نظامیہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد شام چلے گئے اور دمشق کی بزاویہ الجامع(جامع مسجد) میں قیام فرمایا۔ پھر وہاں سے بیت المقدس تشریف لے گئے۔ پھر اس کے بعد مصر کا قصد کر کے اسکندریہ میں ایک عرصہ تک مقیم رہے پھر اس کے بعد اپنے وطن طوس پہنچ گئے۔ پھر طوس سے نیشا پور پہنچے اور وہاں کے مدرسہ نظامیہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ پھر اس کے بعد تدریس ترک کر کے دوبارہ طوس تشریف لائے اور صوفیاء کے لیے ایک خانقاہ تعمیر کی اور اس میں آپ تلاوت قرآن مجید، وظائف الخیرات اور صحبت صالحین اور عبادت میں وقت گزارتے تھے۔ اس طرح آپ نے دنیا سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لی۔ امام غزالی معتبر عالم تھے۔ ان کی تصانیف بہت مفید ہیں۔ خصوصاً “ احیاء العلوم الدین “ سے کوئی طالب آخرت بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ امام غزالی کی وفات جمادی الثانی ٥٠٥ ھ میں طوس میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔۔۔
("حیات الحیوان" از علامہ محمد بن موسٰی بن عیسٰی الدمیری رحمۃ اللہ علیہ)
 
Top