جون ایلیا حتمی - جون ایلیا

حسان خان

لائبریرین
ہم دیکھ رہے ہیں کہ انسانوں نے انسانیت کی طرف سے کس طرح آنکھیں پھیر لی ہیں، محبت ہماری بستیوں میں مفقود ہو گئی ہے، ہر طرف نفرت کا دور دورہ ہے، نفرت کے جو منظر ہم نے اپنے دور میں دیکھے ہیں انہوں نے انسانیت کی نگاہیں نیچی کر دی ہیں۔ ہمیں اپنی بستیوں کی پیش گاہوں پر بدی، بد اندیشی، اور بد کوشی کی منحوس تمثیلوں کے سوا اور کیا نظر آیا۔ سیاست نے کیا کیا؟ فقط سازشیں کیں، اس کا ماحصل یہ ہے کہ زندگی حرام ہو کر رہ گئی ہے۔ غرض مند علم نے کیا فرض انجام دیا؟ جہالت کے حوصلے بڑھائے، اس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ بدی کے نئے نئے گر سیکھ گئے ہیں۔ مذہب نے کیا معجزہ دکھایا؟ اس کی تفصیل کے لیے ایک طومار چاہیے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ اگر آدمی کا وجود کوئی تجربہ ہے تو یہ ایک بہت ہی برا تجربہ ہے۔

اس ملک کی اندھی سیاست اب بھی نچلی نہیں بیٹھتی، یہ سیاست انسانی مسرتوں کے خلاف سازش کرنے کی خوگر ہے، اس کا کام نفرتیں پھیلانا اور اپنا کاروبار چلانا ہے۔ ہمیں اس سیاست کے خلاف جنگ کرنی ہے اور اس کے خداوندوں کو رسوا کرنا ہے، یہ غریبوں کی جنگ ہے جو غاضبوں کے خلاف ہوگی، یہ مظلوموں کی جنگ ہے جو ظالموں سے کی جائے گی، اگرچہ یہ جنگ جاری ہے، پر اسے فیصلہ کن طور سے شروع ہونا ہے، یہی وہ جنگ ہوگی جو انسانیت کو فیروزمندی کی بشارت دے گی، اس جنت میں سب غریب اور سب مظلوم ایک طرف ہوں گے اور سارے غاضب اور سارے ظالم ایک طرف، ہاں اس جنگ میں غاضبوں اور ظالموں کی موت ہے، سو وہ غریبوں اور مظلوموں میں تفرقے ڈالتے ہیں اور آئندہ اُن کی صفوں میں اور بھی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔

سن لو! وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں جو غریبوں اور مظلوموں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے نفرت دلائیں۔ سندھی اور غیر سندھی کا جھگڑا آخر کیوں کھڑا کیا گیا ہے، اس لیے کہ سندھی اور غیر سندھی غاضب، سندھی اور غیر سندھی غریبوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر اپنا حساب درست رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی ان کی سیاست ہے اور یہی ان کی حکمت۔

سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری جدید درس گاہیں ان فتنہ انگیزیوں کا مرکز ہیں اور ہمارے طلبہ اور تعلیم یافتہ لوگ ان تعصبات کے سب سے پرجوش وکیل۔ اگر یہ لوگ فریب کار نہیں ہیں تو یقیناً فریب خوردہ ہیں۔ یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ اس ملک میں جتنی نفرتیں پھیلائی ہیں وہ پڑھے لکھے لوگوں ہی نے پھیلائی ہیں۔ یہاں پڑھا لکھا ہونا اور تعصبی ہونا دونوں کا ایک ہی مطلب ہے۔ علم نے جہل کو جس والہانہ انداز سے اپنے سینے سے لگا رکھا ہے وہ ہمارے دور کا ایک طرفہ ماجرا ہے۔ اس کی وجہ اس نظام میں تلاش کی جائے جہاں ہر شے جنسِ تجارت بن گئی ہے، چاہے وہ علم ہو یا فن۔ وہ نظام جس میں ایک کا نقصان دوسرے کا نفع ہے اور ایک کا زوال دوسرے کا کمال۔

تم ناخواندہ لوگوں سے بات کرو، اگر انہیں بہکا نہ دیا گیا ہو تو پھر تم دیکھو گے کہ ان میں نہ زبان کا تعصب ہے اور نہ علاقے کا۔ اگر انہیں کسی پر غصہ آئے گا یا وہ کسی سے نفرت کریں گے تو اس کے حق میں کوئی فلسفہ نہیں گھڑیں گے۔ ان کی نفرت اس شخص کی ذات سے آگے نہیں بڑھے گی جس سے اُنہیں اذیت پہنچی ہو۔ مگر یہ پڑھے لکھے لوگ اپنی نفرت اور غصے کو ایک نعرہ اور نظریہ بنا کر پیش کریں گے۔ یہ لوگ مفسدانہ کلیے بنائیں گے اور گروہوں کے درمیان فتنے پھیلائیں گے۔ ہمیں ان لوگوں کی زبان سے اس قسم کے مقولے سننے کو ملیں گے کہ ہر سندھی تعصبی ہوتا ہے، ہر پنجابی سندھیوں سے دشمنی رکھتا ہے، ہر اردو بولنے والا دوسرے لوگوں کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ یہ بے رحمانہ کلیے صرف چند مثالوں کو سامنے رکھ کر بڑی شتابی اور نہایت بے شرمی کے ساتھ لاکھوں اور کروڑوں انسانوں پر تھوپ دیے جاتے ہیں۔جہاں تک خود اِس 'تعصب' اس 'دشمنی' اور اس 'سازش' کا تعلق ہے تو یہ اُس معاشرے کی دین ہیں جس میں ایک آدمی دوسرے آدمی کا حق مار کر ہی اپنی بیوی سے سرخرو ہوتا ہے۔ یہ نکتہ سمجھ لیا جائے گا تو نگاہوں کے سامنے سے ساری دھند چھٹ جائے گی۔ آج کل ان حکیمانہ کلیوں اور دانش مندانہ مقولوں کی سماعتوں کے بازاروں میں بڑی مانگ ہے۔ لوگ یہ کلیے اور مقولے تحفے کے طور پر ایک دوسرے کی سماعت کو پیش کرتے ہیں۔

سمجھا جائے کہ یہ معاشرہ تاریخ کے جس دور سے گزر رہا ہے وہاں غرض مند طبقے اسی قسم کے شوشے اٹھایا کرتے ہیں۔ اسی طرح کے اشغلے چھوڑا کرتے ہیں۔ ورنہ زبانوں اور علاقوں کے درمیان بھلا کیا جھگڑا ہے۔ آخر اس کے کیا معنی ہیں کہ تم فلاں آدمی سے اس لیے نفرت کرنے لگو کہ وہ ایک خاص زبان بولتا ہے یا ایک خاص علاقے میں رہتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہر گروہ کو ہر گروہ کا دشمن ہونا چاہیے۔

ذرا یہ تو سوچا جائے کہ آخر زبان ہے کیا چیز؟ کیا وہ کوئی کعبہ ہے، کلیسا ہے، مندر ہے یا کیا وہ کوئی خدا ہے؟ زبان ان اصوات یا ان تحریری علامات کا مجموعہ ہے جو معانی پر دلالت کرتی ہیں۔ اگر ہم کسی زبان سے نفرت کرتے ہیں تو شاید اس کا مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ ہم اُس زبان کی اصوات یا علامات سے نفرت کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اصوات یا علامات سے بھلا کیا نفرت، کہ اصوات تو بس لہریں ہیں اور علامات صرف نشان۔ کسی زبان سے نفرت کرنے کا مطلب غالباً یہ ہوگا کہ ہم ان معانی یا خیالات سے نفرت کرتے ہیں جن کی وہ زبان حامل ہے۔ اب فرض کیا کہ ہم سندھی زبان سے نفرت کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ سندھی زبان میں جو معانی یا خیالات معرضِ اظہار میں لائے گئے ہیں، ہمیں ان سے نفرت ہے۔

سو، اب لگے ہاتھوں ہمیں یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ آخر وہ کون سے معانی یا خیالات ہیں جو سندھی میں ظاہر کیے گئے ہیں اور ہماری نفرت کا سبب بنے ہیں۔ اور کیا وہ ایسے معانی یا خیالات ہیں جن کا اظہار پنجابی، اردو، پشتو یا کسی دوسری زبان کی ساخت کسی طرح بھی قبول نہیں کرے گی؟ تو ظاہر ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ سندھی ایک زبان ہے اور اس میں یہ مفہوم بھی ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ 'خدا ہے' اور یہ بھی کہ 'خدا نہیں ہے'، پھر زبانوں سے نفرت کیسی؟

اب رہا علاقہ، تو اگر کوئی آدمی کسی علاقے کی بنیاد پر کسی آدمی سے نفرت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے مخصوص حدودِ اربعہ، میدانوں، دریاؤں اور پہاڑوں سے نفرت ہے۔ گویا وہ کسی خاص جغرافیے سے نفرت کرتا ہے۔ تو عزیزو! بھلا جغرافیے سے نفرت کرنے کا کیا محل ہے؟ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ سرد ترین علاقوں میں رہنے والے طبعی اسباب کے پیشِ نظر گرم ترین علاقوں کو ناپسند کریں۔ لیکن ان علاقوں کے باشندوں سے نفرت کرنے کی آخر کیا تُک ہے؟

علاقوں کی بنیاد پر نفرت کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کا نقشہ اٹھایا اور اپنے ملک کے سوا ہر ملک پر نفرت کا نشان لگا دیا۔ پھر یہ کیا کہ اپنے صوبے کو چھوڑ کر باقی ہر صوبے پر کشتنی اور سوختنی لکھ دیا۔ پھر اپنا ضلع چھوڑ کر تمام اضلاع کو گردن زدنی قرار دے دیا۔ پھر مزید حسنِ انتخاب کا ثبوت دیا اور اپنے شہر کے سوا تمام شہروں کو ناشدنی ٹھہرا دیا اور نقشہ لپیٹ دیا۔ اس کے بعد پھر یہی فیصلہ قرینِ قیاس نظر آئے گا کہ اپنے گھر کے سوا کوئی گھر بھی زمین پر نظر نہ آئے۔

آخر یہ کیا مذاق ہے! کیا تم لوگ پاگل ہو گئے ہو۔ پاگلو! ہوش میں آؤ۔ نفرت ضرور کرو مگر ظالم سے، عداوت ضرور رکھو مگر غاضب سے، دنیا کے تمام غاضب اور ظالم ایک ہی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ نہ سندھی ہیں نہ پنجابی نہ پٹھان اور نہ بلوچ، نہ مقامی اور نہ غیر مقامی۔ وہ تو بس ظالم اور غاضب ہیں خواہ وہ یہاں ہوں یا وہاں۔ یہ سب کے سب ایک ہی کنبے اور ایک ہی کُٹم کے لوگ ہیں۔ عالمی اور عالم آشکارا لوگ ہیں۔ ہاں غاضبوں اور ظالموں سے نفرت کرو کہ ان سے نفرت کرنا نیکی ہے۔ تمام غریب اور مظلوم ایک صف میں آ جائیں کہ انہیں اس سرزمین پر غاضبوں اور ظالموں کے خلاف ایک حتمی جنگ کرنی ہے۔

عالمی ڈائجسٹ، اپریل ۱۹۷۲
(یہی انشائیہ سسپنس ڈائجسٹ، اگست ۱۹۹۰ میں 'بے معنی' کے عنوان سے شائع ہوا)

ماخوذ از فرنود
 
Top