شفیق خلش :::::: جیسی چاہی تھی مُلاقات نہ ہونے پائی ! :::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین


غزل
جیسی چاہی تھی مُلاقات نہ ہونے پائی
آج پِھر اُن سے مِری بات نہ ہونے پائی

بِکھرے بِکھرے ہی رہے مجھ میں مِرے خواب و خیال !
مجتمع مجھ سے مِری ذات نہ ہونے پائی

ضبط نے پھوڑے اگرچہ تھے پھپھولے دِل کے
شُکر آنکھوں سے وہ برسات نہ ہونے پائی

سر پہ ہر وقت چمکتا رہا میرے سُورج
دِن گُزرتے گئے اِک رات نہ ہونے پائی

کوششیں گرچے زمانے کی رہیں دِل پہ خلؔش
کم مگر عزّتِ سادات نہ ہونے پائی

شفیق خلؔش

 
Top