جہاد کے لغوی اور شریعی معنی اور اور کتب جہاد کے حوالہ جات

جہاد کے لغوی معنی
جہاد جہد بالضم یا جہد بالفتح سے مشتق ہے جس کا معنی خوب محنت و مشقت کے ہیں ۔ لغت کی کتابوں میں جہاد ک لغوی معنی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔
بذل اقصی ما یستطیعہ الانسان من طاقتہ لنیل محبوب او لدفع مکروہ
انسان کا اپنی کسی مرغوب چیز کو حاصل کرنے یا نا پسندیدہ چیز سے بچنے کے لئے انتہائی درجے کی بھر پور کوشش کرنا ۔

جہاد کے شرعی معنی

تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ جہاد شریعت میں قتال فی سبیل اللہ اور اس کی معاونت کو کہتے ہیں اس کی مکمل وضاحت کے لئے مذاہب اربعہ کی مستند کتابوں کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے ۔
جہادکی تعریف فقہ حنفی میں
(1) الجہاد بذل الوسع والطاقۃ بالقتال فی سبیل اللہ عزوجل بالنفس والمال و اللسان و غیر ذالک
اللہ رب العزت کے راستے میں قتال کرنے میں اپنی جان ، مال اور زبان اور دوسری چیزوں سے بھر پور کوشش کرنے کو جہاد کہتے ہیں ۔ (البدائع والصنائع )
(2) الجہاد دعوۃ الکفار الی الدین الحق وقتالہم ان لم یقبلوا۔
جہاد کے معنی کافروں کو دین حق کی طرف دعوت دینا اور ان سے قتال کرنا اگر وہ دین حق کو قبول نہ کریں ۔ (فتح القدیر)

جہاد کی تعریف فقہ مالکی میں

قتال المسلم کافراً ذی عہد لا علاء لکمۃاللہ
جہادکے معنی مسلمانوں کا ذی عہد کافروں سے اللہ ک دین کی سر بلندی کے لئے قتال کرنا۔ (حاشیہ العدوی ۔ الشرح الصغیر)

جہاد کی تعریف فقہ شافعی میں

وشر عابذل الجہد فی قتال الکفار
اور جہاد کے شرعی معنی اپنی پوری کوشش کافروں سے قتال کرنے میں صرف کرنا (فتح الباری)
جہاد کی تعریف فقہ حنبلی میں
الجہاد قتال الکفار
جہاد کافروں سے لڑنے کو کہتے ہیں ۔ (مطالب اولی النہی)

یہ تو تھی جہاد کی شرعی تعریف اب آئیے جہاد کے حکم کی طرف ۔
جہاد کا حکم
امام سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
''جہاد ایک محکم فریضہ اور اللہ پاک کا قطعی فیصلہ ہے ۔ جہاد کا منکر کافر ہوگا اور جہاد سے ضد رکھنے والا گمراہ ہوگا''۔ (فتح القدیر ص 191،ج5)
صاحب الاختیار فرماتے ہیں
''جہاد ایک محکم اور قطعی فریضہ ہے جس کا منکر کافر ہے اور یہ فریضہ قرآن و حدیث اور امت کے اجماع سے ثابت ہے ۔''(فتح القدیر ص 191 ،ج5 )
جہاد کی اقسام
کافروں سے جہاد کرنے کی دو قسمیں ہیں (1) اقدامی جہاد (2) دفاعی جہاد
اقدامی جہاد:یعنی مسلمانوں کا کافروں کے خلاف خود اقدام جہاد کرنا ، اگر یہ اقدام ان کافروں پر ہے جن تک دین کی دعوت پہنچ چکی ہے تو ایسے کافروں کو حملے سے پہلے دعوت دینا مستحب ہے اور اگردعوت نہیں پہنچی تو پہلے دعوت دی جائے گی اگر نہ مانیں تو جزیہ کا مطالبہ کیا جائے گا اور یہ بھی نہ مانیں تو ان سے قتال کیا جائےگا۔
اقدامی جہاد: کی بدولت وہ کافر جو مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتے ہوں دب جاتے ہیں اور ان کے دشمن خوف زدہ اور مرعوب ہو کر اسلام کے خلاف سازشیں نہیں کرتے اس لئے کافروں کو مرعوب رکھنے اور انہیں اپنے غلط عزائم کی تکمیل سے روکنے اور دعوت اسلام کو دنیا کے ایک ایک چپے تک پہنچانے اور دعوت کے راستے سے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے اقدامی جہاد فرض کفایہ ہے۔ اگر کچھ مسلمان یہ عمل کرتے ہیں تو سب کی طرف سے کافی ہے لیکن اگر کوئی بھی نہ کرے تو سب گناہ گار ہوں گے۔
فتاویٰ شامی میں ہیں مسلمانوں کے امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ دارالحرب کی طرف ہر سال ایک یا دو مرتبہ لشکر بھیجے اور عوام پر ضروری ہے کہ وہ اس میں اپنے امام کی مدد کریں اگر امام لشکر نہیں بھیجے گا تو گناہ گار ہوگا ۔(فتاویٰ شامی)
نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا اکثر جہاد اقدامی تھا۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو اقدامی جہاد کی تلقین فرمائی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اقدامی جہاد ہوتا رہے تو دفاعی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے لیکن جب مسلمان اقدامی جہاد کے فریضے غفلت کرتے ہیں تو انہیں دفاعی جہاد پر مجبور ہونا پڑتا ہے جیسا کہ اس دور میں ہو رہاہے۔

دفاعی جہاد: یعنی اپنے ملک پر حملہ کرنے والے کفار سے دفاعی جنگ لڑنا یہ اہم ترین فریضہ ہے ۔ حضرات فقہاء کرام کی عبارت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ ذیل صورتوں میں جہاد فرض عین ہو جاتا ہے ۔
(1) جب کفار مسلمانوں کے کسی شہر یا بستی پر حملہ آور ہو جائیں یا قابض ہو جائیں ۔
(2) جب کفار مسلمانوں کے کچھ افراد کو گرفتار کرلیں ۔
(3) ایک مسلمان عورت گرفتار ہو جائے تو اسے کافروں سے نجات دلانا تمام مسلمانان عالم پر فرض ہو جاتا ہے۔
(4) جب امام پوری قوم یا کچھ افراد کو جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دے۔
(5) جب مسلمانوں اور کافروں کی جماعتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائٰیں اور جنگ شروع ہو جائے۔
فائدہ : فرض عین کا معنی یہ ہے کہ اس جہاد میں سب نکلیں گے یہاں تک کہ بیٹا والدین کی اجازت کے بغیر ، بیوی اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر ، مقروض اپنے قرض خواہ کی اجازت کے بغیر نکلیں گے۔
ابتدائی طور پر یہ جہاد اس علاقے کے مسلمانوں پر فرض ہوتا ہے جن پر حملہ ہوا ہو لیکن اگر وہ کافروں کے مقابلے میں کافی نہ ہوں یا سستی کریں تو ان کے ساتھ والوں پر فرض ہوجاتا ہے ۔ اگر وہ بھی کافی نہ ہوں یا سستی کریں تو ان کے ساتھ والوں پر ۔ اس طرح سے مشرق سے لے کر مغرب تک تمام مسلمانو ں پر فرض ہوجاتا ہے ۔
دفاعی جہاد کے متعلق حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"دفاعی جہاد یعنی اپنے دین اور حرمت کے دفاع کے لئےلڑنا یہ اجتماعی طور پر اہم ترین فریضہ ہے ۔ وہ دشمن جو مسلمانوں کے دین اور دنیا کو تباہ کرنے کے لئے حملہ آور ہواہے ایمان کے بعد اس کے ساتھ لڑنے سے بڑا فریضہ اور کوئی نہیں ۔ اس دفاعی جہاد کے لئے کوئی چیز شرط نہیں یعنی توشہ اور سواری تک شرط نہیں بلکہ ہر ایک حتی الامکان دشمن کا مقابلہ کرے۔"
فقہاء کرام کی تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دفاعی جہاد صرف اسی وقت فرض نہیں ہوتا جس وقت کافر حملہ کردیں بلکہ جب کافر مسلمانوں سے "مسافت سفر "کی دوری پر ہو ں تو اسی وقت اس شہر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجاتا ہے ۔ (نہایۃ المحتاج ص58 ،ج8)

قرآن مجید اور جہاد
قرآن مجید میں جہاد کا مسئلہ بہت ہی اہمیت اور تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ محققین کی رائے یہ ہے کہ اعمال میں جس قدر تفصیل قرآن مجید نے جہاد کی بیان کی ہے اور کسی عمل کی اس قدر تفصیل بیان نہیں کی ۔ اللہ رب العزت نے اس عمل پر اہل ایمان کو کھڑا کرنے کے لئے قرآن مجید کی سورتوں کی سورتیں نازل فرمائیں۔ سینکڑوں ایات میں مختلف انداز اور پیراؤں میں مسائل جہاد کو سمجھایا جہاد کے منافع اور مقاصد کا تفصیل سے بیان ہوا۔ مجاہد کے مقام کو مکمل وضاحت سے کھول کھول کر بیان کیا۔ جہاد نہ کرنے کے نقصانات اور وعیدوں کو پوری طرح تفصیل سے بیان کیا گیا۔ قرآن مجید کو تدبر سے پڑھنے اور سمجھنے والے بعض بڑے مفسرین حضرات کی رائے یہ ہے قرآن مجید کا موضوع ہی جہاد ہے ۔
قرآن مجید نے جہاد فی سبیل اللہ کی اصطلاح کو جا بجا استعمال فرمایا ہے ۔ جس کے معنی قتال فی سبیل اللہ کے آتے ہیں اور خود قتال کا صیغہ بھی بار بار استعمال ہوا ہے ۔ کتاب اللہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے26 صیغے ہیں اور قتال کے 79 صیغے استعمال ہوئے ہیں ۔
قرآن مجید کی بعض پوری کی پوری سورتیں جہاد کے احکام و فضائل اور جہاد ترک کرنے والوں پر وعیدوں کے متعلق نازل ہوئٰیں جیسے دس رکوع پر مشتمل سورۃ انفال جس کا دوسرا نام سورۃ بدر ہے اور سولہ رکوع پر مشتمل سورۃ براۃ جس کے اور بھی کئی نام ہیں ۔ قرآن مجید کی سورۃ حدید میں آلات جہاد کی طرف اشارہ ہے ، سورۃ بقرہ، سورۃ نساء اور سورۃ مائدہ میں بھی تفصیل سے جہاد کا بیان ہے۔ سورۃ احزاب ، سورۃ محمد (قتال)، سورۃ فتح ، سورۃ الصف کے جنگی ناموں ہی سے ان سورتوں کے جہادی مضامین کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، سورۃ عادیات میں مجاہدین کے گھوڑوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں اور سورۃ نصر میں جہاد کے ذریعے دین کے عالمگیر انقلاب اور مقبولیت کا بیان ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مسلمان ایک مرتبہ قرآن مجید کا صحیح مطالعہ کرے تو اس کی روح میدان جہاد میں جانے کے لئے بے چین ہو جاتی ہے اور اسے جہاد کی حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے ۔ اس لئے دشمنان جہاد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھیں کیونکہ قرآن مجید کے سمجھنے والے کسی بھی مسلمان کو جہاد سے دور کرنا بہت ہی مشکل ہے۔

حدیث شریف اور جہاد

اللہ رب العزت نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتال کرنے اور قتال پر ابھارنے کا حکم دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں احکام پر کما حقہ عمل فرمایا۔ چنانچہ ترغیب جہاد کے سلسلے میں آپ صلی علیہ وسلم کے ہزاروں فرامین کتب حدیث میں موجود ہیں ۔
حضرات محدثین کرام نے آنحضرت صلی علیہ وسلم کے جہاد کے متعلق اقوال و افعال کو جمع فرمایا ہے۔ ان اقوال و افعال کی کثرت کا اندازہ تو ان کتب کے مطالعہ ہی سے ہو سکتاہے جو جہاد کی اہمیت کاواضح ثبوت ہیں۔ ذیل میں ہم کتب حدیث میں کتاب الجہاد کے مقامات لکھ رہے ہیں تاکہ ذوق تحقیق رکھنے والے قارئین سہولت کے ساتھ احدیث جہاد تلاش کرسکیں۔

1۔ صحیح بخاری شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 241 ابواب ہیں۔ (صفحہ 390 تا 452 جلد اول)
2۔ صحیح مسلم شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 100 ابواب ہیں ۔(صفحہ 81 تا 144 جلد دوم)
3 ۔ ترمذی شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 155 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 342 تا 362 جلد اول )
4۔ ابو داؤد شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 176 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 342 تا 362 جلد اول / 2 تا 9 جلد دوم)
5۔ نسائی شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 48 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 53 تا 66 جلد دوم )
6۔ ابن ماجہ شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 46 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 197 تا 207 )
7۔ مشکوٰۃشریف میں کتاب الجہاد جلد اول صفحہ 329 تا 355 ( کل صفحات 26 )
8۔ الترغیب والترہیب میں کتاب الجہاد صفحہ 365 تا 455 جلد ثانی ( کل صفحات 90 )
9۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں کتاب الجہاد صفحہ 212 تا 546 ( کل صفحات 334 )
10۔ سنن کبرٰی بیہقی میں کتاب الجہاد جلد 9 صفحہ 1 تا 183 ( کل صفحات 183 )
11۔ کنزالعمال میں کتاب الجہاد جلد 4 صفحہ 278 تا 637 (کل صفحات 359 )
12۔ اعلاء السنن میں کتاب الجہاد جلد 12 صفحہ 1 تا 674 )
کتب فقہ میں کتاب الجہاد کے مراجع
1۔ فتح القدیر میں کتاب الجہاد جلد 5 صفحہ 187 تا 333 ( کل صفحات 146 )
2۔ البحرالرائق میں کتاب الجہاد جلد 5 صفحہ 70تا 142 (کل صفحات 72 )
3۔ فتاوٰی شامی میں کتاب الجہاد جلد 4 صفحہ 119 تا 268 ( کل صفحات 149 )

جہاد کے موضوع پر مستقل تصانیف

ویسے تو جہاد کی ضرورت اور اہمیت اور اس کے عظیم الشان فضائل اور اعلی مقام کے پیش نظر حدیث و فقہ کی ہر کتاب میں جہاد پر طویل ابواب باندھے گئے ہیں اور سینکڑوں صفحات پر جہاد کے فضائل و احکام کو لکھا گیا ہے مگر امت می٘ں سے بعض اکابر نے اس موضوع پر مستقل تصانیف فرمائیں ، ان اسلاف میں سے چند کے اسماء گرامی ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(1) ابو سلیمان داؤد بن علی داؤد الاصفہانی الظاہری المتوفی 270ھ(کتاب الجہاد )
(2) احمد بن عمروبن الضحاک الشیبانی ، ابو بکر، المعروف بابن ابی عاصم المتوفی 278 ھ (الجہاد )
(3) ثابت بن نذیر القطبی المالکی المتوفی 318 ھ (الجہاد )
(4) ابراہیم بن حماد بن اسحاق الازدی المالکی المتوفی 323 ھ (کتاب الجہاد )
(5) ابو سلیمان حمد بن محمد الخطابی المتوفی 388 ھ (الجہاد)
(6) ابو بکر محمد بن الطیب الباقلانی المتوفی403 ھ (فضل الجہاد)
(7) تقی الدین عبد الغنی بن عبد الواحد بن ولی الجماعیلی المقدسی المتوفی 600 ھ ان کی کتاب کا نام "تحفۃ الطالبین فی الجہاد و المجاہدین " ہے۔
(8) ابو قاسم بن علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ المعروف با بن عساکر 600 ھ(الجہاد )
(9) عزالدین علی بن محمد الجزری المعروف با بن اثیر المتوفی 630 ھ (الجہاد )
(10) بہاءالدین ابو المحاسن یوسف بن رافع المعروف با بن شداد الموصلی الجلی المتوفی 632 ھ ھ (احکام الجہاد)
(11) ابو محمد عزالدین عبدالعزیز بن عبدالسلام السلمی المتوفی 660 ھ ان کی کتاب کا نام "احکام الجہاد و فضائلہ" ہے ۔
(12) عماد الدین اسماعیل بن عمر المعروف با بن کثیر الحافظ الد مشقی المتوفی 774 ھ ۔ان کی کتاب کانام "الاجتہادفی طلب الجہاد "ہے ۔
(13) علی بن مصطفٰی علاء الدین البوسنوی الرومی الحنفی الشہیر علی ددہ المتوفی 1007 ھ(الجہاد و فضائلہ)
(14) حسام الدین خلیل البر سوی الرومی المتوفی 1042 ھ (فضائل جہاد )(ماخوذ از مقدمہ کتاب الجہاد لا بن المبارک از۔ ڈاکٹر نزہہ حماد )

جہاد کے موضوع پر اہم ترین تصنیف حضرت امام ابو عبد الرحمان عبد اللہ بن المبارک المروزی الحنظلی کی "کتاب الجہاد "ہے۔ عظیم مجاہد اور بلند پایہ امام و فقیہ کے قلم سے نکلنے والی یہ تصنیف اپنے موضوع پر ایک منفرد مقام کی حامل ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک کے یہ جواہر پارے بار بار چھپ چکے ہیں اور عوام و خواص میں مقبول ہیں۔

زمانہ قریب میں جن مصنفین حضرات نے جہاد کے موضوع پر مستقل تصانیف فرمائی ہیں ۔ ان میں ڈاکٹر کامل سلامہ الدقس کی کتاب (آیا ت الجہاد فی القرآن الکریم )اور ڈاکٹر زحیلی کی کتاب آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی کا ایک خاص مقام ہے ۔
راقم الحروف کو اول الذکر کتاب کتاب کے مطالعہ کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
جہاد کے موضوع پر جو کام کرنے کی سعادت ماضی قریب کے نامور ،عالم عظیم مجاہد ، "شہید عبد اللہ عزام " کو حاصل ہوئی ہے و ہ انہی کا حصہ ہے ۔ جہاد کے مٹے ہوئے فریضے کو زندہ کرنے کے لئے اللہ رب العزت نے اس رجل رشید کا انتخاب فرمایا۔ شہید عبد اللہ عزام کی بیسیوں تصانیف اور سینکڑوں خطبات نے پوری دنیا کے مسلمانوں میں ایک نئٰ روح پھونک دی۔ حضرت ڈاکٹر عبد اللہ عزام نے خدمت جہاد پر جو تجدیدی کارنامہ سر انجام دیاہے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے ۔ ان کے چند ان مضامین کے علاوہ جو انھوں نے پاکستان کے سیاستدانوں اور افغان مجاہدین کے بعض ذرائع کے حوالے سے شخصیات اور جماعتوں کے عنوان سے لکھے ہیں ، باقی تمام مقالات اور مضامین علم و یقین کی روشنی سے معمور اور جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو بیدار کرنے والے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ عصر حاضر کے عظیم محقق اور مایہ ناز مصنف شہید عبد اللہ عزام کی کتابوں اور آپ کے خطبات سے استفادہ کریں۔

جہاد کے موضوع پر بہت سارے حضرات نے مختصر رسالے اور کتابچے "چہل حدیث" کے عنوان سے لکھے ہیں۔ ان میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ، حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری اور حضرت مولانا عبد الصمد سیال اور بہت سے دیگر حضرات شامل ہیں ۔
ابھی حال ہی میں دارالکتب العربیہ پشاور نے علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب "اربعون حدیثا فی فضل الجہاد " شیخ مرزوق علی ابراہیم کی تحقیق کے ساتھ شائع کی ہے۔
 
واجد صاحب،
اگر جہد ، کوشش و جہاد کی کوئی تعریف و تفصیل ہے تو وہ صرف قرآن و سنت میں ہے۔ مختصراَ یہ کہ اندرونی اور بیرونی حملوں اور تکلیفوں‌ سے ایک ریاست کی حفاظت۔ ایک فوج کی مدد سے اور اس فو ج میں باقاعدہ شرکت۔ یہ ہر ایرے غیرے کی ذمہ داری نہیں کہ وہ جہاد جہاد کے نعرے لگائے اور فدائی حملوں کی تلقین کرتاپھرے۔ جن لوگوں کو جہاد کا شوق ہے وہ جاکر فوج میں شامل ہوں۔ نا کہ ادھر ادھر مسلمانوں کا قتل کرتے پھریں؟

یہ من گھڑت کہانیاں جو آپ یہاں‌ لکھ مارتے ہیں اپنا اور باقی سب کا وقت برباد کرتے ہیں۔

اگر ان کہانیوں کی کوئی حقیقت ہے تو لائیے ، اصل مصنف کی کتاب۔ یا پھر صرف 1200 یا 1000 سال پرانی ہی کوئی کتاب دکھا دیجئے۔ کیوں آپ ان لوگوں‌کی طرف من گھڑت کہانیاں منسوب کرتے ہیں؟ آپ جانتے ہیں ان میں سے بیشتر کہانیاں پچھلی چند صدیوں میں گھڑی گئی ہیں؟

اگر کوئی اصل کتب ہوتیں تو آج ان کا انٹرنیٹ پر جمعہ بازار لگا ہوتا۔ سب بھائی بند ان کے حوالے دے رہے ہوتے۔ کم از کم کسی اصل کتاب کی موجودگہ کی تصدیق تو کرلیا کریں۔ ان سنی سنائی کہانیوں‌کی ترویج سے پہلے۔ ذرا غور سے دیکھئے یہ تمام مصنف صدیوں بعد آئے اور ان کی اصل کتب بھی دستیاب نہیں ہیں ، پھر آپ اتنے وثوق سے یہ من گھڑت کہانیاں کیسے پیش کرتے ہیں۔ عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہوئے آپ کوئی پچھتاوا محسوس نہیں کرتے؟
 
ابھی آپ بھی اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور مجھے بھی دوسرے کاموں میں لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ابھی میں اپ کو ایک ایک کتاب کی تاریخ دو لیکن خدا گواہ کہ اگر میں اپ کو تین ہزار دلائل بھی پیش کروں تو سب کے سب اپ کے لیے من گھڑت ہی ہوں گے اور ہم لاکھ دلائل دیں نہ میں آپ کو قائل کرسکتا ہوں اور خدا کے فضل و کرم سے نہ میں آپ کے دلائل سے متاثر ہوتا ہوں
 

الف نظامی

لائبریرین
فاروق سرور خان احادیث کی یہ کتابیں تو متفق علیہ ہیں ، کیا تم انہیں مشکوک ٹھہرانا چاہتے ہو؟
اس سے پہلے بھی تمہاری طرف سے سنت رسول کا انکار کا پروپگنڈہ سامنے آیا تھا اور تم نے احادیث کی کتابوں کی اہمیت جھٹلانے کی ناکام کوشش کی تھی، لہذا تم سے یہی امید رکھی جاسکتی ہے۔
اگر کوئی بامقصد گفتگو کرنی ہو تو دلائل سے بات کی جاتی ہے نہ کہ سیدھے "منہ میں نہ مانوں"۔

1۔ صحیح بخاری شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 241 ابواب ہیں۔ (صفحہ 390 تا 452 جلد اول)
2۔ صحیح مسلم شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 100 ابواب ہیں ۔(صفحہ 81 تا 144 جلد دوم)
3 ۔ ترمذی شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 155 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 342 تا 362 جلد اول )
4۔ ابو داؤد شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 176 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 342 تا 362 جلد اول / 2 تا 9 جلد دوم)
5۔ نسائی شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 48 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 53 تا 66 جلد دوم )
6۔ ابن ماجہ شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 46 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 197 تا 207 )
7۔ مشکوٰۃشریف میں کتاب الجہاد جلد اول صفحہ 329 تا 355 ( کل صفحات 26 )
8۔ الترغیب والترہیب میں کتاب الجہاد صفحہ 365 تا 455 جلد ثانی ( کل صفحات 90 )
9۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں کتاب الجہاد صفحہ 212 تا 546 ( کل صفحات 334 )
10۔ سنن کبرٰی بیہقی میں کتاب الجہاد جلد 9 صفحہ 1 تا 183 ( کل صفحات 183 )
11۔ کنزالعمال میں کتاب الجہاد جلد 4 صفحہ 278 تا 637 (کل صفحات 359 )
12۔ اعلاء السنن میں کتاب الجہاد جلد 12 صفحہ 1 تا 674 )
 

شمشاد

لائبریرین
جہاد کی جتنی بھی تعریفیں اوپر لکھی گئی ہیں ان سب میں کفار سے قتال کے لیے کہا گیا ہے۔ تو پاکستان میں یہ خود کش حملے کون سا جہاد ہے؟ ان میں کون کافر ہیں؟
 

سارا

محفلین
شمشاد بھائی اگر جہاد کو آج کل جو خودکش حملے ہورہے ہیں ان کے ساتھ جوڑا جائے تو یہ بالکل غلط ہے۔۔جہاد کافروں کے ساتھ کیا جاتا ہے مسلمانوں کے ساتھ نہیں۔۔۔اور کافروں کے ساتھ کرنے کی بھی شرائط ہیں ہم ایسے ہی کسی کافر کے ساتھ بھی جہاد نہیں کر سکتے ختیٰ کہ مسلمانوں پر حملے کرنے۔۔
اگر خودکش حملے کرنے والے اسے جہاد کا نام دے رہے ہیں تو یہ غلط ہے اور اگر ہم خود سے ہی یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنے خیال میں جہاد کر رہے ہیں یہ بھی غلط ہے ۔۔ایک بے گناہ کو قتل کرنا پوری انسانیت کا قتل ہے یہ خودکش حملے کرنے والے مجھے تو دین سے بہت ہی زیادہ دور لگتے ہیں اگر انہیں جہاد کا مطلب پتا ہوتا تو یہ کبھی بھی ایسے اپنے مسلمان بھائیوں پر خودکش حملے نہ کرتے۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
سارا بہن یہی تو ہم بھی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کوئی نہ کوئی فتویٰ جاری کر کے اس کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ اللہ ہی انہیں ہدایت دے۔
 
الف صاحب، متفق علیہ آپ یقیناً ہونگے ، ذرا دیگر ااحباب کو بھی دیدار کروا دیجئے۔ میں‌منتظر رہوں گا 240 ھجری اور 400 ھجری کی ان کتب کے سکین شدہ صفحات کا۔ اس مقصد کے لئے میں اپنے خرچہ پر ویب سپیس فراہم کرنے کے لئے تیار ہوں تاکہ سب لوگ ان کتب کا مطالعہ کرسکیں۔ اگر آپ آئندہ 10 سے 15 دن میں یہ کتب فراہم نہ کرسکیں تو پھر اعتراف کر لیجئے کہ تمام حوالہ جات مصنوعی، من گھڑت اور سنے سنائے ہیں۔ بناء تصدیق کئے ان کتب کو قرآن کے مخالف رکھنے سے اور قرآن کو غلط ثابت کرنے سے احتراز فرمائیے۔

آپ کی پہلی دلیل یعنی ان اصل کتب کی سکین شدہ فایلوں کا انتظار رہے گا، جو 250 ہجرے سے 410 ہجری تک لکھی گئی ہیں۔ بنا دیکھے میں صرف قرآن پر اللہ پر اس کے نبی پر ایمان لاتا ہوں، بعد میں آنے والی ان کتب کا قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں کہ کچھ کتب نبی اکرم کے بعد آئیں گی ان پر بھی ایمان لانا ہوگا۔ لہذا ان کتب کو دیکھنا ضروری ہے۔

میں بخوبی جانتا ہوں کہ کفر قرآن کی تکفیر یعنی قرآن کو ریجیکٹ کرنے کا نام ہے ، جو لوگ قرآن کو کے دلائل سے متاثر نہیں ہوتے ان کا طریقہ کار، صرف اور صرف ان دلیال کو شئیر کرنے والے کی ہتک اور کردار کشی ہی رہا ہے۔ قرآن کی کوئی بھی آیت کوئی مناسب دلیل قرآن کو ریجیکٹ‌کرنے والوں کو، نا تو متاثر کرتی ہے اور نا ہی قائل کرتی ہے۔ ایسے لوگوں‌کا وطیرہ ہی یہ رہا ہے کہ " قرآن چھپا دو "‌ اور " یہ متفق علیہ کتب دیکھو "

فرق دیکھ لیجئے کہ قرآن پڑھنے والے کس آپ جناب سے عزت فرماتے ہیں اور ان کتب سے متاثر ہونے والوں کی دریدہ دہنی اور تو تڑاق کا عالم کیا ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فاروق سرور خان احادیث کی یہ کتابیں تو متفق علیہ ہیں ، کیا تم انہیں مشکوک ٹھہرانا چاہتے ہو؟
اس سے پہلے بھی تمہاری طرف سے سنت رسول کا انکار کا پروپگنڈہ سامنے آیا تھا اور تم نے احادیث کی کتابوں کی اہمیت جھٹلانے کی ناکام کوشش کی تھی، لہذا تم سے یہی امید رکھی جاسکتی ہے۔
اگر کوئی بامقصد گفتگو کرنی ہو تو دلائل سے بات کی جاتی ہے نہ کہ سیدھے "منہ میں نہ مانوں"۔

الف نظامی صاحب بحث آپ بیشک جاری رکھیں لیکن میں آپ سے درخواست کروں گا کہ دوسرے اراکین کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور تُو، تم سے مخاطب کرنے کی بجائے آپ جناب سے گفتگو فرمائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
الف نظامی صاحب میں نے آپ سے درخواست بھی کی ہے کہ دوسرے رکن کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔ لیکن آپ نے پھر وہی تُو تڑاخ والی زبان استعمال کی ہے۔ اس لیے میں آپ کا پیغام حذف کر رہا ہوں۔

اگر تمیز کے دائرے میں رہ کر بحث جاری رکھنا چاہتے ہیں تو بصد شوق۔ ورنہ میرے اس پیغام کو وارننگ سمجھیں۔
 

سارا

محفلین
سارا بہن یہی تو ہم بھی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کوئی نہ کوئی فتویٰ جاری کر کے اس کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ اللہ ہی انہیں ہدایت دے۔

آمین۔۔۔اگر واقعی وہ خودکش حملوں کو جائز قرار دے رہے ہیں اور وہ بھی مسلمانوں پر تو یہ کیسا جہاد ہوا؟ اور اس کی دلیل وہ کہاں سے لے رہے ہیں؟
ایک حدیث کا مفہوم یاد آ رہا ہے کہ ایک صحابی نے دوران جنگ ایک بندے کو مار دیا جب کہ اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھ لیا تھا تو نبی صلی اللہ وسلم نے انہیں یہی کہا تھا کہ کیا تم نے اس کو اندر سے چیک کیا ہے کہ وہ موت کے ڈر سے پڑھ رہا ہے یا مسلمان ہو رہا ہے تو اس سے ہی اندازہ لگا لیں کہ کسی شخص کو کلمہ پڑھنے کے بعد مارنا کیسا ہے۔۔۔
 
دنیا بھر کی علمی کتب اور آراء کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی ایسا ریفرنس فراہم کرتے ہیں جو کبھی نہ کبھی چھپا ہو، موجود ہو ، دیکھا جاسکتا ہو یا آئی ایس بی این یا ایسا ہی کوئی نمبر موجود ہو۔ ایسا ریفرنس مانگنا کوئی برائی نہیں کہ ہم برانگیختہ ہوجائیں اور اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لئے کردار کشی، خود کشی یا قتل تک بات لے جائیں۔

جہد، کوشش اور جہاد ، سنت رسول سے ثابت ہیں کہ منظم طریقہ پر کئے گئے۔ کچھ کمزوروں ، کم عمروں، عورتوں ، اور پیچھے رہ جانے کے لئے مناسب لوگوں کو جہاد میں شریک ہونے سے روک دینے کی کئی سنتیں موجود ہیں۔ ان امور سے جہاد کا منظم ہونا، لیڈر یا جنرل کا ہونا ثابت ہے۔ پاکستانی فوج ایک منظم ادارہ ہے، جو پاکستانیوں کے جہد، کوشش، و جہاد کا علمبردار ہے۔ ہر پاکستانی جو پاکستان پر یقین رکھتا ہے اپنی سیاسی وابستگی کے باوجود اس فوج کو سراہتا ہے۔ اور بوقت ضرورت تنقید کرتا ہے۔ فوج خود بھی اپنا احتساب جاری رکھتی ہے۔ اس فوج سے لڑنا، پاکستان سے غداری اور پاکستان پر حملہ کے مترادف ہے۔ یہی ہمارے پاکستانی ہونے کی نشانی ہے۔

جو لوگ سیاسی قتل، دہشت گردی، خود کش حملوں کو فدائی حملہ یا جہاد کا نام دینا چاہتے ہیں وہ دہشت گردی کا نظریاتی طور پر اعتراف کرتے ہیں اور پاکستان سے واضح نفرت۔
 
دلائل از قرآن کریم

اب ایک عرض ہے کہ آپ سب کے پاس قرآن کریم تو ہو گا نا ۔۔۔ کیا خیال ہے اس میں ان آیات کا مطالعہ بمعہ ترجمہ نہ کر لیں ۔۔۔؟

1۔ سورۃ الاحزاب آیۃ نمبر 58
2۔ سورۃ النساء آیۃ نمبر 92 اور 93
3۔ سورۃ الاسراء آیۃ نمبر 33
اور اگر کوئی ساتھی ان آیات کو بمعہ ترجمہ یہاں لکھ دیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔
 
ہم جہاد کے خلاف نہیں ہیں مگر کسی بھی مسلمان کو قتل کرنا اور اس فعل کو جہاد کا نام دینا غلط ہے ۔ اور میرے پاس ثبوت ہیں کہ " یہ" لوگ جو خود کو مجاہدین کہلوانا پسند کرتے ہیں ۔ کلمہ گو مسلمانوں کے قتل کو جہاد کا نام دیتے ہیں اور اس کے لئے تاویلیں گھڑتے ہیں ۔ یہ سے مراد میری کن افراد کا گروہ ہے یہ آپ سب جانتے ہیں ۔
 
الف صاحب، متفق علیہ آپ یقیناً ہونگے ، ذرا دیگر ااحباب کو بھی دیدار کروا دیجئے۔ میں‌منتظر رہوں گا 240 ھجری اور 400 ھجری کی ان کتب کے سکین شدہ صفحات کا۔ اس مقصد کے لئے میں اپنے خرچہ پر ویب سپیس فراہم کرنے کے لئے تیار ہوں تاکہ سب لوگ ان کتب کا مطالعہ کرسکیں۔ اگر آپ آئندہ 10 سے 15 دن میں یہ کتب فراہم نہ کرسکیں تو پھر اعتراف کر لیجئے کہ تمام حوالہ جات مصنوعی، من گھڑت اور سنے سنائے ہیں۔ بناء تصدیق کئے ان کتب کو قرآن کے مخالف رکھنے سے اور قرآن کو غلط ثابت کرنے سے احتراز فرمائیے۔

آپ کی پہلی دلیل یعنی ان اصل کتب کی سکین شدہ فایلوں کا انتظار رہے گا، جو 250 ہجرے سے 410 ہجری تک لکھی گئی ہیں۔ بنا دیکھے میں صرف قرآن پر اللہ پر اس کے نبی پر ایمان لاتا ہوں، بعد میں آنے والی ان کتب کا قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں کہ کچھ کتب نبی اکرم کے بعد آئیں گی ان پر بھی ایمان لانا ہوگا۔ لہذا ان کتب کو دیکھنا ضروری ہے۔

میں بخوبی جانتا ہوں کہ کفر قرآن کی تکفیر یعنی قرآن کو ریجیکٹ کرنے کا نام ہے ، جو لوگ قرآن کو کے دلائل سے متاثر نہیں ہوتے ان کا طریقہ کار، صرف اور صرف ان دلیال کو شئیر کرنے والے کی ہتک اور کردار کشی ہی رہا ہے۔ قرآن کی کوئی بھی آیت کوئی مناسب دلیل قرآن کو ریجیکٹ‌کرنے والوں کو، نا تو متاثر کرتی ہے اور نا ہی قائل کرتی ہے۔ ایسے لوگوں‌کا وطیرہ ہی یہ رہا ہے کہ " قرآن چھپا دو "‌ اور " یہ متفق علیہ کتب دیکھو "

فرق دیکھ لیجئے کہ قرآن پڑھنے والے کس آپ جناب سے عزت فرماتے ہیں اور ان کتب سے متاثر ہونے والوں کی دریدہ دہنی اور تو تڑاق کا عالم کیا ہوتا ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جی فاروق صاحب آپ یہ سائیٹ چیک کرلیں سارا سائیٹ عربی میں ہے لیکن آپ گوگل مترجم سے اس کو انگریزی میں پڑھ سکتے ہیں اور بار بار میں کہتا ہوں کہ مجھے لفظوں کی ہیرا پیری کا فن نہیں آتا سادہ الفاظ استعمال کرتا ( فن کتابات یا خطابات سے نہ آشنا )
الکتبۃ الشمالہ
یہاں پر کتب احادیث کا لنک بھی ہے اس میں کتاب لکھنے ولے کی تاریخ وفات کے حساب سے ترتیب ہے
(اور ایسا نہ ہو کہ اب آپ الیکٹرانکس کی بجائے پرنٹ اور اگر وہ بھی مل جائے تو پھر ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب کا مطالبہ نہ کریں) ;)
امید ہے کہ کچھ نہ کچھ فائدہ ہوگا اور میں یہاں پر جو کتاب کے ابواب یہاں پر لکھتا ہوں اس کے کتاب کے تقریبا زیادہ تر حوالہ جات کے کتب اس سائیٹ پر موجود ہے

اللہ اکبر کبیرا
 
میں نے بنا ترتیب چند لنک دیکھنے کی کوشش کی تو قرآن کے چند لنکس کے علاوہ بیشتر لنک مردہ تھے۔
اس صفحے پر لنک ہے مسند عبد اللہ بن المبارك کی کتاب کا
http://www.shamela.ws/open.php?cat=7&book=1094

مثال کے طور پر کہ اس کتاب کی سورس ہے۔
http://www.sonnhonline.com
جو کہ ڈیڈ ہے۔
بھائی قرآن پر غور فرمائیے۔ ایک ایک آیت کرکے پیش فرمائیے۔ ہمارا اور باقی سب کا بھلا ہوگا۔ میں سوائے آیات کے ترجمے کہ کچھ کٹ‌پیسٹ‌نہیں کرتا ، خود پڑھتا ہوں اور خود لکھتا ہوں۔
آپ بھی کوشش کیجئے کہ اپنی محنت سے لکھئے۔ ان غیر مصدقہ کتب کی ترویج اس ایمان کے ساتھ کرنا کہ یہ سب کتب درست ہیں نامناسب ہے۔ کم از کم خود پڑھئے، سمجھئے اور اپنی رائے کا اظہار کیجئے۔ اس کے لئے سب سے بہتر ابتدائی مقام قرآن ہے۔

والسلام
 

ظفری

لائبریرین
بھائی قرآن پر غور فرمائیے۔ ایک ایک آیت کرکے پیش فرمائیے۔ ہمارا اور باقی سب کا بھلا ہوگا۔ میں سوائے آیات کے ترجمے کہ کچھ کٹ‌پیسٹ‌نہیں کرتا ، خود پڑھتا ہوں اور خود لکھتا ہوں۔
آپ بھی کوشش کیجئے کہ اپنی محنت سے لکھئے۔ ان غیر مصدقہ کتب کی ترویج اس ایمان کے ساتھ کرنا کہ یہ سب کتب درست ہیں نامناسب ہے۔ کم از کم خود پڑھئے، سمجھئے اور اپنی رائے کا اظہار کیجئے۔ اس کے لئے سب سے بہتر ابتدائی مقام قرآن ہے۔

والسلام
بہت ہی اچھی بات کہی ہے آپ نے ۔۔۔ میرا بھی یہی کہنا ہے کہ اگر آپ کسی بات پر ایمان رکھتے ہیں ۔ یا آپ کا کوئی نظریہ ہے تو آپ اس کی Explanation بحوالہ کتابوں سے دینے کے بجائے آپ اپنا استدلال اور دلائل پیش کریں ۔ تاکہ موضوع اپنے پیرائے میں بھی رہے اور بات سمجھنے اور سمجھانے میں بھی آسانی ہو ۔ کیونکہ آپ جو نظریات اور عقائد یہاں پیش کررہے ہوتے ہیں تو ظاہر ہے آپ کا اس پر ایمان اسی صورت میں آیا ہوگا کہ آپ نے اسے اچھی طرح پڑھا اور سمجھا ہوگا ، اگر سمجھا ہے تو پھر اپنی رائے میں اس کا اظہار کجیئے ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کسی سوال کے جواب میں کسی لنک یا کتب کا حوالہ دیدیا ۔ اس سے تو بلکل ایسا تاثر ملتا ہے کہ کسی طوطے کو رٹا کر کہیں بیٹھا دیا گیا ہے ۔ جو ہر قسم کے دلائل اور استدلال سے یکسر محروم ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
فاروق سرور خان احادیث کی یہ کتابیں تو متفق علیہ ہیں ، کیا تم انہیں مشکوک ٹھہرانا چاہتے ہو؟
اس سے پہلے بھی تمہاری طرف سے سنت رسول کا انکار کا پروپگنڈہ سامنے آیا تھا اور تم نے احادیث کی کتابوں کی اہمیت جھٹلانے کی ناکام کوشش کی تھی، لہذا تم سے یہی امید رکھی جاسکتی ہے۔
اگر کوئی بامقصد گفتگو کرنی ہو تو دلائل سے بات کی جاتی ہے نہ کہ سیدھے "منہ میں نہ مانوں"۔

الف نظامی صاحب بحث آپ بیشک جاری رکھیں لیکن میں آپ سے درخواست کروں گا کہ دوسرے اراکین کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور تُو، تم سے مخاطب کرنے کی بجائے آپ جناب سے گفتگو فرمائیں۔
شمشاد صاحب میری پوسٹ میں کوئی ایسی بات نہیں۔ صرف you کا اردو ترجمہ ہے۔
آپ کے جانبدارانہ رویہ سے دکھ ہوا۔
 
Top