جہاد میں خرچ کرنے کے فضائل کا بیان



جہاد میں خرچ کرنے کے فضائل کا بیان
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
(۱) من ذالذی یقرض اﷲ قرضا حسنا فیضعفہ لہ اضعافا کثیرۃ (البقرہ۔ ۲۴۵)
کون شخص ہے جو قرض دے اﷲتعالیٰ کو اچھا قرض پھر اﷲ تعالیٰ اسے بڑھا دے کئی گناہ
امام قرطبی وغیرہ فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ کون شخص ایسا ہے جو اﷲ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے تاکہ اﷲ تعالیٰ اسے بڑھا چڑھا کر بدلہ عطاء فرمائے ۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
(۲) مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اﷲ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ مائۃ حبۃ ۔واﷲ یضعف لمن یشاء واﷲ واسع علیم (ابقرہ۔ ۲۶۱)
جو لوگ اپنا مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ اس سے اگیں سات بالیں (اور) ہر بالی میں سو سودانے ہوں اور اﷲ تعالیٰ بڑھاتا ہے جس کے واسطے چاہے اور اﷲ تعالیٰ بڑی وسعت والے اور جاننے والے ہیں ۔
٭ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت :(مثل الذین ینفقون اموالھم ) الی آخرہ نازل ہوئی تو حضور اکرم ﷺ نے دعاء فرمائی اے میرے رب میری امت کے لئے اور زیادہ عطاء فرما تب یہ آیت نازل ہوئی :۔ من ذالذی یقرض اﷲ قرضا حسنا فیضعفہ لہ اضعافا کثیرہ ۔پھر حضور اکرم ﷺ نے یہ دعاء فرمائی ۔ اے میرے رب میری امت کے لئے اور زیادہ عطاء فرما ۔ تب یہ آیت نازل ہوئی :۔
انما یوفی الصبری اجرھم بغیر حساب (الزمر۔۱۰)
جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بے شما ر ثواب ملے گا ۔(مواردالظمآن۔بیہقی فی الشعب)
٭ حضرت حریم بن فاتک رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اﷲ تعالیٰ کے راستے میں کچھ خرچ کرتا ہے تو وہ [اﷲ کے ہاں ]سات سو گنالکھا جاتا ہے( ترمذی ۔ نسائی ۔ ابن حبان صحیح الاسناد)
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ر وایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے لئے [شب معراج ] میں ایک ایسا گھوڑا لایا گیا جس کا ہر قدم تا حد نظر پڑتا تھا ۔ حضور اکرم ﷺ آگے بڑھے جبرائیل علیہ السلام بھی آپ کے ساتھ تھے آپ ﷺ کا گزر ایک ایسی قوم پر سے ہوا جو ایک دن کھیتی بوتے تھے اور اگلے دن کاٹتے تھے اور جب وہ کھیتی کاٹ لیتے تو کھیتی واپس پہلے جیسی ہو جاتی تھی ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے فرمایا یہ اﷲ کے راستے کے مجاہد ہیں ان کی نیکیاں سات سو گنا بڑھا دی جاتی ہیں ۔
ترجمہ آیت ۔ اور وہ جو خرچ کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ اس کا بدلہ دیتا ہے اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔ (سورۃ سبا۔۲۹)
پھر آپ ﷺکا گزر ایک ایسی قوم پر سے ہوا جن کے سر بڑے بڑے پتھروں سے کچلے جارہے تھے ان کے سر جب بھی کچلے جاتے وہ پھر پہلے جیسے ہو جاتے تھے اور یہ صورت حال بغیر وقفے کے جاری تھی ۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر نماز سے بھاری ہو جاتے تھے [یعنی یہ لوگ نماز میں غفلت کرتے تھے ] پھر آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں پر سے ہوا جن کےآگے پیچھے زمین کے ٹکڑے تھے اور وہ جہنم کے انگاروں ، پتھروں ،کانٹے دار درختوں اور زقوم کے درمیان جانوروں کی طرح چرائے جارہے تھے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ۔اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اموال میں سے صدقات [واجبہ ] اداء نہیں کیا کرتے تھے ۔ اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں پر کوئی ظلم نہیں فرمایا اور اﷲ تعالیٰ بندوں پر ظلم فرمانے والا نہیں ہے ۔ (دلائل نبوہ ۔بزار )
٭ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص لگام والی ا ونٹنی لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا یہ میں اﷲ کے راستے میں دے رہا ہوں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تمہیں اس کے بدلے قیامت کے دن سات سو لگام والی اونٹنیاں ملیں گی ۔ (مسلم۔ المستدرک )
حدیث شریف کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ قیامت کے دن اسے سات سو اونٹنیاں خرچ کرنے کا اجر ملے گا اور حدیث شریف کو اس ظاہری معنی پربھی رکھا جاسکتا ہے کہ اسے واقعی جنت میں سات سو اونٹنیاں ملیں گی ۔ جن پر وہ تفریح کی خاطر سوار ہوتا پھرے گا ۔ جبکہ جنت کے گھوڑے اور اونٹ کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے ۔ علامہ نوی ؒ اس احتمال کو پسند فرماتے ہیں ۔ واﷲا علم۔
٭ حضرت حریم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اﷲ کے راستے میں کچھ خرچ کیا وہ ہر دن اس کے میزان میں ڈالا جاتا ہے ۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک )
حدیث شریف میں سات سو گنا اجر بڑھنے کا جو تذکرہ ہے وہ اس صورت میں ہے جب آدمی خود گھر بیٹھا رہے اور جہاد پر رقم خرچ کردے لیکن اگر آدمی خود جہاد میں نکل کر کچھ خرچ کردے تو اس کا اجر سات لاکھ گنا بڑھ جاتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ :
٭ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص اﷲ کے راستے میں مال بھجوادے اور خود اپنے گھر میں بیٹھا رہے تو ہر درہم پر سات سو درہم خرچ کرنے کا اجر ملتا ہے ۔ اور جو شخص خود اﷲ کے راستے میں جہاد کے لئے نکل کر کچھ خرچ کرے اسے ہر درہم پر سات لاکھ درہم خرچ کرنے کا اجر ملتا ہے ۔ پھر حضور اکرم ﷺ نے یہ آیت پڑھی ۔ واﷲ یضاعف لمن یشاء [اﷲ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے ] (ابن ماجہ ۔ بہیقی فی اشعب )
٭ حضرت معاذ بن حبل رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : [جنت کی] خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس نے جہاد میں نکل کر اﷲ تعالیٰ کا زیادہ زکر کیا بے شک اسے ہر کلمہ کے بدلے ستر ہزار نیکیاں ملتی ہیں ان نیکیوں میں سے دس گنا بڑھائی جاتی ہیں اس زیادتی کے ساتھ جو اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے عطاء فرماتا ہے ۔ پوچھا گیا اے اﷲ کے رسول [جہاد میں] خرچ کرنے کاکیااجرہے ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : خرچ کرنا بھی اسی قدر[یعنی زکرکی طرح] بڑھتا ہے ۔ روای عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ سے عرض کیا اﷲ کے راستے میں خرچ کرنے کا اجر سات سو گنا ہے [جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے ] حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تمہاری سمجھ بہت تھوڑی ہے ۔ سات سو گنا اجر تو تب ملتا ہے جب خرچ کرنے والا خود گھر میں بیٹھا رہے اور جہاد کے لئے نہ نکلے ۔ لیکن اگر کوئی جہاد میں نکل کر خرچ کرے تو اﷲ نے اس کے لئے اپنی رحمت کے ایسےخزانے چھپا رکھے ہیں جن تک بندوں کا علم نہیں پہنچ سکتا ۔ اور ایسے لوگوں کی شان یہ ہے کہ وہ اﷲ کا گروہ ہیں اور اﷲ کا گروہ ہی غالب رہتا ہے ۔ (الطبرانی، مجمع الزواید ، و فی اسنادہ راولم یسم)
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے [کسی بھی چیزکا]جوڑ ا اﷲ کے راستے میں خرچ کیاتو اسے جنت میں پکارا جائے گا کہ اے اﷲ کے بندو ! یہ خیروبھلائی ہے اور جو شخص نماز والوں میں سے ہوگا اسے نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا اور صدقے والا ہوگا اسے صدقے کے دروازے سے پکارا جائے گا ۔ اور جو روزے والوں میں سے ہوگا اسے باب الریان سے بلایا جائے گا ۔ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اﷲ کے رسول ان سب دروازوں سے پکارے جانے کی کیا ضرورت ہے ۔ پس کوئی ایسا بھی ہوگا جس کو ان سب دروازوں سے بلایا جائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں مجھے امید ہے کہ آپ ان میں سے ہوں گے ۔(بخاری ۔ مسلم ۔ مسند احمد )
٭ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اﷲ کے راستے میں [کسی بھی چیز کا ] جوڑا خرچ کرے گا اسے جنت کا نگران فرشتہ پکارے گا ۔ اے اﷲ کے فرمانبردار یہ خیر و بھلائی ہے آو اس کی طرف ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے یہ سن کر فرمایایہ شخص تو خسارے سے بچ گیا ۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:مجھے جتنا فائدہ ابو بکر کے مال نے پہنچایا ہے کسی مال نے کھبی نہیںپہنچایا ۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ رونے لگے اور کہنے لگے مجھے تو اﷲ تعالیٰ نے آپ ہی کے ذریعے فائدہ پہنچایا ہے ۔ (مسند احمد )
٭ حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا :جو شخص اپنے مال میں سے [کسی بھی چیز کا ]جوڑا ﷲ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو جنت کے نگران فرشتے اس کی طرف دوڑتے ہیں ۔ روای کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا ۔ جوڑا خرچ کرنے کا کیا مطلب ہے فرمایا دوگھوڑے یا دواونٹ [اسی طرح اور چیزوں میں سے بھی دودو مثلاً دو گائے دوکپڑے وغیرہ ] (نسائی۔المستدرک )

فصل
٭ حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : خرچ ہونے والے دیناروں میں افضل دینار وہ ہیں جو کوئی شخص اپنے اہل و عیا ل پر خرچ کرتا ہے اور وہ دینار ہے جو کوئی [مجاہد ] اپنی جہاد کی سواری پر خرچ کرتا ہے اور وہ دینار ہے جو آدمی اﷲ کے راستے میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
٭ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نجاشیؒ کے ساتھیوں میں سے چالیس افراد حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کے ساتھ غزوہ احد میں شریک رہے انہیں کچھ زخم بھی لگے مگر ان میں سے کوئی شہید نہیںہوا ۔جب انہوں نے مسلمانوں کے زخم اور ضروریات دیکھیں تو کہنے لگے اے اﷲ کے رسول ہم مالدار لوگ ہیں آپ ہمیں اجازت دیجئے تاکہ ہم اپنا مال لے آئیں اور زخمی اور ضرورت مند مسلمانوں کی مدد کریں ۔ حضور اکرم ﷺ نے اجازت دے دی وہ اپنا مال لے آے اور انہوں نے مسلمانوں کی مدد کی ۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔
اَلَّذِیْنَ اتَیْنَھُمْ الْکِتٰبِ مِنْ قَبْلِہٖ ھُمْ بِہ یُؤْمِنُوْنَ۔وَاِذَا یُتْلٰی عَلَیْہِمْ قَالُوْ امَنَّا بِہٖ اَنَّہ الْحَقُ مِنْ رَّبِّنَااِنَّاکُنَّا مِنْ قُّبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ اُوْلئِکَ یَؤْتَوْنٗ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْنَ بِمَاَ صَبَرُوْا وَیَدْرءَون بِالْحَسَنَۃِ السَّیَّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ۔
(قصص۵۲ ۔۵۳۔۵۴)
جن لوگوں کو ہم نے اس پہلے کتاب دی تھی وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور جب [قرآن ]ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آے بے شک وہ ہمارے پرودگار کی طرف سے برحق ہے اور ہم تو اس کے لئے پہلے سے حکم بردار ہیں ۔ ان لوگوں کو دگنا بدلہ دیا جائے گا کیونکہ صبر کرتے رہے اور بھلائی کے ساتھ برائی کو دور کرتے ہیں اور جو (مال )ہم نے ان کو دیا ہے اس میںسے کرچ کرتے ہیں ۔
مال خرچ کرنے سے وہی مال مرادہے جس کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں کی مدد کی تھی ۔ (ابن عساکر )
٭ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ نے غزوہ تبوک کے موقع پر تنگی کے وقت میں ایک ہزار دینار کے ذریعے سے لشکر اسلام کی مددکی ۔ انہوں نے یہ دینار حضور اکرم ﷺکی گود مبارک میں ڈال دیئے آپﷺ انہیں اپنے ہاتھوں سے الٹتے پلٹتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے آج کےدن کے بعد عثمان کو کوئی عمل نقصان نہیں پہنچا سکتا آپ ﷺ بار بار ان الفاظ کو دھراتے تھے ۔ (مسند احمد و ترمذی )
٭ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا : اے میرے پروردگار آپ عثمان سے راضی ہو جایئے ۔ بے شک میں ان سے راضی ہوں ۔ (سیرۃ ابن ہشام )
غزوہ تبوک موقعہ پر حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے اسلامی لشکر کے لئے جو مدد فرمائی اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے پہلے تین سو اونٹ مع سازوسامان کے عطاء فرمائے پھر ایک ہزار دینار دیئے پھر آپ نے اونٹ ایک ہزار کر دیئے اور دینار دس ہزار اور بیس یا پچاس گھوڑے بھی عطاء فرمائے ۔ (الریاض النضرہ)
٭ عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ نے جہاد کے لئے پچاس ہزار دینار کی وصیت فرمائی چنانچہ ایک شخص کو ایک ہزار دینار دیئے جاتے تھے ۔ (ابن عساکر )
٭ زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ نے ہر ایک بدری صحابی کے لئے سات سو دینار کی وصیت فرمائی اس وقت ان حضرات میں سے ایک سو حضرات زندہ تھے مال لینے والوں میں سے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ بھی تھے جو اس وقت خلیفہ تھے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف نے جہاد میں ایک ہزار گھوڑے دینے کی وصیت بھی فرمائی ۔ (ابن عساکر )
علامہ قرطبی نے تاریخ قرطبی میں لکھا ہے کہ ذوالریاستین بن سہل(رح) نے جہاد میں دس لاکھ دینار خرچ فرمائے اور فرمایا اگر میرے پاس اس سے دو چند ہوتے تو وہ بھی خرچ کر دیتا ۔
چوتھے باب میں آپ ام ابراہیم الھاشمیہ کا واقعہ پڑھ چکے ہیں کہ انہوں نے کس طرح سے اپنا بیٹا بھی جہاد میں بھیجا اور دس ہزار دینار بھی عطاء فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کی رضا کے لئے خرچ کرنے والوں کے واقعات بے شمار ہیں ۔
نافع الفہری کے بارے میں آتا ہے کہ اگر کوئی عورت ان کے پاس چند دھاگے کات کر لاتی اور کہتی کہ یہ جہاد میں قبول کر لو توقبول کر لیا کرتے تھے ۔ کوئی شخص ایک دینار کا تیسرا حصہ لاتا تو اسے بھی قبول کر لیتے تھے ۔ کسی نے ان سے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے تو آپ کو اس سے غنی کیا ہے [ پھر آپ کیوں یہ قبول کر لیتے ہیں ]تو انہوں نے کہا بے شک اﷲ تعالیٰ نے مجھے غنی کیا ہے لیکن میں اس لئے لے لیتا ہوں تاکہ دینے والے کو بھی اجر مل جائے اور جب ہم آگے دیں گے تو ہمیں بھی اجر مل جائے گا۔ بے شک انہوں نے سچ فرمایا اﷲ تعالیٰ کسی پر بھی ایک ذرے کے برابر ظلم نہیں فرماتا اور اگر ذرہ برابر نیکی ہو تو اﷲ تعالیٰ اسے بڑھا دتیا ہے اور اپنی طرف سے اجر عظیم عطاء فرماتا ہے ۔
٭ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ نیکوں میں سے کسی [کم سے کم چیز کوبھی ]حقیر نہ سمجھو۔ (مسنداحمد )
چنانچہ انسان کو چاہئے کہ کم چیز کو خرچ کرنے سے نہ شرمائے بے شک اگر اس کی نیت ہوئی تو اﷲتعالیٰ اسے بڑھا دے گا ۔
٭ حضرت کعب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی جنت میں داخل ہوا اس سوئی کی وجہ سے جو اس نے اﷲ کے راستے میں کسی کو عاریۃً دی تھی اور ایک عورت جنت میں داخل ہوئی ایک سوئے کی وجہ سے جو اس نے اﷲ کے راستے میں دیا تھا۔
٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں خ خرچ کرو اگر چہ ایک تیر کا پیکان ہی کیونہ ہو ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ )
ایک عبرت آموز واقعہ
مدینہ منورہ میں ایک مجاہد اور بزرگ ابو قدامہ شامی (رح) تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں رومیوں کے خلاف جہاد کرنے کا شوق اور ولولہ کوٹ کوٹ کر بھردیا تھا ایک بار وہ مسجد نبوی شریف میں بیٹھے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے ان کے ساتھیوں نے کہا اے ابو قدامہ آج آپ اپنے جہاد کا کوئی عجیب و غریب واقعہ سنایئے ۔ ابو قدامہ نے فرمایا ایک بار میں رقہ نامی شہر میں اونٹ خریدنے گیا تاکہ اس پر اسلحہ لاد سکوں ۔ ایک دن میں وہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی ۔ اے ابو قدامہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگوں کو جہاد کی دعوت اور ترغیب دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے بال عطاء فرمائے ہیں جو میرے علاوہ کسی عورت کو عطاء نہیں فرمائے میں نے ان بالوں کو کاٹ کر رسی بنالی ہے اس پر اچھی طرح مٹی مل دی ہے تاکہ ان بالوں کو کوئی دیکھ نہ سکے میری تمنا ہے کہ آپ میرے بالوں کی اس رسی کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ دشمنوںکے ساتھ جہاد کے وقت آپ یا کوئی اور ضرورت مند مجاہد اس رسی کو گھوڑے کی لگام وغیرہ میں استعمال کر لے تاکہ اسے اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبار نصیب ہو جائے ۔ میں ایک بیوہ عورت ہوں میرا خاوند اور خاندان سب اللہ کے راستے میں شہید ہو چکے ہیں اگر مجھے جہاد کرنے کی اجازت ہوتی تو میں بھی شریک ہوتی ۔ اس نے وہ رسی مجھے دے دی اور کہنے لگی ۔ اے ابو قدامہ میرے شہید خاوند نے اپنے پیچھے ایک لڑکا بھی چھوڑا ہے جو قرآن کا عالم ، گھڑ سواری اور تیر اندازی کا مشاق ماہر خوبصورت نوجوان ہے وہ راتوں کو قیام کرتاہے اور دن کو روزے رکھتا ہے اس کی عمر پندرہ سال ہے ۔ ابھی وہ اپنے والد کی چھوڑی ہوئی زمین پر گیا ہوا ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ آپ کی روانگی سے پہلے آجائے تو میں اسے اللہ تعالیٰ کے حضوربطور ہدیہ آپ کے ساتھ میدان جہاد میں بھیج دوں گی ۔ میں آپ کو اسلام کی حرمت کا واسطہ دیتی ہوں کہ میری اجر وثواب حاصل کرنے کی تمنا ضرور پوری کرو ۔ میں [ ابو قدامہ ] نے وہ رسی لے لی اور اسے اپنے سامان میں رکھ لیا اس کے بعد میں اپنے رفقاء سمیت رقہ سے روانہ ہوگیا ابھی ہم مسلمہ بن عبدلمالک کے قلعہ کے پاس پہنچے تھے کہ ایک گھڑ سوار نے مجھے پیچھے سے آوازدی۔ ہم رک گئے ۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم چلتے رہو ۔ میں اس گھڑ سوار کو دیکھتا ہوں ۔ تھوڑی دیر میں وہ گھڑ سوار آپہنچا ۔ اور اس نے ملاقات کے بعد کہا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے مجھے آپ کی ہمراہی سے محروم نہیں فرمایا اور مجھے ناکام نہیں لوٹایا ۔ میں نے کہا اے عزیز اپنے چہرے سے کپڑا ہٹاؤ تاکہ میں تمہں دیکھ کر فیصلہ کر سکوں کہ تم پر جہاد لازم ہوتا ہے یا نہیں ۔ اگر لازم ہوگا تو ساتھ لے جاؤں گا ورنہ واپس لوٹا دوں گا ۔ اس نے چہرہ کھولا تو وہ چودھویں کے چاند کی طرح ایک خوبصورت لڑکا تھا اور اس کے چہرے پر نازو نعمت کے آثار چمک رہے تھے ۔ میں نے کہا بیٹا تمہارے والد زندہ ہیں ۔ اس کہا میں آپ کے ساتھ اپنے والد کا انتقام لینے کے لئے نکلا ہوں وہ اللہ کے راستے میں شہید ہو چکے ہیں ۔ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان کی طرح قبول فرما لے ۔ میں نے پوچھا ۔ اے بیٹے کیا تمہاری والدہ نہیں ہیں ؟ اس نے کہا جی ہاں میں نے کہا جاؤ ان سے اجازت کے کر آؤ اگر اجازت دیں تو آجاؤ ورنہ ان کی خدمت کرو کیونکہ جنت تلواروں کے سائے اور ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے نوجوان نے کہا اے ابو قدامہ آپ نے مجھے نہیں پہچانا ۔ میں اس خاتون کا بیٹا ہوں جس نے آپ کو اپنے بالوں کی رسی دی ہے ۔ میں انشاء اللہ شہید ابن شہید ہوں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ مجھے جہاد سے محروم نہ رکھیں ۔ میں نے قرآن حفظ کر لیا ہے اور حضور اکرم ﷺکی سنت کا علم بھی حاصل کرلیا ہے ۔ گھڑ سواری اور تیر اندازی بھی سیکھ چکا ہوں بلکہ میں نے اپنے علاقے میں اپنے پیچھے اپنے جیسا کوئی گھڑ سوار نہیں چھوڑا آپ میری عمر کو نہ دیکھیں ۔ میری والدہ نے مجھے قسم دی ہے کہ میں واپس لوٹ کر ان کے پاس نہ جاؤ ں اور انہوں نے مجھے کہا ہے کہ اے پیارے بیٹے کافروں سے ڈٹ کر ثابت قدمی سے لڑنا اور اپنی جان اللہ تعالیٰ کو پیش کرنا اور اللہ ٔ کے قرب کی جستجو کرنا ۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں شہادت کی نعمت نصیب فرما دے تو پھر قیامت کے دن میری شفاعت کرنا کیونکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ شہید قیامت کے دن اپنے ستر اہل خانہ اور ستر پڑوسیوں کی شفاعت کرے گا ۔ پھرمیری ماں نے مجھے سینے سے لگا کر بھینچا اور اپنا رخ آسمان کی طرف کر کے کہا۔اے میرے اللہ ! اے میرے آقا ! اے میرے مولا ! یہ میرا بچہ ہے ۔ میرے دل کا پھول اور کلیجے کا ٹکڑا ہے ۔ میں اسے تیرے سپرد کررہی ہوں ۔ اسے اپنے والد کے قریب کردے ۔ ابو قدامہ کہتے ہیں کہ میں نے جب یہ باتیں سنیں تو میں رونے لگا لڑکے نے کہا اے چچا جان آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ اگر آپ کو میرا بچپن دیکھ کر رونا آرہا ہے تو اگر مجھ سے بھی چھوٹی عمر والا کوئی شخص اللہ کی نافرمانی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی عذاب دے گا ۔ میں نے کہا میں تمہاری چھوٹی عمر پر نہیں رورہا لیکن میں تمہاری والدہ کے دل کا سوچ کر رورہا ہوں اور اس بات پر بھی کہ تمہاری شہادت کے بعد اس پر کیا گزرے گی ۔ بہرحال ہمارا لشکر روانہ ہوگیا ۔ میںنے اس لڑکے کے معمولات کو غور سے دیکھا جو اللہ کے ذکر سے بالکل غافل نہیں ہوتا تھا ۔ جب ہمارا لشکر چلتا تو وہ ہم میں بہترین گھڑ سوار تھا اور جب ہم کسی منزل پر رکتے تو وہ ہمارا خدمتگار بن جاتا تھا ۔ وہ مسلسل اپنے عزم کو مضبو ط اوراپنی چستی کو دوبالا اور اپنے دل کو صاف ستھرا کرنے میں لگا رہتا تھا اور خو شی کے آثار اس کے چہرے سے پھوٹتے نظر آتے تھے ۔ ایک دن غروب آفتاب کے وقت ہم نے دشمن کے علاقے کے بالکل قریب پہنچ کر پڑاؤ ڈالا چونکہ ہم روزے دار تھے اس لئے وہ نوجوان ہمارے افطار کے لئے کھانا بنانے لگا اچانک اسے اونگھ آگئی اور وہ سو گیا ۔نیند کے دوران وہ مسکرانے لگا ۔ جب وہ بیدار ہوا تو میں نے کہا بیٹے آپ نیند میں ہنس رہے تھے ۔ اس نے کہا میں نے ایک ایسا عجیب خواب دیکھا جس نے مجھے خوشی سے ہنسادیا میں نےپوچھا تم نے کیا دیکھا خواب میں ؟ کہنے لگا میں نے دیکھا کہ میں عجیب وغریب سبز باغ میں ہوں میں اس میں گھوم پھر رہا تھا کہ میں نے چاندی کا ایک محل دیکھا جس پر موتی جواہرات جڑے ہوئے تھے اس کے سونے کے دروازے پر پردے لٹکے ہوئے تھے اچانک میں نے دیکھا کہ نوجوان لڑکیوں نے پردے ہٹائے ان لڑکیوں کے چہرے چاند کی طرح خوبصورت تھے ۔ انہوں نے مجھے دیکھا توخوش آمدید کہنے لگیں میں نے ان میں سے ایک کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہاتو اس نے کہا جلدی نہ کروابھی اس کا وقت نہیں آیا پھر میں نے سنا کہ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہی تھیں کہ یہ مرضیہ کا خاوند ہے ۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگیں تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو آگے بڑھو ۔ میں آگے بڑھا تو محل کے اوپر والے حصے پر سرخ سونے کا کمرہ تھا جس میں سبز زمرد کی ایک مسہری تھی جس کے پائے چاندی کے تھے اس پر ایک لڑکی بیٹھی تھی جس کا چہرہ سورج کی طرح تابناک تھا اگر اللہ تعالیٰ میری نظروں کو مضبوط نہ فرماتے تو کمرے کا حسن اور لڑکی کی خوبصورتی دیکھ کر میری عقل زائل ہو جاتی اور میری آنکھیں دیکھنے کے قابل نہ رہتیں جب اس لڑکی نے مجھے دیکھا تو کہنے لگی خوش آمدید خوش آمدید ۔ اے اللہ کے ولی او ر اس کے محبوب تم میرے ہو اور میں تمہاری ہوں میں نے چاہا کہ اسے سینے سے لگا لوں تو کہنے لگی ابھی رکو جلدی نہ کرومیری اور تمہاری ملاقات کل ظہر کی نماز کے وقت ہوگی ۔
ابو قدامہ کہتے ہیں کہ خواب سن کر میں نے کہا بیٹے تم نے بڑی خیر کی بات دیکھی ۔ اب خیر ہی ہوگی (انشاء اللہ) صبح کے وقت اعلان جنگ ہو گیا ۔ ہر طرف آوازیں لگنے لگیں ۔ اے اللہ کے سپاہیو! سوار ہو جاؤ اور جنت کی بشارت پاؤ ۔ اسی اثناء میں دشمن کا ٹڈی دل لشکر سامنے آگیا ہم میں سب سے پہلے اسی نوجوان نے حملہ کیا اوردشمنوں کو خوب قتل کیا اور ان کے جتھے کو اس نے توڑ دیا اور ان کی صفوں میں قلب تک گھستا چلا گیا ۔ میں نے اسے اس طرح لڑتے دیکھا تو اس کے قریب آکر میں نے اس کے گھوڑے کی لگام پکڑلی اور کہا اے بیٹے تم ابھی بچے ہو اور لڑائی کے گروں سے واقف نہیں ہو اس لئے پیچھے واپس چلو ۔ [اور اس طرح سے دشمنوںکے درمیان نہ گھسو]اس کہا کہ چچا جان کیا آپ نے قرآن مجید کی آیت نہیں سنی ۔
ترجمہ :۔ اے یمان والو جب تم کافروں سے میدان جنگ میں لڑو تو پیٹھ نہ پھیرو تو کیا چچا جان آپ چاہتے ہیں کہ میں پیچھے ہٹ کر دوزخ والوں میں سے ہوں جاؤں ۔ ہم دونوں باتیں کر رہے تھے کہ دشمن نے یک بارگی حملہ کر دیا اور وہ ہم دونوں کے درمیان حائل ہوگئے اور ہرشخص اپنے طور پر لڑائی میں لگ گیا اس دن بہت سارے مسلمان شہید ہوگئے جب لڑائی تھمی تومقتولوں کی تعداد گننے میں نہیں آرہی تھی میں اپنے گھوڑے پر مقتولین کے درمیان گھومنے لگا ان کا خون زمین پر بہہ رہا تھا اور خون اور غبار کی کثرت کی وجہ سے ان کے چہرے پہچانے نہیں جاتے تھے ابھی میں گھوم رہا تھا کہ میں نے اسی نوجوان لڑکے کو گھوڑوں کے سموں کے درمیان مٹی اور خون میں تڑپتے دیکھا وہ زخمی حالت میں کہہ رہا تھا ۔ اے مسلمانوں ! میرے چچا ابو قدامہ کو میرے پاس بھیجو میں آگے بڑھا اور اس کے پاس پہنچ گیا خون غبار اور سموں کے نیچے روندے جانے کی وجہ سے اس کا چہرہ پہچانا نہیں جا رہا تھا میں نے کہا میں ابو قدامہ ہوں ۔ اس نے کہا اے چچا جان !رب کعبہ کی قسم ! میرا خواب سچا نکلا میں اسی رسی والی خاتون کا بیٹا ہوں ۔ ابو قدامہ کہتے ہیں میں نے اسے گود میں لے لیا اور اس کی پیشانی کا بوسہ لے کر اس کے چہرے سے خون اور غبار صاف کرنے لگا ۔ میں نے کہا پیارے بیٹے قیامت کے دن شفاعت کے وقت اپنے چچا ابو قدامہ کو بھول نہ جانا اس نے کہا آپ جیسوں کو نہیں بھلایاجا سکتا آپ تو اپنے کپڑوں سے میر ا چہرہ صاف کر ہے ہیں۔حالانکہ میرے کپڑے اس خون اورخاک کے زیاہ مستحق ہیںچچا جان اسے اس طرح چھوڑ دیجئے تاکہ میں اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں ۔ چچاجان وہ حور جس کامیں نے رات کو آپ سے تذکرہ کیا تھا میرے سرہانے کھڑی ہے اور مجھے کہہ رہی ہے جلدی کیجئے میں بہت مشتاق ہوں چچا جان اگر آپ واپس چلے گئے تو میری غمگین اور بے چین ماں کو میرے یہ خون آلود کپڑے دے دیجئے گا تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ میں نے اس کی وصیت کو پورا کیا ہے اور دشمنوں کے ساتھ مقابلے میں میں نے بزدلی نہیں دکھائی اور میری طرف سے اسے سلام بھی کہہ دیجئے گا کہیےگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا تحفہ قبول کر لیا ہے ۔ اے چچا جان ! میری ایک چھوٹی سی بہن ہے وہ ابھی دس سال کی ہے میں جب گھر آتا تھا وہ سلام کر کے میرا استقبال کرتی تھی اور جب میں گھر سے نکلتا تھا وہی سب سے آخر میں مجھ سے جداء ہوتی تھی ۔ ابھی جب میں آرہا تھا تو اسنے مجھے رخصت کرتے وقت کہا تھا کہ بھائی جان اللہ کے واسطے واپس آنے میں زیادہ دیر نہ کرنا جب آپ کی اس سے ملاقات ہوتو اسے میرا سلام کہئے گااور کہئے گا کہ تمہارے بھائی نے کہا ہے ۔ اے پیاری بہن ! اب قیامت تک اللہ تمہارا نگہبان ہے پھر وہ مسکرایا اور اس نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ یہ وہ وقت ہے جس کا ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ فرمایا ہے ۔ اور اللہ اور اس کے رسول سچے ہیں یہ الفاظ کہتے ہوئے اس کی روح پرواز کر گئی ۔ ہم نے اس ے دفن کر دیا ۔ اللہ اس سے اور ہم سے راضی ہو جائے ۔ ہم جب اس لڑائی سے واپس لوٹے تو رقہ شہر میں بھی آئے میں فوراًاس نوجوان کے گھرکی طرف روانہ ہوا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک خوبصورت بچی جو شکل و خوبصورتی میں اس نوجوان جیسی تھی دروازے پر کھڑی ہے اور ہر گزرنے والے سے پوچھتی ہے چچاجان آپ کہاں سے آرہے ہیں وہ جواب دیتا جہاد سے ۔ تو پھر پوچھتی کیا میرا بھائی آپ کے ساتھ واپس نہیں آیا وہ کہتا میں تمہارے بھائی کو نہیں پہچانتا ۔ ابو قدامہ کہتے ہیں کہ میں نے جب یہ سنا تو میں اس کے پاس پہنچا ۔ مجھ سے بھی اس نے وہی پوچھا کہ چچا جان !آپ کہاں سے آرہے ہیں میں نے کہاجہاد سے کہنے لگی کیا میرا بھائی آپ کے ساتھ نہیں آیا ۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی اور کہنے لگی کیا ہو گیا سارے لوگ آرہے ہیں ۔ میرا بھائی ابھی تک نہیں آیا ۔ اس کی یہ بات سن کر مجھے بہت رونا آیا ۔ مگر میں نے اس بچی کی خاطر خود کو سنبھال لیا میں نے کہا بیٹی اس گھر کی مالکن کو بتاؤ کہ ابو قدامہ سے بات کر لے۔ میری آواز سن کر وہ خاتون نکل آئیں میں نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور کہنے لگی ابو قدامہ خوشخبری دینے آئے ہو کہ یا تعزیت کرنے ۔ میں نے کہا مجھے اپنی بات کا مطلب سمجھایئے کہنے لگیں اگر میرا بیٹا واپس آگیا ہے تو پھر تم تعزیت کرو اور اگر شہید ہو گیا ہے ۔ تو پھر تم خوشخبری سنانے والے ہو میں نے کہا خوش ہوجاؤ ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارا تحفہ قبول فرمالیا ہے ۔ وہ رونے لگی اور کہنے لگی کیا واقعی قبول فرمالیا ہے میں نے کہا ہاں وہ کہنے لگی تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اسے میرے لئے آخرت میں ذخیرہ بنادیا پھر میں بچی کی طرف بڑھا اور میں نے کہا بیٹی تمہارے بھائی نے تمہیں سلام کہا ہے اور اس نے کہا ہے کہ میرے بعد اللہ تمہارا نگہبان ہے یہ سن کر بچی نے چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر گر گئی تھوڑی دیر بعد میں نے اسے ہلایا تو اس کی روح بھی پرواز کر چکی تھی ۔ میں نے نوجوان کے کپڑے اس کی والدہ کے سپرد کئے اور میں نوجوان اور بچی کے انتقال پر صدمے اور اس عورت کے صبرواستقالال پر تعجب کے ساتھ واپس آگیا ۔ (حکاھا احمد بن الجوزی الدمشقی فی کتابہ المسمی بسوق العروس وانس النفوس)




واجدحسین
 
Top