جو تارِ ہستی سے اتار کے قبا چلے

نور وجدان

لائبریرین
جو تارِ ہستی سے اتار کے قبا چلے
غمِ حیات بھی ہمی سے شرم کھا چلے

نشانے پر لگے تھے تیر جتنے بھی لگے
زمانے کے رواجوں پر سو مسکرا چلے

شجر سیاہ ،دھوپ میں جلے، تو سو ہوئے
صبا کے جھونکے راکھ ساتھ ہی اڑا چلے

بریدہ شاخ سے گلوں کو توڑتے رہے
جو لوگ خوشبو کی نئی دکاں سجا چلے

یہ سیل آب جانے کب تلک پرکھ کرے
کنارے سے چٹان ساتھ جو بہا چلے

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
چٹان ہندی لفظ ہے، اس کو فارسی کی طرح ’چٹاں‘ نہیں کیا جا سکتا۔
اکثر حروف کا اسقاط ہو رہا ہے جس سے روانی متاثر ہے۔
المیٰ نے تو ترسیل و ابلاغ کی سند دے دی ہے۔ شاید میں ہی کج فہم ہوں جس کو کوئی ایک شعر بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
 
Top