یوسف سلطان
محفلین
جو آستاں سے ترے لَو لگائے بیٹھے ہیں
خدا گواہ، وہ دنیا پہ چھائے بیٹھے ہیں
چمک رہی ہیں جبینیں ترے فقیروں کی
تجلّیات کے سہرے سجائے بیٹھےہیں
خدا کے واسطے اب کھول اُن پہ بابِ عطا
جو دیر سے تری چوکھٹ پہ آئے بیٹھے ہیں
جلائے گی اُنہیں اب کیا چمن میں برقِ فلک
جو آشیانہء ہستی جلائے بیٹھے ہیں
بڑے بڑوں کے سَروں سے اُتر رہا ہے خُمار
وہ آج خیر سے محفل پہ چھائے بیٹھے ہیں
جہاں بھی جائیے اُن کے سِتم کا چرچا ہے
وہ ساری خلق میں طوفاں اُٹھائے بیٹھے ہیں
مجال ہےجو کوئی لب ہِلے سرِ محفل
وہ ایک ایک کو آنکھیں دِکھائے بیٹھے ہیں
یہ ایک ہم ہیں کہ اپنوں کے دِل نہ جیت سکے
وہ دشمنوں کو بھی اپنا بنائے بیٹھے ہیں
اجل بھی ہم کو اُٹھانے پہ اب نہیں قادر
یہاں ہم آج کسی کے بِٹھائے بیٹھے ہیں
وفا کے نام پہ، دشمن کا امتحاں بھی سہی
کہ دوستوں کو تو ہم آزمائے بیٹھے ہیں
نصؔیر! ہم میں تواپنوں کی کوئی بات نہیں
کرم ہے اُن کا، جو اپنا بنائے بیٹھے ہیں
پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
خدا گواہ، وہ دنیا پہ چھائے بیٹھے ہیں
چمک رہی ہیں جبینیں ترے فقیروں کی
تجلّیات کے سہرے سجائے بیٹھےہیں
خدا کے واسطے اب کھول اُن پہ بابِ عطا
جو دیر سے تری چوکھٹ پہ آئے بیٹھے ہیں
جلائے گی اُنہیں اب کیا چمن میں برقِ فلک
جو آشیانہء ہستی جلائے بیٹھے ہیں
بڑے بڑوں کے سَروں سے اُتر رہا ہے خُمار
وہ آج خیر سے محفل پہ چھائے بیٹھے ہیں
جہاں بھی جائیے اُن کے سِتم کا چرچا ہے
وہ ساری خلق میں طوفاں اُٹھائے بیٹھے ہیں
مجال ہےجو کوئی لب ہِلے سرِ محفل
وہ ایک ایک کو آنکھیں دِکھائے بیٹھے ہیں
یہ ایک ہم ہیں کہ اپنوں کے دِل نہ جیت سکے
وہ دشمنوں کو بھی اپنا بنائے بیٹھے ہیں
اجل بھی ہم کو اُٹھانے پہ اب نہیں قادر
یہاں ہم آج کسی کے بِٹھائے بیٹھے ہیں
وفا کے نام پہ، دشمن کا امتحاں بھی سہی
کہ دوستوں کو تو ہم آزمائے بیٹھے ہیں
نصؔیر! ہم میں تواپنوں کی کوئی بات نہیں
کرم ہے اُن کا، جو اپنا بنائے بیٹھے ہیں
پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ