جوش جواب اس شب کا دنیا میں نہیں ہے - حضرت جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
جواب اس شب کا دنیا میں نہیں ہے
مرے پہلو میں پھر وہ نازنیں ہے
فضا پر کھیلتی ہے نوجوانی
ہوا میں مستیِ وجد آفریں ہے
سبک فانوس میں طرّار شعلہ
بہ رنگِ یوسفِ زنداں گزیں ہے
گلابی میں شرابِ ارغوانی
بہ نازِ لیلئِ محمل نشیں ہے
معاذاللہ یہ رنگیں فضائیں
نہیں، دنیا نہیں، خلدِ بریں ہے
جنوں انگیز کاکل کی درازی
شکستِ زہد کو تہہ آستیں ہے
قریبِ شام جیسے غنچۂ گل
گلابی یوں وہ چشمِ سرمگیں ہے
وفورِ کیف میں احساسِ مستی
گماں سا ہے، گماں میں کچھ یقیں ہے
دمک اُس رخ پہ کچھ ایسی ہے، گویا
زمانے کی صباحِ اولیں ہے
خجل ظلمات میں ہے آبِ حیواں
سیہ کاکل کے سائے میں جبیں ہے
مری نظروں کے آگے سرخوشی میں
حجابِ زندگی باقی نہیں ہے
عیاں ہے جوہرِ بالائے گردوں
نمایاں دولتِ زیرِ زمیں ہے
خدا کے واسطے خاموش، زاہد!
ترے لب پر چناں ہے اور چنیں ہے
وہاں قہرِ خدا کا ذکر، کیا خوب!
جہاں قہرِ خدا مہر آفریں ہے
وہاں، ارض و سما کی شرح و تفسیر!
جہاں ارض و سما زیرِ نگیں ہے
وہاں، اور موت کی تشریحِ پُرہول!
جہاں موت اک کنیزِ کمتریں ہے
یہاں وہ موت ہے اک وہمِ باطل
تجھے جس موت کا حق الیقیں ہے
خدا، تیرے تخیل میں ہے 'قہار'
بشر، یاں 'رحمۃ اللعالمیں' ہے
یہاں 'قہار' بن جاتا ہے 'رحمٰن'
کہ یہ رندی ہے، درویشی نہیں ہے
یہاں ہر بوند میں ہے موجِ کوثر
یہاں ہر فرش پر عرشِ بریں ہے
یہاں ہر سانس ہے اک سیلِ الہام
یہاں ہر نقش، اک نقشِ نگیں ہے
یہاں کی شورشوں میں ہے ترنم
یہاں کی تلخیوں میں انگبیں ہے
یہاں ہر قہقہہ ہے لحنِ داؤد
یہاں ہر زمزمہ روح الامیں ہے
یہاں ہر سنگ ہے لعلِ بدخشاں
یہاں ہر خار برگِ یاسمیں ہے
یہاں کونین ہے اک موجِ صہبا
یہاں ارض و سما اک ساتگیں ہے
ساتگیں = پیالۂ شرابخوری
یہاں ہر جام میں غلطاں ہے کوثر
یہاں ہر جیب میں خلدِ بریں ہے
یہاں ہر مطربِ حسن و جوانی
یکے از انبیائے مرسلیں ہے
یہاں ہر غلغلہ ہے خالقِ جاں
یہاں ہر ولولہ دہر آفریں ہے
تری دنیا ہے زشت و خوب میں گم
مری سرحد ورائے کفر و دیں ہے
مجھے ہر کلیہ ہے ظن و تخمیں
تجھے ہر واہمہ حق الیقیں ہے
ترا سر ہے شریعت کے قدم پر
یہاں پائے مشیت پر جبیں ہے
مرا پیمانہ ہے یزداں در آغوش
ترا احرام بت در آستیں ہے
زِ روئے نصِ قرآں نفعِ مے سے
تجھے انکار کی جرأت نہیں ہے
ارے او عظمتِ عصیاں کے منکر!
'گناہوں' پر مرے کیوں خشمگیں ہے؟
خلافت ارض کی بخشی ہے جس نے
وہ آدم کا گناہِ اولیں ہے
ذرا تو دیکھ اِس حسنِ جواں کو
تری آنکھوں میں بینائی نہیں ہے؟
نظر میں ہے فروغِ لالہ و گل
کمر پر موجِ زلفِ عنبریں ہے
تجمل میں ہے اک شانِ تبسم
تبسم ہے کہ موجِ انگبیں ہے
تکلم میں ہے تمکینِ خموشی
خموشی ہے کہ لحنِ دلنشیں ہے
تخاطب میں ہے اندازِ تغافل
تغافل ہے کہ چشمِ دوربیں ہے
معاذاللہ یہ الہڑ بادہ نوشی
کہیں چادر ہے، اور کاکل کہیں ہے
لہکتی، گنگناتی، لڑکھڑاتی
جوانی ہوش میں گویا نہیں ہے
صدا یہ دے رہا ہے طور سے کون؟
کوئی کہہ دو مجھے فرصت نہیں ہے!
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۳۲ء
 

سید ذیشان

محفلین
معاذاللہ یہ رنگیں فضائیں​
نہیں، دنیا نہیں، خلدِ بریں ہے​
واہ، بہت عمدہ!​
ابھی کل ہی بادلوں نے مغرب کے وقت ایسا منظر بنایا تھا کہ کافی دیر تک میں اس کو تکتا رہا تھا۔ مجھے بھی خلدِ بریں کا گمان ہو رہا تھا :)
 
واہ واہ بے حد عمدہ ۔۔۔۔کہ پڑھ کر لطف ہی آ جاتا ہے ۔
صدا یہ دے رہا ہے طور سے کون؟
کوئی کہہ دو مجھے فرصت نہیں ہے!
جیتے رہیئے حسان میاں ۔
 
Top