جنگل میں دھنک - منیر نیازی

الف عین

لائبریرین
بسنت رُت

کام دیو کی دھنُش سے نکلے موہن تیکھے بان
سُکھ ساگر کی لہریں آئیں چڑھتے چندر سمان
نگر نگر میں چھڑا ہوا ہے مدھر ملن کا راگ
سدا سہاگن چنچل ناریں ہنس ہنس کھیلیں پھاگ
سرد ہوا میں کھلی ہوئی ہے ہرے رنگ کی گھاس
کُنج کُنج میں جاگ رہی ہے پیلے پھول کی باس
پھر بھی لاکھوں سندریوں کا کومل من ہے اداس
 

الف عین

لائبریرین
مدھر مِلن

گھر کی منڈیروں پر گھر آئی کالی گھور گھٹا
بوندوں کی رِم جھِم میں سارے شہر کا شور مِٹا
بجلی نے نیلے پربت کو لہو لہان کیا

چھت پر پازیبوں میں دُکھ کا ساگر دوب گیا
لاج کی خوشبو کا سندیسہ چاروں اور بڑھا
بجلی نے نیلے پربت کو لہو لہان کیا
 

الف عین

لائبریرین
پرتگیا

کیسے میٹھے بول سنے ہیں پھر بھی خاموش رہا ہوں
اپنے ہی غم کے نشّے کی تانوں سے مدہوش ہوا ہوں

آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جب اس نے پرنام کیا تھا
اُس کی اندھی پوجا کا میں نے یہ انعام دیا تھا

چلی گئی تو میں نے دل کو یہ کہہ کر سمجھایا تھا
وہ اک شام کا سایہ تھا جو مجھے منانے آیا تھا

جو ہونا تھا ہو بھی چکا ہے اب میں اور نہ درد سہوں گا
میں بھی اب سے شام کا سایہ بن کر اُس کے ساتھ رہوں گا
 

الف عین

لائبریرین
جاگو موہن پیارے


چھپے گن کی اوٹ میں اس کے نینوں جیسے تارے
دکھ کا سندیسہ لے کر آئے چاہت کے ہرکارے
آئی نہ ملنے رادھا رانی لاکھ جتن کر ہارے
رات گزر گئ سپنوں والی جاگو موہن پیارے
 

الف عین

لائبریرین
سارے روپ


ہنس ہنس پریت جگاتے دیکھا
جھوٹی قسمیں کھاتے بھی

اپنی چاہ میں روتے دیکھا
ناطہ توڑ کے جاتے بھی

گہری شام کی بجلی بن کر
پربت پر لہراتے بھی

ساون کی منہ زور ہوا میں
چھت کے دیے جلاتے بھی
 

الف عین

لائبریرین
دوٗری کا گیت

نیل گگن کا گہرا ساگر
تارے بہتے جاتے ہیں
اپنے اپنے دُکھ کی کہانی
مجھ سے کہتے جاتے ہیں

ان کے جی کو روگ لگا ہے
چندرماں کی دوری کا
لیکن کس سے ٹوٹ سکا ہے
بندھن اس مجبوری کا

اسی اداسی کے تیروں کو
دل پر سہتے جاتے ہیں
نیل گگن کا گہرا ساگر
تارے بہتے جاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
راستے کی سوچ

شام بھی سونے پنگھٹ جیسی گہرے گہرے بادل تھے
اب بھی مجھ کو یاد ہے جب میں چلا تھا چھُپ کے مدھوبن سے

کتنی دیر لگائی میں نے بگڑے کام بنانے میں
بیت گئے ہیں کئی زمانے جا کر واپس آنے میں

کیسے اس کے دل سے میں یہ گہری بات بھلاؤں گا
کیا منہ لے کر میں اپنی رادھا کے سامنے جاؤں گا
 

الف عین

لائبریرین
راستے کی تھکن


آس پاس کوئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے
شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوٗبی آئی ہے
پل پل بجلی چمک رہی ہے اور میلوں تنہائی ہے

کتنے جتن کیے ملنے کو پھر بھی کتنی دوری ہے
چلتے چلتے ہار گیا میں پھر بھی راہ ادھوری ہے
گھایل ہے آواز ہوا کی اور دل کی مجبوری ہے
 

الف عین

لائبریرین
جنگل میں زندگی


پُر اسرار بلاؤں والا
سارا جنگل دشمن ہے
شام کی بارش کی ٹپ ٹپ
اور میرے گھر کا آنگن ہے

ہاتھ میں اک ہتھیار نہیں ہے
باہر جاتے ڈرتا ہوں
رات کے بھوکے شیروں سے
بچنے کی کوشش کرتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
جنگل کا جادو

جس کے کالے سایوں میں ہے وحشی چیتوں کی آبادی
اس جنگل میں دیکھی میں نے لہو میں لتھڑی اک شہزادی

اس کے پاس ہی نگے جسموں والے سادھو جھوم رہے تھے
پیلے پیلے دانت نکالے نعش کی گردن چوم رہے تھے

ایک بڑے سے پیڑ کے اوپر کچھ گِدھ بیٹھے اونگھ رہے تھے
سانپوں جیسی آنکھیں میچے خون کی خوشبو سونگھ رہے تھے
\
 

الف عین

لائبریرین
سُندر بن میں ایک رات

رات تھی گہرے راز سی
چھپی ہوئی آواز سی
میں بھی رستہ بھول کے
چھوڑ کے ساتھی پھول سے
دیکھ کے بڑھتی رات کو
سر پر چڑھتی رات کو
ڈر کر دھوکا کھا گیا
اس جنگل میں آ گیا
یہاں عجب ہی حال تھا
بن تھا گہرے جال سا
سبز کے اندر لال سا
پیڑ تھے کچھ نمناک سے
گم سم اور غمناک سے
اونچے ہیبت ناک سے
اوپر چاند کی روشنی
نیچے گہری تیرگی
شیر دھاڑا دیر تک
جنگل گونجا دیر تک
 

الف عین

لائبریرین
اداس کرنے والی آواز

آدھی رات اور ایسا موسم
ساری دنیا سوتی ہے

دور سے آتی تیز ہوا
خوشبو کے ہار پروتی ہے

چھپ کر دیکھوں کون ہے یہ
جو پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
سفر سے روکنے والی آواز


’’ٹھہر جانا۔۔۔ ٹھہر جانا۔۔۔۔‘‘
بلاتی ہے ارے ناداں
مجھے آواز گھایل سی

سنبھل جانا۔۔ نہ رک جانا
صدا ہے یہ ارے ناداں
ہوا میں اڑتے بادل کی
 

الف عین

لائبریرین
سفر سے روکنے والی آواز


’’ٹھہر جانا۔۔۔ ٹھہر جانا۔۔۔۔‘‘
بلاتی ہے ارے ناداں
مجھے آواز گھایل سی

سنبھل جانا۔۔ نہ رک جانا
صدا ہے یہ ارے ناداں
ہوا میں اڑتے بادل کی




ویران درگاہ میں آواز

اک بڑی درگاہ تھی اور ہلکی ہلکی چاندنی
مسکراہٹ جیسے پیلے آدمنی کی نعش کی

چلتے چلتے میں نے کوئی سرسراہٹ سی سنی
ہولے ہولے پاس آئی ایک آہٹ سی سنی

دور تک کچھ بھی نہ تھا معبد کے سایے کے سوا
میری اپنی چاپ سے ہی میرا دل ڈرنے لگا

خوف سے گھبرا کے میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی
اُف خدا! یہ سانس جیسے اک قیامت بن گئی

دیر تک جیسے سفر کرتی ہے گنبد کی صدا
تھا اثر ایسا ہی کچھ اس میری آہِ سرد کا

صحن سارا سہمی سہمی آہٹوں سے بھر گیا
بڑھ رہا ہو چھپ کے جیسے دشمنوں کا قافلہ

’’کون ہے؟‘‘ میں اک عجب موجودگی سے ڈر گیا
جیسے کوئی تھا وہاں پر، پھر بھی وہ روپوش تھا

’’کون ہے؟‘‘ ۔۔ ’’کون ہے؟‘‘ ۔۔’’کون ہے؟‘‘
یوں جواب آتا رہا جیسے کوئی بے چین لَے

’’کیا کہاں کوئی نہیں ہے؟‘‘
میں نے پھر ڈر کر کہا

’’کوئی ہے ۔۔ کوئی نہیں ہے
کوئی ہے ۔۔ کوئی نہیں ہے۔۔‘‘
دیر تک ہوتا رہا
 

الف عین

لائبریرین
ایک اور خواہش

خواہشیں ہیں دل میں اتنی جتنے اس دنیا میں غم

شوق سے جلتی جبینیں اور جادو کے صنم
مہرباں سرگوشیاں، نا مہربانی کے ستم
آنکھ کے پُر پیچ رستے، ریشمی زلفوں کے خم

اصل میں کیا ہے یہ سب؟ کچھ بھی پتہ چلتا نہیں
چاند جیسے آسماں کا جو کبھی ڈھلتا نہیں
شعلہ جیسے وہم کا، بجھتا نہیں جلتا نہیں

لاکھ کوشش کر چکا ہوں پھر بھی کچھ سمجھا نہیں
لاکھ شکلیں دیکھ لی ہیں پھر بھی کچھ دیکھا نہیں

گر خبر مل جائے مجھ کو اس نرالے راز کی
ٹوٹ جایے حد کہیں تخئیل کی پرواز کی
 

الف عین

لائبریرین
جبر کا اختیار

تاج پہن کر شاہ بنوں یا گلیوں کا رہگیر
دِیا بنوں اور جلوں ہوا میں یا زہریلا تیر
میرے بس میں ہے اب سب کچھ، موت ہے میری اسیر
آسماں میرے پاؤں تلے ہے، مٹھی میں تقدیر
مجھ کو گھایل کر نہیں سکتی چاہت کی شمشیر
کتنے جتن سے توڑی میں نے خواہش کی زنجیر
 

الف عین

لائبریرین
وجود کی اہمیت

توٗ ہے تو پھر میں بھی ہوں
میں ہوں تو یہ سب کچھ ہے
دکھ کی آگ بھی، موت کا غم بھی
دل کا درد اور آنکھ کا نم بھی

میں جو نہ ہوتا
میری طرح پھر کون
جہاں کے
اتنے غموں کا بوجھ اٹھاتا
دوزخ کے شعلوں میں جل کر
شعروں کے گلزار کھِلاتا
 

الف عین

لائبریرین
فنا اور بقا

ابھی ان گنت دلربا صورتیں ہیں
جو مٹّی کے ذرّوں، ہوا کے جھکوروں، فلک کے ستاروں، گُلوں کے تعطّر میں پوشیدہ و نادمیدہ پڑی ہیں
کبھی شام آئے گی
جب ہر جگہ ان کی باتوں کی بجتی ہوئی گھنٹیوں کے مدھُر شور کی لَے سے بھر جائے گی
ہر گلی ان کے نازک دبے پاؤں چلنے کی آہٹ کے جادو میں کھو جائے گی
ہر بجھی صبح ان کے تنفّس کی جلتی ہوئی خوشبوؤں سے مہک جائے گی
[پھر اسی طرح جیسے تم اب میرے پہلو میں چپ بیٹھی شرما رہی ہو
کبھی رات آئے گی
جب وہ بھی سولہ سنگھاروں سے سج کر
کسی پریمی کی میٹھی سنگت میں بیٹھی
خود اپنی ہی سوچوں سے شرمائیں گی
 

الف عین

لائبریرین
میں اور میرا خدا

لاکھوں شکلوں کے میلے میں تنہا رہنا میرا کام
بھیس بدل کر دیکھتے رہنا تیز ہواؤں کا کہرام
ایک طرف آواز اکا سورج، ایک طرف اس کا انجام
ایک طرف جسموں کی خوشبو، ایک طرف اس کا انجام
بن گیا قاتل میرے لیے تو اپنی ہی نظروں کا نام
سب سے بڑا ہے نام خدا کا اس کے بعد ہے میرا نام
میں اور میرا سایہ
ایک دفعہ میں آگے بھاگا
 

الف عین

لائبریرین
میں اور میرا سایہ

ایک دفعہ میں آگے بھاگا
اور وہ میرے پیچھے
ایک دفعہ وہ آگے آگے
اور میں اس کے پیچھے
 
Top