جمیعت، ایک غنڈہ اور دہشت گرد تنظیم!

نبیل

تکنیکی معاون
آج جمیعت نے ایک مرتبہ پھر اپنا حقیقی روپ دکھا دیا ہے۔ عمران خان آج جب طلبا کے مظاہرے کی قیادت کے لیے پنجاب یونیورسٹی پہنچا جمیعت کے کارکنوں نے اس وقت ایک کمرے میں بند کر دیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر یونیورسٹی سے چلا جائے۔ بعد میں جماعت اسلامی کے رہنما اور جمیعت کے سابق ناظم اعلی امیرالعظیم نے عمران خان کو رہا کروانے کی کوشش بھی کی۔ بعد میں پولیس عمران خان کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر لے گئی۔ اس وقت جبکہ سول سوسائٹی آمریت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کے لیے باہمی اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے وہاں پر ان غنڈہ عناصر کو محض پنجاب یونیورسٹی پر اپنی چودہراہٹ‌ قائم کرنے کی فکر لاحق ہے۔ جنرل مشرف کو واقعی کسی تحریک مزاحمت کی جانب سے فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے، اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے کچھ لوگ پہلے ہی تیار بیٹھے ہیں۔
 
عمران خان پابند سلاسل

آج اسلامی جمیعت طلبا نے ثابت کردیا کہ وہ واقعی آمریت کے ساتھ ہے اب جمیعت والے جو بھی توجیہ پیش کریں نا قابل قبول ہے، یہ اس تنطیم کی پرانی دھشتگردی ہے۔ اس کا سد باب کیا جائے۔ اس سے بہتر تو سیکیولر قوتیں ہیں۔ کیا خیال ہے؟
 
میں‌تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ طلبا کچھ نہیں‌کرسکتے ۔ یہ تو اپس کی سرپھٹول کرلیں‌گے یا غریب دکاندار کی کولڈ ڈرنک چرالیں گے۔ ان سے اپس کے دنگوں کے سوا کچھ نہیں‌ہونےکا۔ خوامخواہ عمران ہلکان ہورہا تھا کہ طلبہ یہ کرلیں‌گے وہ کرلیں‌گے۔پکڑ کر اسے ہی بند کردیا۔
اب بھی وقت ہے متحد ہوکر ایک ہی پارٹی کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ قوم کو چھٹکارا ملے۔
 

محسن حجازی

محفلین
پھر جب میں جماعت اسلامی کو ملک بھر سے ڈاڑھیوں کی کلیکشن کہتا ہوں تو لوگ برا مانتے ہیں۔۔۔۔ جب میں کہتا ہوں کہ جماعت اسلامی ایک ایسا بے وقوفوں ٹولہ ہے جس میں ہر بے وقوف کا باریش ہونا ضروری ہے تو پھر برا مانتے ہیں۔۔۔ پھر میں جب کہتا ہوں کہ۔۔۔ آپ لوگ برا مانتے ہیں۔۔۔ یہ قاضی چور چاچا پراچہ سب جمیعت ہی کی تو پیداوار ہیں۔۔۔۔
صم بکم عم فہم لا یرجعون۔۔۔۔
 

خرم

محفلین
تو بھائی جمیعت و جماعت سے آپ کس بات کی توقع رکھتے ہیں؟ جس جماعت کے پہلے سالانہ اجلاس کی صدارت کی ہو موہن داس کرم چند گاندھی نے، جس جماعت کے امیر کو پینٹاگون میں بریفنگز دی جاتی ہوں اور جس جمعیت کا واحد کام اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنا اور غیر جماعتیوں کی تذلیل کرنا ہو ان سے اور کیا توقع کریں‌گے؟ ان کا تو صرف ایک کام ہے، امت کے دل سے حُبِ رسول ختم کرنا اور اس کی پیٹھ پر وار کرنا اور یہ کام یہ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ نجانے لوگ ان کے نقلی روپ کو اصل کیوں‌سمجھ بیٹھتے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اس سال 12 مئی کو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرنے کے لیے کراچی آنے کی کوشش کی تھی تو ایم کیو ایم نے پورے شہر میں آگ لگا دی تھی اور لاشوں کے ڈھیر لگا دیے تھے۔ اس کا مقصد صرف یہ باور کرانا تھا کہ کراچی ایم کیو ایم کی جاگیر۔ آج کے واقعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ جماعت اسلامی اور جمیعت کسی طرح بھی ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او سے کم نہیں ہیں۔ جس طرح ایم کیو ایم نے کراچی کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے اسی طرح سے جمیعت نے بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے پنجاب یونیورسٹی کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا۔ جماعت اسلامی کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ مختلف قومی اداروں میں نفوذ کرکے ان کی جڑیں کھوکھلی کر کے انہیں تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
آج جمیعت نے ایک مرتبہ پھر اپنا حقیقی روپ دکھا دیا ہے۔ عمران خان آج جب طلبا کے مظاہرے کی قیادت کے لیے پنجاب یونیورسٹی پہنچا جمیعت کے کارکنوں نے اس وقت ایک کمرے میں بند کر دیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر یونیورسٹی سے چلا جائے۔ بعد میں جماعت اسلامی کے رہنما اور جمیعت کے سابق ناظم اعلی امیرالعظیم نے عمران خان کو رہا کروانے کی کوشش بھی کی۔ بعد میں پولیس عمران خان کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر لے گئی۔ اس وقت جبکہ سول سوسائٹی آمریت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کے لیے باہمی اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے وہاں پر ان غنڈہ عناصر کو محض پنجاب یونیورسٹی پر اپنی چودہراہٹ‌ قائم کرنے کی فکر لاحق ہے۔ جنرل مشرف کو واقعی کسی تحریک مزاحمت کی جانب سے فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے، اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے کچھ لوگ پہلے ہی تیار بیٹھے ہیں۔

اس گروہ کے ذہن اور طریقہ کار کے بارے میں ہمت علی کے دھاگے " کونسا پاکستان" میں کیئے گئے میرے ایک پیغام کا اقتباس ملاحظہ ہو ۔

مشرقی پاکستان اور اب کے واقعات کو یکجا کر کے دیکھیں تو منظر بخوبی واضع ہوجائے گا ۔ مشرقی پاکستان کا جو سانحہ ہوا ۔ اس کا ایک پس منظر ہے ۔ میں زیادہ دور نہیں جانا چاہتا ۔ اس کی ابتداء تو قیامِ پاکستان سے ہی ہو گئی تھی ۔ علماء کا وہ گروہ جس نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔ قیامِ پاکستان کے بعد کس طرح نئی حکمتِ عملی وضع کرکے اپنا کام کرتے رہے ۔ آپ اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو دیکھیئے 1970 کی انتخابی مہم کے دوران شوکت اسلام کا مظاہرہ کیا تھا ۔ وہ مظاہرہ ہی ایک ایسا نقطعہ تھا جہاں اس گروہ کا اصل مزاج ظاہر ہوا ۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ملک واضع طور پر دو نظریاتی گروہ میں بٹ چکا تھا ۔ اور شوکت اسلام نے ایک گروہ کی انتہا پسندی کو ظاہر کردیا تھا ۔ پھر یہی انتہا پسندی مشرقی پاکستان میں عسکری پسندی کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔ ان لوگوں نے اسلام کے نام پر فوج کے ساتھ مل کر بنگالیوں کے خلاف ہتھیار اٹھا ئے ۔ بنگالی سوسائٹی کے تاروپود ہلاد یئے ۔وہاں کے دانشوروں‌کو قتل کیا ۔ یہاں یہ بتانا کہ کیا صحیح تھا کیا غلط اس پر گفتگو مقصود نہیں ۔ صرف یہ واضع کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ یہ ذہن پیدا کیسے ہوا ۔ ؟ پھر پی این اے کے دوران اس مزاج نے نظامِ مصطفے کا نعرہ لگا کر کس طرح قوم کے اعصاب پر سوار ہونے کی کوشش کی ۔ اور ملک کی وہ تمام قوتیں جو پاکستان کی معاشی ترقی اور سول سوسائٹی کے خلاف تھیں انہوں نے نئے جدید ترقی پذیر پاکستان کے خلاف اتحاد بنا لیا ۔ 1970 میں یہ ایک پھر فوج کی گود میں جا بیھٹے ۔ کچھ عرصے بعد افغانستان کے حالات تبدیل ہوئے اور پھر یہ لوگ افغان جہاد کے نام پر فوج کے دست و بازو بن گئے اور افغان جہاد کے نام پر ملک اور ملک کے باہر سے ڈالرز ، ہتھیار اور ڈرگ جیسے وسائل سمیٹتے رہے ۔ اب جو کچھ ہورہا ہے اسی کا پھل ہے جو ساری قوم کاٹ رہی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا مقصد اعلی و ارفع رہا ہو ۔ مگر ان کا طریقہ کار شروع دن ہی سے یہ رہا ہے کہ فوج کا ساتھ دیا جائے ۔ عسکریت کا راستہ چنا جائے اور وقت پڑے تو آمروں کی حمایت سے بھی دریغ نہیں‌ کیا جائے ۔ 17 ھویں ترمیم اور اب کے شمالی علاقاجات کے حالیہ واقعات کے تناظر میں اس سارے معاملے کو دیکھیں تو یہ بات صاف سامنے آجاتی ہے کہ یہ ایک ذہن ہے ۔ مزاج ہے ۔ میں اب اس مزاج کے بارے میں آپ سے کیا کہوں ۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے کیا رنگ و ڈھنگ ہیں اور اس کے ڈانڈے کہاں سے ملے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے پہلے کیا کیا تھا اور اب کیا کرنے جا رہے ہیں ۔ !
 

ظفری

لائبریرین
اس سال 12 مئی کو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرنے کے لیے کراچی آنے کی کوشش کی تھی تو ایم کیو ایم نے پورے شہر میں آگ لگا دی تھی اور لاشوں کے ڈھیر لگا دیے تھے۔ اس کا مقصد صرف یہ باور کرانا تھا کہ کراچی ایم کیو ایم کی جاگیر۔ آج کے واقعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ جماعت اسلامی اور جمیعت کسی طرح بھی ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او سے کم نہیں ہیں۔ جس طرح ایم کیو ایم نے کراچی کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے اسی طرح سے جمیعت نے بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے پنجاب یونیورسٹی کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا۔ جماعت اسلامی کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ مختلف قومی اداروں میں نفوذ کرکے ان کی جڑیں کھوکھلی کر کے انہیں تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔

نبیل بھائی آپ بھول رہے ہیں کہ ایم کیو ایم سے پہلے کراچی جماعتِ اسلامی کی جاگیر تھی ۔ بس یہ ہوا کہ ایک غنڈے نے دوسرے غنڈے سے یہ بھتے کی جگہ چھین لی ۔ اور آج بھی دونوں‌ میں کھنچا تانی اور جنگ جاری ہے ۔ جس میں 12 مئی جیسے ، پہلے اور بعد کے بہت سے دوسرے واقعات بھرے پڑے ہیں ۔
 
1100299157-1.jpg

حامی طلبہ کے کاندھوں پر۔
1100299162-1.jpg

گاڑی میں پھینکے جانے کا منظر۔۔۔ چھوٹی تصویر میں کھینچا تانی۔۔۔ جمعیت کا کمینہ پن۔۔۔۔ (ویسے کمینہ پن بہت معمولی لفظ ہے، میں اس سے بڑا لکھنا چاہتا ہوں لیکن۔۔۔۔ :mad: )
 
روزنامہ "ایکسپریس"۔ لاہور۔ 15نومبر 2007ء
1100299161-1.jpg

1100299161-2.gif


لطیفے:
یونیورسٹی میں سیاست نہیں کرنے دیں گے۔ جمعیت (کیونکہ یونیورسٹی سیاست کی نہیں، غنڈہ گردی کی جگہ ہے)
طلبہ کا مؤقف تھا کہ عمران خان یونیورسٹی میں سیاست چمکانے کے لیے آئے تھے، اگر وہ سیاست کرنے کے خواہشمند تھے تو انہیں اسلام آباد میں مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ (باقی شہروں میں مظاہرہ کرنا جمعیت کی شرع کے مطابقت ناجائز و حرام ہوگا)
آن لائن کے مطابق اس موقع پر چند طلبہ نے عمران خان کو تھپڑ بھی مارے۔ (حد ہی ہوگئی ہے)
رہنماؤں نے کہا کہ یہ اپوزیشن کے اتحاد کے خلاف ایک سازش ہے۔ (کس کی؟؟؟)
آگے بھی بہت سی باتیں ہیں، لیکن ان پر تبصرہ کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔
 
1100299157-1.jpg

حامی طلبہ کے کاندھوں پر۔
1100299162-1.jpg

گاڑی میں پھینکے جانے کا منظر۔۔۔ چھوٹی تصویر میں کھینچا تانی۔۔۔ جمعیت کا کمینہ پن۔۔۔۔ (ویسے کمینہ پن بہت معمولی لفظ ہے، میں اس سے بڑا لکھنا چاہتا ہوں لیکن۔۔۔۔ :mad: )

بے چارہ ہاو ہو میں‌مارا گیا۔
 
غور سے پڑھیے۔ کرکے نہیں مارا گیا۔ دوسروں‌کے ہاوہو میں‌مارا گیا۔
یعنی دوسرے ہاو ہو کررہے تھے مگر مارا عمران گیا۔
ہر بات سمجھانی پڑتی ہے۔
 
Top