بابا نجمی جس دھرتی تے رجواں ٹکر کھاندے نئیں مزدور

غدیر زھرا

لائبریرین
جس زمین پر مزدور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھا پائیں وہاں کے حاکم جانوروں کی مثل ہیں۔۔-

اے ملا میری طرح چار دن آگ کی بھٹی کے قریب کھڑا ہو پھر مجھے اپنے چہرے کا نور دکھانا۔۔۔

لیڈر کی جانب دیکھو پڑوسی کے ساتھ لڑائی کرتا ہے اور سات سمندر دور رہنے والے کے ساتھ یارانہ قائم رکھے ہے۔۔۔
(آگُو میرے ناقص علم کے مطابق لیڈر کوکہتے ہیں)

پل پل ضرورتوں کا دریا چوڑا ہو رہا ہے اور دھیرے دھیرےحسرتوں کا جمع جٹھ ڈوبتا جا رہا ہے۔۔۔

میں تو جانے کب کا اس دھرتی سے کوچ کر چکا ہوتا گر میں نے بابا آپ کا منشور نہ سنا ہوتا۔۔۔

اگر تم اندھیرے میں مجھے پھول بھی دو تب بھی میں ان پر تھوکتا ہوں ۔۔ مجھے عین دوپہر میں جلتے پتھر منظور ہیں۔۔۔

جب سے میں ہاتھ سے مانگنے کا برتن پھینک کر قلم دوات لایا ہوں مجھے منزل پکارنے لگی ہے اور راستے روشن ہو گئے ہیں۔۔۔

دیکھو تو ذرا بابا اس دستور سے کامی لوگوں کے حق تلاش رہا ہے جو اونچے محلوں میں مرتب پاتا ہے۔۔۔

ادب دوست ، راحیل فاروق
 
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا!
ہو کھیل مریدی کا تو ہَرتا ہے بہت جلد

سر یہ بھی تو کہا تھا :)

مجھے تو نظم کا عنوان بھی یاد ہے. بس خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گیا۔۔
ضروری نہیں کے تمام افراد متفق ہوں ' یا کم از کم اس تناظر کو سمجھنے کی صلاحیت کے حامل ہو‍ جس تناظر میں علامہ نے کہا۔
اس لیے اور بھی کہ
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دَم
انیس' ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
 

غدیر زھرا

لائبریرین
مجھے تو نظم کا عنوان بھی یاد ہے. بس خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گیا۔۔
ضروری نہیں کے تمام افراد متفق ہوں ' یا کم از کم اس تناظر کو سمجھنے کی صلاحیت کے حامل ہو‍ جس تناظر میں علامہ نے کہا۔
اس لیے اور بھی کہ
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دَم
انیس' ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
بجا فرمایا آپ نے :)
 
Top