جان کیٹس کی شہرہ آفاق نظم کا نثری ترجمہ (25 سال قبل کیا)

’ابدی مسرت۔۔۔‘
تابِ جمال مسرتِ ابدی ہے،
جس کی کرنوں کا تاج دمکتا ہی رہے گا،
جو کبھی عدم کے وجود میں فنا نہیں ہو گی،
مگر ہمیشہ ہمارے لیے،
ایک پُر سکوت حریمِ ناز بنی رہے گی،
ایک ایسی نیند کہ جس کا سِحر،
سنہری خوابوں،
سرمدی صحت،
اور ریشمی تنفس کی سرسراہٹ سے کھنچا ہو گا،
ورنہ کوئی سبب دیگر ہے کہ ہم ہر صبح،
یاسیت کی گھٹاؤں،
ام روزِ تیرہ صفّت،
قحط الرجال،
اور سفرِ حیات کی،
تاریک تر راہوں کے با وجود،
اک امید نُو کے ساتھ بیدار ہوتے ہیں،
اور بے شک غم و انبوہ اپنی جگہ،
مگر جا بجا بکھرے،
حُسنِ فطرت کے دل کش مناظر،
ہماری تاریک روحوں پر پڑی،
چادر مرگ چاک کر دیتے ہیں،
جیسے:
آسمان پر کھلتے آفتاب و ماہ تاب؛
نو خیز اور بوڑھے درخت،
جو بے زبان بھیڑوں کے لیے،
گھنے سائے کی چھتریاں باہم پروتے ہیں؛
اور نرگسِ آبی کی سر سبز دنیا میں رواں،
صاف و شفاف پانی کے جھرنے،
جو دہکتے موسم کے دو بدو،
اپنے لیے ایک جہانِ سرد تعمیر کرتے ہیں؛
اور مشک گلاب کی خوشبوؤں سے معمور،
دشتِ ویراں کے بیچ خوابیدہ سر سبز قطعات؛
اور اسی طرح ،
زاہدان با صفا کی ارواح کے لیے،
ہمارا تراشیدہ،
ابدی گنبدوں کا پُر شِکوہ تخیل؛
اور وہ تمام خوب صورت داستانیں بھی؛
کس قدر مسرت انگیز ہیں،
جنہیں ہم نے،
حیاتِ جاودانی کے ابدی چشمے،
کی بابت،
پڑھا یا سُنا ہے،
کہ جس کی بوندوں نے،
فلک کے کناروں سے ڈھلک کر،
ہمارے پیاسے سینوں میں جذب ہونا ہے،
مگر ہم تو فطرت کے جواہر کا حُسن،
چند لمحوں سے زیادہ محسوس کر ہی نہیں پاتے،
ہمارے فانی آنکھیں دیکھ نہیں پاتیں،
کہ کس طرح،
کسی معبد کے سینے سے لپٹے درخت،
کتنی جلد،
معبد ہی کی طرح مقدّس ہو جاتے ہیں،
اور کس طرح حُسنِ ابدی کا استعارہ،
اور شعراء کے تخیل کی مہمیز،
آسمان پر چمکتے چاند کی کرنیں،
ہماری پلکوں سے لپٹ کر،
ہماری آنکھوں کے لیے،
چراغ راہ بن جاتی ہیں،
اور کس طرح ہم میں سما جاتی ہیں،
کہ خواہ اَماوس ہو یا جواں پونم،
وہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں،
ہمارا دَم نکلنے تک۔۔۔۔۔۔‘



مترجم: عاصمؔ شمس
22-07-2014
 
آخری تدوین:
Top