جانے شیخ کو شب کیا سوجھی

یوسف-2

محفلین
شیخ الاسلام شو
(ابونثر، روزنامہ نئی بات)​
ہمارے اہلِ وطن بھی خوب لوگ ہیں۔ ابھی ایک مشہور ڈرامے ’’عشق ممنوع‘‘ کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہوئے تھے کہ اب ’’شیخ الاسلام شو‘‘ کے خلاف ہرزہ سرائیوں پر اُتر آئے ہیں۔اوّل الذکر ترکی سے درآمد کیا گیا تھااور ثانی الذکر کنیڈاسے آیا، لایا، بلایا ۔۔۔یا۔۔۔ بھجوایا گیا ہے۔ یوں تو ہماری پوری کی پوری قوم ہی میلوں ٹھیلوں کی شوقین ہے۔ مگر زندہ دلانِ لاہور اِس معاملہ میں اتنی شہرت رکھتے ہیں کہ بعض اوقات اُنھیں خود سوچنا پڑتا ہے کہ۔۔۔میں اِسے شہرت کہوں یا اپنی رُسوائی کہوں؟۔۔۔ پس اِسی شہرت (یارُسوائی) کی وجہ سے۔۔۔ آسماں سے جو کوئی تازہ بلاآتی ہے۔۔۔ پوچھتی سب سے ’’مینارپاکستان‘‘ کا پتا آتی ہے۔اکثر تماشے وہیں لگائے جاتے ہیں۔جیسا کہ ایسے تماشوں کا قاعدہ ہے کہ تماشالگانے سے بہت پہلے سے اُس کی اشتہاربازی یا ’’مشہوری‘‘ کی مہم چلادی جاتی ہے۔ سو ’’شیخ الاسلام شو‘‘ کے انعقاد سے قبل بھی سڑکوں پر گاتی بجاتی گاڑیوں،جلسوں، جلوسوں، اخبارات اور ٹی وی چینلز پراشتہاربازی کرنے کی مد میں کروڑوں روپئے پھونک دیے گئے۔ ہمارے ملک کے’’ہرزہ سرا‘‘ لوگ پوچھتے ہیں کہ اتنی دولت کہاں سے آئی؟اِس شو پر کس نے لگائی؟ یا شومنعقد کرنے والوں تک کس نے پہنچائی؟اب انھیں کون سمجھائے کہ ’’تبدیلی آچکی ہے‘‘۔اب وہ زمانہ نہیں رہا جب مجید لاہوری جیسے مسخرے شاعر بھی ہمارے شیوخِ قوم کا مذاق اُڑاتے پھرتے تھے:​
شبانہ ڈانس میں لاکھوں روپئے کما لائی
جنابِ شیخ کو چندے میں ایک آنہ ملا
اب تو شبانہ بھی شیخ کی کمائی کو رشک بھری(بلکہ شک بھری) نظروں سے دیکھتی ہے۔اکبر الٰہ آبادی کہ ’’دانائے راز‘‘ تھے، پہلے ہی بتا چکے ہیں:​
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اُجالے وہ چوکتا بھی نہیں
’’شیخ الاسلام شو‘‘ پر تین حلف: شوکے آغاز ہی میں شیخ الاسلام نے سامعین، ناظرین اور شائقین کے آگے تین حفاظتی حلف اُٹھائے۔پہلے حلف میں اُنھوں نے کہا: ’’میں اﷲ کو گواہ بناکر قرآنِ مجید اور شفاعتِ محمدیؐ کاحلف دے رہاہوں کہ کسی اندرونی یا بیرونی ایجنسی یا کسی ملک اور ادارے کو میرے پروگرام کی خبر نہیں تھی اور نہ ہی میرا پروگرام کسی داخلی یا خارجی ایجنسی کا حصہ ہے‘‘۔ دوسرے حلف میں فرمایا:’’اِس پورے اجتماع کے لیے جس میں کروڑوں روپے لگے ہوں گے کسی ملک، ادارے یا ایجنسی کا بالواسطہ یا بلاواسطہ ایک پیسہ بھی شامل نہیں‘‘۔ تیسرے حلف میں اُنھوں نے اعلان کیا : ’’اس اجتماع کی غرض کسی صورت میں آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے نہ جمہوریت کا خاتمہ۔ہم مسلمان ہیں۔ مسلمان بھائی کی بات دلیل سے سنیں اور دلیل سے رد کریں۔ میرا اِشارہ کوئی فوجی ٹیک اوور کی طرف نہیں ہے۔اگرآرمی نے ٹیک اوور کی کوشش کی تو دوسروں سے پہلے اسے روکنے کے لیے میں خود آگے بڑھوں گا۔اس اجتماع کا مقصد سیاست کو غلاظت سے نجات دلاناہے‘‘۔ ہمیں چونکہ ’’شرعی حیلوں‘‘ سے کچھ زیادہ آگاہی نہیں ہے، چنانچہ ہم نے اِس حلف کے مضمرات جاننے کے لیے مولانا معاذاﷲ کے آگے بیٹھ کر (اپنا) زانوئے تلمذتہہ کیا۔مولانا بگڑگئے۔ کہنے لگے:’’معاذاﷲ۔۔۔معاذاﷲ۔۔۔تم لوگ بھی کیسے لوگ ہو؟ خواہ مخواہ شیخ الاسلام پراپنے شک میں شبہ کر رہے ہو۔عزیزمن! کیا تم نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی خطرناک قصے کے آغاز ہی میں محتاط مصنف یہ درج کر دیا کرتے ہیں کہ:اِس قصے کے تمام واقعات اور کردار فرضی ہیں۔کسی قسم کی مماثلت یا مطابقت محض اتفاقی ہوگی‘‘۔ تب ہم نے جانا کہ یہ بھی اپنے تمام معنوں میں محض ’’اتفاق‘‘ ہی ہے کہ کنیڈا کی شہریت رکھنے والے شیخ الاسلام کو برطانیہ کی شہریت رکھنے والے ’’پیرصاحب‘‘ کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔اُدھر عمران خان نے بھی اعلان کردیا ہے کہ: ’’طاہرالقادری نے ہمارے ایجنڈے کی حمایت کی ہے‘‘۔ اِس اعلان کے بعد سے ہم عمران خان کے ایجنڈے کا از سرنو اندازہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔​
جانے شیخ کو شب کیا سوجھی؟
شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری ۔۔۔ کہ پانچ برس قبل اِس ریاست اور ریاست کی سیاست سے مایوس ہوکر کنیڈا سدھار گئے تھے اور وہاں کی شہریت سے متمتع ہورہے تھے۔۔۔اب یکایک اپنے خوابِ مایوسی سے چونک اُٹھے اور ریاست کو بچانے کے لیے بھاگے بھاگے چلے آئے۔ شیخ الاسلام جب تک پاکستان میں رہے،تب تک ’’مقدس خواب‘‘ دیکھا کیے۔ان میں سے بعض خواب ایسے ہیں جو اگر ہم اپنے منہ سے بیان کردیں توہمیں نقصان بھی ہوگا اور نفع بھی۔ نقصان تویہ ہوگا کہ پاکستان کے مسلمان ہم پرفوراً ’’توہین رسالت‘‘ کا کیس بناڈالیں گے اور فائدہ یہ ہوگاکہ ہمیں بھی کنیڈا کی شہریت مل جائے گی۔پھر کیا عجب کہ ہم بھی کسی روز ’’ریاست‘‘ بچانے بھاگے چلے آئیں۔ ہرچند کہ داناؤں کا کہناہے کہ ایسی ریاست ہرگز ہرگز بچائے جانے کی مستحق نہیں ہے، جسے صرف ایک ہی شخص بچا سکتا ہو اور وہ بھی (کنیڈا جیسی) کسی دوسری ریاست سے بھاگا بھاگا آکر۔مگر یہ شیخ الاسلام کا احسان ہے کہ وہ جو اِس قوم سے مایوس ہوکرنکل گئے تھے، خود بھی مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکل آئے اور یہاں آکر لاہور کی فضا کو بھی اُمید کی کرن سے جگمگادیا۔اُنھوں نے آنے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ: ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘۔ چنانچہ آتے ہی اُنہوں نے سب سے پہلے چلتی ہوئی سیاست کی چال پر کلھاڑا چلا دیا۔ اب کم ازکم ’’سیاست‘‘ کا بچنا تو ہمیں مشکل ہی نظرآرہاہے۔رہی’’ریاست‘‘ کی بات، توریاست کی بچت بعد کو دیکھی جائے گی۔شیخ الاسلام نے فرمایا: ’’آئین کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے 90دن سے زیادہ وقت بھی لگ جائے تو یہ اقدام غیر آئینی نہیں‘‘۔آپ نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ: ’’90دن کی رَٹ لگانا زیادہ ضروری ہے یا آئین کے مطابق انتخابات کرانا؟‘‘90دنوں کی رَٹ کے ذکر سے ۔۔۔اے قارئینِ کرام۔۔۔ اِک ذرا چٹکی تو لیجے حافظے کی ران میں۔۔۔ کہ آپ کو کس کے 90دن یاد آتے ہیں؟آپ خود ہی یاد کرلیں۔ ہم اگر’’یاد‘‘ کریں گے تو شکایت ہوگی۔شیخ الاسلام نے بدعنوانی کے خاتمہ اور انتخابی عمل میں اصلاحات کے لیے اُس حکومت کو 10یوم کی مہلت عنایت فرمائی ہے جو یہ کام ساڑھے چار برس میں بھی کرنے سے قاصر رہی۔اب وہ یقیناًدس روز میں بھی قاصر کی قاصر ہی رہے گی۔تو بھلا اِس میں شیخ الاسلام کا کیا قصور؟ اپنے الٹی میٹم کے مطابق 14جنوری 2013ء کو شیخ الاسلام اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آبادجاپہنچیں گے اور ’’سیاست‘‘ کی بساط اُلٹ دیں گے۔پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی تمام سیاسی جماعتوں، فوج اور عدلیہ کی مدد سے ایک نگراں حکومت تشکیل دیں گے۔اس حکومت کی نگرانی کب تک رہے گی؟اس کا اندازہ آپ نہ صرف اُن کے ’’حفاظتی حلف‘‘ سے کرسکتے ہیں، بلکہ 2013ء اور 2014ء کے درمیان افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے پلان سے بھی۔اِس کے بعد کیاہوگا؟ غالباً وہی ہوگا جو ہمارے ایک شاعر نے بڑی حیرت اور تعجب سے بتایا تھا:​
جانے شیخ کو شب کیا سوجھی رندوں کو سمجھانے آئے
صبح ہوئی تو سارے میکش مسجد تک پہنچانے آئے
25 دسمبر 2012 ء​
 

یوسف-2

محفلین
شیخ الاسلام: ایجنڈا کیا ہے
(آصف محمود، روزنامہ نئی بات، 25 دسمبر)​

اعلی حضرت صرف شیخ الاسلام ہی نہیں،علامہ، ڈاکٹر،پروفیسر، مدبر ، مفکراور فقیہ بھی ہیں۔ایسے صاحبِ کشف و کرامات کو تو معلوم ہونا چاہیے کہ اصلاح کا عمل ارتقائی ہوتا ہے اور گاہے بوجھل اور طویل بھی۔انہوں نے مگر تین ہفتوں کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔تین ہفتوں میں تو کمر کا درد ٹھیک نہیں ہوتا،امورِ ریاست میں کامل اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟اس ساری واردات کا حاصل اب ایک ہی سوال ہے : شیخ الاسلام کا اصل ایجنڈا کیا ہے؟
شیخ الاسلام نے دھمکی دی ہے کہ تین ہفتوں میں اصلاحات نہیں ہوتیں تو چار ملین لوگ اسلام آباد کا رخ کریں گے اور وہاں عوامی پارلیمنٹ بنا کر فیصلے کیے جائیں گے۔علامہ صاحب کے پاس اگر چار ملین لوگ ہیں تو انہیں اسلام آباد لانے کی کوئی ضرورت نہیں،شیخ الاسلام انہیں انتخابات کے ہنگام پولنگ سٹیشن لے جائیں ، ملک میں اسی روز انقلاب آ جائے گا۔لیکن شیخ الاسلام کی بدن بولی بتاتی ہے وہ بہت جلدی میں ہیں۔کیا وہ کسی خاص مشن پر ہیں؟
شیخ الاسلام کا جلسہ بلاشبہ غیر معمولی تھا لیکن کیا جلسوں کی بنیاد پر امور ریاست طے پاتے ہیں؟اگر معاملات الیکشن کی بجائے محض ایک عدد جلسے سے طے ہونا ہیں تو پھرکیوں نہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے بھی کہہ دیا جائے کہ وہ ایک ایک جلسہ کر لیں،الیکشن کمیشن کا نام’ جلسہ کمیشن‘ رکھ دیا جائے ور اسے کہا جائے کہ وہ بتائے کس کا جلسہ بڑا تھا۔وہ جس کے حق میں فیصلہ دے اسے حکومت سونپ دی جائے۔ایک کامیاب جلسے کے بعد اگر عوامی پارلیمنٹ بنا کر اس میں فیصلوں کی بات ہو رہی ہے تو معاف کیجئے کیاا سے فسطائیت کی دستک سمجھا جائےْ ؟۔بچہ کتنا ہی لاڈلا کیوں نہ ہو اسے کھیلنے کے لئے چاند نہیں مل سکتا، اسے کھلونوں پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح جلسہ کتنا ہی کامیاب کیوں نہ ہو جائے وہ انتخابات کا متبادل نہیں بن سکتا۔نہ ہی مریدین اور وابستگان کے ہجوم کو پارلیمنٹ کا نام دیاجا سکتا ہے۔رولز آف گیم موجود ہیں۔اگر مقبولیت کا اتنا ہی زعم ہے تو انتخابات میں آئیے اور چالیس لاکھ لوگوں کے ووٹ لے کر نظام بدل دیجئے۔لیکن ایک جلسے کی بنیاد پر ملک کا نظام تہہ و بالا کر دینے کی خواہش بہر حال اتنی پر اسرار تو ہے کہ شیخ الاسلام جیسی معتبر ہستی کو بھی پہلے ہی جلسے میں خدا کی قسم اٹھا نا پڑ جاتی ہے کہ ان کے پیچھے کوئی ایجنسی نہیں ہے۔
گاہے معلوم ہوتا ہے شیخ الاسلام بہت جلدی میں ہیں اور کسی شارٹ کٹ کے متلاشی بھی۔لیکن معاملہ یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں کسی معنوی تبدیلی کے لئے کوئی شارٹ کٹ کامیاب نہیں ہو سکتا۔اس کے لئے ایک طویل ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارا المیہ ہی یہی رہا ہے کہ ہم اپنی تعمیر کی بجائے ہر وقت شارٹ کٹ کی تلاش میں ہو تے ہیں کہ ہم رات کوسرسوں کا ساگ کھا کر سوئیں، آدھی رات کو ایک عدد مسیحا تشریف لائے اور صبح دم جب ہم اٹھیں تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں۔تین ہفتوں کی مہلت بھی ایک ایسی ہی افیون ہے۔اور اس افیون سے الیکشن توملتوی ہو سکتے ہیں حالات نہیں سدھر سکتے۔تو جناب ، کہیں یہی تو اصل ایجنڈا نہیں؟
گزشتہ پانچ سالوں سے اہلِ وطن ایک عذاب سے دوچار ہیں۔شیخ الاسلام نے جن مسائل کا ذکر کیا ہے ان مسائل کو جاننے کے لئے آدمی کا شیخ الاسلام ہونا ضروری نہیں ہے۔ہر آدمی کو ان کا علم ہے،سوال یہ ہے کہ شیخ الاسلام نے علاج کیاتجویز کیا ہے؟شیخ الاسلام ایک طویل عرصے سے ملک سے باہر تشریف فرما تھے،یہ سوال بھی خاصا اہم ہے کہ ان کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے رہے لیکن اس سے بھی اہم پہلو یہ ہے کہ شیخ الاسلام نے ملک پر کڑا وقت آیا تو ملک میں رہ کر اصلاح احوال کے لئے کوئی کوشش نہ کی۔کینیڈا چلے گئے۔نہ صرف چلے گئے بلکہ وہاں کی شہریت بھی لے لی۔ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف بھی اٹھا لیا۔اب جب الیکشن سر پر کھڑے ہیں تو شیخ الاسلام کو اچانک وطن کی یاد ستائی،تشریف لائے اور حکم دیا ناہنجارو تین ہفتوں میں سب ٹھیک کر دو ورنہ میں اپنے لشکریوں کے ساتھ آ رہا ہوں۔ہماری بد بختی دیکھئے کینیڈا کا ایک شہری ہمیں تین ہفتوں کا الٹی میٹم دے رہا ہے کہ انسان بن جاؤ ورنہ میں اپنی ایک عدد بچہ بغل مجلس مشاورت کو پارلیمنٹ کا نام دے کر تمہاری تقدیر کے فیصلے کروں گا۔
ہمارا موجودہ نظام بے شک عوم کو کچھ نہیں دے سکا لیکن اس کا یہ مطلب کیسے ہو گیا کہ ایک جلسے کے خراج میں اب زمامِ کار شیخ الاسلام کو سونپ دی جائے اور وہ اپنی عوامی پارلیمنٹ کے ذریعے حکومت چلائیں۔ان کے کریڈٹ پر آ خر ایسا کیا غیر معمولی کام ہے کہ حکومت ان کے قدموں میں نچھاور کر دی جائے؟منہاج القرآن کا ادارہ؟ جس کا مبلغ علمی ورثہ یہ ہے کہ یا تو وہ شیخ الاسلام کی لکھی کتابیں چھاپتا ہے یا شیخ الاسلام پر لکھی گئی کتابیں۔بس۔۔۔۔۔کیا اس ’علمی کام ‘ کا خراج تختِ ریاست ہے؟یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک آدمی اتنی کتابیں کیسے لکھ سکتا ہے؟لکھتا ہے یا لکھواتا ہے؟
شیخ الاسلام نے بار بار آئین کا حوالہ دیا کہ انتخابات کچھ دیر کو موخر ہو جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔وہ کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ دستور کے دیگر آرٹیکلز یعنی 62,63کو بھی ذہن میں رکھا جائے اور انتخابات سے پہلے اصلاحات لائی جائیں۔اب سوال یہ ہے کہ ان کے اپنے بارے میں عدالت عالیہ کا جو فیصلہ موجود ہے جس میں انہیں جھوٹا اور نہ جانے کیا کچھ کہا گیا ہے کیا اس کے بعد وہ خود ان آرٹیکلز میں دی گئی شرائط پر پورا اترتے ہیں؟کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب وہ اسلام آباد کا رخ کریں گے تو حکومت ان کے قدموں میں ڈال دی جائے گی؟ظاہر ہے یہ تونہیں ہو سکتا۔تو پھر شیخ الاسلام کا اصل ایجنڈا کیا ہے؟انتخابات کا التواء؟یاد رہے کہ انتخابات کے التوا کا تعلق محض مقامی سازشوں سے نہیں ہوتا۔تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پاکستان میں جب جب غیر منتخب حکومتیں آئیں کوئی بڑی واردات ہوئی۔امورِخارجہ سے متعلق تمام بڑے فیصلے اس وقت ہوئے جب ملک میں غیر جمہوری حکومتیں تھیں۔65 کی جنگ ایک جنرل نے لڑی،سانحہ مشرقی پاکستان ایک جرنیل کے دور میں ہوا،جہاد، افغانستان کا آغاز اس وقت ہوا جب امیر المومنین کی آمریت مسلط ہو چکی تھی،پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے سے پہلے جمہوری حکومت کو گھر بھیج کر مشرف کو لایا گیا۔۔۔۔۔اب اگر ایک بار پھر کسی مقدس نعرے کی آڑ میں جمہوری عمل میں تعطل لایا جاتا ہے جو جان لیجئے کوئی نئی واردات دستک دے رہی ہے۔امورِ خارجہ کے باب میں کوئی نئی نان سنس ہونے والی ہے۔کوئی نیا ایڈ ونچر ہونے کو ہے۔اللہ خیر کرے
 

یوسف-2

محفلین
ریاست بچاؤ کھیل شروع
(روزنامہ نئی بات، 25 دسمبر)​
پاکستان کی سیاست ایک فرانسیسی ڈرامے کے عین مطابق ہے کہ جس میں ناظرین کو ایک مزاحیہ کہانی کی بنیاد پر تفریح کا موقع فراہم کیا جا رہا تھا۔ سٹیج پر اداکار اپنے دلچسپ طورطریقوں سے ہال میں بیٹھے لوگوں کو لطف اندوز کر رہے تھے۔ اُن کے بولنے، اٹھنے، کھانے اور چلنے کے انداز اور مختلف طورطریقے کی بنیاد پر رویے، ہال میں موجود سب حاضرین کو ڈرامے کو دل کھول کر داد دینے پر مجبور کر رہے تھے۔ لیکن ڈرامے کے اختتام نے اس کامیڈی ڈرامے کی حقیقت کھول دی کہ جب سجے سجائے سٹیج کا سیٹ ہٹا دیا گیا اور یوں پس منظر میں بورژوا طبقے کے ایک ڈرائنگ روم، ڈائننگ روم اور محل کے دیگر کمروں میں معمول کی زندگی برپا تھی۔ یعنی حکمران طبقات کی روزمرہ زندگی کسی کامیڈی ڈرامے سے کم نہیں۔ اسی طرح ہماری سیاست کی سکرین پر ایسے ہی کردار اب ’’سچ مچ‘‘ کے انقلابی اور نجات دہندہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہماری حکمران کلاس کا طبقاتی تجزیہ کیا جائے تو وہ دراصل حقیقی اشرافیہ نہیں بلکہ بازاری اشرافیہ Lumpen Bourgeoisie ہے۔ یہ مارکسٹ سوشل سائنس کی اصطلاح میں ایسی اشرافیہ ہے جو صنعتی پیداوار کے نتیجے میں نہیں بلکہ رئیل سٹیٹ، کالے دھندوں اور ملکی دولت کی لوٹ مار کے سبب پیدا ہوتی ہے، اس لیے وہ جدید دنیا کی انڈسٹریلائزڈ نظام کی طرح جدید نظریات سے عاری اوربازاری بلکہ مقامی زبان میں رنگ بازی کی ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اُن سے ایسی توقع لگانا فضول ہے کہ وہ سیاست، سماج یا ریاست کے لیے کوئی ایسا کردار ادا کر پائیں گے جو کہ صنعتی بورژوا کلاس کسی صنعتی معاشرے میں کھلی جمہوریت کے لیے کرتی ہے۔
ہمارے سماج اور سیاست میں اس بازاری اشرافیہ کا غلبہ ہوچکا ہے۔ اس میں سے بہت سے سیاسی کرداروں نے عوام کے ذہنوں پر گرفت حاصل کر لی ہے اور عوام اُن کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہو گئے اور کچھ ابھی ان مراحل سے گزر رہے ہیں کہ عوام ان کو بھی اپنا نجات دہندہ قبول کر لیں۔ یہ سارا نظام سیاہ معیشت کی پیداوار ہے۔ دولت کے بڑے بڑے انباروں نے اس نو دولتی بازاری اشرافیہ کو سماج کے حکمران طبقات میں بدل دیا ہے۔ سیاست اُن کے مفادات کے حصول کا ایک آلۂ کار ہے، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انقلاب، لانگ مارچ، جلاؤ گھیراؤ، دھرنا، نظام کی تبدیلی اور سٹیٹس کو کا خاتمہ اُن کے سیاسی ایجنڈوں میں (لفاظی کی حد تک) کنٹرول میں چلا گیا ہے یعنی اس بازاری اشرافیہ نے سیاست کے حقیقی نعروں، نظریے کی محض اصطلاحوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس عمل میں ’’لکھنے اور بولنے والے دانشوروں‘‘ کی اکثریت اس اشرافیہ کے سماجی پس منظر کے حوالے سے تقسیم ہوکر اس اشرافیہ کے مفادات کے کھیل کے اہم کھلاڑی بن چکے ہیں۔ سماج اس بازاری اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال نہیں بلکہ طرف داری کی بنیاد پر تقسیم ہو چکا ہے۔
کراچی، سندھ، پنجاب اور دیگر علاقوں میں اس اشرافیہ کا خصوصی اثر قائم ہو چکا ہے اور سیاست کے فیصلے ان کے فرمانوں، بیانات، خطابات اور الفاظ پر ہوتے ہیں۔ چونکہ ہم نے 5جولائی 1977ء کو مارشل لاء مسلط کرکے پاکستان میں حقیقی سیاسی قیادت کے جنم کے راستے محدود کر دئیے اور پھر 4اپریل 1979ء کو ایک لیڈر کا قتل، 1985ء میں غیرسیاسی بنیاد پر انتخابات کا انعقاد، اسی بازاری اشرافیہ کی سیاست میں اثرورسوخ بڑھوانے کے لیے کیے تھے۔ ’’پس منظر کی اہم قوتوں‘‘ نے اس عمل کو بنیادی طاقت دی کیوں کہ سٹیٹس کو کی اہم قوت، پس منظر میں رہنے والوں کے پاس ہے۔ انہوں نے اس بازاری اشرافیہ کو میدانِ سیاست میں پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کیے اور یوں سماج، سیاست اور ریاست بونوں کی تحویل میں چلے گئے۔ ایک ایسا کھیل شروع کیا گیا جس میں ولن اور ہیرو دونوں ہی پس منظر کی قوتوں کے مرہونِ منت ہیں۔ کسی کو سیلاب دنوں میں ’’پکار‘‘ کے نام پر ’’بولنے والے دانشوروں‘‘ کے ذریعے پروان چڑھایا گیا اور پھر سونامی برپا کر دیا گیا اور جب وقت کا دھارا بدلا تو ’’سونامی‘‘ کو ’’ریاست بچاؤ‘‘ کے ذریعے قصہ پارینہ بنا دیا گیا۔
30اکتوبر 2011ء کو برپا کیا گیا جلسہ 23دسمبر 2012ء کو برپا کیے گئے جلسے کے بعد اب ایک معمولی کہانی دکھائی دیتا ہے، جس میں لاکھ لوگوں کی شرکت ’’بولنے اور لکھنے والے دانشوروں‘‘ کے لیے ایک خبر تھی۔ لیکن 23دسمبر 2012ء کو اسی میدان میں لاکھوں کے جلسے نے پچھلی خبریں ذہنوں سے مٹا دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 30اکتوبر 2011ء کو جلسہ برپا کرنے والوں نے 23دسمبر 2012ء کو کی گئی تقریر کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’طاہرالقادری نے ہماری حمایت کی ہے۔‘‘ ڈاکٹر طاہرالقادری نے فرمایا کہ اس بیس لاکھ کے مجمع کی رائے 18کروڑ عوام کی رائے سے مختلف نہیں اور ہم اس رائے کو کامیاب کرنے کے لیے تین ہفتے بعد اسلام آباد کی طرف چالیس لاکھ افراد کے ساتھ مارچ کریں گے۔
میں نے 18دسمبر 2012ء کے کالم ’’طاہرالقادری، ریاست بچاؤ‘‘میں یہ عرض کی تھی کہ مینارِ پاکستان پر 23دسمبر 2012ء کا جلسہ نقطۂ عروج نہیں بلکہ آغاز ہوگا۔ نقطۂ عروج اسلام آباد کی طرف مارچ ہوگا۔ میرے چند دوست اس تجزیے کو حمایت یا مخالفت کے زمرے میں لے رہے تھے۔ سیاسی تجزیہ حمایت یا مخالفت کی بنیاد پر کیا ہی نہیں جا سکتا۔ حمایت یا مخالفت میں لکھی گئی تحریر پراپیگنڈا پر مبنی تحریر کہلاتی ہے اور حقیقی تجزیہ نگاری مکمل غیرجانب داری سے ہی کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ’’ریاست بچانے کا اہتمام‘‘ 23دسمبر 2012ء سے ایک اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جس کا آغاز آئین کے آرٹیکل3 پر عمل درآمد سے کیا گیا ہے۔ راقم اس آرٹیکل کو آئین کا حصہ بنانے کی تاریخ سے آگاہ ہے کہ کس طرح بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید نے آئینی کمیٹی میں سوشلزم کی تعریف کے مطابق اس آرٹیکل کو آئین کا حصہ بنایا کہ اس کے تحت کسانوں، مزدوروں اور محنت کشوں کو ان کے حقوق دلوائے جا سکیں۔ لیکن اس آرٹیکل سمیت جیسے دوسرے آئینی نکات کا سہارا لے کر قبل از انتخابات اور بعداز انتخابات کے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ اس کا تعلق عوامی مفادات کے تحفظ سے زیادہ ’’فیصلہ کن‘‘ قوتوں کے مفادات سے جڑا ہوا ہے۔ ہماری سیاست کے سنجیدہ ٹھہرائے گئے کردار اور پھر سنجیدہ تصور کیے گئے کرداروں میں بس عمر اور وقت کا ہی فرق ہے۔ اب ہم دیکھیں گے کہ سیاست کے سٹیج کے یہ کردار کیسے گڈمڈ نظر آئیں گے، کبھی ہیرو ولن لگے گا اور کبھی ولن ہیرو، کبھی کامیڈین سنجیدہ کردار اور کبھی سنجیدہ کردار کامیڈین، یہ ایک انوکھا کھیل ہوگا، لیکن یہ طے ہے کہ ڈرامہ نویس وقت کے ساتھ اس کھیل کے ’’تین بڑے کردار‘‘ بدل دے گا۔ (تحریر: فرخ سہیل)
 

یوسف-2

محفلین
2417_85423151.jpg


نئی دنیا 25 دسمبر 2012
 
Top