یوسف-2
محفلین
شیخ الاسلام شو
(ابونثر، روزنامہ نئی بات)
ہمارے اہلِ وطن بھی خوب لوگ ہیں۔ ابھی ایک مشہور ڈرامے ’’عشق ممنوع‘‘ کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہوئے تھے کہ اب ’’شیخ الاسلام شو‘‘ کے خلاف ہرزہ سرائیوں پر اُتر آئے ہیں۔اوّل الذکر ترکی سے درآمد کیا گیا تھااور ثانی الذکر کنیڈاسے آیا، لایا، بلایا ۔۔۔یا۔۔۔ بھجوایا گیا ہے۔ یوں تو ہماری پوری کی پوری قوم ہی میلوں ٹھیلوں کی شوقین ہے۔ مگر زندہ دلانِ لاہور اِس معاملہ میں اتنی شہرت رکھتے ہیں کہ بعض اوقات اُنھیں خود سوچنا پڑتا ہے کہ۔۔۔میں اِسے شہرت کہوں یا اپنی رُسوائی کہوں؟۔۔۔ پس اِسی شہرت (یارُسوائی) کی وجہ سے۔۔۔ آسماں سے جو کوئی تازہ بلاآتی ہے۔۔۔ پوچھتی سب سے ’’مینارپاکستان‘‘ کا پتا آتی ہے۔اکثر تماشے وہیں لگائے جاتے ہیں۔جیسا کہ ایسے تماشوں کا قاعدہ ہے کہ تماشالگانے سے بہت پہلے سے اُس کی اشتہاربازی یا ’’مشہوری‘‘ کی مہم چلادی جاتی ہے۔ سو ’’شیخ الاسلام شو‘‘ کے انعقاد سے قبل بھی سڑکوں پر گاتی بجاتی گاڑیوں،جلسوں، جلوسوں، اخبارات اور ٹی وی چینلز پراشتہاربازی کرنے کی مد میں کروڑوں روپئے پھونک دیے گئے۔ ہمارے ملک کے’’ہرزہ سرا‘‘ لوگ پوچھتے ہیں کہ اتنی دولت کہاں سے آئی؟اِس شو پر کس نے لگائی؟ یا شومنعقد کرنے والوں تک کس نے پہنچائی؟اب انھیں کون سمجھائے کہ ’’تبدیلی آچکی ہے‘‘۔اب وہ زمانہ نہیں رہا جب مجید لاہوری جیسے مسخرے شاعر بھی ہمارے شیوخِ قوم کا مذاق اُڑاتے پھرتے تھے:
شبانہ ڈانس میں لاکھوں روپئے کما لائی
جنابِ شیخ کو چندے میں ایک آنہ ملا
اب تو شبانہ بھی شیخ کی کمائی کو رشک بھری(بلکہ شک بھری) نظروں سے دیکھتی ہے۔اکبر الٰہ آبادی کہ ’’دانائے راز‘‘ تھے، پہلے ہی بتا چکے ہیں:
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اُجالے وہ چوکتا بھی نہیں
’’شیخ الاسلام شو‘‘ پر تین حلف: شوکے آغاز ہی میں شیخ الاسلام نے سامعین، ناظرین اور شائقین کے آگے تین حفاظتی حلف اُٹھائے۔پہلے حلف میں اُنھوں نے کہا: ’’میں اﷲ کو گواہ بناکر قرآنِ مجید اور شفاعتِ محمدیؐ کاحلف دے رہاہوں کہ کسی اندرونی یا بیرونی ایجنسی یا کسی ملک اور ادارے کو میرے پروگرام کی خبر نہیں تھی اور نہ ہی میرا پروگرام کسی داخلی یا خارجی ایجنسی کا حصہ ہے‘‘۔ دوسرے حلف میں فرمایا:’’اِس پورے اجتماع کے لیے جس میں کروڑوں روپے لگے ہوں گے کسی ملک، ادارے یا ایجنسی کا بالواسطہ یا بلاواسطہ ایک پیسہ بھی شامل نہیں‘‘۔ تیسرے حلف میں اُنھوں نے اعلان کیا : ’’اس اجتماع کی غرض کسی صورت میں آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے نہ جمہوریت کا خاتمہ۔ہم مسلمان ہیں۔ مسلمان بھائی کی بات دلیل سے سنیں اور دلیل سے رد کریں۔ میرا اِشارہ کوئی فوجی ٹیک اوور کی طرف نہیں ہے۔اگرآرمی نے ٹیک اوور کی کوشش کی تو دوسروں سے پہلے اسے روکنے کے لیے میں خود آگے بڑھوں گا۔اس اجتماع کا مقصد سیاست کو غلاظت سے نجات دلاناہے‘‘۔ ہمیں چونکہ ’’شرعی حیلوں‘‘ سے کچھ زیادہ آگاہی نہیں ہے، چنانچہ ہم نے اِس حلف کے مضمرات جاننے کے لیے مولانا معاذاﷲ کے آگے بیٹھ کر (اپنا) زانوئے تلمذتہہ کیا۔مولانا بگڑگئے۔ کہنے لگے:’’معاذاﷲ۔۔۔معاذاﷲ۔۔۔تم لوگ بھی کیسے لوگ ہو؟ خواہ مخواہ شیخ الاسلام پراپنے شک میں شبہ کر رہے ہو۔عزیزمن! کیا تم نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی خطرناک قصے کے آغاز ہی میں محتاط مصنف یہ درج کر دیا کرتے ہیں کہ:اِس قصے کے تمام واقعات اور کردار فرضی ہیں۔کسی قسم کی مماثلت یا مطابقت محض اتفاقی ہوگی‘‘۔ تب ہم نے جانا کہ یہ بھی اپنے تمام معنوں میں محض ’’اتفاق‘‘ ہی ہے کہ کنیڈا کی شہریت رکھنے والے شیخ الاسلام کو برطانیہ کی شہریت رکھنے والے ’’پیرصاحب‘‘ کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔اُدھر عمران خان نے بھی اعلان کردیا ہے کہ: ’’طاہرالقادری نے ہمارے ایجنڈے کی حمایت کی ہے‘‘۔ اِس اعلان کے بعد سے ہم عمران خان کے ایجنڈے کا از سرنو اندازہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔
جانے شیخ کو شب کیا سوجھی؟
شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری ۔۔۔ کہ پانچ برس قبل اِس ریاست اور ریاست کی سیاست سے مایوس ہوکر کنیڈا سدھار گئے تھے اور وہاں کی شہریت سے متمتع ہورہے تھے۔۔۔اب یکایک اپنے خوابِ مایوسی سے چونک اُٹھے اور ریاست کو بچانے کے لیے بھاگے بھاگے چلے آئے۔ شیخ الاسلام جب تک پاکستان میں رہے،تب تک ’’مقدس خواب‘‘ دیکھا کیے۔ان میں سے بعض خواب ایسے ہیں جو اگر ہم اپنے منہ سے بیان کردیں توہمیں نقصان بھی ہوگا اور نفع بھی۔ نقصان تویہ ہوگا کہ پاکستان کے مسلمان ہم پرفوراً ’’توہین رسالت‘‘ کا کیس بناڈالیں گے اور فائدہ یہ ہوگاکہ ہمیں بھی کنیڈا کی شہریت مل جائے گی۔پھر کیا عجب کہ ہم بھی کسی روز ’’ریاست‘‘ بچانے بھاگے چلے آئیں۔ ہرچند کہ داناؤں کا کہناہے کہ ایسی ریاست ہرگز ہرگز بچائے جانے کی مستحق نہیں ہے، جسے صرف ایک ہی شخص بچا سکتا ہو اور وہ بھی (کنیڈا جیسی) کسی دوسری ریاست سے بھاگا بھاگا آکر۔مگر یہ شیخ الاسلام کا احسان ہے کہ وہ جو اِس قوم سے مایوس ہوکرنکل گئے تھے، خود بھی مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکل آئے اور یہاں آکر لاہور کی فضا کو بھی اُمید کی کرن سے جگمگادیا۔اُنھوں نے آنے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ: ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘۔ چنانچہ آتے ہی اُنہوں نے سب سے پہلے چلتی ہوئی سیاست کی چال پر کلھاڑا چلا دیا۔ اب کم ازکم ’’سیاست‘‘ کا بچنا تو ہمیں مشکل ہی نظرآرہاہے۔رہی’’ریاست‘‘ کی بات، توریاست کی بچت بعد کو دیکھی جائے گی۔شیخ الاسلام نے فرمایا: ’’آئین کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے 90دن سے زیادہ وقت بھی لگ جائے تو یہ اقدام غیر آئینی نہیں‘‘۔آپ نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ: ’’90دن کی رَٹ لگانا زیادہ ضروری ہے یا آئین کے مطابق انتخابات کرانا؟‘‘90دنوں کی رَٹ کے ذکر سے ۔۔۔اے قارئینِ کرام۔۔۔ اِک ذرا چٹکی تو لیجے حافظے کی ران میں۔۔۔ کہ آپ کو کس کے 90دن یاد آتے ہیں؟آپ خود ہی یاد کرلیں۔ ہم اگر’’یاد‘‘ کریں گے تو شکایت ہوگی۔شیخ الاسلام نے بدعنوانی کے خاتمہ اور انتخابی عمل میں اصلاحات کے لیے اُس حکومت کو 10یوم کی مہلت عنایت فرمائی ہے جو یہ کام ساڑھے چار برس میں بھی کرنے سے قاصر رہی۔اب وہ یقیناًدس روز میں بھی قاصر کی قاصر ہی رہے گی۔تو بھلا اِس میں شیخ الاسلام کا کیا قصور؟ اپنے الٹی میٹم کے مطابق 14جنوری 2013ء کو شیخ الاسلام اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آبادجاپہنچیں گے اور ’’سیاست‘‘ کی بساط اُلٹ دیں گے۔پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی تمام سیاسی جماعتوں، فوج اور عدلیہ کی مدد سے ایک نگراں حکومت تشکیل دیں گے۔اس حکومت کی نگرانی کب تک رہے گی؟اس کا اندازہ آپ نہ صرف اُن کے ’’حفاظتی حلف‘‘ سے کرسکتے ہیں، بلکہ 2013ء اور 2014ء کے درمیان افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے پلان سے بھی۔اِس کے بعد کیاہوگا؟ غالباً وہی ہوگا جو ہمارے ایک شاعر نے بڑی حیرت اور تعجب سے بتایا تھا:
جانے شیخ کو شب کیا سوجھی رندوں کو سمجھانے آئے
صبح ہوئی تو سارے میکش مسجد تک پہنچانے آئے
25 دسمبر 2012 ء