جامِ مے توبہ شکن، توبہ مری جام شکن ۔ ریاض خیر آبادی

فرخ منظور

لائبریرین
غزل
کُل مرقعے ہیں ترے چاکِ گریبانوں کے
شکل معشوق کی، انداز ہیں دیوانوں کے


کعبہ و دیر میں ہوتی ہے پرستش کس کی
مے پرستو! یہ کوئی نام ہیں مے خانوں کے

جامِ مے توبہ شکن، توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے


پرِ پرواز بنے خود شررِ شمع کبھی
شررِ شمع بنے پر کبھی پروانوں کے

ذکر کیا اہلِ جنوں کا کہ جب آئی ہے بہار
وہ تو وہ، رنگ بدل دیتے ہیں زندانوں کے

وسعتِ ذات میں گم، وحدت و کثرت ہے ریاضؔ
جو بیاباں ہیں، وہ ذرّے ہیں بیابانوں کے

(ریاضؔ خیر آبادی)
 
Top