جوش جامن والیاں

حسان خان

لائبریرین
روحِ شاعر آج پھر ہے وجد میں آئی ہوئی
آم کے باغوں پہ ہے کالی گھٹا چھائی ہوئی
مست بھونرا گونجتا پھرتا ہے کوہ و دشت میں
روح پھرتی ہے کسی وحشی کی گھبرائی ہوئی
غنچہ غنچہ اپنے فطری رنگ میں ڈوبا ہوا
پتی پتی، اپنے اصلی رنگ پر آئی ہوئی
خارِ صحرا، فیضِ ابر و باد سے نکھرے ہوئے
خاکِ گلشن، موجِ رنگ و بو سے اترائی ہوئی
بہہ رہی ہیں ندیاں، ساون کے نغموں کی طرح
گا رہی ہیں کوئلیں، موسم کی تڑپائی ہوئی
آ رہی ہیں ناز سے نوخیز جامن والیاں
انکھڑیوں میں اجنبیت، چال اٹھلائی ہوئی
عمر کے نشے سے کچھ کچھ نیند میں ڈوبی ہوئی
برق کی ہلچل سے کچھ کچھ ہوش میں آئی ہوئی
ابر میں لچکے ہوئے پودوں کا دست و پا میں لوچ
دھوپ کے تپتے ہوئے کھیتوں کی سنولائی ہوئی
پھر رہی ہیں تربتر گلیوں میں سوتی جاگتی
منہ اندھیرے ہی سے بوچھاروں کی چونکائی ہوئی
دونوں ہاتوں سے سنبھالے ہیں سروں کے ٹوکرے
ہات انگڑائی کی صورت، آنکھ شرمائی ہوئی
ہائے یہ بکھری ہوئی زلفیں، یہ کالی جامنیں
ہائے یہ گلشن، یہ ساون کی گھٹا چھائی ہوئی
پائے نازک، راہ کے پانی سے یہ بھیگے ہوئے
پنڈلیاں، زورِ جوانی سے یہ بل کھائی ہوئی
ہائے یہ بھچتی ہوئی نوعمر جامن والیاں
عاقبت اندیش دہقانوں کی سمجھائی ہوئی
یہ جھچک اٹھنا جوانوں کی نظر سے بار بار
یہ نگاہیں، شہر کی گلیوں میں گھبرائی ہوئی
ہائے یہ کافر مناظر ہوش میں رکھتے نہیں
جوش اِن فصلوں میں اکثر اپنی رسوائی ہوئی
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۲۵ء
 
Top