محمداحمد
لائبریرین
غزل
جادہ ٴ فن میں بڑے سخت مقام آتے ہیں
مر کے رہ جاتا ہے فنکار امر ہونے تک
کتنے غالبؔ تھے کہ پیدا ہوئے اور مر بھی گئے
قدر دانوں کو تخلص کی خبر ہونے تک
کتنے اقبالؔ رہِ فکر میں اٹھے لیکن
راستہ بھول گئے ختمِ سفر ہونے تک
کتنے شبیر حسن خان بنے جوشؔ کبھی
مر گئے کتنے سکندر بھی جگرؔ ہونے تک
فیضؔ کا رنگ بھی اشعار میں آ سکتا تھا
انگلیاں ساتھ تو دیں خون میں تر ہونے تک
ہم نے دیکھے ہی کہاں ہیں وہ ندیمؔ اور فراقؔ
جو بہر رنگ نہ جل پائے سحر ہونے تک
چند ذروں کو ہی ملتی ہے ضیائے خورشید
چند تارے ہی چمکتے ہیں سحر ہونے تک
دلِ شاعر پہ کچھ ایسی ہی گزرتی ہے فگارؔ
جو کسی قطرے پہ گزرے ہے گہر ہونے تک
دلاور فگار
جادہ ٴ فن میں بڑے سخت مقام آتے ہیں
مر کے رہ جاتا ہے فنکار امر ہونے تک
کتنے غالبؔ تھے کہ پیدا ہوئے اور مر بھی گئے
قدر دانوں کو تخلص کی خبر ہونے تک
کتنے اقبالؔ رہِ فکر میں اٹھے لیکن
راستہ بھول گئے ختمِ سفر ہونے تک
کتنے شبیر حسن خان بنے جوشؔ کبھی
مر گئے کتنے سکندر بھی جگرؔ ہونے تک
فیضؔ کا رنگ بھی اشعار میں آ سکتا تھا
انگلیاں ساتھ تو دیں خون میں تر ہونے تک
ہم نے دیکھے ہی کہاں ہیں وہ ندیمؔ اور فراقؔ
جو بہر رنگ نہ جل پائے سحر ہونے تک
چند ذروں کو ہی ملتی ہے ضیائے خورشید
چند تارے ہی چمکتے ہیں سحر ہونے تک
دلِ شاعر پہ کچھ ایسی ہی گزرتی ہے فگارؔ
جو کسی قطرے پہ گزرے ہے گہر ہونے تک
دلاور فگار