تھیلیسیمیا کا علاج: آٹھ روپے کے کیپسیول سے آٹھ اَرب روپے کی قومی بچت

پاکستانی طبّی ماہرین کی ایک قابلِ قدر پیش رفت​
(شمارہ جنوری 2013ء سے ایک انتخاب)​
انٹرویو اور رپورٹ: علیم احمد، مدیر اعلٰی، ماہنامہ گلوبل سائنس
عرضِ مدیر: یہ تحریر شائع ہونے کے بعد بذریعہ ای میل اور ٹیلی فون، کئی افراد نے ہم سے رابطہ کیا۔ اُن تمام کے اپنے گھروں میں یا عزیز و اقارب میں تھیلیسیمیا کے مریض تھے، اور وہ اُن کے بہتر علاج کے خواہش مند تھے۔ یقیناً، تھیلیسیمیا پاکستان کے سنجیدہ طبّی مسائل میں سے ایک ہے، جس سے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگی اور موت کا معاملہ بھی وابستہ ہے۔ آپ بھی یہ تحریر توجہ سے پڑھئے اور اگر آپ کے واقف کاروں میں تھیلیسیمیا کا کوئی مریض ہو، تو اسے بھی تھیلیسیمیا سے متعلق معالجاتی مطالعے کے بارے میں بتائیے۔ کیا معلوم کہ آپ کا یہ چھوٹا سا تعاون، کسی کی زندگی بچانے اور اسے دوبارہ صحت مند بنانے کا ذریعہ بن جائے۔
یہ واقعہ ستمبر 2012ء کا، یعنی آج سے تین مہینے پہلے کا ہے۔ ایک طرف ملک بھر میں پانی سے چلنے والی کار کے چرچے تھے تو دوسری طرف — بہت چھوٹی اور معمولی نظر آنے والی خبروں کی شکل میں — خال خال یہ تذکرہ بھی موجود تھا کہ پاکستان کے طبّی ماہرین نے تھیلیسیمیا کے علاج کا کوئی ایسا طریقہ دریافت کرلیا ہے جس کی بدولت صرف سات روپے میں اس بیماری سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ بہرکیف، ستمبر کا شمارہ شائع ہونے کے چند روز بعد ہی ہم نے اس خبر کا تعاقب شروع کردیا۔
معلوم ہوا کہ یہ کام ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈزیزز‘‘ (NIBD) کے تحت کیا گیا ہے۔ مزید جستجو کی تو پتا چلا کہ یہ تحقیق، اسی ادارے میں شعبہ ’’پیڈیاٹرک ہیماٹولوجی‘‘ کے ڈاکٹر طاہر شمسی، ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری اور اُن کے رفقائے کار نے انجام دی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے توسط سے عوام تک پہنچنے والی اس خبر میں کتنی صداقت ہے، اور اس کے مختلف پہلو کون کونسے ہیں؟ یہ جاننے کیلئے ہم نے اِن ہی دو صاحبان سے خصوصی ملاقات کی اور مختلف سوال جواب کئے۔​
ذیل کی تحریر اسی گفتگو پر مبنی ہے، جسے ہم نے سلاست و روانی کے تقاضے سامنے رکھتے ہوئے ادارت سے گزارنے کے بعد حتمی شکل دی ہے۔​
گلوبل سائنس: بی-ٹا تھیلیسیمیا کے علاج سے متعلق آپ صاحبان کی جس تحقیق کے بارے میں گزشتہ دنوں خبروںمیں خاصا کچھ آیا ہے۔ اس کام کے پس منظر اور تاریخ کے بارے میں کچھ بتائیے۔​
ڈاکٹر ثاقب انصاری: تھیلیسیمیا، خون کی ایک ایسی بیماری ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو بظاہر وہ بالکل صحت مند اور ٹھیک ہوتا ہے۔ البتہ، چھ ماہ کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس کے جسم میں خون بنانے کا سلسلہ متاثر ہونے لگتا ہے۔ اور پھر، آخرکار، اس کی آئندہ زندگی کا دارومدار اس بات پر رہ جاتا ہے کہ اُسے خون لگایا جائے (یعنی اس کے جسم میں خون چڑھایا جائے)۔​
چنانچہ، ایک بچہ جو ماں کے پیٹ میں بالکل صحت مند رہا۔ ڈھائی یا تین کلوگرام کا پیدا ہوا۔ اس کے بعد جب وہ پانچ ماہ کا تھا تو پانچ کلوگرام کا تھا، چھ ماہ میں چھ کلوگرام کا ہوگیا (یعنی بالکل نارمل اور صحت مند بچہ تھا)۔ لیکن وہ ایک دم سے دبلا ہونے لگتا ہے، اس کا رنگ پیلا پڑنے لگتا ہے، پیٹ پھولنے لگ جاتا ہے، اور الٹیاں دست ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ اِن علامات کے پیش نظر، کہا جاسکتا ہے کہ شاید اُس بچے کو بی-ٹا تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہو۔ بعد ازاں جب بلڈ ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے خون میں ہیموگلوبین بہت کم ہے۔
بتاتا چلوں کہ اس مقصد کیلئے ’’الیکٹروفوریسس‘‘ کہلانے والا ایک بلڈ ٹیسٹ کروایا جاتا ہے (جو خون میں ہیموگلوبین معلوم کرنے کا ایک خاص طرح کا ٹیسٹ ہے)۔ اسی ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس بچے میں ’’بالغ ہیموگلوبین‘‘ (adult hemoglobin) بنانے کی صلاحیت موجود نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں اس کے جسم میں کونسا ہیموگلوبین بن رہا ہوتا ہے؟​
تب اُس بچے میں جو ہیموگلوبین بن رہا ہوتا ہے، اسے ’’فیٹل ہیموگلوبین‘‘ (fetal hemoglobin) کہتے ہیں۔ فیٹل سے مراد وہ مرحلہ ہے کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے؛ یعنی پیدائش سے پہلے کا وہ مرحلہ جب بچہ ’’پختہ جنین‘‘ (fetus) کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں بچے کے جسم میں بننے والے خون میں شامل ہیموگلوبن کو ’’فیٹل ہیموگلوبین‘‘ کہا جاتا ہے۔
وہ بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں رہتا ہے (یعنی پیدائش کا وقت آنے تک)، تو اس کے جسم میں یہی فیٹل ہیموگلوبین بنتا رہتا ہے۔ البتہ، پیدائش کے پانچ سے چھ مہینے بعد تک بھی بچے کے جسم میں اسی فیٹل ہیموگلوبین کی کچھ مقدار بنتی رہتی ہے۔ تاہم یہ مقدار بتدریج کم ہوتی جاتی ہے؛ اور اس کی جگہ — پانچ سے چھ مہینوں کے دوران — بالغ ہیموگلوبین لیتا چلا جاتا ہے۔​
بشکریہ گلوبل سائینس​
ربط​
 
Top