تکیہ کلام

’’کیا آپ کا کوئی تکیہ کلام بھی ہے؟‘‘ ہم نے اُن سے سوال کیا (غلطی سے، اور یہ غلطی اب زندگی کی چند بڑی غلطیوں میں شمار کی جائے گی)۔ ’’جی یہ تکیہ کلام کیا ہوتا ہے؟‘‘ انہوں نے معصومانہ سی بلکہ مسکین سی صورت بناکر الٹا ہم سے دریافت کیا تھا۔
اصل میں پوچھنا تو ہم اُن سے اُن کا تخلص چاہتے تھے لیکن اُن کے اردگرد پھیلے بکھرے کئی تکیے دیکھ کر منہ سے بے اختیار تکیہ کلام نکل گیا۔
’’تکیہ کلام؟ تکیہ کلام، تکیہ کلام ہوتا ہے۔‘‘ ہم جواب میں گڑبڑا کر بے تکا بول گئے۔ خدا جانے وہ کیا سمجھے اور کیا نہ سمجھے لیکن اس سے ایک لاحاصل گفتگو کا ضرور آغاز ہوگیا تھا (جو ہمارے برے دنوں میں سے یقینا ایک تھا)۔
’’اجی یہ وہ تکیہ تو نہیں جس پر ٹیک لگا کر یا بیٹھ کر کلام کیا جاتا ہے یا لیٹ کر یا ……‘‘ وہ کچھ اٹکے۔
’’جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ ہم نے بے زاری سے جواب دیا۔
’’اوہو تو یہ یقینا وہ تکیہ ہے جس پر کھڑے ہوکر …‘‘ لیکن ہمارے چہرے کے تاثرات دیکھ کر انہیں مزید پیش قدمی کی جرأت نہ ہوئی۔
’’اچھا اچھا اب سمجھے! جی یہ وہی تکیے ہیں نا جو ہمارے گھر میں بکثرت پائے جاتے ہیں!‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اب چونکنے کی باری ہماری تھی۔
’’ہاں ہاں! اصل میں ہمیں کچھ عادت ہے۔ یونہی سی، کچھ تک بندی کرلیتے ہیں۔ تو جناب ہماری بیگم نے کاغذ پینسل تو ہم سے چھپا دیے، بقول اس عقل سے نابلد خاتون کے، کہ ہم بلاوجہ کاغذ سیاہ کرتے ہیں اور ضائع کردیتے ہیں۔ یہی کاغذ اور کاپیاں بچوں کے کام آتے ہیں۔ اب اس عقل کی پوری کو کون سمجھائے، چنانچہ اس کے ساتھ مغز ماری کرنے کے بجائے ہم نے یہ ترکیب نکالی کہ جو تکیے ہمارے زیر استعمال تھے ان پر اپنا کلام قلمبند کرنے لگے۔‘‘ وہ سانس لینے کے لیے جو رکے تو ہم نے فوراً ہی ایک سوال داغا:
’’تو کیا وہ تمام تکیے ان کی نظر سے نہیں گزرے اب تک؟‘‘
’’بھئی تم نے سنا نہیں کہ وہ تکیے جو ہمارے زیر استعمال رہتے ہیں۔‘‘
’’تو بھلا کتنے تکیے آپ کے زیر استعمال ہیں؟‘‘ ہم متحیر تھے۔
’’یہی کوئی …‘‘ وہ سوچنے لگے۔
’’آٹھ ، دس؟‘‘ ہم جلدی سے بولے۔
’’ارے نہیں۔‘‘ وہ ہنسے
’’تو کیا دس، بارہ؟‘‘ ہم نے بے تابی سے اگلا سوال پوچھا۔
’’نہ، نہیں‘‘
’’کیا اس سے بھی زیادہ؟‘‘
’’اجی صرف پانچ۔‘‘ وہاں سے جواب آیا تو ہم نے بھی سینے میں اٹکی سانس بحال کی۔
’’بس ہم تحریر کرتے جاتے ہیں اور ان پر واپس پہلے والا غلاف چڑھاتے چلے جاتے ہیں تاکہ دشمن سے محفوظ رہیں۔‘‘
’’دشمن؟ اوہ اچھا!‘‘
ہم دیر میں سمجھے۔ ’’یعنی اوپری غلاف کے اندر جتنے غلاف ہیں وہ سب کلیات ہیں اور محفوظ بھی۔ تو آپ نے اپنا کلام کسی اخبار، رسالے میں کیوں نہ بھیجا تاکہ شائع ہوجائے اور سند رہے اور محفوظ بھی ہوجائے زیادہ بہتر حالت میں۔‘‘ (ہمارا اشارہ ان غلافوں پر لکھی تحریر کی طرف تھا)
’’اجی، کیا بات کرتے ہیں، آپ کے خیال میں ہم نے اپنا نادر کلام کسی اخبار، رسالے میں نہ ارسال کیا ہوگا؟‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’اجی پھر کیا، پھر سے پھُر‘‘ وہ بے زار تھے۔
’’چلیں پھُر ہی سہی، لیکن پھر بھی وہاں سے کیا جواب آیا؟ کیا اخبار میں آپ کا کلام شائع ہوا؟ اور ہوا تو کس اخبار یا رسالے زینت بنا اور کب؟‘‘ ہمارے پے در پے سوالوں کے جواب میں وہ گویا ہوئے:
’’بس کیا پوچھتے ہو، کوئی ایسا ویسا جواب آیا! اجی پہلے جو جواب آیا تو ہم پھر بھی نہ مانے اور لگا تار کلام دل پسند…‘‘
’’دل پسند؟‘‘ ہم نے ان کی بات کاٹی۔
’’یہ ہم نے اپنے کلام کو عنوان دیا تھا۔ ہاں تو لگاتار بھیجتے رہے، پھر انہوں نے جو جواب دیا وہ آج بھی یاد ہے۔‘‘ انہوں نے دور کہیں خلا میں تکتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ہاں تو بتائیے نا وہ یادگار جواب۔‘‘ ہم مشتاق ہوئے۔
’’اجی جواب میں دو بندے بھیج دیے اس تنبیہ کے ساتھ کہ خبردار آئندہ کچھ بھیجنے کی کوشش کی تو کچھ زیادہ اچھا نہ ہوگا ہمارے ساتھ، اور تو کچھ نہیں کریں گے بس سیر کروا دیں گے۔‘‘ وہ جلے کٹے لہجے میں کہہ رہے تھے۔
’’کہاں کی؟‘‘ ہمارا منہ کھلا۔
’’اجی دوسری دنیا کی۔‘‘ وہ منہ بناکر بولے تو ہمارا منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔
’’پھر؟‘‘
’’اجی پھر کیا‘‘ وہ جل کر بولے ’’پھر آئندہ جسارت نہ کی اس رسالے میں بھیجنے کی۔ بقول اس عقل کی پوری، میرا مطلب ہے ہماری بیگم صاحبہ کے، نری وقت کی بربادی ہے یہ۔ لہٰذا اپنا کلام ہم ضبطِ تحریر میں تو ضرور لاتے ہیں لیکن صرف اپنے تکیوں پر، اور ایک راز کی بات بتائیں، بھیجتے اب بھی کبھی کبھی ہیں اخباروں میں، باز نہیں آنے والے۔‘‘ آخری جملہ انہوں نے تقریباً ہمارے کان میں گھس کر کہا۔
’’تو چَھپا کیا؟‘‘
’’اجی خاک‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ ہم ہونق ہوئے۔
’’ٹھیرو میں تمہیں لا کر دکھاتا ہوں وہ تمام تکیہ کلام‘‘۔ انہوں نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔ اور جس تکیہ کلام کے بارے میں بڑے بڑے اشاعتی ادارے اپنی مستند رائے دے چکے، اس پر ہم ناچیز کس کھیت کی مولی ثابت ہوتے! لہٰذا وہاں سے نو دو گیارہ ہونے ہی میں ہم نے عافیت جانی۔ لیکن یہ کیا؟ شکاری ماہر تھا شکار پھنسانے میں۔ وہ دروازہ باہر سے مقفل کرکے گئے تھے تاکہ ہاتھ آئی مچھلی پھسل نہ جائے اور اِدھر ہم پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔
پھر انہوں نے (بقول ان کے تک بندی کا) سلسلہ کلام کا آغاز کیا اور یہ نہ جانے اٹھارویں تک بندی تھی یا انیسویں کہ بیسویں، ہم بلبلا گئے تھے اور تڑپ تڑپ رہے تھے، جس کے جواب میں وہ بڑی شاطرانہ مسکراہٹ سے گویا ہوئے تھے:
’’ارے ہمارا کاٹا تو پانی بھی نہیں مانگتا۔‘‘
’’ارے ہم گئے، مجھے ہارٹ اٹیک ہورہا ہے۔ کوئی ڈاکٹر کو بلائے‘‘ ہم چلاّئے۔
’’اجی کچھ نہیں ہوگا، میرے تکیہ کلام سے ہارٹ اٹیک نہیں ہوا کرتا۔‘‘
’’تو کیا نروس بریک ڈائون ہوتا ہے؟‘‘ ہم نے بے بسی سے مٹھیاں بھینچ کر کہا۔
’’اس سے ڈائریکٹ ہارٹ فیل ہوتا ہے۔‘‘ یہ آواز دوسری طرف سے آئی تھی۔ ہم نے جو بائیں طرف دیکھا تو وہاں وہ عقل کی پوری، یعنی بیگم تکیہ کلام براجمان تھیں۔ ہم نے خوفزدہ نظروں سے ان کے تیور دیکھے جو بڑے خطرناک تھے۔
’’اجی یہ آپ کیوں مخل ہوئیں ہماری محفل میں۔‘‘ وہ عینک ناک پر جماتے ہوئے بولے۔
’’تاکہ اس میں رنگ بھردوں۔‘‘ وہ غرائیں اور پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر بولیں ’’اس سے تو میں نپٹ لوں گی، تم تو نکلو یہاں سے اس سے پہلے کہ سچ مچ کسی ڈاکٹر کو بلانا پڑ جائے اور تم کو اسپتال پہنچانا پڑ جائے۔‘‘ محترمہ اکڑ کر طنزیہ بولیں، پھر مزید گویا ہوئیں ’’کیا یاد کرو گے کس سخی سے پالا پڑا تھا۔‘‘
اور پھر ہم نے وہاں سے دوڑ لگانے میں زیادہ دیر نہ لگائی۔ پیچھے پھر کیا ہوا؟ شنید ہے کہ وہ سارے تکیہ غلافوں پر تحریر کلام سپردِ نار کردیا گیا کیونکہ آئندہ انہوں نے پھر کسی کو اپنی تک بندی (غزل یا نظم) گوش گزار کرنے کی جہد نہ کی اور بقیہ زندگی اس شغل سے تائب ہو نے کا عہد دے کر (عقل کی پوری کو) پرچوں کی دکان پر آٹے دال کا بھائو معلوم کرنے لگے۔
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/52601
 
Top