تذکرہ ملک الشعرا خاقانی ہند شیخ ابراہیم ذوق
جب وہ صاحب کمال عالم ارواح سے کشور اجسام کی طرف چلا۔ تو فصاحت کے فرشتوں نے باغ قدس کے پھولوں کا تاج سجایا۔ جن کی خوشبو شہرت عام بنکر جہاں میں پھیلی اور رنگ نے بقائے دوام سے آنکھوں کو طراوت بخشی۔ وہ تاج سر پر رکھا گیا۔ تو آب حیات اس پر شبنم ہوکر برسا۔ کہ شادابی کو کملاہٹ کا اثر نہ پہنچے۔ ملک الشعرائی کا سکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور طغرائے شاہی میں یہ نقش ہوا۔ کہ اس پر نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔ چناچہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادر الکلام پھر ہندوستا میں پیدا ہو سبب اس کا یہ ہے کہ جس باغ کا بلبل تھا۔ وہ باغ برباد ہوگیا۔ نہ ہم صفیر رہے۔ نہ ہم داستان رہے۔ نہ اس بولے کے سمجھنے والے رہے۔ جو خراب آباد اس زبان کے لیے ٹکسال تھا۔ وہاں بھانت بھانت کا جانور بولتا ہے۔ شہر چھاؤنی سے بدتر ہوگیا۔ امرا کے گھرانے تباہ ہوگئے۔ گھرانوں کے وارث علم و کمال کے ساتھ روٹی سے محروم ہوکر حواس کو بیٹھے۔ وہ جادو کار طبیعتیں کہاں سے آئیں؟ جو بات بات میں دل پسند انداز اور عمدہ تراشیں نکالتی تھیں۔ آج جن لوگوں کو زمانہ کی فارغ بالی نے اس قسم کی ایجاد و اختراع کی فرصتیں دی ہیں۔ وہ اور اور اصل کی شاخیں ہیں۔ انہوں نے اور پانی سے نشو و نما پائی ہے۔ وہ اور ہی ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔ پھر اس زبان کی ترقی کا کیا بھروسا۔
کیسا مبارک زمانہ ہوگا۔ جب کہ شیخ مرحوم اور میرے والد مغفور ہم عمر ہونگے۔ تحصیل علمی ان کی عمروں کی طرح حالت طفلی میں ہوگی۔ صرف نحو کی کتابیں ہاتھوں میں ہونگی اور ایک استاد کے دامن شفقت میں تعلیم پاتے ہونگے۔ ان نیک نیت لوگوں کی ہر ایک بات استقلال کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی۔ وہ رابطہ اس عمروں کے ساتھ بڑھتا گیا اور اخیر وقت ایسا نبھ گیا کہ قرابت سے بھی زیادہ تھا۔ ان کے تحریر حالات میں بعض باتوں کے لکھنے کو سمجھیں گے۔ مگر کیا کروں جی یہ ہی چاہتا ہے کہ حرف اس گراں بہا داستان کا نہ چھوڑوں۔ یہ شاید اس سبب سے ہو کہ اپنے پیار ار پیار کرنے والے بزرگ کی ہر بات پیاری ہوتی ہے۔ لیکن نہیں۔ اس شعر کے پتلے کا رونگٹا بھی بیکار نہ تھا۔ ایک صںعت کاری کی کل میں کونسے پرزے کو کہہ سکتے ہیں! کہ نکال ڈالو۔ یہ کام کا نہیں۔ اور کونسی حرکت اس کی ہے۔ جس سے کچھ حکمت انگیز فائدہ نہیں پہنچتا ہے اسی واسطے میں لکھونگا اور جو بات ان کے سلسلہ حالات میں مسلسل ہوسکیگی۔ اس کا ایک حرف نہ چھوڑونگا۔
شیخ مرحوم کے والد شیخ محمد رمضان ایک غریب سپاہی تھے۔ مگر زمانہ کے تجربہ اور بزرگوں کی صحبت نے انہیں حالات زمانہ سے ایسا با خبر کردیا تھا۔ کہ ان کی زبانی باتیں کتب تواریخ کے قیمتی سرمائے تھے۔ وہ دلی میں کابلی دروازے کے پاتے رہتے تھے۔ اور نواب لطف علی خان نے انہیں متعبر اور با لیاقت شخص سمجھ کر اپنی حرم سرا کے کاروبار سپرد کر رکھے تھے۔ شیخ علیہ الرحمتہ ان کے اکلوتے بیٹھے تھے کہ ۱۲۰۴ ہجرے میں پیدا ہوئے۔ اس وقت کسی خبر ہوگی کہ اس رمضان سے وہ چاند نکلے گا۔ جو آسمان سخن پر عید کا چاند ہوکر چمکے گا۔ جب پڑھنے کے قابل ہوئے تو حافظ غلام رسول نام ایک شخص بادشاہی حافظ ان کے گھر پاس رہتے تھے۔ محلہ کے اکثر لڑکے انہیں کے پاس پڑھتے تھے۔ انہیں بھی وہیں بٹھا دیا۔ حافظ غلام رسول شاعر بھی تھے۔ شوق تخلص کرتے تھے۔ اگلے وقتوں کے لوگ جیسے شعر کہتے ہیں۔ ویسے شعر کہتے تھے۔ محلہ کے شوقین نوجوان دلوں کی امنگ میں ان سے کچھ کچھ کہلوا لے جایا کرتے تھے۔ اکثر اصلاح بھی لیا کرتے تھے۔ غرض ہر وقت ان کے ہاں یہی چرچا رہتا تھا۔
شیخ مرحوم خود فرماتے ھتے کہ وہاں سنتے سنتے مجھے بہت شعر یاد ہوگئے۔ نظم کے پڑھنے اور سننے میں دل کو ایک روحانی لذت حاصل ہوتی تھی اور ہمیشہ اشعار پڑھتا پھرا کرتا تھا۔ دل میں شوق تھا اور خدا سے دعائیں مانگتا تھا۔ کہ الٰہی! مجھے شعر کہنا آجائے۔ ایک دن خوشی میں آکر خود بخود میری زبان سے دو شعر نکلے۔ اور یہ فقط حسن اتفاق تھا۔ کہ ایک حمد میں تھا۔ ایک نعت میں۔ مجھے اتنا ہوش تو کہاں تھا۔ کہ اس مبارک مہم کو خود اس طرح سمجھ کر شروع کرتا۔ کہ پہلا حمد میں ہو اور دوسرا نعت میں۔ جب یہ خیال بھی نہ تھا۔ کہ اس قدرتی اتفاق کو مبارک فال سمجھوں۔ مگر ان دو شعروں کے موزوں ہوجانے سے۔ جو خوشی دل کو ہوئی۔ اس کا مزہ اب تک نہیں بھولتا۔ انہیں کہیں اپنی کتاب میں۔ کہیں جا بجا کاغذوں پر رنگ برنگ کی روشنائی سے لکھتا تھا۔ ایک ایک کو سناتا تھا اور خوشی کے مارے پھولوں نہ سماتا تھا۔ غرضکہ اس عالم میں کچھ کہتے رہے اور حافظ جی سے اصلاح لیتے رہے۔
اسی محلہ میں میر کاظم حسین نام ایک ان کے ہم سن ہم سبق تھے۔ بیقرار تخلص کرتے تھے اور حافظ غلام رسول ہی سے اصلاح لیتے ھتے۔ مگر ذہن کی جودت اور طبیعت کی براقی کا یہ عالم تھا۔ کہ کبھی برق تھے۔ اور کبھی باد و باراں۔ انہیں اپنے بزرگوں کی صحبت میں اچھے اچھے موقعے ملتے تھے۔ شیخ مرحوم اور وہ اتحاد طبعی کے سبب اکثر ساتھ رہتے تھے اور مشق کے میدان میں ساتھ ہی گھوڑے دوڑاتے تھے۔
ایک دن میر کاظم حسین نے غزل لاکر سنائی۔ شیخ مرحوم نے پوچھا۔ یہ غزل کب کہی؟ خوب گرم شعر نکالے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ ہم تو شاہ نصیر کے شاگرد ہوگئے۔ انہیں سے یہ اصلاح لی ہے۔ شیخ مرحوم کو بھی شوق پیدا ہوا۔ اور ان کے ساتھ جاکر شاگرد ہوگئے۔
سلسلہ اصلاح جاری تھا۔ مشاعروں میں غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ لوگوں کی واہ واہ طبیعتوں کو بلند پروازیوں کے پر لگاتی تھی۔ کہ رشک جو تلا میذ الرحٰمن کے آئینوں کا جاہر ہے۔ استاد شاگردوں کو چمکانے لگا۔ بعض موقع پر ایسا ہوا۔ کہ شاہ صاحب نے زن کی غزل کو دیکھ کر بے اصلاح پھیر دیا اور کہا کہ طبیعت پر زور ڈالکر کہو۔ کبھی کہدیا۔ یہ کچھ نہیں۔ پھر سوچکر کہو۔ بعض غزلوں کو جو اصلاح دی۔ اس سے بے ادائی پائی گئی۔ ادھر انہیں کچھ تو یاروں نے چمکادیا۔ کچھ اپنی غریب حالت نے یہ آزردگی پیدا کی۔ کہ شاہ صاحب اصلاح میں بے توجہی یا پہلو تہی کرتے ہیں۔ چناچہ اس طرح کئی غزلیں پھیریں۔ بہت سے شعر کٹ گئے۔ زیادہ تر قباحت یہ ہوئی۔ کہ شاہ صاحب کے صاحبزادے شاہ وجیہ الدین منیر ھتے۔ جو براقی طبع میں اپنے والد کے خلف الرشید تھے۔ ان کی غزلوں میں توارد سے۔ یا خدا جانے کس اتفاق سے وہی مضمون پائے گئے۔ اس لیے انہیں زیادہ رنج ہوا۔
اگرچہ ان کی طبیعت حاضر۔ فکر رسا۔ بندش چست۔ اس پر کلام میں زور۔ سب کچھ تھا۔ مگر چونکہ یہ ایک غریب سپاہی کے بیٹے تھے۔ نہ دنیا کے معاملات کا تجربہ تھا۔ نہ کوئی ان کا دوست ہمدرد تھا۔ اس لیے رنج اور دل شکستگی حد سے زیادہ ہوتی تھی۔ اسی قیل و قال میں ایک دن سودا کی غزل پر غزل کہی۔ "دوش نقش پا۔ آغوش نقش پا"۔ شاہ صاحب کے پاس لے گئے۔ انہوں نے خفا ہو کر غزل پھینک دی کہ استاد کی غزل پر غزل کہتا ہے! اب تو مرزا رفیع سے بھی اونچا اڑنے لگا۔ ان دنوں میں ایک جگہ مشاعرہ ہوتا تھا۔ اشتیاق نے بیقرار کرکے گھر سے نکالا۔ مشاعرہ میں جاکر غزل پڑھی۔ وہاں بہت تعریف ہوئی۔ اس دن سے جرات زیادہ ہوئی اور بے اصلاح مشاعرہ میں غزل پڑھنے لگے۔ اب کلام کا چرچا زیادہ تر ہوا۔ طبیعت کی شوخی اور شعر کی گرمی سننے والوں کے دلوں میں اثر برقہ کی طرح دوڑنے لگی۔ اس زمانہ کے لوگ منصف ہوتے تھے۔ بزرگان پاک طینت جو اساتذہ سلف کے یاد گار باقی تھے۔ مشاعرہ میں دیکھتے۔ تو شفقت سے تعریفیں کرکے دل بڑھاتے۔ بلکہ غزل پڑھنے کے بعد آتے تو دوبارہ پڑھوا کر سنتے۔
اکبر شاہ بادشاہ تھے۔ انہیں تو شعر سے کچھ رغبت نہ تھی۔ مگر مرزا ابو ظفر ولیعہد کہ بادشاہ ہوکر بہادر شاہ ہوئے۔ شعر کے عاشق شیدا تھے اور ظفر تخلص سے ملک شہرت کو تسخیر کیا تھا۔ اس لیے دربار شاہی میں جو جو کہنہ مشق شاعر تھے۔ وہیں آکر جمع ہوتے تھے۔ اپنے اپنے کلام سناتے تھے۔ مطلع اور مصرع جلسہ میں ڈالتے تھے۔ ہر شخص مطلع پر مطلع کہتا تھا۔ مصرع پر مصرع لگا کر طبع آزمائی کرتا تھا۔ میر کاظم حسین بیقرار۔ کہ ولیعہد موصوف کے ملازم خاص تھے۔ اکثر ان صحبتوں میں شامل ہوتے تھے۔ شیخ مرحوم کو خیال ہوا کہ اس جلسہ میں طبع آزمائی ہوا کرے۔ تو قوت فکر کو خوب بلند پروازی ہو۔ لیکن عہد میں کسی امیر کی ضمانت کے بعد بادشاہی اجازت ہوا کرتی تھی۔ جب کوئی قلعہ میں جانے پاتا تھا۔ چناچہ میر کاظم حسین کی وساطت سے یہ قلعہ میں پہنچے اور اکثر دربار ولیعہدی میں جانے لگی۔
شاہ نصیر مرحوم۔ کہ ولیعہد کی غزل کو اصلاح دیا کرتے تھے۔ دکن چلے گئے۔ میر کاظم حسین ان کی غزل بنانے لگے۔ انہیں دنون میں جان انفسٹن صاحب شکار پور سند وغیرہ سے سرحدات لیکر کابل تک عہد نامے کرنے کو چلے۔ انہیں ایک میر منشی کی ضرورت ہوئی۔ کہ قابلیت و علمیت کے ساتھ امارت خاندانی کا جوہر بھی رکھتا ہو۔ میر کاظم حسین نے اد عہدہ پر سفارش کے لیے ولیعہد سے شقہ چاہا۔ مرزا مغل بیک ان دنوں میں مختار کل تھے۔ اور وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتے تھے کہ جس پر ولیعہد کی زیادہ عنایت ہو اس کو سامنے سے سرکاتے رہیں۔ اس قدرتی پیچ سے میر کاظم حسین کو شقہ کی سفارش آسان حاصل ہوگیا اور وہ چلے گئے۔
چند روز بعد ایک دن شیخ مرحوم جو لیعہد کے ہاں گئے۔ تو دیکھا کہ تیر اندازی کی مشق کررہے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی شکایت کرنے لگے۔ میاں ابراہیم۔ استاد تو دکن گئے۔ میر کاظم حسین ادھر چلے گئے۔ تم نے بھی ہمیں چھوڑ دیا۔ اس وقت ایک غزل جیب سے نکالکر دی کہ ذرا اسے تو بنادو۔ یہ وہیں بیٹھ گئے اور غزل بناکر سنائی۔ ولیعہد بہادر بہت خوش ہوئے۔ اور کہا کہ بھئی کبھی کبھی تم آکر ہماری غزل بنا جایا کرو۔ غرض چند روز اصلاح جاری ہی اور آخر وک سرکار ولیعہد سے چار روپیہ مہینہ بھی ہوگیا۔
چند سال بعد انہوں نے ایک قصیدہ کہکر اکبر بادشاہ کے دربار میں سنایا۔ جس کے مختلف شعروں میں انواع و اقسام کے ضائع بدائع صرف کئے تھے۔ مطلع اس کا یہ ہے۔
جب کہ سرطان و اسد مہر کا ٹھیرا مسکن
آب و ایلولہ ہوئے نشو و نمائے گلشن
اس پر بادشاہ نے خاقانی ہند کا خطاب عطا کیا۔ اس وقت شیخ مرحوم کی عمر ۱۹ برس تھی۔
اواکر ایام میں ایک بار بادشاہ (بہادر شاہ) بیمار ہوئے۔ جب شفا پائی اور انہوں نے ایک قصیدہ غرا کہہکر نذر گزرانا۔ تو خلعت کے علاوہ خطاب خان بہادر اور ایک ہاتھی مع حوضہ نقرئی انعام ہوا۔ پھر ایک بڑے زور شور کا قصیدہ کہکر گزرانا جس کا مطلع یہ ہے۔
شب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت
نشہ علم میں سرمست غرور و نخوت
۲۴ صفر ۱۲۷۱ ہجری جمعرات کا دن تھا۔ ۱۷ دن بیمار رہکر وفات پائی۔
مرنے سے تین گھنٹے پہلے یہ شعر کہا تھا۔
کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد حسین آزاد)۔۔۔۔۔۔۔۔