پروف ریڈ اول توزکِ اردو از اسماعیل میرٹھی

فرخ منظور

لائبریرین
دیباچہ

زبان اردو کی کم مایگی مسلؐم ہی سہی۔ تو بھی یہ عذر انتخاب کی ذمہ داریوں سے ہم کو چنداں سبکدوش نہیں کرتا۔ جو سبق طلبہ کے درس و مطالعہ کے لئے پیش کئے جائیں۔ وہ بالضرور فصاحت و بلاغت میں کامل عیار، ادب و اخلاق کی میزان میں سنجیدہ، دلاویزی و شگفتگی کے آب و نمک سے بامزہ ہونے چاہیں۔​
کامیابی کا دعویٰ تو نہیں مگر ہم نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ مضامین منتخبہ میں حسنِ ظاہر کے ساتھ معنوی پاکیزگی بھی ضرور ہو، زبان دانی بیشک ایک جوہر ہے۔ مگر جس زبان سے قواے روحانی مضمحل ہو جائیں، اس سے تو بےزبانی ہی بمراتب بہتر ہے۔​
نثرِ اردو نے نظم سے بہت پیچھے رواج پایا ہے۔ اس کی ابتدا قصہ کہانیوں سے ہوئی اور تھوڑا ہی زمانہ گزرا تھا کہ تصنؐع اور تکلؐف نے اس کو بیکازِ محض کر دیا۔ مگر میرزا غالب مرحوم کی تحریرات سادہ و سرسری نے اس کا قدرتی حسن دکھایا۔ پھر سرسید مرحوم اور ان کے مقلدین نے مغربی خیالات کی جان ڈال کر اس میں مہذب زبانوں کی سی آن و ادا پیدا کر دی۔ اگرچہ قابل انتخاب قریب تر زمانہ کی نثر ہے۔ مگر ہم نے مشاہیرِ قدیم و جدید سب کے کلام کا نمونہ لیا ہے۔ تاکہ طلبہ کو مختف اسالیبِ بیان سے واقفیت حاصل ہو۔​
اصنافِ نظم میں تو ہمارے شعراے سخن سنج نے شیوا بیانی اور آتش زبانی کی دھوم مدت سے مچا رکھی ہے اور ریختہ کو رشک پارسی بنانے میں کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن اس سیمیائی باغ میں ایسے گل پھول چننا جو نوخیز طبائع کو آشفتہ اور جذباتِ نفسانی کے بھوت کو بیدار نہ کردیں، سخت مشکل کام ہے۔ بارے ہم نے اس طلسم کدہ میں پھونک پھونک کر قدم رکھا اور اساتذہء ماضی و حال کے پاکیزہ کلام سے اس مجموعہ کو زیب و زینت دی۔ امید ہے کہ اس انتخاب کے مطالعہ سے مہارتِ زبان دانی کے علاوہ طلبہ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اردو کی نظم و نثر نے ایک صدی سے زیادہ عرصہ میں کیا کیا منزلیں اپنی ترقی کی طے کی ہیں۔​
مارچ ۱۸۹۸ء۔​

محمد اسمعیل​
 

فرخ منظور

لائبریرین
فہرستِ مضامین توزکِ اردو

حصہ نثر

۱۔ سولزیشن ۔ از سرسید احمد خان مرحوم
۲۔ عزت ۔ از سرسید احمد خان مرحوم
۳۔ موجودہ تعلیم و تربیت کی شبیہ۔ از نواب محسن الملک سید مہدی علی خان
۴۔ زبانِ گویا۔ از خواجہ الطاف حسین حالی
۵۔ حیاتِ سعدی۔ از خواجہ الطاف حسین حالی
۶۔ ریاضتِ جسمانی۔ از شمس العلما مولوی نذیر احمد صاحب
۷۔ عقل کی نارسائی۔ از شمس العلما مولوی نذیر احمد صاحب
۸۔ کارخانہء قدرت ۔ از شمس العلما مولوی نذیر احمد صاحب
۹۔ قسطنطیہ کے مختصر حالات۔ از شمس العلما مولانا شبی نعمالی
۱۰۔ مصر کی قدیم یادگاریں ۔ از شمس العلما مولانا شبی نعمالی
۱۱۔ بزمِ قدرت ۔ از مولوی عبدالحلیم شرر
۱۲۔ وارن ہیسٹنگز کے اخلاق و عادات۔ از شمس العلما مولوی محمد ذکاء اللہ
۱۳۔ ادب ۔ از شمس العلما مولوی محمد ذکاء اللہ
۱۴۔ حیا ۔ از شمس العلما مولوی محمد ذکاء اللہ
۱۵۔ محنت ۔ از شمس العلما مولوی محمد ذکاء اللہ
۱۶۔ اردو انگریزی انشا پردازی پر کچھ خیالات۔ از شمس العلما مولوی محمد حسین آذاد
۱۷۔ تذکرہء ملک الشعرا خاقانیِ ہند شیخ ابراہیم ذوق
۱۸۔ خط۔ ۱ -۱۱ ۔ میرزا اسد اللہ خان غالب
۱۹۔ جنگ مرہٹہ ۔ از مولؐف
۲۰۔ جاڑے کی شدت ۔ از میرزا رجب علی بیگ سرور
۲۱۔ قصؐہ ۔ از میر امؐن دہلوی
 

فرخ منظور

لائبریرین
حصہ نظم

مثنویات

حُبِ وطن۔ از خوجہ الطاف حسین حالی
برکھا رُت ۔ از خواجہ الطاف حسین حالی
از مثنوی میر حسن دہلوی
از مثنوی گلزارِ نسیم
از مثنوی میر تقی

غزلیات

فصیح الملک نواب میرزا خان داغ دہلوی
امیر الشعرا منشی امیر احمد امیر مینائی
از مولف منشی امیر احمد امیر مینائی
سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر
شیخ ابراہیم ذوق
حکیم مومن خان مومن
نواب مصطفے خان شیفتہ
میرزا اسداللہ خان غالب
خواجہ حیدر علی آتش
شیخ امام بخش ناسخ
شیخ قلندر بخش جرات
سید انشاء اللہ خان انشا
شیخ غلام ہمدانی مصحفی
میری محمد تقی میر
میرزا رفیع سودا
خواجہ میر درد

قصائد

امیر الشعرا منشی امیر احمد امیر مینائی
شمس العلما مولوی سید نذیر احمد
حکیم مومن خان مومن
میرزا اسد اللہ خان غالب
شیخ ابراہیم ذوق
خواجہ الطاف حسین حالی

قطعات
مسدسات
مثمن ۔ کیفیت قلعہ آگرہ
رباعیات
 

فرخ منظور

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
حصّہء نثر​
آنریبل ڈاکٹر سید احمد خان کے۔سی۔ایس۔آئی۔ایل۔ایل۔ڈی​
ولادت ۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷ء ۔ وفات ۲۷ مارچ ۱۸۹۸۔ سر سید نے علی گڑھ میں مدرستہ العلوم مسلمانان کی بنیاد ڈالی۔ اخبار انسٹیٹیوٹ گزٹ اور رسالہ تہذیب الاخلاق دونوں ان کی اڈیٹری میں نکلتے تھے۔ بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ جن میں سب سے زیادہ مشہور تفسیر القرآن ہے، چھ جلدوں میں ہے۔ ان کا طرز تحریر سادگی و روانی و دل نشینی میں مشہور ہے۔ تکلّف نام کو نہ تھا۔ مشکل سے مشکل مضمون کو اس خوبی سے بیان کرتے کہ گویا پانی کرکے بہا دیتے تھے۔ غدر ۱۸۵۷ء کے بعد اردو زبان کے علم و ادب میں جو انقلاب پیدا ہوا اور انگریزی لٹریچر کا پرتو اس پر پڑا۔ وہ زیادہ تر سر سید ہی کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اس لئے ان کو جدید علم ادب کا بانی کہہ سکتے ہیں۔​
سولزیشن یا تہذیب (از تہذیب الاخلاق)​
ہم دریافت کیا چاہتے ہیں، کہ سولزیشن کیا چیز ہے، اور کن کن چیزوں سے علاقہ رکھتی ہے؟ کیا یہ کوئی بنائی ہوئی چیز ہے یا قدرت نے انسان کی فطرت میں اس کو پیدا کیا ہے؟ اس کے معنی کیا ہیں؟ کیا یہ کوئی اصطلاح ہے؟ جس کو لوگوں نے یا فلسفیوں نے مقرر کیا ہے۔ یا ایسی چیز ہے کہ اس کا مفہوم اور جن جن چیزوں سے اس کا تعلّق ہے وہ قانون قدرت میں پایا جاتا ہے۔ اس امر کے تصفیہ کے لئے ہم کو انسانی حالات پر نظر کرنی چاہیے۔ اگر تہذیب انسان میں ایک فطری چیز ہے، تو وحشیوں میں، شہریوں میں، سب میں اس کا نشان ملے گا۔ گو اس کی صورتیں مختلف دکھائی دیتی ہوں۔ اِلّا سب کی جڑ ایک ہی ہوگی۔​
انسان میں یہ ایک فطری بات ہے۔ کہ وہ اپنے خیال کے موافق کسی چیز کو پسند کرتا ہے اور کسی کو ناپسند۔ یا یوں کہو کہ کسی چیز کو اچھا ٹھہراتا ہے اور کسی کو برا اور اس کی طبیعت اس طرف مائل ہے کہ اس بری چیز کی حالت کو، ایسی حالت سے تبدیل کرلے، جس کو وہ اچھا سمجھتا ہے۔ یہ ہی چیز سولزیشن کی جڑ ہے۔ جو انسان کے ہر گروہ میں اور ہر ایک میں پائی جاتی ہے۔ اسی تبادلہ کا نام سولزیشن یا تہذیب ہے اور کچھ شبہ نہیں کہ۔ یہ میلان یا یہ خواہشِ مبادلہ انسان میں قدرتی ہے۔​
سولزیشن یا تہذیب کی طرف انسان کی طبیعت کے مائل ہونے کے دو اصول ٹھہرے، اچھا اور برا، اور برے کو اچھا کرنا سولزیشن یا تہذیب ٹھیری۔ مگر اچھا اور برا قرار دینے کے مختلف اسباب خِلقی اور خُلقی، ملکی اور تمدنی ایسے ہوتے ہیں۔ جن کے سبب اچھا اور برا ٹھیراتے ہیں، یا یوں کہو، کہ قوموں کی سولزیشن میں اختلاف پڑ جاتا ہے۔ ایک قوم جس بات کو اچھا سمجھتی ہے اور داخل تہذیب جانتی ہے۔ دوسری قوم اسی بات کو بہت برا اور وحشیانہ قرار دیتی ہے۔ یہ اختلاف سولزیشن کا قوموں کے باہم ہوتا ہے۔ اشخاص میں نہیں ہوتا یا بہت ہی کم ہوتا ہے۔​
جب کہ ایک گروہ انسانوں کا کسی جگہ اکھٹا ہوکر بستا ہے تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں، ان کی غذائیں اور ان کی پوشاکیں، ان کی معلومات اور ان کے خیالات، ان کی مسرت کی باتیں اور نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں اور اسی لئے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی سب میں یکساں پیدا ہوتے ہیں۔ اور برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے۔ اور یہی مجموعی خواہشِ تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم یا گروہ کی سولزیشن ہے۔ مگر جب کہ مختلف گروہ مختلف مقامات میں بستے ہیں۔ تو ان کی حاجتیں اور خواہشیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اور اس سبب سے تہذیب کے خیالات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ مگر ضرور کوئی ایسی چیز بھی ہوگی۔ کہ جو سولزیشن کی ان مختلف حالتوں کا تصفیہ کرسکے۔​
ملکی حالتیں جہاں تک کہ وہ بود و باش سے تعلق رکھتی ہیں۔ نہ فکر و خیال و دماغ سے۔ ان کو تہذیب سے چنداں تعلق نہیں بلکہ صرف انسان کے خیال کو اس سے تعلق ہے۔ جس کے سبب وہ اچھا اور برا ٹھیراتا ہے۔ اور جس کے باعث سے خواہش تبادلہ تحریک میں آتی ہے۔ اور وہ تبادلہ واقعی ہوتا ہے۔ جو سولزیشن کہلاتا ہے۔ پس سولزیشن کی مختلف حالتوں کا فیصلہ وہ اسباب کرسکتے ہیں۔ جن کے سبب سے اچھے اور برے کا خیال دل میں بیٹھتا ہے۔​
خیال کی درستی اور پسند کی صحت کثرت معلومات اور علم طبیعات سے بخوبی ماہر ہونے پر منحصر ہے۔ انسان کی معلومات کو روز بروز ترقی ہوتی جاتی ہے۔ اور اسکے ساتھ ساتھ سولزیشن بھی بڑھتی ہے۔ کیا عجب ہے؟ کہ آئندہ کوئی ایسا زمانہ آئے کہ انسان کی تہذیب میں ایسی ترقی ہو۔ کہ اس زمانہ کی تہذیب کو بھی۔ لوگ ایسے ٹھنڈے دل سے دیکھیں جیسے کہ ہم اپنوں سے اگلوں کی تہذیب کو ایک ٹھنڈے مگر مودّب دل سے دیکھتے ہیں۔​
تہذیب یا یوں کہو۔ کہ بری حالت سے اچھی حالت میں لانا دنیا کی تمام چیزوں سے اخلاقی ہوں یا مادّی، یکساں تعلق رکھتا ہے۔ اور تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ تکلیف سے بچنے اور آسائش حاصل کرنے کا سب کو یکساں خیال ہے۔ ہنر اور اس کو ترقی دینا تمام دنیا کی قوموں میں موجود ہے۔ ایک تربیت یافتہ قوم زر و جواہر۔ یاقوت و الماس سے نہایت نفیس نفیس خوبصورت زیور بناتی ہے۔ ناتربیت یافتہ قوم بھی کوڑیوں اور پوتھوں سے اپنی آرائش کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔ تربیت یافتہ قومیں اپنی آرائش میں سونے چاندی مونگے اور موتیوں کو کام میں لاتی ہیں۔ ناتریبت یافتہ قومیں جانورں کے خوبصورت اور رنگین پروں کو تتلیوں پر سے چھلے ہوئے سنہری پوست اور زمرّد کے سے رنگ کی باریک اور خوشنما گھاس میں گوندھ کر اپنے تئیں آراستہ کرتی ہیں۔ تریبت یافتہ قوموں کو بھی اپنے لباس کی درستی کا خیال ہے۔ ناتربیت یافتہ بھی اس کی درستی پر مصروف ہیں۔ شاہی مکانات نہایت عمدہ اور عالی شان بنتے ہیں اور نفیس چیزوں سے آراستہ ہوتے ہیں۔ ناتریبت یافتہ قوموں کے جھونپڑے اور ان کے رہنے کے گھونپے درختوں پر باندھے ہوئے ٹانڈ۔ زمین میں کھودی ہوئی کھوئیں بھی تہذیب سے خالی نہیں۔ معاشرت کی چیزیں تمدن کے قاعدے۔ عیش و عشرت کی مجلسیں۔ خاطر و مدارت کے کام اخلاق و محبت کی علامتیں دونوں میں پائی جاتی ہیں۔​
علمی خیالات سے بھی ناتربیت یافتہ قومیں خالی نہیں۔ بلکہ بعض چیزیں اس میں زیادہ اصلی اور قدرتی طور سے دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً شاعری جو ایک نہایت عمدہ فن تربیت یافتہ قوموں میں ہے۔ ناتربیت یافتہ قوموں میں عجب عمدگی و خوبی سے پایا جاتا ہے۔ یہاں خیالی باتوں کو ادا کیا جاتا ہے۔ وہاں دلی جوشوں اور اندرونی جذبوں کا اظہار ہوتا ہے۔ موسیقی نے تربیت یافتہ قوموں میں نہایت ترقی پائی ہے۔ مگر ناتربیت یافتہ قوموں میں بھی عجیب کیفیت دکھائی ہے۔ اُن کی ادا اور آواز کی پھرت۔ اُس کا گھٹاؤ اور اُس کا بڑھاؤ۔ اس کا ٹھیراؤ اور اس کی اپج۔ ہاتھوں کا بھاؤ اور پاؤں کی دھمک زیادہ تر مصنوعی قواعد کی پابند ہے۔ مگر ناتریبت یافتہ قوموں میں یہ سب چیزیں دلی جوش کی موجیں ہیں۔ وہ لے اور تال اور راگ راگنی کو نہیں جانتے۔ مگر دل کی لہر ان کی لے۔ اور دل کی پھڑک ان کا تال ہے۔ ان کا غول باندھ کر کھڑا ہونا۔ طبعی حرکت کے ساتھ اچھلنا۔ دل کی بے تابی سے جھکنا اور پھر جوش میں آکر سیدھا ہوجانا۔ گو نزاکت اور فن خُنیا گری سے خالی ہو۔ مگر قدرتی جذبوں کی ضرور تصویر ہے۔ دلی جذبوں کا روکنا اور ان کو عمدہ حالت میں رکھنا تمام قوموں کے خیالات میں شامل ہے۔ پس جس طرح ہم تہذیب کا قدرتی لگاؤ تمام انسانوں میں پاتے ہیں۔ اسی طرح اس کا تعلق عقلی اور مادّی سب چیزوں میں دیکھتے ہیں۔ جس چیز میں ترقی یعنی برائی سے اچھائی کی طرف رجوع یا ادنیٰ سے اعلیٰ درجہ کی طرف تحریک ہوسکتی ہے اسی سے تہذیب بھی متعلق ہے۔​
پس سولزیشن یا تہذیب کیا ہے؟ انسان کے افعال ارادی اور جذبات نفسانی کو اعتدال پر رکھنا۔ وقت کو عزیز سمجھنا۔ واقعات کے اسباب کو ڈھونڈنا۔ اور ان کو ایک سلسلہ میں لانا۔ اخلاق، معاملات، معاشرت، طریق تمدن اور علوم و فنون کو بقدر امکان قدرتی خوبی اور فطری عمدگی پر پہنچانا۔ اور ان سب کو خوش اسلوبی سے برتنا۔ اس کا نتیجہ کیا ہے؟ روحانی خوشی، جسمانی خوبی، اصلی تمکین، حقیقی وقار اور خود اپنی عزت کی عزت۔ اور درحقیقت یہی پچھلی ایک بات ہے۔ جس سے وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز ہوتی ہے۔​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔(سر سید احمد خان)۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔​
 

فرخ منظور

لائبریرین
عزت (از تہذیب الاخلاق)​
بہت کم لوگ ہیں جو اس کی حقیقت جانتے ہوں۔ اور بہت کم ہیں جو اس کے مشتقات کے معزز القابوں کے مستحق ہوں۔ جس کی لوگ بہت آؤ بھگت کرتےہیں اسی کو لوگ معزز سمجھتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو معزز جانتا ہے۔ اوصاف ظاہری بھی ایک ذریعہ معزز ہونے اور معزز بننے کا ہے۔ جو دولت، حکومت اور حشمت سے بھی زیادہ معزز بنا دیتا ہے۔ مگر یہ اعزاز اس سے زیادہ کچھ رتبہ نہیں رکھتا۔ جیسا کہ ایک تانبے کی مورت پر سونے کا ملمّع کردیا گیا ہو۔ جب تک وہ مورت ٹھوس سونے کی نہ ہو اس وقت تک درحقیقت وہ کچھ قدر و قیمت کے لائق نہیں ہے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ جب تک اس کی حالت بھی عزت کے قابل نہ ہو وہ معزز نہیں ہوسکتا۔​
لوگوں کو کسی انسان کی اندورنی حالت کا جاننا نہایت مشکل بلکہ قریب ناممکن کے ہے۔ پس ان کا کسی کو معزّز سمجھنا درحقیقت اس کے معزّز ہونے کی کافی دلیل نہیں ہے۔ ہاں وہ شخص بلاشبہ معزّز ہے جس کا دل اس کو معزّز جانتا اور معزّز سمجھتا ہو۔ جس کو انگریزی میں سیلف رسپیکٹ کہتے ہیں۔ کوئی شخص کسی سے جھوٹی بات کو سچی بنا کر کہتا ہے۔ تو خود اس کا دل اس کو ٹوکتا ہے کہ یہ سچ نہیں ہے۔ گو سننے والا اس کو سچ سمجھتا ہے۔ مگر کہنے والے کا دل گواہی دیتا ہے۔ کہ وہ جھوٹوں میں کا ایک جھوٹا اور بے عزتوں میں کا ایک بے عزت ہے۔​
اسی طرح تمام افعال انسان کے جو صرف ظاہری نمائش کے طور پر کئے جاتے ہیں۔ گو لوگ ان کی عزت کرتے ہوں۔ مگر درحقیقت وہ عزت کے مستحق نہیں ہیں۔ عزت کے لائق وہی کام ہیں۔ جن کو دل بھی قابل عزت سمجھے۔ اس لیے انسان کو انسان بننے کے لیے ضرور ہے کہ تمام اس کے کام سچائی اور دلی شہادت پر مبنی ہوں۔ ہم کوئی بات ایسی نہ کہیں جس کو ہمارا دل جھٹلاتا ہو۔ ہم کوئی کام ایسا نہ کریں۔ جس کی عزت ہمارا دل نہ کرتا ہو۔ کسی سے ہم اظہار دوستی اور محبت کا نہ کریں۔ اگر درحقیقت ہمارے دل میں اس سے ویسی ہی محبت اور دوستی نہ ہو جیسی کہ اظہار کرتے ہیں۔ ہم کوئی کام ایسا نہ کریں جس کو ہمارا دل اچھا نہ سمجھتا ہو۔​
"صلح کل ہونا" اگر اس کے معنی یہ ہوں کہ سب سے اس طرح ملیں کہ ہر شخص جانے ہمارے بڑے دوست ہیں تو یہ تو نفاق اکبر ہے۔ ایسا شخص نہ کسی کا دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی اس کا دوست ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے یہ معنی ہوں کہ کسی سے بغص، عداوت اور دشمنی اپنے دل میں نہ رکھے۔ کسی کا برا نہ چاہے۔ دشمن کی بھی برائی نہ چاہے۔ وہ بلاشبہ تعریب کے قابل ہے۔ دل انسان کا ایک ہے۔ اس میں دو چیزیں یعنی عداوت (کسی کے ساتھ کیوں نہ ہو) اور محبت سما نہیں سکتی۔ وہ ایسی کُلھیا نہیں ہے۔ جس میں دو خانے ہوں۔ ایک محبت کا ایک عداوت کا اور اس لیے یہ دو چیزیں گو اشخاص متعدد اور حیثیات مختلفہ کے ساتھ کیوں نہ ہوں، دل میں سما نہیں سکتیں۔ اس لیے انسان کو لازم ہے کہ محبت کے سوا کسی دوسری چیز کے لانے کا دل میں خیال ہی نہ کرے۔ اور ایسی زندگی انسان کے لیے عمدہ زندگی ہے۔​


۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سر سید احمد خان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Top