ناز خیالوی تمام شہرِ ستمگر مری تلاش میں ہے - نازؔ خیالوی

تمام شہرِ ستمگر مری تلاش میں ہے
ہر ایک ہاتھ کا پتھر مری تلاش میں ہے

گناہِ زندگی کر کے میں چھپتا پھرتا ہوں
قضا ازل سے برابر مری تلاش میں ہے

غمِ حبیب خدارا پناہ دے مجھ کو
غمِ حیات کا لشکر مری تلاش میں ہے

میں بھاگتا پھرا پیچھے یونہی مقدر کے
خبر نہ تھی کہ مقدر مری تلاش میں ہے

جو تشنگی کے الاؤ نے مجھ کو پھونگ دیا
خبر ملی کے سمندر مری تلاش میں ہے

نجات اب تو مجھے دے اے ذوقِ دربدری
کہ مدتوں سے مرا گھر مری تلاش میں ہے

نقیبِ حق کا ہوں میں عصرِ نو کے کوفے میں
یزیدِ وقت کا خنجر مری تلاش میں ہے

میں اپنے آپ سے نکلا ہوں نازؔ جس دن سے
مرا اداس سا پیکر مری تلاش میں ہے
نازؔ خیالوی
 
Top