خاورچودھری
محفلین
ڈاکٹرصابرحسین کلوروی،محقق،اقبال شناس
از ملک حق نوازخاں
21 /مارچ2008کوڈاکٹرصابرکلوروی صاحب کوفون کیا۔فون ان کے بڑے بیٹے شہزادنے اٹھایااورکہاکہ ہولڈکریں۔اباجی ابھی ابھی باہر گئے ہیں۔میں دیکھتا ہوں۔تھوڑی دیربعدواپس آکربتایاکہ وہ تودُورنکل گئے ہیں۔آپ بعدمیں ان سے رابطہ کر لیجیے۔میں نے کہا۔خیرخیریت ہی پوچھنی تھی۔ وہ کیسے ہیں؟شہزادنے کہاکہ ٹھیک ٹھاک ہیں۔میں نے کہا۔جب آئیں۔میراسلام عرض کردینا۔میں کل انھیں اسی وقت ٹیلی فون کروں گا۔
22/مارچ کوطبیعت صبح سے ہی بجھی بجھی سی تھی۔کسی کام میں جی نہیں لگتا تھا۔دوپہراسی اداسی کی کیفیت میںآ رام کر رہاتھا کہ2/بجے کے قریب موبائل فون کی گھنٹی بجی۔دوسری طرف عزیزم نذرعابدصاحب تھے۔وہ گلوگیرآواز میں بتارہے تھے کہ ڈاکٹرصابرکلوروی صاحب دل کے دورے کے ہاتھوں ہم سے جدا ہو گئے ۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہوں۔حواس جمع کئے اور ا ناّ للہ وانّا الیہ راجعون کہا۔
____________________
ڈاکٹرصاحب ایک محبت کرنے والے انسان تھے۔دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ان کے مسائل کو حسب استطاعت حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ان کی ذات ان کے شاگردوں کے لیے ایک منارہٴ نورتھی۔ان کے دروازے ان پر ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ان کی مدد کرکے ان کو روحانی خوشی ہوتی تھی۔اپنی ذاتی لائبریری سے بھی انھیں استفادہ کرنے کی اجازت تھی۔دامے درمے مدد کرنے سے بھی دریغ نہ فرماتے تھے۔
____________________
صابرحسین صابر کلوروی صاحب31/اگست1950ء (1) کوشاہ میر خان کے ہاں کلور میں پیدا ہوئے جوبانڈی پیرخان کے پاس ایبٹ آباد سے کچھ دور واقع ہے۔ان کے والدمحترم نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے محاذپرجنگ میں شرکت کی تھی۔وہ جہاندیدہ شخص تھے اورتعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔اس لیے اپنے سب بچوں کواعلےٰ تعلیم دلائی۔آپ کا تعلق گجروں کی گوت گوسی سے ہے۔
صابرکلوروی صاحب نے مڈل قلندرآبادسے1963ء میں اور میٹرک مانسہرہ سے1965ء میں پاس کیا۔اس کے بعدگورنمنٹ کالج ایبٹ آباد میں داخل ہوگئے اور وہیں سے1967ء میں ایف۔ایس سی اور1969ء میں بی۔ ایس سی پاس کی۔
بی۔ایس سی پاس کرنے کے بعدآپ نے بنک کی ملازمت اختیارکرلی۔اس دوران آپ نے1975ء میں ایم اے(اردو)کا امتحان پاس کر لیا۔ اب آپ کی کوشش تھی کہ کسی کالج میں بطورلیکچررتقرری ہوجائے۔
محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا کہنا ہے کہ اسی دوران میں وہ عبداللہ شاہ ہاشمی کی معیت میں بنّوں سے واپس آتے ہوئے پشاورمیں کلوروی صاحب کے ہاں ٹھہرے۔دوران گفتگوانھوں نے اس عزم کا اظہارکیا کہ وہ بنک کی ملازمت چھوڑ کر لیکچرربنناچاہتے ہیں۔ہاشمی صاحب نے کہاکہ لیکچرر کی تنخواہ توآپ کی بنک والی تنخواہ سے بہت کم ہوگی۔کلوروی صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے میں بنک میں ملازمت کے دوران پیسے توبہت کمالوں گا لیکن اس سے میری شناخت تو قائم نہیں ہوگی۔ میں تواپنی شناخت قائم کرنا چاہتا ہوں۔دولت کا کیا ہے۔یہ توآنی جانی چیزہے۔یہ بات انھوں نے سچ کر دکھائی۔وہ ایک ممتازاقبال شناس کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
____________________
غالباً 1994ء کے آس پاس وسط اپریل کے دن تھے۔موسم میں تمازت آچکی تھی لیکن رات ہلکی بونداباندی ہوئی تھی،اس لیے دن بڑا خوش گوار تھا۔ میں سہ پہرکے وقت اپنی بیٹھک(حجرے) میں یونہی سوچ بچار میں مصروف تھا کہ کیا دیکھتا ہوں،ایک صاحب تیزتیزچلے آرہے ہیں۔ان کے پیچھے سر جھکائے ایک دوسرے شخص مّو دبانہ اندا ز میں چل رہے ہیں۔آنے والوں کے احترام میں میں کھڑا ہوگیا۔آنے والے وجیہ شخصیت کے حامل شخص نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا: ”صابرکلوروی“ میں نے احترام سے مصافحہ کیااورعرض کیا کہ میں آپ کے نام اور کام سے واقف ہوں۔میری خوش بختی ہے کہ آپ نے شرف ملاقات بخشا۔صابرصاحب نے فرمایا”بھئی اب توہم آیاہی کریں گے۔اتنی آسانی سے توہم پیچھاچھوڑنے والوں میں سے نہیں ہیں۔“ میں نے کہا ”زہے نصیب “۔ دوسرے شخص کے تعارف کی ضرورت انھوں نے محسوس نہ کی۔ میں نے پوچھا بھی لیکن وہ گول کر گئے۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ا ن کے شاگردِ عزیز بادشاہ منیربخاری ہیں۔خیرکچھ دیر بیٹھے۔ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔فرمانے لگے کہ ہمیں راشدعلی زئی نے آپ کاپتادیاتھا۔جاتے وقت ارشاد ہوا کہ اپنے کتب خانے کی فہرست تیارکرلو۔اب کے ہم آئیں گے توآپ کا کتب خانہ بھی دیکھیں گے۔آپ کے کتب خانے کی فہرست میں اپنے ادارے سے چھپوا لوں گا۔
کچھ عرصے کے بعدتشریف لائے تو میں نے کٹی پھٹی فہرست ان کی خدمت میں پیش کی۔نہایت توجہ سے دیکھی اورچندمفیدمشورے بھی دئے۔ کچھ کتابوں پرنشان لگایا کہ یہ ساتھ لے جاوٴں گا۔میں نے مطلوبہ کتابیں حاضرکردیں۔یہ کتابیں بعد میں انھوں نے واپس کردی تھیں۔
____________________
ایک دفعہ وہ شام کو تشریف لائے۔جاتی سردیوں کاموسم تھا۔میں نے محسوس کیاکہ وہ لمبے سفر سے واپس آرہے ہیں۔ان کالباس میلا ہے اور وہ تھکے تھکے سے ہیں۔میرے اصرار پرانھوں نے میرے کپڑے پہنے اورمیں نے ان کے کپڑے گھردھونے کے لیے بھجوا دئے۔رات ان سے خوب گپ شپ رہی۔ ان کے ساتھ دو تین تصویریں بھی بنوائیں۔اورباتوں کے علاوہ انھوں نے یہ بھی بتایاکہ وہ کلوروی اس لیے لکھتے ہیں کہ ان کے آبادی گاوٴں کانام کلور ہے جو ایبٹ آبادسے کچھ دوربانڈہ پیرخان کے پاس واقع ہے۔
کہنے لگے کہ میں ایبٹ آبادکالج میں زیرتعلیم تھااوراکثرلائبریری میں دیرتک مطالعے میں مصروف رہتاتھا۔ایک دن مطالعے میں ایسا ڈوبا کہ پتا ہی نہ چلا اور لائبریرین صاحب لائبریری بند کر کے چلے گئے۔جب اندھیراچھانے لگاتومیں جانے کے لیے اٹھالیکن لائبریری کادروازہ توبندتھا۔صبرشکرکرکے بیٹھ گیا۔ کتابوں کے مطالعے ہی میں رات بتادی۔دوسرے دن لائبریرین صاحب نے دروازہ کھولااور مجھے اندربیٹھادیکھ کرگھبرا گئے۔میں نے ان کو تسلی دی اور کہا کہ غلطی میری تھی۔آپ گھبرائیں نہ۔ میں نے آج رات بڑافائدہ اٹھایا ہے۔ساری رات کتابوں کا مطالعہ کرتارہا ہوں۔جب یہ لائبریرین صاحب ملازمت سے ریٹائر ہو گئے توصابرصاحب انھیں اپنے ساتھ پشاور لے گئے اور کوئی چھوٹی موٹی نوکری دلوادی۔
____________________
صابرکلوروی صاحب دوران تعلیم ہی میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔اس سلسلے کے بہت سے مضامین مختلف ماہوار رسالوں اور ڈائجسٹوں میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ایسے ہی کچھ منتخب مضامین کا ایک مجموعہ مکتبہ شاہکار،لاہورسے ” سائنس سے بھی عجیب تر“ کے نام سے1975ء میں شائع ہوا۔
ایم اے (اردو) کرنے کے بعدانھوں نے بنک کی ملازمت چھوڑ دی اور لکچررمقرر ہوگئے۔اس حیثیت سے انھوں نے لورہ،ایبٹ آباد،مانسہرہ اورغازی میں خدمات سرانجام دیں۔اس دوران میں آپ کارحجان اقبالیات کی طرف ہو چلاتھا۔چنانچہ آپ نے محنت سے اقبال کی سوانح عمری”یاد اقبال“ کے نام سے مرتب کی جسے مکتبہ شاہکار،لاہورنے جریدی کتب کے سلسلے میں15/اپریل1977ء کوشائع کیا۔(کتاب کانظرثانی شدہ اڈیش اسی ادارے نے 1982ء میں کراچی سے ”داستان اقبال“ کے نام سے شائع کیا)۔پھرآپ نے”اشاریہٴ مکاتیب اقبال“ مرتب کی جو1984ء میں اقبال اکادمی پاکستان،لاہور سے چھپی۔اقبالیات ہی کے سلسلے کی تیسری کتاب آپ نے ”اقبال کے ہم نشیں“کے نام سے مرتب کی جسے مکتبہ خلیل،لاہورنے1985ء میں شائع کیا۔
میں یہاں اس کتاب کا ایک اقتباس پیش کئے بنا نہیں رہ سکتا تاکہ اس کے محنویات کا اندازہ ہوسکے۔
”اقبال کے ایک دوست ایک مشہور ایڈووکیٹ تھے،فارسی میں ایک غزل کہہ کر لائے۔زمین تھی ع
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز
ایڈووکیٹ صاحب کے پاوٴں میں لنگ تھا۔اسی کی رعایت سے اقبال نے برجستہ داد دی
گرچہ در قانون فلک پیما شدی
بر زمینِ شعر لنگانی ہنوز
(تحریرعرش ملسیانی،روایت پنڈت ہری چند اختر:چٹان۔24/اپریل1967ء)
اقبال کے ہم نشیں۔ص۔190
____________________
اقبالیات سے ان کے شوق اورشغف کو دیکھتے ہوئے ان کے استادوں اور بہی خواہوں نے انھیں اقبالیات ہی میں پی۔ایچ ڈی کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی صلاح اور مشورے سے ان کی پی۔ایچ ڈی کا موضوع ”باقیات شعراقبال کاتحقیقی وتنقیدی مطالعہ“ قرار پایا۔ انھوں نے اپناتحقیقی مقالہ ہاشمی صاحب ہی کی راہنمائی میں پایہٴ تکمیل کو پہنچایا اوربالآخرپنجاب یونیورسٹی نے1989ء میں انھیں پی۔ایچ ڈی کی سندعطا کردی۔
اگرچہ ان کایہ تحقیقی مقالہ ہنوزشائع نہیں ہوا لیکن اس سلسلے میں انھوں نے اقبال کا بہت ساغیر مطبوعہ اور ردّ کردہ کلام اکٹھاکرلیاتھا جسے انھوں نے
” کلیات باقیات شعرِ اقبال“ کے نام سے2004ء میں اقبال اکادمی پاکستان،لاہورسے شائع کردیا ہے۔
____________________
ستمر1994ء میں انھوں نے پشاوریونیورسٹی کے شعبہ اُردومیں شمولیت اختیارکی۔دسمبر2000ء میں وہ تین سال کے لیے گردشی نظام کے تحت (By Rotation) صدرشعبہ منتخب ہوئے۔بعدمیں دسمبر2006ء میں وہ مستقل طورپرصدرشعبہ اُردومقرر ہوگئے۔اس حیثیت میں انھوں نے شعبے کے لیے تادمِ آخر انتھک محنت کی اوریادگارکام سرا نجام دئے۔
____________________
ایک دفعہ فرمانے لگے کہ میں اپنی خوشیوں میں توگھروالوں کو ہمیشہ شریک کرتاہوں لیکن پریشانیوں اور دکھوں میں انھیں کبھی شریک نہیں کیا۔حتٰی کہ میں اپنی بیماریوں اور تکلیفوں کے بارے میں بھی ان کو لاعلم ہی رکھتا ہوں۔کہنے لگے،میں نے ایک آپریشن کرواناتھا۔گھروالوں کو اس کی ہوابھی نہ لگنے دی۔ آپریشن ہوگیا اور جب میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوگیاتوگھرگیا۔گھروالے میری غیرحاضری کومعمول کی بات سمجھتے رہے۔
____________________
ان کی خواہش تھی کہ ہماری بیٹھک(حجرے) کے صحن میں فرن کا سجاوٹی پودااپنے ہاتھ سے لگائیں گے لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ایک حادثے میں وہ زخمی ہوگئے۔انھیں کولھے میں گولی ماردی گئی تھی۔وہ بہت دن ہسپتال میں زیرِعلاج رہے۔اس دوران میں مجرم پکڑے گئے لیکن انھوں نے تحریری طورپر انھیں معاف کرکے ایک اور روشن مثال قائم کردی۔
میں ان کی عیادت کے لیے ان کے گھرپشاورکیا۔نذرعابد# صاحب میرے ہمراہ تھے۔ان کودیکھاتوافسوس ہوا۔بہت کمزور ہوگئے تھے۔رنگت پیلی زرد ہورہی تھی۔بیساکھیوں کے بغیر چل پھر نہیں سکتے تھے۔اگرچہ دل رو رہاتھا لیکن ان سے گفتگوکرتارہا۔اصرار کرکے ہم دونوں کوکھاناکھلایا اور اس معذوری کے عالم میں بھی ہمیں اپنی کتابوں کے کمرے دکھائے۔عابدصاحب(کہ وہ آپ کے شاگردوں میں سے ہیں) سے کہا کہ ذرااس سیڑھی پر چڑھ کر وہ سامنے
” ادبستان ہزارہ“ رکھی ہے ،اٹھادو۔عابدصاحب کتاب لے آئے تواس پر اپنے دستخط کرکے میرے حوالے کی اور کہا: ” یہی کتاب تھی ناں جس کی آپ نے فرمائش کی تھی؟مجھے افسوس ہے کی فرمائش پوری کرنے میں دیرہوگئی“(بخدامجھے خودبھی اپنی فرمائش یادنہ تھی لیکن واہ رے صابرصاحب،آپ نے اسے یادرکھا) یہ کتاب صابرصاحب کے استاد،مشہورماہراقبالیات پروفیسرڈاکٹرمحمدایوب صابر# صاحب کی مرتب کردہ شعرائے ہزارہ کا انتخاب ہے۔اس کے صفحہ263پر صابرکلوروی صاحب کی غزل کے اشعار بھی ہیں۔
وہاں سے رخصت ہوئے تواس کتاب کے علاوہ کچھ اور کتابیں اور رسالے بھی ہمراہ کر دئے۔اپنے بیٹے شہزادسے کہا کہ ہمیں موٹر میں بس اڈے تک چھوڑ آئے۔
____________________
2006ء میں عیدالفطر کے دوسرے دن صابرصاحب عزیزی شہزاداوراپنے ایک بھانجے کے ہمراہ میرے گاوٴں غریب خانے پر تشریف لائے۔ جب جانے لگے تو بیساکھیوں کے سہارے کے بغیرچندقدم چل کر مجھے بتایاکہ دیکھ لو،اب تو میں کسی امدادکے بغیرچل پھر لیتا ہوں۔اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔
وہ ہرسال باڑہ گلی میں سیمینارمنعقدکیاکرتے تھے جس میں پاکستان بھر سے چیدہ چیدہ نقاد،محققین اور علمی شخصیات شرکت کیا کرتی تھیں۔ کتابوں اور ادیبوں سے میری محبت اور دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ہر سال مجھے بھی مدعو کرتے تھے لیکن میں اپنی صحت کی مجبوریوں کی وجہ سے کبھی شرکت نہ کرسکا۔ایک دفعہ تواصراربہت شدیدتھا۔کہنے لگے کہ آپ ہٹیاں آجائیں،وہاں سے ہم آپ کوموٹر میں لے چلیں گے لیکن افسوس کہ سیمینارسے عین پہلے روز میرے ماموں فوت ہوگئے اور اس طرح میں رہ گیا۔
ایک دفعہ میں نے کہا کہ ایک ماہر لسانیات کا کہنا ہے کہ مانسہرہ کے نزدیک چٹانوں پرکندہ تحریرہندکوزبان میں ہے۔یہ بڑی بڑی گول چٹانیں سڑک کے ایک طرف پڑی ہیں اور خیال ہے کہ ان پریہ تحریرکنشک نے کھدوائی تھیں۔وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت نوح کی کشتی میں جو لوگ سوار تھے،ان کی زبان ہندکو تھی۔ایسی باتیں بس سن لیا کرتے ہیں۔یادرہے کہ ہندکوان کی مادری زبان تھی۔
____________________
ان سے آخری ملاقات12/مئی2007ء کو ہوئی۔اسی روزمحترم ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی صاحب نے اسلام آباد سے فون کیا کہ وہ تشریف لا رہے ہیں۔ان کے ساتھ ڈاکٹرصابرکلوروی صاحب بھی ہوں گے۔ان کو شام 4/بجے تک پہنچ جاناچاہئے تھا لیکن اس روزاپنی شان وشوکت دکھانے کے لیے حکومت نے ایک بہت بڑے جلسہ اورجلوس کا انتظام کر رکھا تھا۔اس سے ٹریفک کانظام بری طرح سے متاثر ہوا۔وہ شام4 /بجے کے بجائے8/بجے پہنچے۔ کہنے لگے کہ بڑی دقتوں کاسامناتھا۔کوئی سواری نہ ملتی تھی۔بہرحال بڑی مشکلوں سے یہاں پہنچے ہیں۔ڈاکٹرارشدمحمودناشاد صاحب بھی اٹک سے پہنچ گئے تھے۔دو تین گھنٹے خوب ادبی محفل جمی۔ہاشمی صاحب تھکاوٹ کی وجہ سے آرام کر رہے تھے لیکن کلوروی صاحب نے میری گزارش کے باوجودآرام کرنا پسندنہ فرمایا،حالانکہ تھکاوٹ ان کے چہرے سے ظاہر تھی۔وہ ہاشمی صاحب کے ادب کی وجہ سے ایسانہ کر رہے تھے۔
میں نے صابرصاحب سے کہاکہ آپ حال ہی میں بھارت کا دورہ کرکے آئے ہیں۔کچھ اس کے متعلق بتایئے۔کن کن لوگوں سے آپ ملے اور کون کون سے موضوع زیرِ بحث آئے۔انھوں نے یہ سب کچھ بتایا۔جب انھوں نے یہ کہاکہ ڈاکٹرخلیق انجم سے بھی ملا ہوں اورملاقات کی تفصیل بتائی تو میں نے گزارش کی کہ ڈاکٹرخلیق انجم کی بیوی ہندو ہے۔خودانھوں نے ایک انٹرویو میں بتایاتھاکہ ان کی والدہ محترمہ اپنے کمرے میں نمازپڑھ رہی ہوتی ہیں اور ان کی بیوی ساتھ والے کمرے میں بتوں کی عبادت کررہی ہوتی ہیں۔اسلام نے مشرک مردیامشرکہ عورت سے نکاح ناجائز اورحرام قراردیا ہے۔(حیرت ہے کہ ڈاکٹر رفیق زکریا مرحوم نے جب ملعون سلمان رشدی کی کتابSatanic verses کے جواب میں اپنی کتابMuhammad & The Quran لکھی تو اس کادیباچہ انھوں نے خلیق انجم سے لکھوایا !!!) ۔انھوں نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ہندوستان میں اب ایسی شادیاں ہورہی ہیں۔
]مولاناصلاح الدین احمدکے بھتیجے ڈاکٹرزین العابدین احمد نے اپنی خود نوشت ”میرے جیون کی کچھ یادیں “ لکھی ہے جوادارہٴ یادگار غالب،کراچی نے 2004ء میں شائع کی تھی۔اس میں انھوں نے بتایاہے کہ ان کی بہن کی شادی ایک ہندوایڈووکیٹ سے ہوئی اور وہ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔یادرہے کہ
ڈاکٹر زیڈ احمد ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے بڑوں میں سے تھے[
رات ساڑھے دس بجے کے قریب یہ باغ وبہارمحفل اپنے اختتام کو پہنچی۔صابرصاحب نے ہرحال میں پشاور پہنچنا تھا۔ہاشمی صاحب بھی فرمانے لگے کہ میں اسلام آباد واپس جاوٴں گا۔وہاں سے صبح لاہورچلاجاوٴں گا۔
____________________
ان کی محبت کامرکزومحوراُردوزبان وادب،اقبالیات اوران کاخاندان تھے۔اردوزبان وادب سے محبت کی بناپرڈاکٹرعطش درانی نے انھیں
” اردو کا ملنگ“کہا۔جہاں تک اقبالیات سے محبت اورشغف کاتعلق ہے،وہ ان کے اس کام سے ظاہر ہے جوانھوں نے اس میدان میں سرانجام دیاہے اورجووہ کرنا چاہتے تھے۔مشفق خوا جہ مرحوم نے ان کے پاس علامہ اقبال کی دونادربیاضیں دیکھ کر کہاتھاکہ ان دوبیاضوں کی وجہ سے تحسین فراقی صاحب نے انھیں
”ملا دو بیاضا“ کاخوبصورت نام دیا ہے۔
اُردوزبان سے محبت ہی توتھی کہ انھوں نے ایبٹ آبادکے بغل قلندرآباد میں ایک اشاعتی ادارہ ” سرحد اردو اکیڈیمی“ قائم کیا۔اس ادارے سے اردو زبان و ادب اور اقبالیات کے سلسلے میں بہت سی علمی اور تحقیقی کتابیں شائع ہوئیں۔ان میں نظیرصدیقی مرحوم کی خود نوشت ”سویہ ہے اپنی زندگی“ ، بشیراحمدسوز کی ”اقبال اور ہزارہ“ ، پروفیسرسیدیونس شاہ صاحب کی ”مرزامحمودسرحدی:فن اورشخصیت“ بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ اوربھی کئی مفیداورعلمی کتب اس ادارے سے شائع ہوئیں۔
میں نے دسمبر2007ء کے شروع میں ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھے آپ کے ادارے سے شائع ہونے والی پروفیسرمحمداخترصاحب کی کتاب ”تاجک سواتی ومملکت گیر،تاریخ کے آئینے میں “ کی ضرورت ہے۔آپ نے فرمایا۔یہ کتاب گوہمارے ادارے نے شائع نہیں کی لیکن کتاب پرپتا ہمارے ادارے کا درج کردیا گیا ہے۔بہرحال کتاب آپ کو مل جائے گی۔یہ کتاب مجھے مل گئی تھی۔اس پران کے تہدیہ کی تاریخ17/دسمبر2007درج ہے۔
____________________
خودان کاتصنیفی سرمایہ حسب ذیل ہے:۔
1) سائنس سے بھی عجیب تر 1975ء مکتبہ شاہکار،لاہور
2) یادِ اقبال 1977ء مکتبہ شاہکار،لاہور
(اس کانظرثانی شدہ اڈیشن اسی ادارے نے1982ء ”داستان اقبال“ کے نام سے شائع کیا)
3) نقوش اردو (بالشتراک ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی)1983ء علمی کتب خانہ،لاہور
4) عروض وبدیع 1984ء علمی کتب خانہ،لاہور
5) اشاریہٴ مکاتیب اقبال 1984ء اقبال اکادمی پاکستان،لاہور
6) اقبال کے ہم نشیں 1985ء مکتبہ خلیل،لاہور
7) تاریخ تصوف (تصنیف اقبال کی تدوین) 1985ء مکتبہ تعمیر انسانیت،لاہور
(علامہ اقبال کی غیرمطبوعہ کتاب کے دوباب انھوں نے دریافت کئے اوران پر حواشی لکھے۔اپنی اس کاوش پر نظرثانی اوراس کی مزید بہتر تدوین بقول ڈاکٹرہاشمی صاحب”ان کے پرعزم منصوبوں میں شامل تھی“ )اس کتاب کی کل آمدنی ایوان اقبال لاہورکوہدیہ کردی تھی۔
کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال 2004ء اقبال اکادمی پاکستان،لاہور
9) پشاوریونیورسٹی کے مجلے ”خیابان“ کے مختلف نمبروں کی ترتیب وتدوین مثلاً
اصنافِ سخن نمبر،اصنافِ نثر نمبر،صوبہ سرحد میں اردو ادبیات نمبر اور نوادراقبال وغیرہ۔
10) علاوہ ازیں ان کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مقالات بھی ایک معقول تعداد میں موجود ہیں۔
____________________
ان کے بہت سے منصوبے ناتمام رہ گئے۔وہ اُردو کی سلینگ( Slang) لغت شائع کرناچاہتے تھے۔مجھے ذاتی طورپرعلم ہے کہ انھوں اس پربہت سا کام بھی کر رکھا تھا۔اقبال سے متعلق بہت سے متفرق واقعات جمع کر رہے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے بہت کچھ جمع کر رکھا تھا۔ان کے پاس محققین،نقاد حضرات اورادیبوں کے خطوط بھی تھے جن میں بھارت کے نامورادیب بھی شامل ہیں۔وہ ان خطوط کو مرتب ومدون شکل میں شائع کرناچاہتے تھے۔ ایک فوری اور اہم کام جوان کے زیرنظرتھا،وہ ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی صاحب پر ایک کتاب مرتب کرناچاہتے تھے جوان کی زندگی اورخدمات پرمحیط ہو۔یہ کتاب وہ
نذرِ ہاشمی یاارمغان ہاشمی کے نام سے پیش کرناچاہتے تھے۔ دراصل وہ اپنے استادِ محترم کے اعتراف کے طورپریہ کتاب مرتب کرناچاہتے تھے لیکن موت نے مہلت نہ دی ع
کاش اے موت تجھے موت ہی آجاتی
____________________
انھوں نے مجھے جو آخری تحفہ دیا،وہ محمداویس قرنی کاباڑہ گلی اردولسانیات سیمینار2007ء پرلکھا گیا رپورتاژ” پربتوں کے اس پار“ ہے۔ اس پر تہدیہ کی تاریخ14/مارچ2008یء درج ہے۔
____________________
22/ مارچ2008ء کو نذرعابدنے اطلاع دی کہ صابرصاحب کو جنت جانے کی جلدی تھی،چلے گئے۔
صابرصاحب، آپ نے توکہاتھاکہ ہم آسانی سے پیچھانہیں چھوڑا کرتے لیکن آپ نے کتنی آسانی سے ہم سے پیچھاچھڑا لیا۔اپنے گھروالوں، شاگردوں اوراپنے سب چاہنے والوں سے کتنی آسانی سے دامن چھڑالیا۔آپ نے دامن توچھڑا لیا لیکن آپ اپنی یادیں توہم سے چھین نہیں سکیں گے۔آپ کی روشن یادیں آپ کے استادوں،شاگردوں اور دوستوں کے دلوں میں ہمیشہ جاگزیں رہیں گی۔اُن بدنصیبوں کے دلوں میں بھی چبھتی رہیں گی جنھوں نے آپ کو تکلیف اور اذیت دی لیکن آپ نے اُن کو معاف کردیا۔انسان فانی ہے۔موت برحق ہے لیکن کچھ لوگوں کی موت کے زخم آسانی سے بھر نہیں پاتے #
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
آپ کی یادآتی رہے گی۔کبھی محونہ ہوگی
ہم تری یاد کے رستوں کے مسافرٹھہرے
وہ جواک عمرکی پونجی تھی ، گنوا بیٹھے ہیں
ہم تہی دست وفا کے قیدی
ہم تری یادکے رستوں کے مسافرقیدی
____________________
(1) ماہنامہ گجررابطہ۔کراچی۔اپریل2008ء میں آپ کی تاریخ پیدائش1948ء لکھی ہے۔
____________________
از ملک حق نوازخاں
21 /مارچ2008کوڈاکٹرصابرکلوروی صاحب کوفون کیا۔فون ان کے بڑے بیٹے شہزادنے اٹھایااورکہاکہ ہولڈکریں۔اباجی ابھی ابھی باہر گئے ہیں۔میں دیکھتا ہوں۔تھوڑی دیربعدواپس آکربتایاکہ وہ تودُورنکل گئے ہیں۔آپ بعدمیں ان سے رابطہ کر لیجیے۔میں نے کہا۔خیرخیریت ہی پوچھنی تھی۔ وہ کیسے ہیں؟شہزادنے کہاکہ ٹھیک ٹھاک ہیں۔میں نے کہا۔جب آئیں۔میراسلام عرض کردینا۔میں کل انھیں اسی وقت ٹیلی فون کروں گا۔
22/مارچ کوطبیعت صبح سے ہی بجھی بجھی سی تھی۔کسی کام میں جی نہیں لگتا تھا۔دوپہراسی اداسی کی کیفیت میںآ رام کر رہاتھا کہ2/بجے کے قریب موبائل فون کی گھنٹی بجی۔دوسری طرف عزیزم نذرعابدصاحب تھے۔وہ گلوگیرآواز میں بتارہے تھے کہ ڈاکٹرصابرکلوروی صاحب دل کے دورے کے ہاتھوں ہم سے جدا ہو گئے ۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہوں۔حواس جمع کئے اور ا ناّ للہ وانّا الیہ راجعون کہا۔
____________________
ڈاکٹرصاحب ایک محبت کرنے والے انسان تھے۔دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ان کے مسائل کو حسب استطاعت حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ان کی ذات ان کے شاگردوں کے لیے ایک منارہٴ نورتھی۔ان کے دروازے ان پر ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ان کی مدد کرکے ان کو روحانی خوشی ہوتی تھی۔اپنی ذاتی لائبریری سے بھی انھیں استفادہ کرنے کی اجازت تھی۔دامے درمے مدد کرنے سے بھی دریغ نہ فرماتے تھے۔
____________________
صابرحسین صابر کلوروی صاحب31/اگست1950ء (1) کوشاہ میر خان کے ہاں کلور میں پیدا ہوئے جوبانڈی پیرخان کے پاس ایبٹ آباد سے کچھ دور واقع ہے۔ان کے والدمحترم نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے محاذپرجنگ میں شرکت کی تھی۔وہ جہاندیدہ شخص تھے اورتعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔اس لیے اپنے سب بچوں کواعلےٰ تعلیم دلائی۔آپ کا تعلق گجروں کی گوت گوسی سے ہے۔
صابرکلوروی صاحب نے مڈل قلندرآبادسے1963ء میں اور میٹرک مانسہرہ سے1965ء میں پاس کیا۔اس کے بعدگورنمنٹ کالج ایبٹ آباد میں داخل ہوگئے اور وہیں سے1967ء میں ایف۔ایس سی اور1969ء میں بی۔ ایس سی پاس کی۔
بی۔ایس سی پاس کرنے کے بعدآپ نے بنک کی ملازمت اختیارکرلی۔اس دوران آپ نے1975ء میں ایم اے(اردو)کا امتحان پاس کر لیا۔ اب آپ کی کوشش تھی کہ کسی کالج میں بطورلیکچررتقرری ہوجائے۔
محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا کہنا ہے کہ اسی دوران میں وہ عبداللہ شاہ ہاشمی کی معیت میں بنّوں سے واپس آتے ہوئے پشاورمیں کلوروی صاحب کے ہاں ٹھہرے۔دوران گفتگوانھوں نے اس عزم کا اظہارکیا کہ وہ بنک کی ملازمت چھوڑ کر لیکچرربنناچاہتے ہیں۔ہاشمی صاحب نے کہاکہ لیکچرر کی تنخواہ توآپ کی بنک والی تنخواہ سے بہت کم ہوگی۔کلوروی صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے میں بنک میں ملازمت کے دوران پیسے توبہت کمالوں گا لیکن اس سے میری شناخت تو قائم نہیں ہوگی۔ میں تواپنی شناخت قائم کرنا چاہتا ہوں۔دولت کا کیا ہے۔یہ توآنی جانی چیزہے۔یہ بات انھوں نے سچ کر دکھائی۔وہ ایک ممتازاقبال شناس کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
____________________
غالباً 1994ء کے آس پاس وسط اپریل کے دن تھے۔موسم میں تمازت آچکی تھی لیکن رات ہلکی بونداباندی ہوئی تھی،اس لیے دن بڑا خوش گوار تھا۔ میں سہ پہرکے وقت اپنی بیٹھک(حجرے) میں یونہی سوچ بچار میں مصروف تھا کہ کیا دیکھتا ہوں،ایک صاحب تیزتیزچلے آرہے ہیں۔ان کے پیچھے سر جھکائے ایک دوسرے شخص مّو دبانہ اندا ز میں چل رہے ہیں۔آنے والوں کے احترام میں میں کھڑا ہوگیا۔آنے والے وجیہ شخصیت کے حامل شخص نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا: ”صابرکلوروی“ میں نے احترام سے مصافحہ کیااورعرض کیا کہ میں آپ کے نام اور کام سے واقف ہوں۔میری خوش بختی ہے کہ آپ نے شرف ملاقات بخشا۔صابرصاحب نے فرمایا”بھئی اب توہم آیاہی کریں گے۔اتنی آسانی سے توہم پیچھاچھوڑنے والوں میں سے نہیں ہیں۔“ میں نے کہا ”زہے نصیب “۔ دوسرے شخص کے تعارف کی ضرورت انھوں نے محسوس نہ کی۔ میں نے پوچھا بھی لیکن وہ گول کر گئے۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ا ن کے شاگردِ عزیز بادشاہ منیربخاری ہیں۔خیرکچھ دیر بیٹھے۔ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔فرمانے لگے کہ ہمیں راشدعلی زئی نے آپ کاپتادیاتھا۔جاتے وقت ارشاد ہوا کہ اپنے کتب خانے کی فہرست تیارکرلو۔اب کے ہم آئیں گے توآپ کا کتب خانہ بھی دیکھیں گے۔آپ کے کتب خانے کی فہرست میں اپنے ادارے سے چھپوا لوں گا۔
کچھ عرصے کے بعدتشریف لائے تو میں نے کٹی پھٹی فہرست ان کی خدمت میں پیش کی۔نہایت توجہ سے دیکھی اورچندمفیدمشورے بھی دئے۔ کچھ کتابوں پرنشان لگایا کہ یہ ساتھ لے جاوٴں گا۔میں نے مطلوبہ کتابیں حاضرکردیں۔یہ کتابیں بعد میں انھوں نے واپس کردی تھیں۔
____________________
ایک دفعہ وہ شام کو تشریف لائے۔جاتی سردیوں کاموسم تھا۔میں نے محسوس کیاکہ وہ لمبے سفر سے واپس آرہے ہیں۔ان کالباس میلا ہے اور وہ تھکے تھکے سے ہیں۔میرے اصرار پرانھوں نے میرے کپڑے پہنے اورمیں نے ان کے کپڑے گھردھونے کے لیے بھجوا دئے۔رات ان سے خوب گپ شپ رہی۔ ان کے ساتھ دو تین تصویریں بھی بنوائیں۔اورباتوں کے علاوہ انھوں نے یہ بھی بتایاکہ وہ کلوروی اس لیے لکھتے ہیں کہ ان کے آبادی گاوٴں کانام کلور ہے جو ایبٹ آبادسے کچھ دوربانڈہ پیرخان کے پاس واقع ہے۔
کہنے لگے کہ میں ایبٹ آبادکالج میں زیرتعلیم تھااوراکثرلائبریری میں دیرتک مطالعے میں مصروف رہتاتھا۔ایک دن مطالعے میں ایسا ڈوبا کہ پتا ہی نہ چلا اور لائبریرین صاحب لائبریری بند کر کے چلے گئے۔جب اندھیراچھانے لگاتومیں جانے کے لیے اٹھالیکن لائبریری کادروازہ توبندتھا۔صبرشکرکرکے بیٹھ گیا۔ کتابوں کے مطالعے ہی میں رات بتادی۔دوسرے دن لائبریرین صاحب نے دروازہ کھولااور مجھے اندربیٹھادیکھ کرگھبرا گئے۔میں نے ان کو تسلی دی اور کہا کہ غلطی میری تھی۔آپ گھبرائیں نہ۔ میں نے آج رات بڑافائدہ اٹھایا ہے۔ساری رات کتابوں کا مطالعہ کرتارہا ہوں۔جب یہ لائبریرین صاحب ملازمت سے ریٹائر ہو گئے توصابرصاحب انھیں اپنے ساتھ پشاور لے گئے اور کوئی چھوٹی موٹی نوکری دلوادی۔
____________________
صابرکلوروی صاحب دوران تعلیم ہی میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔اس سلسلے کے بہت سے مضامین مختلف ماہوار رسالوں اور ڈائجسٹوں میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ایسے ہی کچھ منتخب مضامین کا ایک مجموعہ مکتبہ شاہکار،لاہورسے ” سائنس سے بھی عجیب تر“ کے نام سے1975ء میں شائع ہوا۔
ایم اے (اردو) کرنے کے بعدانھوں نے بنک کی ملازمت چھوڑ دی اور لکچررمقرر ہوگئے۔اس حیثیت سے انھوں نے لورہ،ایبٹ آباد،مانسہرہ اورغازی میں خدمات سرانجام دیں۔اس دوران میں آپ کارحجان اقبالیات کی طرف ہو چلاتھا۔چنانچہ آپ نے محنت سے اقبال کی سوانح عمری”یاد اقبال“ کے نام سے مرتب کی جسے مکتبہ شاہکار،لاہورنے جریدی کتب کے سلسلے میں15/اپریل1977ء کوشائع کیا۔(کتاب کانظرثانی شدہ اڈیش اسی ادارے نے 1982ء میں کراچی سے ”داستان اقبال“ کے نام سے شائع کیا)۔پھرآپ نے”اشاریہٴ مکاتیب اقبال“ مرتب کی جو1984ء میں اقبال اکادمی پاکستان،لاہور سے چھپی۔اقبالیات ہی کے سلسلے کی تیسری کتاب آپ نے ”اقبال کے ہم نشیں“کے نام سے مرتب کی جسے مکتبہ خلیل،لاہورنے1985ء میں شائع کیا۔
میں یہاں اس کتاب کا ایک اقتباس پیش کئے بنا نہیں رہ سکتا تاکہ اس کے محنویات کا اندازہ ہوسکے۔
”اقبال کے ایک دوست ایک مشہور ایڈووکیٹ تھے،فارسی میں ایک غزل کہہ کر لائے۔زمین تھی ع
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز
ایڈووکیٹ صاحب کے پاوٴں میں لنگ تھا۔اسی کی رعایت سے اقبال نے برجستہ داد دی
گرچہ در قانون فلک پیما شدی
بر زمینِ شعر لنگانی ہنوز
(تحریرعرش ملسیانی،روایت پنڈت ہری چند اختر:چٹان۔24/اپریل1967ء)
اقبال کے ہم نشیں۔ص۔190
____________________
اقبالیات سے ان کے شوق اورشغف کو دیکھتے ہوئے ان کے استادوں اور بہی خواہوں نے انھیں اقبالیات ہی میں پی۔ایچ ڈی کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی صلاح اور مشورے سے ان کی پی۔ایچ ڈی کا موضوع ”باقیات شعراقبال کاتحقیقی وتنقیدی مطالعہ“ قرار پایا۔ انھوں نے اپناتحقیقی مقالہ ہاشمی صاحب ہی کی راہنمائی میں پایہٴ تکمیل کو پہنچایا اوربالآخرپنجاب یونیورسٹی نے1989ء میں انھیں پی۔ایچ ڈی کی سندعطا کردی۔
اگرچہ ان کایہ تحقیقی مقالہ ہنوزشائع نہیں ہوا لیکن اس سلسلے میں انھوں نے اقبال کا بہت ساغیر مطبوعہ اور ردّ کردہ کلام اکٹھاکرلیاتھا جسے انھوں نے
” کلیات باقیات شعرِ اقبال“ کے نام سے2004ء میں اقبال اکادمی پاکستان،لاہورسے شائع کردیا ہے۔
____________________
ستمر1994ء میں انھوں نے پشاوریونیورسٹی کے شعبہ اُردومیں شمولیت اختیارکی۔دسمبر2000ء میں وہ تین سال کے لیے گردشی نظام کے تحت (By Rotation) صدرشعبہ منتخب ہوئے۔بعدمیں دسمبر2006ء میں وہ مستقل طورپرصدرشعبہ اُردومقرر ہوگئے۔اس حیثیت میں انھوں نے شعبے کے لیے تادمِ آخر انتھک محنت کی اوریادگارکام سرا نجام دئے۔
____________________
ایک دفعہ فرمانے لگے کہ میں اپنی خوشیوں میں توگھروالوں کو ہمیشہ شریک کرتاہوں لیکن پریشانیوں اور دکھوں میں انھیں کبھی شریک نہیں کیا۔حتٰی کہ میں اپنی بیماریوں اور تکلیفوں کے بارے میں بھی ان کو لاعلم ہی رکھتا ہوں۔کہنے لگے،میں نے ایک آپریشن کرواناتھا۔گھروالوں کو اس کی ہوابھی نہ لگنے دی۔ آپریشن ہوگیا اور جب میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوگیاتوگھرگیا۔گھروالے میری غیرحاضری کومعمول کی بات سمجھتے رہے۔
____________________
ان کی خواہش تھی کہ ہماری بیٹھک(حجرے) کے صحن میں فرن کا سجاوٹی پودااپنے ہاتھ سے لگائیں گے لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ایک حادثے میں وہ زخمی ہوگئے۔انھیں کولھے میں گولی ماردی گئی تھی۔وہ بہت دن ہسپتال میں زیرِعلاج رہے۔اس دوران میں مجرم پکڑے گئے لیکن انھوں نے تحریری طورپر انھیں معاف کرکے ایک اور روشن مثال قائم کردی۔
میں ان کی عیادت کے لیے ان کے گھرپشاورکیا۔نذرعابد# صاحب میرے ہمراہ تھے۔ان کودیکھاتوافسوس ہوا۔بہت کمزور ہوگئے تھے۔رنگت پیلی زرد ہورہی تھی۔بیساکھیوں کے بغیر چل پھر نہیں سکتے تھے۔اگرچہ دل رو رہاتھا لیکن ان سے گفتگوکرتارہا۔اصرار کرکے ہم دونوں کوکھاناکھلایا اور اس معذوری کے عالم میں بھی ہمیں اپنی کتابوں کے کمرے دکھائے۔عابدصاحب(کہ وہ آپ کے شاگردوں میں سے ہیں) سے کہا کہ ذرااس سیڑھی پر چڑھ کر وہ سامنے
” ادبستان ہزارہ“ رکھی ہے ،اٹھادو۔عابدصاحب کتاب لے آئے تواس پر اپنے دستخط کرکے میرے حوالے کی اور کہا: ” یہی کتاب تھی ناں جس کی آپ نے فرمائش کی تھی؟مجھے افسوس ہے کی فرمائش پوری کرنے میں دیرہوگئی“(بخدامجھے خودبھی اپنی فرمائش یادنہ تھی لیکن واہ رے صابرصاحب،آپ نے اسے یادرکھا) یہ کتاب صابرصاحب کے استاد،مشہورماہراقبالیات پروفیسرڈاکٹرمحمدایوب صابر# صاحب کی مرتب کردہ شعرائے ہزارہ کا انتخاب ہے۔اس کے صفحہ263پر صابرکلوروی صاحب کی غزل کے اشعار بھی ہیں۔
وہاں سے رخصت ہوئے تواس کتاب کے علاوہ کچھ اور کتابیں اور رسالے بھی ہمراہ کر دئے۔اپنے بیٹے شہزادسے کہا کہ ہمیں موٹر میں بس اڈے تک چھوڑ آئے۔
____________________
2006ء میں عیدالفطر کے دوسرے دن صابرصاحب عزیزی شہزاداوراپنے ایک بھانجے کے ہمراہ میرے گاوٴں غریب خانے پر تشریف لائے۔ جب جانے لگے تو بیساکھیوں کے سہارے کے بغیرچندقدم چل کر مجھے بتایاکہ دیکھ لو،اب تو میں کسی امدادکے بغیرچل پھر لیتا ہوں۔اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔
وہ ہرسال باڑہ گلی میں سیمینارمنعقدکیاکرتے تھے جس میں پاکستان بھر سے چیدہ چیدہ نقاد،محققین اور علمی شخصیات شرکت کیا کرتی تھیں۔ کتابوں اور ادیبوں سے میری محبت اور دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ہر سال مجھے بھی مدعو کرتے تھے لیکن میں اپنی صحت کی مجبوریوں کی وجہ سے کبھی شرکت نہ کرسکا۔ایک دفعہ تواصراربہت شدیدتھا۔کہنے لگے کہ آپ ہٹیاں آجائیں،وہاں سے ہم آپ کوموٹر میں لے چلیں گے لیکن افسوس کہ سیمینارسے عین پہلے روز میرے ماموں فوت ہوگئے اور اس طرح میں رہ گیا۔
ایک دفعہ میں نے کہا کہ ایک ماہر لسانیات کا کہنا ہے کہ مانسہرہ کے نزدیک چٹانوں پرکندہ تحریرہندکوزبان میں ہے۔یہ بڑی بڑی گول چٹانیں سڑک کے ایک طرف پڑی ہیں اور خیال ہے کہ ان پریہ تحریرکنشک نے کھدوائی تھیں۔وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت نوح کی کشتی میں جو لوگ سوار تھے،ان کی زبان ہندکو تھی۔ایسی باتیں بس سن لیا کرتے ہیں۔یادرہے کہ ہندکوان کی مادری زبان تھی۔
____________________
ان سے آخری ملاقات12/مئی2007ء کو ہوئی۔اسی روزمحترم ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی صاحب نے اسلام آباد سے فون کیا کہ وہ تشریف لا رہے ہیں۔ان کے ساتھ ڈاکٹرصابرکلوروی صاحب بھی ہوں گے۔ان کو شام 4/بجے تک پہنچ جاناچاہئے تھا لیکن اس روزاپنی شان وشوکت دکھانے کے لیے حکومت نے ایک بہت بڑے جلسہ اورجلوس کا انتظام کر رکھا تھا۔اس سے ٹریفک کانظام بری طرح سے متاثر ہوا۔وہ شام4 /بجے کے بجائے8/بجے پہنچے۔ کہنے لگے کہ بڑی دقتوں کاسامناتھا۔کوئی سواری نہ ملتی تھی۔بہرحال بڑی مشکلوں سے یہاں پہنچے ہیں۔ڈاکٹرارشدمحمودناشاد صاحب بھی اٹک سے پہنچ گئے تھے۔دو تین گھنٹے خوب ادبی محفل جمی۔ہاشمی صاحب تھکاوٹ کی وجہ سے آرام کر رہے تھے لیکن کلوروی صاحب نے میری گزارش کے باوجودآرام کرنا پسندنہ فرمایا،حالانکہ تھکاوٹ ان کے چہرے سے ظاہر تھی۔وہ ہاشمی صاحب کے ادب کی وجہ سے ایسانہ کر رہے تھے۔
میں نے صابرصاحب سے کہاکہ آپ حال ہی میں بھارت کا دورہ کرکے آئے ہیں۔کچھ اس کے متعلق بتایئے۔کن کن لوگوں سے آپ ملے اور کون کون سے موضوع زیرِ بحث آئے۔انھوں نے یہ سب کچھ بتایا۔جب انھوں نے یہ کہاکہ ڈاکٹرخلیق انجم سے بھی ملا ہوں اورملاقات کی تفصیل بتائی تو میں نے گزارش کی کہ ڈاکٹرخلیق انجم کی بیوی ہندو ہے۔خودانھوں نے ایک انٹرویو میں بتایاتھاکہ ان کی والدہ محترمہ اپنے کمرے میں نمازپڑھ رہی ہوتی ہیں اور ان کی بیوی ساتھ والے کمرے میں بتوں کی عبادت کررہی ہوتی ہیں۔اسلام نے مشرک مردیامشرکہ عورت سے نکاح ناجائز اورحرام قراردیا ہے۔(حیرت ہے کہ ڈاکٹر رفیق زکریا مرحوم نے جب ملعون سلمان رشدی کی کتابSatanic verses کے جواب میں اپنی کتابMuhammad & The Quran لکھی تو اس کادیباچہ انھوں نے خلیق انجم سے لکھوایا !!!) ۔انھوں نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ہندوستان میں اب ایسی شادیاں ہورہی ہیں۔
]مولاناصلاح الدین احمدکے بھتیجے ڈاکٹرزین العابدین احمد نے اپنی خود نوشت ”میرے جیون کی کچھ یادیں “ لکھی ہے جوادارہٴ یادگار غالب،کراچی نے 2004ء میں شائع کی تھی۔اس میں انھوں نے بتایاہے کہ ان کی بہن کی شادی ایک ہندوایڈووکیٹ سے ہوئی اور وہ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔یادرہے کہ
ڈاکٹر زیڈ احمد ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے بڑوں میں سے تھے[
رات ساڑھے دس بجے کے قریب یہ باغ وبہارمحفل اپنے اختتام کو پہنچی۔صابرصاحب نے ہرحال میں پشاور پہنچنا تھا۔ہاشمی صاحب بھی فرمانے لگے کہ میں اسلام آباد واپس جاوٴں گا۔وہاں سے صبح لاہورچلاجاوٴں گا۔
____________________
ان کی محبت کامرکزومحوراُردوزبان وادب،اقبالیات اوران کاخاندان تھے۔اردوزبان وادب سے محبت کی بناپرڈاکٹرعطش درانی نے انھیں
” اردو کا ملنگ“کہا۔جہاں تک اقبالیات سے محبت اورشغف کاتعلق ہے،وہ ان کے اس کام سے ظاہر ہے جوانھوں نے اس میدان میں سرانجام دیاہے اورجووہ کرنا چاہتے تھے۔مشفق خوا جہ مرحوم نے ان کے پاس علامہ اقبال کی دونادربیاضیں دیکھ کر کہاتھاکہ ان دوبیاضوں کی وجہ سے تحسین فراقی صاحب نے انھیں
”ملا دو بیاضا“ کاخوبصورت نام دیا ہے۔
اُردوزبان سے محبت ہی توتھی کہ انھوں نے ایبٹ آبادکے بغل قلندرآباد میں ایک اشاعتی ادارہ ” سرحد اردو اکیڈیمی“ قائم کیا۔اس ادارے سے اردو زبان و ادب اور اقبالیات کے سلسلے میں بہت سی علمی اور تحقیقی کتابیں شائع ہوئیں۔ان میں نظیرصدیقی مرحوم کی خود نوشت ”سویہ ہے اپنی زندگی“ ، بشیراحمدسوز کی ”اقبال اور ہزارہ“ ، پروفیسرسیدیونس شاہ صاحب کی ”مرزامحمودسرحدی:فن اورشخصیت“ بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ اوربھی کئی مفیداورعلمی کتب اس ادارے سے شائع ہوئیں۔
میں نے دسمبر2007ء کے شروع میں ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھے آپ کے ادارے سے شائع ہونے والی پروفیسرمحمداخترصاحب کی کتاب ”تاجک سواتی ومملکت گیر،تاریخ کے آئینے میں “ کی ضرورت ہے۔آپ نے فرمایا۔یہ کتاب گوہمارے ادارے نے شائع نہیں کی لیکن کتاب پرپتا ہمارے ادارے کا درج کردیا گیا ہے۔بہرحال کتاب آپ کو مل جائے گی۔یہ کتاب مجھے مل گئی تھی۔اس پران کے تہدیہ کی تاریخ17/دسمبر2007درج ہے۔
____________________
خودان کاتصنیفی سرمایہ حسب ذیل ہے:۔
1) سائنس سے بھی عجیب تر 1975ء مکتبہ شاہکار،لاہور
2) یادِ اقبال 1977ء مکتبہ شاہکار،لاہور
(اس کانظرثانی شدہ اڈیشن اسی ادارے نے1982ء ”داستان اقبال“ کے نام سے شائع کیا)
3) نقوش اردو (بالشتراک ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی)1983ء علمی کتب خانہ،لاہور
4) عروض وبدیع 1984ء علمی کتب خانہ،لاہور
5) اشاریہٴ مکاتیب اقبال 1984ء اقبال اکادمی پاکستان،لاہور
6) اقبال کے ہم نشیں 1985ء مکتبہ خلیل،لاہور
7) تاریخ تصوف (تصنیف اقبال کی تدوین) 1985ء مکتبہ تعمیر انسانیت،لاہور
(علامہ اقبال کی غیرمطبوعہ کتاب کے دوباب انھوں نے دریافت کئے اوران پر حواشی لکھے۔اپنی اس کاوش پر نظرثانی اوراس کی مزید بہتر تدوین بقول ڈاکٹرہاشمی صاحب”ان کے پرعزم منصوبوں میں شامل تھی“ )اس کتاب کی کل آمدنی ایوان اقبال لاہورکوہدیہ کردی تھی۔
کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال 2004ء اقبال اکادمی پاکستان،لاہور
9) پشاوریونیورسٹی کے مجلے ”خیابان“ کے مختلف نمبروں کی ترتیب وتدوین مثلاً
اصنافِ سخن نمبر،اصنافِ نثر نمبر،صوبہ سرحد میں اردو ادبیات نمبر اور نوادراقبال وغیرہ۔
10) علاوہ ازیں ان کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مقالات بھی ایک معقول تعداد میں موجود ہیں۔
____________________
ان کے بہت سے منصوبے ناتمام رہ گئے۔وہ اُردو کی سلینگ( Slang) لغت شائع کرناچاہتے تھے۔مجھے ذاتی طورپرعلم ہے کہ انھوں اس پربہت سا کام بھی کر رکھا تھا۔اقبال سے متعلق بہت سے متفرق واقعات جمع کر رہے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے بہت کچھ جمع کر رکھا تھا۔ان کے پاس محققین،نقاد حضرات اورادیبوں کے خطوط بھی تھے جن میں بھارت کے نامورادیب بھی شامل ہیں۔وہ ان خطوط کو مرتب ومدون شکل میں شائع کرناچاہتے تھے۔ ایک فوری اور اہم کام جوان کے زیرنظرتھا،وہ ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی صاحب پر ایک کتاب مرتب کرناچاہتے تھے جوان کی زندگی اورخدمات پرمحیط ہو۔یہ کتاب وہ
نذرِ ہاشمی یاارمغان ہاشمی کے نام سے پیش کرناچاہتے تھے۔ دراصل وہ اپنے استادِ محترم کے اعتراف کے طورپریہ کتاب مرتب کرناچاہتے تھے لیکن موت نے مہلت نہ دی ع
کاش اے موت تجھے موت ہی آجاتی
____________________
انھوں نے مجھے جو آخری تحفہ دیا،وہ محمداویس قرنی کاباڑہ گلی اردولسانیات سیمینار2007ء پرلکھا گیا رپورتاژ” پربتوں کے اس پار“ ہے۔ اس پر تہدیہ کی تاریخ14/مارچ2008یء درج ہے۔
____________________
22/ مارچ2008ء کو نذرعابدنے اطلاع دی کہ صابرصاحب کو جنت جانے کی جلدی تھی،چلے گئے۔
صابرصاحب، آپ نے توکہاتھاکہ ہم آسانی سے پیچھانہیں چھوڑا کرتے لیکن آپ نے کتنی آسانی سے ہم سے پیچھاچھڑا لیا۔اپنے گھروالوں، شاگردوں اوراپنے سب چاہنے والوں سے کتنی آسانی سے دامن چھڑالیا۔آپ نے دامن توچھڑا لیا لیکن آپ اپنی یادیں توہم سے چھین نہیں سکیں گے۔آپ کی روشن یادیں آپ کے استادوں،شاگردوں اور دوستوں کے دلوں میں ہمیشہ جاگزیں رہیں گی۔اُن بدنصیبوں کے دلوں میں بھی چبھتی رہیں گی جنھوں نے آپ کو تکلیف اور اذیت دی لیکن آپ نے اُن کو معاف کردیا۔انسان فانی ہے۔موت برحق ہے لیکن کچھ لوگوں کی موت کے زخم آسانی سے بھر نہیں پاتے #
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
آپ کی یادآتی رہے گی۔کبھی محونہ ہوگی
ہم تری یاد کے رستوں کے مسافرٹھہرے
وہ جواک عمرکی پونجی تھی ، گنوا بیٹھے ہیں
ہم تہی دست وفا کے قیدی
ہم تری یادکے رستوں کے مسافرقیدی
____________________
(1) ماہنامہ گجررابطہ۔کراچی۔اپریل2008ء میں آپ کی تاریخ پیدائش1948ء لکھی ہے۔
____________________