تحقیقی مجلہ معیار میں سید مظہر جمیل کے مضمون " تلنگانہ تحریک اور مخدوم محی الدین "سے اقتباس :

سید زبیر

محفلین
تحقیقی مجلہ معیار میں سید مظہر جمیل کے مضمون تلنگانہ تحریک اور مخدوم محی الدین سے اقتباس :​

" کامریڈ ایسوسی ایشن نے جس سال اپنی پبلک سرگرمی کا آغاز کیا تھا، اسی برس جنگِ عظیم دوم کا آغاز بھی ہوا تھا۔ چنانچہ کامریڈ ایسوسی ایشن کے دوستوں نے جنگ کے خلاف اور امنِ عالم کی بحالی کے حق میں ’اینٹی نازی ‘ ڈے منانے کا فیصلہ کیا، جس میں مخدوم نے جہاں جرمنی اور ہٹلر کے خلاف شدید جذباتی تقریر کی، وہیں برطانوی حکومت کی جنگی حکمتِ عملی پر بھی بہت سخت تنقید کی اور برطانوی وزیرِ جنگ لارڈ لنلیتھوگو جس نے ہندوستان کی برطانوی نوآبادی کو بھی جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کا اعلان کردیا تھا اور کہا تھا کہ ہندوستان کے عوام برما اور ایشیا میں کھولے گئے جنگی مورچوں میں بہادری سے مقابلہ کریں گے۔ اور جرمنی کے ہٹلر اور اٹلی کے مسولینی کے فاشسٹ عزائم کو چکنا چور کردیں گے۔ مخدوم نے لارڈ لنلیتھوگو پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’لارڈ لنلیتھوگو کو اس بات کا قطعی کوئی اختیار نہیں کہ وہ ہندوستان کے عوام کو ان کی مرضی معلوم کیے بغیر مجرمانہ طور پر جنگ کی بھٹی میں دھکیل دے۔ مخدوم نے مزید کہا تھا کہ لارڈ لنلیتھوگو اپنی غلامانہ نوکرشاہی کے ذریعے جنگ میں فتح حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اگر جنگ میں عالمی امن کے دائمی قیام کے لیے جنگ لازمی ہی ہوجائے تو پہلے ہندوستان میں قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جسے جنگی حکمتِ عملی وضع کرنے اور اس پر عمل درآمد کا اختیار بھی ہونا چاہیےء
ایک طرف تو نظام شاہی حکومت نے جسے تاجِ برطانیہ کے ’یارِ وفادار‘ ہونے کا اعزاز حاصل تھا اور جس نے آصف جاہی سلطان نواب میر عثمان علی خاں کو ہز ایکسزالٹیڈ ہائی ہائی نس کے سرکاری خطاب کے ساتھ تیئس توپوں کی سلامی کا حق دار قرار دے رکھا تھا اور دربارِ شاہی میں وائسرائے کی کرسی کے بعد نظام کی کرسی رکھی جاتی تھی، جنگ میں برطانوی حکومت کی مکمل طرف داری کا اعلان کردیا تھا۔ ریاست حیدرآباد کی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل سیّد احمد العید روس کے مطابق نظام حیدرآباد جنگ کے ابتدائی دنوں ہی میں تاجِ برطانیہ سے اپنی وفاداری کے ثبوت میں جنگی ہوائی جہازوں کے دو مکمل اسکواڈرن اور ایک تباہ کن بحری جہاز کی مساوی کی قیمت بطور نذرانہ برطانوی حکومت کو پیش کرچکے تھے۔ یہ گراں قدر مالی نذرانہ اس تمام فوجی و نیم فوجی امداد کے سوا تھا جن جنگی اشیائے ضرورت کی مستقل سپلائی کی ذمے داری نظام شاہی سرکاری نے قبول کرلی تھی۔ اس کے علاوہ حیدرآبادی فوجی دستے مشرقِ وسطیٰ اور برما کے محاذوں پر بھی اتحادی فوج کے شانہ بہ شانہ جنگ میں شامل رہے تھے۔ اس پس منظر میں مخدوم محی الدین کا جنگ کے خلاف گستاخانہ بیان نظام شاہی شیش محل پر ایک بھاری پتھر کی طرح پڑا تھا اور ہر چند مذکورہ بیان سے ریاست کے کسی قانون کی خلاف ورزی بھی نہ ہوتی تھی اور یہ محض ایک رائے کی حیثیت رکھتا تھا لیکن نظام شاہی حکومت نے اس بیان کو برطانوی حکومت اور اعلیٰ حضرت نظام کی حکومت کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش قرار دے کر گرفتار کرلیا تھا اور ایک مجسٹریٹ کی عدالت سے اس باغیانہ فعل پر ڈھائی سو روپیہ نقد کا جرمانہ یا عدم ادائیگیِ جرمانہ تین ماہ قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔
مخدوم محی الدین اور ان کے رفیقوں نے جرمانے کی ادائیگی کی بجائے جیل یاترا کو قبول کیا۔ یہ مخدوم کی پہلی جیل یاترا تھی۔کامریڈ ایسوسی ایشن کی اس سیاسی پہل کاری نے نہ صرف حیدرآباد میں برطانوی سامراج کے مخالفین، جنگِ آزادی کے ہمدردوں اور جمہوری قدروں کے چاہنے والوں کو متوجہ کردیا تھا بلکہ ریاست کے باہر بھی جنگ مخالف عناصر نے اس بروقت جرأت مندانہ اقدام کو سراہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ابھی ہندوستانی عوام پہلی جنگِ عظیم کی ہلاکت خیزیوں اور اس کے جان لیوا اثرات سے باہر نہ نکل سکے تھے اور اب بلاجواز وہ دوسری جنگِ عظیم کا ایندھن بننے پر آمادہ نہ تھے۔۔۔۔۔ "
 
مخدوم محی الدین کی شخصیت کا یہ پہلو میر نظر سے پوشیدہ تھا
میرے دادا حضورسید اشرف شاہ کو بھی انگریزوں نے 19 سال کی عمر میں جبری لام بندی کے تحت فوج میں بھرتی کر کے برما کے محاذ پر بھیج دیا تھا دو سال تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہ چلا جنگ بندی کے بعد ہی ان کی واپسی ہو سکی
بہت معلوماتی شراکت
شاد و آباد رہیں
 

تلمیذ

لائبریرین
محترم سید زبیر صاحب۔ آپ نے ایک بہت اچھا مضمون تلاش کر کے ہمیں پڑھنے کا موقع دیا ہے۔ جزاک اللہ۔
جنگ عظیم دوم میں انگریزوں کی حمایت کے باوجود نظام حیدرآباد کی جانب سے نوزاؕئیدہ پاکستان کے لئے امداد اور قرنابیاں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔
 

عبدالحسیب

محفلین
بہت ہی عمدہ شراکت ہے زبیر بھائی۔
بے شک مخدوم صرف شاعرِ انقلاب ہی نہیں مردِ میدان بھی تھے ۔ انھوں نے ظلم و جبر کے خلاف صرف قلم سے ہی جہاد نہیں کیا ضرورت پڑنے پر تیغ بھی اٹھائی اور باظل پر شدّت سے ضرب لگائی۔

کیا میں اس رزم کا خاموش تماشائی بنوں؟
کیا میں جنّت کو جہنم کے حوالے کر دوں؟
کیوں نہ ہتھیار اٹھاؤں میں وطن کی خاطر!
 

سید زبیر

محفلین
محترم سید زبیر صاحب۔ آپ نے ایک بہت اچھا مضمون تلاش کر کے ہمیں پڑھنے کا موقع دیا ہے۔ جزاک اللہ۔
جنگ عظیم دوم میں انگریزوں کی حمایت کے باوجود نظام حیدرآباد کی جانب سے نوزاؕئیدہ پاکستان کے لئے امداد اور قرنابیاں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔
گرامی قدر ! بخدا میرا ہر گز ہرگز مقصد ان کی کردار کشی نہ تھا وہ میرے بھی ہم امت تھے ۔ بے شک نوزائیدہ پاکستان کے پاس جب تنخواہیں دینے کے لیے بھی رقم نہ تھی انہوں نے گراں قدر سرمایہ پاکستان منتقل کیا جس دور میں یہاں کے باسی جوناگڑھ کی دولت لوٹ رہے تھے اور بعد میں یہی ارباب اقتدار قومی سرمائے کو شیر مادر سمجھ کر تنو مند ہورہے تھے ۔ پاکستان کے اس ننھے پودے کو توانائی پہنچانے میں یقینا نظام حیدر آباد کا بہت حصہ ہے ۔ مگر تحریک آزادی ہند میں بھی انہوں نے دامے درمے سخنے استعماری قوتوں کی مدد کی ، جنگ عظیم میں انگریزوں کی مدد قدرے مختلف ہوسکتی ہے مگر آزادی اور حریت کے لیے لڑنے والوں کے خلاف " حیدر آباد کنٹیجنٹ " کی مکمل سپاہ ، جس نے رانی جھانسی اور خیرپور کی بغاوتوں کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا بھی تاریخ کا حصہ ہے
 
Top