محمد کاشف تبسم
محفلین
*⭐بامقصد.....بامراد!!⭐*
...............................................
✍محمد کاشف تبسم
آج پہلی بارویسے ہی باہر نکلا تو ذرا سے چلنے نے اسے بہت تهکا دیا،وہ تهک کر ٹوٹ چکا تها.
بظاہرتو وہ ایک کامیاب ترین شخص تها اس نے اپنی *تعلیم* کے زمانہ میں ہمیشہ ٹاپ کیا اور کهیل میں بهی سب سے آگے آگے رہا،وہ جب ڈائس پر بولتا تو مجمع مسحور ہو جاتا اور جب قلم تهام لیتا تو الفاظ کی میناکاری اور معلومات کے خزانے لٹاتا،عمدہ تعبیرات میں قلم وزبان سے" مافی الضمیر" پیش کرنا اس کے لئے معمولی بات تهی،اس کی راتیں پڑهنے میں کٹتیں اور دن بهر بهی اسی کاشغل محنت ہی رہتا،وہ ہر دلعزیز تها،حاسدین کی پرواہ کرتا اور نا ہی خوشامد پر پهیلتا،بس وہ سراپا *محنت ہی محنت* تها،اس کے پاس آج بهی سرکاری عہدہ تها،مگر ساری لیاقت،عمربهر کی محنت،تعریفی اسناد،شیلڈیں،تمغے اور انعامات آج اس کی آنکهوں میں خوشی نہیں چبهن پیدا کرتے ہیں،اس کےدل میں سکون نہیں ہے ،لوگوں کےتعریفی کلمات ہوا میں اڑ گے،عزت ،احترام اور محبت کے جذبات سب ماضی کاقصہ ٹہرے،وہ سوچ سوچ پاگل ہوا جاتا ہے.....یہ سب کیا ہے؟
زندگی کی حقیقت کیسے ملے؟
*دل کا سکون* اور چین کہاں سے حاصل ہو؟
اس جیسے سوالات کا ایک طوفان اس پر حملہ آور ہوا ،قریب تها وہ مایوس ہو جاتا،ناامیدی اپنا جادو چلانے ہی لگی تهی کہ وہ سنبهل بیٹها،اسے زندگی کا درست رخ نظر آ گیا،ہوا کچه یوں کے آج وہ پریشانی کے عالم میں گهر سے نکلا،بغیر کسی مقصد کے وہ چلا جا رہا تها،اس کے آس پاس شہر کی رنگینیاں اور تیز مصروف ترین زندگی کے لوگ چلے جارہے تهے،اس کی جیب میں ایک معقول رقم بهی موجود ہے،وہ ذرا ہی دور گیا تو تهکاوٹ محسوس ہونے لگی،اس نے زندگی میں پہلی بار اس ذرا سے چلنے میں بوریت محسوس کی تهی،آج تو موسم بهی خوشگوار تها،چلو کچه کها لیتے ہیں،مگر کیا کهاؤں؟یہ ہاں ٹهیک ہے،نہیں نہیں وہ کها لیتا ہوں،نہیں ذرا آگے تو چلوں،اف خدایا! یہ سب ایسا کیوں ہو رہا ہے،یہ کش مکش اور بے چینی کی وجه کیا ہوسکتی ہے؟؟
اسی سوال کے جواب نے اس کی زندگی پلٹ دی،جواب بہت آسان مگر اس پر یقین کر لینا بہت ہی مشکل تها،وہ جان چکا تها کی آج میں *بے مقصد* چلا ہوں تو تهک گیا،سوچ کے زاویے منتشر ہوگئے،ہر آسائش اور سہولت کے باوجود یہ چند قدم کے بےمقصد فاصلے نے اس سے فیصلے کی قوت کو کمزور کردیا تها،تو پهر یہ پوری زندگی کا سفر" *بےمقصد* "چلتے چلے جانا کیوں پریشان نہ کرتا،یہی وہ راز تها جس نے اسے پرسکون بنادیا اب اس کی محنت،اس کی محبت،عبادت،رشتے،دوستیاں اوریارانے سب کسی مقصد کے تحت آچکے تهے،اور زندگی کاسفر اس آخری عمر میں نئے سرےسےشروع کردیا!
میری عبادت،میرا جینا،میرا مرنا اے میرے اللہ تیرے لئے ہے،تیری محبت کا سفر جاری ہے،اس کی آخری منزل تیرا دیدار ہے،زندگی بهر کی بےمقصدمحنت نے اسے بے چینی دی تهی اورآج بامقصد زندگی کے آغاز نے اسے محنت کا جذبہ،رشتے نبهانے اورمحبت بانٹنےکااحساس ہی نہیں ساته دل کو حقیقی سکون سے بهی لبالب بهر دیا تها.
عجیب بات تهی کہ اب بهلے نہ شہرت نہ اعزازات ہیں،
بس!مقصد کی طرف سفر ہی کامیابی ہے کیوں کہ وہ اس راز کو جان چکا تهاکہ
کام،محنت،جہد_مسلسل اور مستقل مزاجی کی بنیاد *"بلند مقصد"* ہے،اس بنیاد کے بغیر ہر محنت اکارت اورساری مشقت رائیگاں چلی جاتی ہے.
جس طرح " *باادب بانصیب* " اور "بےادب بےنصیب" ہوتاہے
،اسی طرح *بامقصدبامراد* اور بےمقصدبےمراد رہتا ہے!!!
...............................................
✍محمد کاشف تبسم
آج پہلی بارویسے ہی باہر نکلا تو ذرا سے چلنے نے اسے بہت تهکا دیا،وہ تهک کر ٹوٹ چکا تها.
بظاہرتو وہ ایک کامیاب ترین شخص تها اس نے اپنی *تعلیم* کے زمانہ میں ہمیشہ ٹاپ کیا اور کهیل میں بهی سب سے آگے آگے رہا،وہ جب ڈائس پر بولتا تو مجمع مسحور ہو جاتا اور جب قلم تهام لیتا تو الفاظ کی میناکاری اور معلومات کے خزانے لٹاتا،عمدہ تعبیرات میں قلم وزبان سے" مافی الضمیر" پیش کرنا اس کے لئے معمولی بات تهی،اس کی راتیں پڑهنے میں کٹتیں اور دن بهر بهی اسی کاشغل محنت ہی رہتا،وہ ہر دلعزیز تها،حاسدین کی پرواہ کرتا اور نا ہی خوشامد پر پهیلتا،بس وہ سراپا *محنت ہی محنت* تها،اس کے پاس آج بهی سرکاری عہدہ تها،مگر ساری لیاقت،عمربهر کی محنت،تعریفی اسناد،شیلڈیں،تمغے اور انعامات آج اس کی آنکهوں میں خوشی نہیں چبهن پیدا کرتے ہیں،اس کےدل میں سکون نہیں ہے ،لوگوں کےتعریفی کلمات ہوا میں اڑ گے،عزت ،احترام اور محبت کے جذبات سب ماضی کاقصہ ٹہرے،وہ سوچ سوچ پاگل ہوا جاتا ہے.....یہ سب کیا ہے؟
زندگی کی حقیقت کیسے ملے؟
*دل کا سکون* اور چین کہاں سے حاصل ہو؟
اس جیسے سوالات کا ایک طوفان اس پر حملہ آور ہوا ،قریب تها وہ مایوس ہو جاتا،ناامیدی اپنا جادو چلانے ہی لگی تهی کہ وہ سنبهل بیٹها،اسے زندگی کا درست رخ نظر آ گیا،ہوا کچه یوں کے آج وہ پریشانی کے عالم میں گهر سے نکلا،بغیر کسی مقصد کے وہ چلا جا رہا تها،اس کے آس پاس شہر کی رنگینیاں اور تیز مصروف ترین زندگی کے لوگ چلے جارہے تهے،اس کی جیب میں ایک معقول رقم بهی موجود ہے،وہ ذرا ہی دور گیا تو تهکاوٹ محسوس ہونے لگی،اس نے زندگی میں پہلی بار اس ذرا سے چلنے میں بوریت محسوس کی تهی،آج تو موسم بهی خوشگوار تها،چلو کچه کها لیتے ہیں،مگر کیا کهاؤں؟یہ ہاں ٹهیک ہے،نہیں نہیں وہ کها لیتا ہوں،نہیں ذرا آگے تو چلوں،اف خدایا! یہ سب ایسا کیوں ہو رہا ہے،یہ کش مکش اور بے چینی کی وجه کیا ہوسکتی ہے؟؟
اسی سوال کے جواب نے اس کی زندگی پلٹ دی،جواب بہت آسان مگر اس پر یقین کر لینا بہت ہی مشکل تها،وہ جان چکا تها کی آج میں *بے مقصد* چلا ہوں تو تهک گیا،سوچ کے زاویے منتشر ہوگئے،ہر آسائش اور سہولت کے باوجود یہ چند قدم کے بےمقصد فاصلے نے اس سے فیصلے کی قوت کو کمزور کردیا تها،تو پهر یہ پوری زندگی کا سفر" *بےمقصد* "چلتے چلے جانا کیوں پریشان نہ کرتا،یہی وہ راز تها جس نے اسے پرسکون بنادیا اب اس کی محنت،اس کی محبت،عبادت،رشتے،دوستیاں اوریارانے سب کسی مقصد کے تحت آچکے تهے،اور زندگی کاسفر اس آخری عمر میں نئے سرےسےشروع کردیا!
میری عبادت،میرا جینا،میرا مرنا اے میرے اللہ تیرے لئے ہے،تیری محبت کا سفر جاری ہے،اس کی آخری منزل تیرا دیدار ہے،زندگی بهر کی بےمقصدمحنت نے اسے بے چینی دی تهی اورآج بامقصد زندگی کے آغاز نے اسے محنت کا جذبہ،رشتے نبهانے اورمحبت بانٹنےکااحساس ہی نہیں ساته دل کو حقیقی سکون سے بهی لبالب بهر دیا تها.
عجیب بات تهی کہ اب بهلے نہ شہرت نہ اعزازات ہیں،
بس!مقصد کی طرف سفر ہی کامیابی ہے کیوں کہ وہ اس راز کو جان چکا تهاکہ
کام،محنت،جہد_مسلسل اور مستقل مزاجی کی بنیاد *"بلند مقصد"* ہے،اس بنیاد کے بغیر ہر محنت اکارت اورساری مشقت رائیگاں چلی جاتی ہے.
جس طرح " *باادب بانصیب* " اور "بےادب بےنصیب" ہوتاہے
،اسی طرح *بامقصدبامراد* اور بےمقصدبےمراد رہتا ہے!!!