تحریرِ آبِ زرر۔۔ اعجاز عبید

الف عین

لائبریرین
دو غزلہ ۔۔۔۔۔ دو
ایسا بربط کہ جو شکستہ نہیں
لیے بیٹھے ہیں اور نغمہ نہیں
اب تو موسم ہے برف باری کا
اب یہاں کوئی پھول ہنستا نہیں
اب تو چنگاریاں اتر آئیں
اب کہیں ’’ جگنوؤں کی دنیا‘‘1 نہیں
اب تو بس برف تیرتی ہے یہاں
اب کسی جھیل میں شکارہ نہیں
جو کسی صبح کی خبر دے دے
اب ان آنکھوں میں وہ ستارہ نہیں
کب سے ہے آنکھوں کے افق پہ محیط
ایسا بادل کہ جو برستا نہیں
میرے کالر میں بھی نہیں خوشبو
اس کے بالوں میں بھی وہ غنچہ نہیں
رات بھر میں اجڑ گئی بستی
صبح مندر گجر پکارا نہیں
(1) قرۃ العین حیدر کی ایک کہانی کا عنوان
1974ء
 

الف عین

لائبریرین
ہوگئی ختم اک پورنماسی
دھیرے دھیرے ہوئے پھول باسی
وقت کیسا سنہرا سا مند
شام سیڑھی پہ اک دیوداسی
میری آنکھوں میں ساون تو اترے
یہ زمیں رہ گئی یوں ہی پیاسی
فصلِ گل کو ابھی کب تھا آنا
رنگ لاتی ہے یہ خوں لباسی

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
نگر نگر کی گلی گلی میں سناٹا تھا چپ
دھرتی پر اک پیڑ اکیلا، گگن پہ تارا چپ
پہلے ہنسانا چاہا، پھر مٹّی پر رکھ دئے پھول
اک بچّے کی آنکھوں میں آنسو، سہما سہما چپ
کیسے کہہ دوں اب نہ سنے گی وہ کوئی لوری
کیا جانے اب کیسے ہوگی ننھی گڑیا چپ
پیڑوں کے اس جھنڈ میں ہم کو کھوج رہا تھا کون
اس نے لبوں پر انگلی رکھ کر کیا اشارہ ’’چپ‘‘
میری دعا تھی۔ برسیں اب آکاش سے ساون گیت
ہر بادل میری نظروں سے گزرا تنہا ۔ چپ

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
رات بھر گیت یوں ہی گائیں گے ہم
کوئی ڈھونڈھے گا تو چھپ جائیں گے ہم
سن کے اک ڈوبتی آواز تری
آسمانوں سے اتر آئیں گے ہم
ماتمِ شہرِ تمنّا کے لیے
دو منٹ چپ کھڑے ہو جائیں گے ہم
محلِ ویراں کے ہیں آخر والی
اور اک روز گزر جائیں گے ہم
ہاں تجھے پا کے ملے گا سب کچھ
اک ترے خط کی کمی پائیں گے ہم
1974ء
 

الف عین

لائبریرین
مجھے جو دور سے دیکھو تو فاصلہ بھی میں
مرے قریب سے گزرو تو راستہ بھی میں
تمام زرد مناظر کو سبز کر دوں گا
نہ ہو اداس درختو، وہ آئینہ بھی میں
عجب کشاکشِ پیہم ہیں روز شب میرے
میں آپ اپنا عدو بھی ہوں، آشنا بھی میں
خدا کی طرح بکھر جاؤں سارے منظر میں
کہ شاخِ سبز بھی، برگِ خزاں زدہ بھی میں
میں آپ خود سے ہی لڑ کر شکست کھاتا ہوں
نحیف پھول بھی میں، سر پھری ہوا بھی میں
نبھے گی خوب کہ شعلہ بھی ہے وہ شبنم بھی
عبیدؔ اس کے لیے آب بھی ہوا بھی میں

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
کچھ چلو اس کا مدعا نکلا
میں ہی کچھ مجرمِ وفا نکلا
رت جگا گرمیوں کی راتوں کا
کتنی صدیوں کا سلسلہ نکلا
قلعۂ چشم سے پھر آخر شب
جلتی شمعوں کا قافلہ نکلا
آج دیکھا تو دیدہ و دل میں
ایک لمحے کا فاصلہ نکلا
محورِ بازگشت سے باہر
جو بھی نکلا ۔ وہ بے نوا نکلا
یاد بھی کچھ دبی دبی آئی
چاند بھی کچھ بجھا بجھا نکلا
1975ء
 

الف عین

لائبریرین
صلہ ملا تو نہیں کچھ مجھے وفا کر کے
مگر میں خوش ہوں یہی جرم بارہا کر کے
سوا مسیحا کسی کو بھی جاں سپرد نہ کی
میں مطمئن ہوں بہت فرض یہ ادا کر کے
کبھی بُجھی ہوئی آنکھوں میں نور تو مانگوں
کبھی تو دیکھوں درِ شب یہ بھی صدا کر کے
تمام چشم کو گلزارِ زخم کر دوں گا
مہیب رات کے لشکر کا سامنا کر کے
خدا کرے کہ سلامت ہوں ریت پر وہ نقوش
ہوا تھی تیز مگر دیکھ لوں دعا کر کے

1975ء
 

الف عین

لائبریرین
فضا ہمیشہ نئے رنگ سے سنورتی ہے
ہر ایک صبح فلک سے نئی اترتی ہے
مرے لیے نہ کبھی خود کو تو تماشہ بنا
تری ہنسی مجھے بے حد اداس کرتی ہے
یہ وہ مقام ہے گریہ بھی جب نہیں ہوتا
یہیں کہیں یہ ندی ریت میں اترتی ہے
جہاں دریچوں میں گل انتظار کھلتے ہوں
وہاں ہوا بھی دبے پاؤں سے گزرتی ہے
کبھی چبھن ہی چبھن ، اور تمام رنگ کبھی
یہ رات ، شیشہ نُما، مجھ میں یوں بکھرتی ہے
سنور سنور کے اُجڑتے ہیں اس کے باشندے
اجڑ اجڑ کے یہ بستی مگر سنورتی ہے

1976ء
 

الف عین

لائبریرین
کیا قہر ہے برسوں جو مرے ساتھ رہا بھی
اب اس سے نہیں رشتۂ تسلیم و دعا بھی
کیا شعلہ، دھواں کیا، کہ نہیں راکھ بھی باقی
کیوں ڈرتی ہے ہم سوختہ جانوں سے ہوا بھی
اک آخری پل ٹوٹتے رشتے کے لیے روئیں
مانا کہ حریفانہ سہی ، سامنے آ بھی
خود اپنے ہی بجھتے ہوئے شعلے کو جو بھڑکاؤں
اب میرے ہی دامن میں نہیں ایسی ہوا بھی
پھر ٹوٹ کے رویا، یہ مجھے علم تھا ورنہ
ہر فصلِ خزاں شاخ سے ہونا ہے جدا بھی
........................

1976ء
 

الف عین

لائبریرین
جب جب بھی اس بستی میں ہم گیت سنانے آ جاتے ہیں
گلی گلی سے نکل نکل کر یار پرانے آ جاتے ہیں
شہرِ قاتلاں کی تہذیب میں جاں بخشی دستور نہیں
جانے ہیں، پر اپنا کیا ، بس رسم نبھانے آ جاتے ہیں
فرض ہی جب ٹھہرا تو پھر ہم یہ کیا دیکھیں کیا مورت ہے
شام ڈھلی اور ہم مندر میں دیپ جلانے آ جاتے ہیں
چاند سنور کر تو جب اس کے چہرے جیسا بن جاتا ہے
کتنے فسانے یاد اس رات میں تیرے بہانے آ جاتے ہیں
آؤ عبیدؔ جی! تم بھی ٹک کچھ بول لو، ہنس لو اس محفل میں
جتنے ہیں ہاں سبھی کسی نہ کسی کو بھلانے آ جاتے ہیں


1976ء
 

الف عین

لائبریرین
ہم تو ہیں گو قیس ابی عامر نہیں، لیلیٰ نہیں
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ نہیں
شعر کہنا بھی ستم ہے اور نہ کہنا بھی محال
کیا مصیبت ہے خود اپنے غم کا اندازہ نہیں
صبح مشرق میں کہاں لڑتی ہے کرنوں کی سپاہ
پردۂ شب کے پرے جا کر کبھی دیکھا نہیں
جانے یہ کیسا افق ہے، جانے کیسا آسماں
ایسا بادل چھا گیا جو آج تک برسا نہیں
ایسے ہنس کر پیار سے اس نے خدا حافظ کہا
جی بہت چاہا تھا رونے کا، مگر رویا نہیں

1976ء
 

الف عین

لائبریرین
سینت کر رکھ لیں، تو جانیں کہ ہُنر اپنا ہے
بس یہی وقت کہ ۔۔۔ جو ثانیہ بھر اپنا ہے
اک شرر سے جو جلا، دشت وہی تھا اپنا
اب جو یہ دشت جلا ہے، تو شرر اپنا ہے
صرف اک کاسۂ جاں ہے سو ہے وہ بھی خالی
بس یہی باقیہ سامان سفر اپنا ہے
اس سے کیا رات کو بے خواب رہیں گی آنکھیں
ہم تو بس جانتے ہیں، خوابِ سحر اپنا ہے
ہاتھ خالی ہیں ہمارے سبھی ہتھیاروں کے بیچ
قافلے والوں کو کیا کہیے کہ ڈر اپنا ہے
کوئی نقشہ ہے نہ کچھ سمت نما ساتھ اپنے
اب جو نکلے تو یہ انداز سفر اپنا ہے

1976ء
 

الف عین

لائبریرین
ان سوختہ آنکھوں میں کیا ہے کہ درخشاں ہے
کچھ کہتے ہیں آنسو ہے، کچھ کہتے ہیں ارماں ہے
ہر روز ہی آنکھوں میں بے خوابی کی ہولی ہے
ہر رات ہے دیوالی ہر رات چراغاں ہے
میں نے تو سبھی فصلیں کھلیانوں میں رکھ دی تھیں
لیکن یہ نہالِ غم صرصر میں بھی رقصاں ہے
جیسے کھنے جنگل میں جگنوؤں کا ڈیرہ ہو
اس طرح کچھ آنکھوں میں اشکوں سے چراغاں ہے
کچھ اس کے بھی ہونٹوں پر اب تک ہے مہک باقی
کچھ اب بھی مرے لب پر اک شمع روزاں ہے
جس زاویے سے دیکھو کچھ اور ہی لگتا ہے
اس کا بھی بدن کیا ہے، اک بھول بھلیاں ہے

1976ء
 

الف عین

لائبریرین
کہاں وہ ہم کہ رہے کیسے شعلہ جاں اب تک
بُجھے بھی ایسے، فضاؤں میں ہے دھواں اب تک
ہوا چلی تو بہت دور تک بکھیر گئی
وہ بوئے راز تھی اک پھول میں نہاں اب تک
ہزار دن میں لہو رو کرے۔ پہ شب، تارے
ہمارے سر پہ سجاتا ہے آسماں اب تک
عجب ہے عشق کا سودا دکانِ دنیا میں
دیا تھا سود جو جاں کا، تو ہے زباں اب تک
کنواں بھی سوکھ گیا ، چُپ ہوئے گھڑے بھی مگر
کبھی اندھیرے میں بجتی ہیں چوڑباں اب تک

1976ء
 

الف عین

لائبریرین
رنگ و بو کی فضائیں کیا کیا ہیں
زخمِ دل کی قبائیں کیا کیا ہیں
کچھ برستا نہیں مگر دل پر
ابر کیا کیا گھٹائیں کیا کیا ہیں
کھُل گئیں کیسی کیسی دستاریں
سر سے اتری رِدائیں کیا کیا ہیں
کس کا آنگن چمن بنا ہوگا
اس کی رنگیں قبائیں کیا کیا ہیں
ہم ہی شہرِ وفا میں بیں کہ یہاں
خوف کیا کیا، بلائیں کیا کیا ہیں
دل کو خوں کر کے شعر کہئے عبیدؔ
عاشقی کی سزائیں کیا کیا ہیں

1976ء
 

الف عین

لائبریرین
سیم و زر رکھئے، بہت لعل و جواہر رکھئے
رکھئے رکھئے مرے دیواں کے برابر رکھئے
یوں نہ ہو وقت جو پڑجائے تو خالی نکلے
اپنی آنکھوں کے خزانے کو بچا کر رکھئے
پھول مرجھانے پہ خوشبو نہیں دیتے صاحب
اپنے بالوں میں مرے ہونٹ سجا کر رکھئے
شعر کہنے کو سلگنا ہی نہیں ہے کافی
آنکھ میں جھیل، تو سینے میں سمندر رکھئے
دل وہ اوسر ہے یہاں زخموں کی کھیتی کے لیے
آنسوؤں سے اسے ہر لمحہ بھگو کر رکھئے
ایک دیوانہ پھرے ہے کہ جسے عشق کہیں
رات بے رات قدم گھر سے نہ باہر رکھئے

1976ء
 

الف عین

لائبریرین
کیا نسیم سحر ہے، صرصر کیا
علم کچھ بھی نہیں ہے باہر کیا
سرحدیں کچھ نہیں ہیں ان کے لیے
بارشوں کو گلی بھی کیا، گھر کیا
پیاس پر اختیار اب نہ رہا
ابر کیا، ریت کیا، سمندر کیا
یہ ہوائیں اڑا کے لائی ہیں
دشت کی آگ میرے اندر کیا؟
خوشبوئیں پھِر رہی ہیں آوارہ
شہر کیا، جنگلوں کے منظر کیا
اپنے نیزے پہ باندھ لوں رومال
اس طرف آئے گا یہ لشکر کیا ؟
سارے موسم کو چپ لگی ہے عبیدؔ
کوئی آئے گا اب مرے گھر کیا

1976ء
 

الف عین

لائبریرین
فصل آئی، زخم پھر تازے لگے
ہر طرف خوشبو اڑی، غازے لگے
کیا میں بھرّائے گلے سے بولتا
ہاں مرے چہرے سے اندازے لگے
رات بھر کوئی نہیں آیا یہاں
صبح ہوتے گھر کے دروازے لگے
میں تو ایسا عشق میں گم بھی نہ تھا
جانے پھر کیوں مجھ پر آوازے لگے
بزم میں آیا تو تھے کیا کیا گماں
اب اٹھا بھی ہوں تو اندازے لگے
1976ء
 

الف عین

لائبریرین
بچھڑنے کو اک اور ہار آگیا ہے پھر کوئی
لو ہم سے خوش مزاج کو رلا گیا ہے پھر کوئی
غبار در غبار میری رہگزارِ چشم سے
یہ کن گئے دنوں کا قافلہ گیا ہے پھر کوئی
عجب اداس تھی فضا ، عجب ملول ہم بھی تھے
اور ایسی دھندلی شام یاد آگیا ہے پھر کوئی
نہ آنے دے گا دھوپ ہی، نہ خود ہی کھُل کے برسے گا
ہماری آنکھوں میں اک ابر چھا گیا ہے پھر کوئی
یہ کیا غبار ہے کہ جس نے تجھ کو بھی چھپا لیا
کہ میرے تیرے درمیان آ گیا ہے پھر کوئی
نکل کے دیکھا دیر تک ۔ تو دور تک کوئی نہ تھا
یہ شاخِ خواب جانے کیوں ہلا گیا ہے پھر کوئی

1976ء
 
Top