ٹکرائے مجھ سے ابر تو پانی برس گیا
جیسے کہ ساری دھرتی پر کہسار میں ہی تھا
اندھی سیاہ رات میں دیکھا تھا ایک خواب
وہ خواب کاش جاگتی آنکھوں سے دیکھتا
جذبات نرم گیتوں کے زینوں پر چڑھ گئے
میں بیٹھے بیٹھے کرنوں میں جیسے نہا گیا
گھر میں بکھر گئی تھی کھنکھتی ہوئی ہنسی
کمرے میں جیسے پیار کا بادل برس گیا
آنکھوں کی روشنی سے تھی کمرے میں روشنی
باتوں کی گھنٹیوں سے ترنُّم بکھر گیا
چپکے سے ایک نام سا دہرایا ذہن نے
وہ نام ہر کتاب پہ لکھا ہوا ملا
1968ء