تجلیات از حافظ مظہر الدین مظہر

الف نظامی

لائبریرین
میں بے نوا عجمی ، شاہِ انبیا عربی
کرشمہ ساز ہے اے عشق تیری بے سببی

ازل سے فطرتِ بوجہل و ذوقِ بولہبی
ہے ناشناسِ مقامِ محمدِ عربی

ہے رشکِ کوثر و تسنیم تیری ایک نظر
ترے کرم کی ہے محتاج میری تشنہ لبی

بس اک تجلی ء دیوانه ساز و بنده نواز
بس ایک جلوه ء رنگین به خاکِ تیره شبی

ادب ادب نگہِ شوق! یہ مدینہ ہے
یہاں نظر کی بھی آوارگی ہے بے ادبی

جہاں میں عام ہے فیضان میرے ساقی کا
حبش کا جامِ سیہ ہو کہ شیشہ ء حلبی

حضور ہی کی نوازش ہے میرا کربِ مُدام
حضور ہی کی عطا ہے مری سکوں طلبی

مری نگاہ میں وہ رشک طور و ایمن ہے
وہ دل کہ جس میں ہے عشقِ نبی کی آگ دبی

یہی جہاں میں ہے پہچان مردِ مومن کی
زبان پر زمزمه ء حمد ، لب پر نعتِ نبی

زہے نصیب کہ روزِ ازل سے ہوں مظہر
غلامِ سیدِ لولاک ، بنده ء عربی​
 

الف نظامی

لائبریرین
مولی کی رحمتوں کا خزینہ نظر میں ہے
تقل علی کہ شہر مدینہ نظر میں ہے

طوفاں نظر میں ہے نہ سفینہ نظر میں ہے
تیرا کرم ہی شاہ مدینہ نظر میں ہے

اب بام و در ہیں شہر نبی کے نگاہ میں
طیبہ کا ایک ایک قرینہ نظر میں ہے

دیکھے کوئی حضور کی بندہ نوازیاں
مجھ سا ذلیل، مجھ سا کمینہ نظر میں ہے

حُسنِ ازل ، فروغِ ابد دیکھتا ہوں میں
رنگینی ء جمالِ مدینہ نظر میں ہے


یا رب ! نواز دولت سوز و گداز سے
بوذر کا دل، بلال کا سینہ نظر میں ہے

بنتِ رسول ! تیری غذا یا د ہے مجھے
نانِ شعیر و نانِ شبینہ نظر میں ہے

جس میں عرب کا مہرِ مبیں جلوہ گر ہوا
صدیوں کے بعد بھی وہ مہینہ نظر میں ہے

اب میری چشمِ شوق پہنچتی ہے عرش تک
معراج جانے والے کا زینہ نظر میں ہے

بنده نواز ! بندہ نوازی سے کام لے
بنده نوازیوں کا قرینہ نظر میں ہے

دل کیا ہے ؟ ایک مخزنِ اسرارِ مصطفیٰ
یہ گنجِ معرفت، یہ خزینہ نظر میں ہے

مظہر تصورات کی دنیا ہے عطر بیز
محبوبِ کبریا کا پسینہ نظر میں ہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
ندیم ! آج مدینے کی گفتگو ہو جائے
ہو آنکھ اشک فشاں ، دل لہو لہو ہو جائے

ارادہ ہے کہ مدینے پہنچ کے نعت پڑھوں
دل و نگاہ کی تقدیس باوُضو ہو جائے

مرے لئے ہے جہنم کہ خلد داورِ حشر؟
جو آج ہونا ہے وہ اُن کے روبرو ہو جائے

فسانہ ہجر کا پیشِ حضور اشک کہیں
زباں خموش ہو اور شرحِ آرزو ہو جائے

محال ہے کہ مزوِّز! نبی کا دیوانہ
مدینہ سامنے ہو اور قبلہ رو ہو جائے

حرم کے خاک نشینوں کی بھی بلائیں لیں
سگانِ طیبہ سے بھی دل کی گفتگو ہو جائے

یہی ہے اب تو تمنا کریم ابنِ کریم
کہ دل سے محو ، یہ دنیائے کاخ و کو ہو جائے

عطا ہو تیرے ثناخواں کو ایسی سرمستی
کہ مست میری نواوں سے چار سو ہو جائے

زوال فکر و نظر ہے خرد کی بے کیفی
جنونِ عشق نوا سنج کو بہ کو ہو جائے

مرے سبوچہ و ساغر میں مستیاں بھر دے
امینِ کیف مرا جام اور سبو ہو جائے

گناہگار کو مطلوب ہے اگر رحمت
گناہگار خجل اُن کے روبرو ہو جائے

مقامِ بدر ہے ، یہ احد کی منزل ہے
اِدھر بھی آو کہ تھوڑی سی ہاوہو ہو جائے

یہ غارِ ثور کے جلوے ہیں ، یہ حرا کا مقام
یہاں بھی دیدہ ء نم ناک باوُضو ہو جائے

صفا و مروہ کے میداں میں اِس طرح دوڑیں
کہ عشق غلغلہ انداز چار سو ہو جائے

عجیب شانِ خدا جنت البقیع میں ہے
یہاں بھی آ کے مرا عشق سرخ رو ہو جائے

حریم حق میں تو لبیک کی صدائیں تھیں
یہ ہے مدینہ ، یہاں ختم گفتگو ہو جائے

کرم ہو اُن کا تو بھر جائے دامنِ مظہر
نظر کریں تو ہر اِک چاکِ دل رفو ہو جائے​
 

الف نظامی

لائبریرین
ز ہوائے اُو نسیما ! دلِ غنچہ را کشودے
بہ رساں بہ اُو سلامے بہ رساں بہ اُو درودے

اگر آں کرم نمائے نہ بہ من کرم نمودے
دلِ درد آشنائے بہ کنارِ من نہ بودے

زہے عابدے کہ خواند بہ حریمِ اُو نمازے
زہے ساجدے کہ ریزد بہ زمینِ اُو سجودے

ز سوادِ زلفِ شاہے رخِ شام رنگ گیرد
ز فروغِ عارضِ اُو رخِ صبح را نمودے

ز گروہِ شہر یاراں چہ کشودِ کار جویم؟
شہِ مرسلاں ! بخواہم ز نگاہِ تو کشودے

دلِ ذرہ ذرہ دارد ز خرامِ اُو نشانے
اے جبینِ شوق آور! بہ دیارِ اُو سجودے

دلِ عرشیاں گدازم ، دلِ فرشیاں بہ سوزم
بنواز زاں نوائے ، بنواز زاں سرودے

پئی من شدہ است مظہر ز ازل پناہ گاہے
حَرمِ جمالِ پاکے ، درِ سیدُ الوجودے

 

الف نظامی

لائبریرین

ابو تراب
ازل کی مستی ء رقصاں ابد کا کیف و سرور
ظہورِ سرِّ ولایت، نمودِ عشقِ غیور

تلاطمِ یم ہستی، تموّج انوار
عرب مطلعِ رنگیں پہ زمزموں کی پھوار

جلالِ چہره یزداں، جمال روئے رسول
فروغ صبح تجلی، سکونِ قلب ملول

قسیمِ کوثر و تسنیم کی ادائے جمیل
حریمِ قدس کا محرم نبی کے گھر کا کفیل

نگاہدارِ نبوت، عالی کش ایام
بہ رزم قہر الہی، بہ بزم لطفِ تمام

بدوش خواجہ ولایت کا منتہائے کمال
زمانہ لا نہ سکے گا کبھی علی کی مثال

علی کے نور سے مردانِ حُر تجلی گیر
علی کا فقر ہے بدر و حنین کی توقیر

علی کا عزم ہے جزات فزائے اہلِ حرم
علی نصیر و علی ناصر و علی محکم

علی کا زور ہے مرحب شکار و کفر شکن
علی کی ضرب سے خیبر کے معرکے کی پھبن

علی ہے معنی ء ام الکتاب و نفسِ رسول
علی لطیف ، علی حسنِ علت و معلول

علی ہے مظہر تقویمِ جملہ موجودات
علی ہے نورِ الہی ، علی ہے پرتوِ ذات

علی شہید و علی شاہد و علی مشہود
علی وجود و علی واجد و علی موجود

علی علیم و علی عالم و علی معلوم
علی قسیم و علی قاسم و علی مقسوم

علی خبیر و علی مخبر و علی ہے خبر
علی نظیر و علی ناظر و علی ہے نظر

علی حسین و علی احسن و علی ہے حسن
علی خزینہ علی خازِن و علی مخزن

ہر اِک ادا میں ہیں سو جلوے ماہتابی کے
نثار ، دیدہ و دل شانِ بُو ترابی کے​
 

الف نظامی

لائبریرین
امام حسین علیہ السلام

اُٹھا نگاہ میں اِک عزمِ بے پناہ لئے
ستارہ صبح کا تنویرِ مہر و ماہ لئے

عذار طلعتِ رخشاں ، جبیں گلابی تھی
پیمبرانہ ادا ، شانِ بُو ترابی تھی

نبی کی آل کو ہمراہ لے کے نکلا تھا
فروغِ جلوہ گہِ ماہ لے کے نکلا تھا

اُٹھا تو عظمتِ کونین جھوم جھوم گئی
نظر فرینی دارین جھوم جھوم گئی

سلام دشتِ مصیبت میں آنیوالے پر
خدا کی راہ میں سب کچھ لُٹانے والے پر

وہ جس نے رسم و رہِ عشق کی بنا ڈالی
بنائے قصرِ شہنشاہیت ہلا ڈالی

بلند مرتبہ ء لا الہ جس نے کیا
یزید و شمر کا لشکر تباہ جس نے کیا

میانِ کرب و بلا خاک و خون میں تڑپا
وہ جس نے عشق کو اِک تازہ ولولہ بخشا

وہ سروِ ناز تھا بھوکا بھی اور پیاسا بھا
رسولِ پاک کا محبوب بھی نواسا بھی

تمام جسم بھی زخمی تھا اور سینہ بھی
لُٹا چکا تھا بھرے گھر میں کا سب خزینہ بھی

مگر اطاعت شمر و یزید کی نہ قبول
مرا سلامِ محبت ، ریاض دہر کے پھول
 
Top