تبلیغ کا طریقہ بہتر کرو اور اختیاط سے کام لو

بلال

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایک زمانہ تھا جب ہاتھ سے کتابت کی جاتی تھی۔ کوئی پریس نہیں تھا۔ تحریری اشاعت و تبلیغ کا کام بہت کم ہوتا تھا۔ جو بھی مذہبی کتاب لکھی جاتی اُس کی اشاعت بھی بہت بڑا مسئلہ ہوتا تھا۔ جو لوگ واعظ و نصیحت کرتے وہ بھی پہلے سالہ سال دینی تعلیم حاصل کرتے پھر کہیں جا کر وہ اس قابل ہوتے کہ واعظ و نصیحت کرتے۔ وقت گزرتا گیا، جدید ٹیکنالوجی آئی اور آج کے دور میں کوئی اچھی کتاب لکھنا تو مشکل ہے لیکن اشاعت کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ جگہ جگہ پریس اور کمپیوٹر کتابت دستیاب ہے۔ اشاعت کا کام آسان ہونے سے ہر خاص و عام کو آسانی ہوئی ہے۔ جہاں آسانی ہوئی وہاں ہی کچھ غیر ذمہ دار لوگوں نے فائدہ اُٹھایا اور عوام الناس کے لئے ایک اور مسئلہ پیدا کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بہت سی باتیں اپنی اصل سے بہت دور اور کچھ تو من گھڑت ہیں۔ یہ سارا کام غیر ذمہ دار لوگوں کے ایک خاص طبقے کا ہر وہ بندہ جس کا کتاب لکھنے کو دل کرتا ہے کر رہا ہے جو کوئی بات، دینی مسئلہ یا تحریر اِدھر اُدھر سے سنتا یا کسی کتاب میں پڑھتا ہے اور بغیر تحقیق کے سب کو ملا کر لکھ دیتا ہے اور ایک کتاب بنا ڈالتا ہے جس کو اپنے نام کی شہرت کی خاطر شائع کر دیتا ہے اور ایک خاص حلقہ احباب میں اپنا نام ظاہر کرا دیتا ہے۔ اس طرح چند چھوٹی تنظیموں، اداروں اور گروہوں نے بھی یہ کام کیا۔ اپنا نام لوگوں میں عام کرنے کے لئے جو دل میں آیا اسلام کے نام پر شائع کر دیا۔ اب ان سنی سنائی اور کسی چھوٹی موٹی کتاب میں پڑھی ہوئی باتوں، دینی مسائل اور تحریروں کو اپنی کتاب یا پرچوں میں بغیر تحقیق کے اپنے الفاظ میں اور بغیر مستند کتب کے حوالہ جات کے شائع کرنے سے عوام تک کچھ علم تو پہنچ گیا لیکن اپنے الفاظ اور بغیر مستند کتب کے حوالہ جات سے اس مواد کے اصل ہونے میں بھی شکوک و شہبات پیدا ہو گئے۔
آج کے اس جدید دور میں انٹرنیٹ اور موبائل فون جیسی ٹیکنالوجی عام ہونے سے ایک عام انسان کا بھی اشاعت و تبلیغ میں حصہ لینا آسان ہو گیا۔ ہر اچھے انسان کا دل کرتا ہے کہ وہ اشاعت و تبلیغ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ ایسے ہی کچھ لوگوں نے نیک نیتی سے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر ویب سائٹس، برقی پیغام (ای۔میل) اور موبائل پیغام (ایس۔ایم۔ایس) کے ذریعے دینی اشاعت و تبلیغ کا کام شروع کیا۔ اُن کی دیکھا دیکھی مزید لوگ بھی اس کام میں حصّہ لینا شروع ہو گئے لیکن اب ان نیک نیت لوگوں میں کچھ ایسے غیر ذمہ دار لوگ بھی شامل ہو چکے ہیں جو اِدھر اُدھر سے سنی سنائی باتیں، مختلف واعظ و نصیحت میں سنی تقاریر اور غیر مستند کتب سے پڑھی ہوئی باتیں اپنے الفاظ میں لکھ کر اور بغیر مستند کتب کے حوالہ جات کے دوسروں کو برقی پیغام اور موبائل پیغام بھیج رہے ہیں۔ پہلے پہل ان غیر ذمہ دار لوگوں کا گروہ اتنا فعال نہیں تھا لیکن اب انٹرنیٹ اور موبائل پیغام کے بہت زیادہ سستا ہو جانے اور عام انسان کی پہنچ میں آ جانے سے اس گروہ کے لئے آسانی ہوئی ہے اور بڑے عجیب عجیب پیغامات کو اسلام کا نام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسی باتیں ہیں جن کے ساتھ صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ یہ حدیث ہے جبکہ کسی مستند حدیث کی کتاب سے کوئی حوالہ نہیں دیتے۔ اسی طرح بعض باتوں کے ساتھ لکھا ہوتا ہے کہ یہ فلاں صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے جبکہ صرف صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نام ہوتا ہے ساتھ کسی کتاب کا حوالہ نہیں ہوتا۔
مجھے تو کئی بار ایسا لگتا ہے کہ اِن ساری باتوں کے پیچھے کچھ اسلام مخالف قوتیں ہیں جو ہر اِدھر اُدھر کی بات کو اسلام میں شامل کر کے اسلام کو کمزور کرنا چاہ رہی ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اسلام ایک ایسی سچائی ہے جو کسی بھی قوت سے جھٹلائی نہیں جاسکتی لیکن میں اس تحریر سے اپنے اُن مسلمان بھائیوں اور بہنوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں جو نادانستہ طور پر اس کام کو اسلامی سمجھ کر کر رہے ہیں یا کسی نہ کسی حوالے سے اس کام کا حصّہ بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہر ادھر ادھر کی بات کو اسلام کا نام نہ دیا جائے بلکہ جو بھی آیت، حدیث یا قول کسی دوسرے شخص کو کسی بھی ذریعہ سے پہنچایا جائے وہ مکمل تحقیق شدہ اپنے اصل متن کے ساتھ اور ساتھ میں مکمل حوالہ بھی موجود ہو تاکہ جب کوئی دوسرا شخص پڑھے تو اُسے بات میں وزن نظر آئے اور اگر وہ خود تحقیق کرنا چاہے تو حوالہ جات سے آسانی سے کر سکے۔ اس نفسا نفسی کے عالم میں کسی عام انسان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ کوئی اسلامی بات بغیر حوالہ جات کے سنے یا پڑھے تو پھر اُس بات کے حوالے تلاش کرتا رہے۔ اس لئے اگر آپ کوئی بات کسی کو بتا رہے ہیں یا کتاب یا کسی بھی میڈیا پر کوئی بات لکھ رہے ہیں تو ساتھ حوالہ ضرور دیں تاکہ تحقیق کرنے والے کے لئے آسانی ہو۔ ویسے بھی ایک پڑھا لکھا اور عقل مند انسان بغیر حوالے کے کسی بات کو تسلیم نہیں کرتا۔
اس تحریر کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ دینِ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا کام نہ کیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اشاعت و تبلیغ کا کام ضرور کیا جائے لیکن ذمہ داری کے ساتھ۔ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے کام کرنے والوں کی بہت فضیلت ہے یعنی نیکی کی ہدایت اور برائی سے منع کرنے والوں کو قرآن پاک نے بڑا درجہ دیا ہے جس کا ذکر سورۃ اٰل عمران آیت 104 اور 110، سورۃ توبہ آیت 71 اور سورۃ الحج آیت 41 میں آیا ہے۔
جہاں دین کی تبلیغ کا بڑا اجر ہے وہاں یہ بڑی ذمہ داری اور نہایت احسن طریقہ سے کرنے والا کام ہے۔ سورۃ النحل آیت 125 میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے "(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔" (ترجمہ طاہر القادری)
ہم سب کو چاہئے کہ دینِ اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہوئے یہ دھیان بھی رکھیں کہ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لئے جو بات یا کام ہم کر رہے ہیں وہ اسلام کے عین مطابق بھی ہے یا نہیں اور ہمارا طریقہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ ٹھوس دلائل اور حوالہ جات کا ضرور خیال رکھیں۔ ہر اِدھر اُدھر کی بات اور ہر سنی سنائی بات کی پہلے خود تحقیق کریں پھر دوسروں کو بتائیں۔ اگر کوئی اسلامی بات یا مسئلہ ہم کسی کو بغیر حوالہ کے اسلام کا نام لے کر کہہ دیتے ہیں اور اگر وہ اسلام کے مطابق نہ ہوئی تو یوں ہم نے جھوٹ کو اسلام کی طرف منسوب کر دیا۔ تو یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے۔
اسی بارے میں سورۃ نحل آیت 116 میں ارشادِ باری تعالٰی ہے " اور وہ جھوٹ مت کہا کرو جو تمہاری زبانیں بیان کرتی رہتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اس طرح کہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ (کبھی) فلاح نہیں پائیں گے" (ترجمہ طاہر القادری)۔
جب کسی بات یا پیغام میں ہم کسی مستند کتاب کا حوالہ نہیں دیتے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ بات ہم خود سے کہہ رہے یا لکھ رہے ہیں اور اس کی مکمل ذمہ داری ہم پر ہے۔ لیکن جب ہم کسی کتاب کا مستند حوالہ دے دیتے ہیں تو پھر ساری ذمہ داری اُس کتاب والے پر ہوتی ہے اور ہم صرف اُس بات یا پیغام کو دوسروں تک پہنچا رہے ہوتے ہیں۔
اس لئے اے امت مسلمہ دین کے معاملے میں اختیاط سے کام لیا کریں اور کوئی بات روایت کرنے سے پہلے تحقیق کر لیا کریں۔ ایک بار پھر میں اپنے اُن دوست احباب کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہوں جو آج کل تحقیق کے بغیر ہر سنی سنائی بات کو اسلام کا نام دے رہے ہیں۔ خاص طور پر اُن دوست احباب کو دعوتِ فکر دیتا ہوں جو برقی پیغام اور موبائل پیغام کے ذریعے یہ کام کر رہے ہیں یعنی کوئی بھی اسلام کے نام کا پیغام ملتا ہے اور اسے بغیر تحقیق کے اور بغیر حوالہ جات کے آگے دوسروں کو بھیج دیتے ہیں۔ اے امتِ مسلمہ نیکی کرو اور نیکی کی دعوت بھی دو لیکن دھیان رکھو جو بات آپ اسلام کے ساتھ منسوب کر رہے ہو وہ اسلام کے مطابق بھی ہے یا نہیں اور ساتھ حوالہ بھی موجود ہے یا نہیں۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو دینِ اسلام کی صحیح سمجھ عطا کرے اور سیدھے راستے ہر چلائے۔۔۔آمین۔۔۔
 
غور سے دیکھئے کہ آیا اسلام اللہ تعالی کا بنایا ہو مذہب ہے یا کسی انسان کا ؟ قرآن کا ہر لفظ منجانب اللہ ہے، اسی لئے جو شخص رسول اکرم کے فرمان کو جھٹلاتا ہے (نعوذ باللہ) وہ اللہ تعالی کے فرمان کو جھٹلاتا ہے ۔ رسول اکرم سے کوئی اضافی سنی سنائی اور غیر مستند بات منسوب کرنا ایک غیر مناسب عمل ہے، احترام نبوت اور اللہ کے حکم کی تعمیل یہی ہے ہے کہ مستند حوالے کے بناء کوئی بات نہ پھیلائی جائے۔ اس طرح کی کہی اور سنی ہوئی لوگوں کے ایمان کا حصہ بن جاتی ہے، اور وہ اس پر ایمان رکھنے لگتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ طبع شدہ کتاب کا حوالہ دیا جائے ، ایسی کتاب جس کو اصل مصنف ، رسول اکرم اور پھر قرآن تک ٹریس کیا جاسکے۔ خود سوچئیے کہ اگر اللہ تعالی تک کوئی بات ٹریس نہیں کی جاسکے تو پھر اس بات کی بنیاد کیا ہوئی؟
پھر سوچئے کہ اسلام اللہ تعالی کیا بنایا ہوا مذہب ہے، کسی ہولی کارپوریشن آف اسلام کا بنایا ہوا کاروباری مذہب نہیں۔

والسلام
 

بلال

محفلین
فاروق بھائی یہاں میں نے یہ تحریر قرآن یا حدیث کے بارے میں بحث کے لئے نہیں لکھی۔۔۔ میرے بھائی مقصد یہ ہے کہ آپ، میں یا کوئی بھی جو بھی بات کریں وہ مستند ہونی چاہئے یعنی کم از کم کسی مستند کتاب سے حوالہ ضرور ہونا چاہئے۔۔۔ اب یہ مستند کتاب کون کون سی ہے یہ الگ بحث ہے۔ لیکن عام طور پر قرآن پاک کے بعد زیادہ لوگ حدیث کی کتابوں کو بھی مستند مانتے ہیں۔۔۔ اگر آپ نہیں مانتے تو میرے بھائی اس بارے میں کسی اور دھاگہ پر بحث کر سکتے ہیں۔۔۔
میں تو عوام الناس میں ایک مسئلہ شدت پکڑ رہا تھا اس کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتا تھا تو یہ تحریر لکھ دی۔۔۔
اگر کسی کا دل دکھا ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں۔۔۔
 
جی بھائی میں ان کتب میں‌دی ہوئی صرف ان حدیثوں کو مانتا ہوں جو کہ قراں کی روشنی میں پوری اترتی ہیں اور تمام فرقوں‌کو قبول ہیں۔ جن احادیث پر فرقوں‌میں اختلافات ہیں یا وہ قرآن کے مخالف ہیں یا قرآں ان احادیث کو سپورٹ‌نہیں‌ کرتا ، بھائی ، ان سے دور دور رہتا ہوں۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری سمجھی کہ آُپ نے میرے بارے میں‌ اپنی رائے کا اظہار کیا۔ یہ بات ہم ایک الگ دھاگہ میں مکمل کرچکے ہیں۔

افسوس ان روایات پر ہے جو قران کے مخالف ہیں۔ فرقہ ان پر زبردست اختلاف رکھتے ہیں۔ جو رسول اکرم ، قرآن اور اللہ تعالی کی توہین سے بھرپور ہوں۔ چاہے وہ کسی بھی کتاب میں‌ ہوں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہماری کتب روایات ایسی روایات سے بھری پڑی ہیں ۔

اگر آپ یہ نکتہ بھی شامل کرلیں کہ کوئی حوالہ ، رسول اکرم، اللہ تعالی اور قرآن کے احکامات کے مخالف نہ ہو اور کسی حوالہ سے اللہ تعالی، رسول اکرم اور قرآن میں سے کسی کی بھی توہین کا کوئی پہلو نہ نکلتا ہو تو بہت ہی اچھا ہوگا۔
 
Top