تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں

برادرم ظہیر صاحب: آپ کی غزل دیکھی۔ ماشاء اللہ !بارہ اشعار کی یہ غزل کسی قدر طویل اور اسی قدر جامع تبصرہ کی متقاضی ہے۔ محفل شاید اس کی متحمل نہ ہو سکے ۔ مزید یہ کہ طوالت اور مضامین تبصرہ کا ممکنہ تنوع احباب سے جس توجہ اورصبر کی توقع رکھتا ہے وہ آج کل کے مصروف دَور میں کم لوگوں کو میسر ہے۔ اس لئے میں تبصرے کو دو اقساط میں پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ زیر نظر تحریر اس تبصرے کی پہلی قسط ہے ۔ دوسری بشرط زندگی و فرصت جلدہی حاضر خدمت کروں گا۔یہا ں صرف ایک نکتہ پر گفتگو کروں گا۔اس سلسلہ میں کچھ فروعات بھی آ سکتی ہیں ۔ انھیں برداشت یا نظر انداز کرنے کی گزارش ہے۔شکریہ۔ تمہید کے طورپر آپ کی غزل کا مطلع اور ایک شعر لکھ رہا ہوں : تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کا م آوے: !​
تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں
ہم لوگ محبت ہیں ،مروت کی ادا ہیں
ہم نطق محبت میں ہیں الفا ظ پذیرائی
ہم چشم اُخوت میں عنایت کی نگاہیں
اب آمدم بر سرِ مطلب!
اس غزل کی ردیف :ہیں: ہے اور :ادا، پتا، ضیا: وغیرہ قوافی ہیں۔متعدد احباب نے غزل کی ایک الجھن کا ذکر کیا ہے اور آپ سے اس کی وضاحت کی درخواست کی ہے یعنی :نگاہیں: کی :ہیں: اور مثلا :اَدا ہیں: کی :ہیں: کے تلفظ یاادائیگی میں جو نمایاں فرق ہے اس کے جواز سے متعلق بین السطور یہ پوچھا گیا ہے کہ : کیا ایسے قوافی قابل قبول ہیں؟ اگر ہیں تو کیوں ہیں اور ان کی اسناد کیا اساتذہ کے یہاں ملتی ہیں؟ اوراگر نہیں ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ : آپ نے تا دم تحریر اس سوال کا کوئی شافی جواب نہیں دیا ۔ ایک جگہ آپ نے اپنے جواب میں :نگاہیں: کے حوالے سے قافیہ ءمعمولہ کا ذکر اور وضاحت مع ایک مثال کے کی ہے جس سے
خلط مبحث تو یقینا ہوالیکن قارئین کی مذکورہ الجھن کا علاج نہ ہو سکا کیونکہ یہ قافیہء معمولہ کا مسئلہ نہیں ہے۔دوسری جگہ آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر روانی سے مصرع پڑھا جائے تو دونوں :ہیں: کے تلفظ کا فرق نا پید ہو جاتا ہے ۔ میرے تجربے میں تلفظ کا مبینہ فرق مصرع کوروانی سے پڑھنے سے نا پید نہیں ہوتاہے اور ہماری الجھن بد ستور قائم رہتی ہے۔ چونکہ :ہیں: غزل کی ردیف ہے اس لئے ہمیں قافیہ اور ردیف دونوں کو
بہ نظرغائر دیکھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ماہرین عروض نے اس ضمن میں بہت کوتاہی برتی ہے۔ علم عروض کی کتابوں میں بالعموم بحروں اور ان کی مزاحف شکلوں کی تفصیلات اور رموز بیان ہوتے ہیں لیکن قافیہ اور ردیف پر کما حقہ روشنی نہیں ڈالی جاتی۔کہیں کہیں قافیہ پر کچھ معلومات مل بھی جاتی ہے لیکن ردیف شاذو نادر ہی کسی مصنف کی توجہ اپنی جانب ملتفت کر پاتی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل میں ردیف کچھ بھی ہو سکتی ہے یہاں تک کہ اس کا بامعنی ہونا بھی ضروری نہیں ہے !مولوی نجم الغنی کی بیش بہا کتاب :بحر الفصاحت: میں قافیہ پر کافی معلومات ملتی ہے اور ردیف پر بھی انھوں نے مختصر روشنی ڈالی ہے جس کی تفصیل ہمارے سوال کے تناظر میں درج ذیل ہے:
بحر الفصاحت کی پہلی جلد میں ردیف کے بیان کے تحت دی گئی آپ کی مذکورہ قافیہ/ردیف سے مشابہ تین مثالیں مولوی نجم الغنی کے حاشیے کے ساتھ یہاں پیش کی جاتی ہیں۔ ان سے ہماری گتھی کا حل مل جاتا ہے۔ امید ہے کہ محفل کے احباب کی ان سے تشفی ہو جائے گی۔ انشا اللہ!
پہلی مثال میں مرزا محمد رفیع سودا کا یہ شعر درج ہے:
عاشق تو نا مراد ہیں بس اس قدر کہ ہم
دل کو گنوا کے بیٹھ رہے صبر کر کے ہم
پہلے مصرع میں :کہ: اور دوسرے مصرع میں :کے: کو ذہن میں رکھئے ۔ شعر میں :قدر: اور:کر: قوافی ہیں اور ان کے بعد کا دو لفظی ٹکڑہ ردیف ہےاور ظاہر ہے کہ غلط ہے۔ مولوی صاحب نے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اگرلفظ: اس قدر کہ ہم: کی کاف کو (کے)لکھیں تو یہ عیب نہ رہے گا مگر شعر بے معنی ہو جائے گا۔یعنی مولوی صاحب اس استعمال کو عیب تو مانتے ہیں لیکن اس کوشاید ضرورت شعری کے تحت جوں کا توں قبول بھی کرتے ہیں۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ مرزا سودا کے کسی ہم عصر استاد نے بھی اس شعر کو قافیہ/ردیف کے ایسے استعمال کی بنا پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا اور اسے رَد نہیں کیا ۔ یہی اس استعمال کا جواز ہے۔
دوسری مثال میں قلندر بخش جراءت کا یہ شعر لکھا ہے:
دیدہء حسن کو بھی دید کی ہوجس کے ہوس
ساق پا ہو یہ بلوریں کہ چلے اُس پہ ہوس
یہاں :کے: اور:پہ: کی صورت ہمارے مسئلہ کی آئینہ دار ہے۔ مولوی صاحب یہاں بھی لکھتے ہیں کہ اگر لفظ :اس پہ: کو: اس پے: لکھیں تو قافیہ کاعیب دور ہو جائے گا لیکن شعر بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔
تیسری مثال میں خواجہ میر درد کا یہ شعر دیکھئے جس کے دونوں مصرعے صرف قافیہ اور ردیف سے تشکیل پذیر ہوئے ہیں اور کوئی دوسرا لفظ ان میں شامل نہیں ہے ۔
اَے درد بہت تو نے ستایا ہم کو
بے درد بہت تو نے ستایا ہم کو
اس شعر میں :اَے، بے: قافیے ہیں اور بعد کا پورا حصہ:درد بہت تو نے ستایا ہم کو: ردیف ہے۔ پہلے مصرع میں لفظ درد شاعر موصوف کا تخلص ہے اور اسی حیثیت میں باندھا بھی گیا ہے۔:اَے: اور :بے:کے تلفظ کے فرق سے سب واقف ہیں۔ یہ فرق بالکل اسی نوعیت کا ہے جیسا آپ کے اوپر لکھے ہوئے اشعار میں مستعمل ہے۔ یہ شعر بھی اس عیب کے با وجود سب نے قبول کیا ہے اور کسی نے اس پر (میری معلومات کی حدتک )تنقید بھی نہیں کی ہے۔ گویا ضرورت شعری یہاں بھی مذکورہ استعمال الفاظ و تلفظ کا جواز بن گئی ہے۔ اس گفتگو کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔ آپ کئ غزل کے مذکورہ شعر میں :ادا ہیں: اور :نگاہیں: کا لفظ :ہیں: اپنےتلفظ کے فرق کی بنا پر شعر میں عیب ضرور پیدا کرتا ہے لیکن ضرورت شعری کے تقاضے اس فرق کو نظر انداز کرتے ہیں اور شعر جوں کا توں قبول کیا جا سکتا ہے۔
طے کر چکا ہوں راہِ محبت کے مرحلے
اس سے زیادہ حاجت شرح وبیاں نہیں
خاکسار: سرور راز سرور
 
اَے درد بہت تو نے ستایا ہم کو
بے درد بہت تو نے ستایا ہم کو
اس شعر میں :اَے، بے: قافیے ہیں اور بعد کا پورا حصہ:درد بہت تو نے ستایا ہم کو: ردیف ہے۔ پہلے مصرع میں لفظ درد شاعر موصوف کا تخلص ہے اور اسی حیثیت میں باندھا بھی گیا ہے۔:اَے: اور :بے:کے تلفظ کے فرق سے سب واقف ہیں۔ یہ فرق بالکل اسی نوعیت کا ہے جیسا آپ کے اوپر لکھے ہوئے اشعار میں مستعمل ہے۔ یہ شعر بھی اس عیب کے با وجود سب نے قبول کیا ہے اور کسی نے اس پر (میری معلومات کی حدتک )تنقید بھی نہیں کی ہے۔ گویا ضرورت شعری یہاں بھی مذکورہ استعمال الفاظ و تلفظ کا جواز بن گئی ہے۔ اس گفتگو کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔ آپ کئ غزل کے مذکورہ شعر میں :ادا ہیں: اور :نگاہیں: کا لفظ :ہیں: اپنےتلفظ کے فرق کی بنا پر شعر میں عیب ضرور پیدا کرتا ہے لیکن ضرورت شعری کے تقاضے اس فرق کو نظر انداز کرتے ہیں اور شعر جوں کا توں قبول کیا جا سکتا ہے۔
بہت شکریہ محترم، اس تفصیلی رہنمائی کے لیے۔

مبتدی کی حیثیت سے ایک سوال بہرحال اٹھ رہا ہے کہ آخر ضرورتِ شعری کی کیا حدود ہیں؟ ایک مبتدی شعر لکھتے وقت یہ کیسے طے کرے گا کہ کون سا عیب اور کس حد تک ضرورتِ شعری کے تحت روا رکھا جا سکتا ہے؟
جزاک اللہ خیر
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
برادرم ظہیر صاحب: آپ کی غزل دیکھی۔ ماشاء اللہ !بارہ اشعار کی یہ غزل کسی قدر طویل اور اسی قدر جامع تبصرہ کی متقاضی ہے۔ محفل شاید اس کی متحمل نہ ہو سکے ۔ مزید یہ کہ طوالت اور مضامین تبصرہ کا ممکنہ تنوع احباب سے جس توجہ اورصبر کی توقع رکھتا ہے وہ آج کل کے مصروف دَور میں کم لوگوں کو میسر ہے۔ اس لئے میں تبصرے کو دو اقساط میں پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ زیر نظر تحریر اس تبصرے کی پہلی قسط ہے ۔ دوسری بشرط زندگی و فرصت جلدہی حاضر خدمت کروں گا۔یہا ں صرف ایک نکتہ پر گفتگو کروں گا۔اس سلسلہ میں کچھ فروعات بھی آ سکتی ہیں ۔ انھیں برداشت یا نظر انداز کرنے کی گزارش ہے۔شکریہ۔ تمہید کے طورپر آپ کی غزل کا مطلع اور ایک شعر لکھ رہا ہوں : تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کا م آوے: !​
تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں
ہم لوگ محبت ہیں ،مروت کی ادا ہیں
ہم نطق محبت میں ہیں الفا ظ پذیرائی
ہم چشم اُخوت میں عنایت کی نگاہیں
اب آمدم بر سرِ مطلب!
اس غزل کی ردیف :ہیں: ہے اور :ادا، پتا، ضیا: وغیرہ قوافی ہیں۔متعدد احباب نے غزل کی ایک الجھن کا ذکر کیا ہے اور آپ سے اس کی وضاحت کی درخواست کی ہے یعنی :نگاہیں: کی :ہیں: اور مثلا :اَدا ہیں: کی :ہیں: کے تلفظ یاادائیگی میں جو نمایاں فرق ہے اس کے جواز سے متعلق بین السطور یہ پوچھا گیا ہے کہ : کیا ایسے قوافی قابل قبول ہیں؟ اگر ہیں تو کیوں ہیں اور ان کی اسناد کیا اساتذہ کے یہاں ملتی ہیں؟ اوراگر نہیں ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ : آپ نے تا دم تحریر اس سوال کا کوئی شافی جواب نہیں دیا ۔ ایک جگہ آپ نے اپنے جواب میں :نگاہیں: کے حوالے سے قافیہ ءمعمولہ کا ذکر اور وضاحت مع ایک مثال کے کی ہے جس سے
خلط مبحث تو یقینا ہوالیکن قارئین کی مذکورہ الجھن کا علاج نہ ہو سکا کیونکہ یہ قافیہء معمولہ کا مسئلہ نہیں ہے۔دوسری جگہ آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر روانی سے مصرع پڑھا جائے تو دونوں :ہیں: کے تلفظ کا فرق نا پید ہو جاتا ہے ۔ میرے تجربے میں تلفظ کا مبینہ فرق مصرع کوروانی سے پڑھنے سے نا پید نہیں ہوتاہے اور ہماری الجھن بد ستور قائم رہتی ہے۔ چونکہ :ہیں: غزل کی ردیف ہے اس لئے ہمیں قافیہ اور ردیف دونوں کو
بہ نظرغائر دیکھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ماہرین عروض نے اس ضمن میں بہت کوتاہی برتی ہے۔ علم عروض کی کتابوں میں بالعموم بحروں اور ان کی مزاحف شکلوں کی تفصیلات اور رموز بیان ہوتے ہیں لیکن قافیہ اور ردیف پر کما حقہ روشنی نہیں ڈالی جاتی۔کہیں کہیں قافیہ پر کچھ معلومات مل بھی جاتی ہے لیکن ردیف شاذو نادر ہی کسی مصنف کی توجہ اپنی جانب ملتفت کر پاتی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل میں ردیف کچھ بھی ہو سکتی ہے یہاں تک کہ اس کا بامعنی ہونا بھی ضروری نہیں ہے !مولوی نجم الغنی کی بیش بہا کتاب :بحر الفصاحت: میں قافیہ پر کافی معلومات ملتی ہے اور ردیف پر بھی انھوں نے مختصر روشنی ڈالی ہے جس کی تفصیل ہمارے سوال کے تناظر میں درج ذیل ہے:
بحر الفصاحت کی پہلی جلد میں ردیف کے بیان کے تحت دی گئی آپ کی مذکورہ قافیہ/ردیف سے مشابہ تین مثالیں مولوی نجم الغنی کے حاشیے کے ساتھ یہاں پیش کی جاتی ہیں۔ ان سے ہماری گتھی کا حل مل جاتا ہے۔ امید ہے کہ محفل کے احباب کی ان سے تشفی ہو جائے گی۔ انشا اللہ!
پہلی مثال میں مرزا محمد رفیع سودا کا یہ شعر درج ہے:
عاشق تو نا مراد ہیں بس اس قدر کہ ہم
دل کو گنوا کے بیٹھ رہے صبر کر کے ہم
پہلے مصرع میں :کہ: اور دوسرے مصرع میں :کے: کو ذہن میں رکھئے ۔ شعر میں :قدر: اور:کر: قوافی ہیں اور ان کے بعد کا دو لفظی ٹکڑہ ردیف ہےاور ظاہر ہے کہ غلط ہے۔ مولوی صاحب نے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اگرلفظ: اس قدر کہ ہم: کی کاف کو (کے)لکھیں تو یہ عیب نہ رہے گا مگر شعر بے معنی ہو جائے گا۔یعنی مولوی صاحب اس استعمال کو عیب تو مانتے ہیں لیکن اس کوشاید ضرورت شعری کے تحت جوں کا توں قبول بھی کرتے ہیں۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ مرزا سودا کے کسی ہم عصر استاد نے بھی اس شعر کو قافیہ/ردیف کے ایسے استعمال کی بنا پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا اور اسے رَد نہیں کیا ۔ یہی اس استعمال کا جواز ہے۔
دوسری مثال میں قلندر بخش جراءت کا یہ شعر لکھا ہے:
دیدہء حسن کو بھی دید کی ہوجس کے ہوس
ساق پا ہو یہ بلوریں کہ چلے اُس پہ ہوس
یہاں :کے: اور:پہ: کی صورت ہمارے مسئلہ کی آئینہ دار ہے۔ مولوی صاحب یہاں بھی لکھتے ہیں کہ اگر لفظ :اس پہ: کو: اس پے: لکھیں تو قافیہ کاعیب دور ہو جائے گا لیکن شعر بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔
تیسری مثال میں خواجہ میر درد کا یہ شعر دیکھئے جس کے دونوں مصرعے صرف قافیہ اور ردیف سے تشکیل پذیر ہوئے ہیں اور کوئی دوسرا لفظ ان میں شامل نہیں ہے ۔
اَے درد بہت تو نے ستایا ہم کو
بے درد بہت تو نے ستایا ہم کو
اس شعر میں :اَے، بے: قافیے ہیں اور بعد کا پورا حصہ:درد بہت تو نے ستایا ہم کو: ردیف ہے۔ پہلے مصرع میں لفظ درد شاعر موصوف کا تخلص ہے اور اسی حیثیت میں باندھا بھی گیا ہے۔:اَے: اور :بے:کے تلفظ کے فرق سے سب واقف ہیں۔ یہ فرق بالکل اسی نوعیت کا ہے جیسا آپ کے اوپر لکھے ہوئے اشعار میں مستعمل ہے۔ یہ شعر بھی اس عیب کے با وجود سب نے قبول کیا ہے اور کسی نے اس پر (میری معلومات کی حدتک )تنقید بھی نہیں کی ہے۔ گویا ضرورت شعری یہاں بھی مذکورہ استعمال الفاظ و تلفظ کا جواز بن گئی ہے۔ اس گفتگو کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔ آپ کئ غزل کے مذکورہ شعر میں :ادا ہیں: اور :نگاہیں: کا لفظ :ہیں: اپنےتلفظ کے فرق کی بنا پر شعر میں عیب ضرور پیدا کرتا ہے لیکن ضرورت شعری کے تقاضے اس فرق کو نظر انداز کرتے ہیں اور شعر جوں کا توں قبول کیا جا سکتا ہے۔
طے کر چکا ہوں راہِ محبت کے مرحلے
اس سے زیادہ حاجت شرح وبیاں نہیں
خاکسار: سرور راز سرور
مکرمی سروؔر صاحب! انتہائی مشکور و ممنون ہوں کہ آپ نے زیرِ بحث مسئلے پر یہ مختصر تحقیقی مضمون قلمبند کیا ۔ ردیف میں ملفوظی تغیر کے اس مسئلے پر اس دھاگے میں یہ گفتگو تقریباً چار سال پہلے ہوئی تھی۔ اُس وقت میں اس تغیر کی حمایت میں کچھ نظائر نہیں ڈھونڈ سکا تھا لیکن موقف میں نے بھی وہی اختیار کیا تھا کہ جو الحمدللہ آپ نے نظائر سے اب ثابت کیا۔ اس دھاگے کے مراسلہ نمبر ۲۵ میں اس کی تفصیل ہے۔

اردو کی جو خدمت آپ اپنے قلم سے کررہے ہیں اس کا اجر داد و تحسین سے تو ادا نہیں ہوگا لیکن آپ کا شکریہ ہم سب پر واجب ہے ۔ اللہ کریم آپ کا سایا سلامت رکھے۔ آپ کے وقت اور توانائی میں برکت عطا فرمائے ، صحت و تندرستی قائم رکھے ۔ اور ہمیں بہت دیر تک آپ کے علم و فضل سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
آپ کے تبصرے کی دوسری قسط کا انتظار رہے گا۔ اس کا پیشگی خیر مقدم اور شکریہ ادا کرتا ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہاں استاد کے استاد بھی موجود ہیں ماشاءاللہ ۔ :):):)
خواہرم ، آپ کی بات میں کسی شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ بے شک محترمی سروؔر عالم راز مجھ سمیت بے شمار لوگوں کے استاد رہے ہیں اور ان کی تحریروں سے اکتساب کا یہ فیض اب بھی جاری ہے۔ اللہ کریم ان کا فیض جاری و ساری رکھے۔
میں تو ہمیشہ ہی سب سے یہ کہتا آیا ہوں کہ اساتذہ تو محترم الف عین اور سروؔر عالم راز صاحبان جیسی اہلِ علم ہستیاں ہی ہیں کہ شعر و ادب جن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ میں اور مجھ جیسے تو کسی شمار قطار میں نہیں۔ اس محفل میں چراغ سے چراغ جلانے کی جو ایک رسم ہے میں بھی اس میں اپناحصہ ڈالتا رہتا ہوں اور بس۔ ورنہ من آنم کہ من دانم ۔ آپ تمام فراخ دل اور خوش نظر احباب کے حسنِ ظن اور محبتوں کا شکرگزار ہوں ۔
 

جاسمن

لائبریرین
جس نے ایک لفظ بھی سکھا دیا، وہ استاد ہے۔ آپ نے تو ہمیں بہت کچھ سکھایا اور سکھاتے رہتے ہیں ماشاءاللہ ۔ ہم تو آپ کو اپنا استاد ہی مانتے ہیں۔ :):):)
 
بہت شکریہ محترم، اس تفصیلی رہنمائی کے لیے۔

مبتدی کی حیثیت سے ایک سوال بہرحال اٹھ رہا ہے کہ آخر ضرورتِ شعری کی کیا حدود ہیں؟ ایک مبتدی شعر لکھتے وقت یہ کیسے طے کرے گا کہ کون سا عیب اور کس حد تک ضرورتِ شعری کے تحت روا رکھا جا سکتا ہے؟ض
جزاک اللہ خیر
مکرمی تابش صاحب: ضرورت شعری پر آپ کا سوال دلچسپ بھی ہے اور اتنا ہی ضروری بھی۔ مشکل جواب دینے میں پیش آتی ہے۔اُردو زبان وبیان و ادب کا ارتقا جس طرح ہوا وہ خود معجزہ سے کم نہیں۔ آپ کو علم ہوگا کہ اب تک اہل اردو یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ اُردو میں کتنے حروف تہجی ہیں! ہمارے یہاں کام ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہمارا تو کوئی ایسا ادارہ بھی نہیں جو شعرو ادب کو باضابطہ کر ے ، ادبی امور میں فیصلہ کن رائے دے اور ہم اس کی پیروی بھی کریں۔ جہاں تک مجھے علم ہے ضرورت شعری کی حدود اور اصول کا تعین کبھی نہیں کیا گیا اور شاید ہو بھی نہیں سکتا۔ہاں اساتذہ کے یہاں اس کی سیکڑوں مثالیں ضرورملتی ہیں لیکن اصول اور حد پرکوئی اظہار خیال نہیں کرتا۔ میں اپنے طور پرتحقیق کررہا ہوں۔کوئی نتیجہ بر آمد ہو ا تو آگاہ کروں گا۔ اس سلسلہ میں ایک لطیفہ سن لیں: گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی !
نئی دہلی کے ایک مشاعرے میں ایک مقامی شاعر اختر جہاں آبادی نے غزل پڑھی جس کی زمین تھی : ادا ہوا، وفا ہوا: ۔ موصوف نے ایک شعر سنایا جو یاد نہیں رہا لیکن اس میں :پاش پا : بطور قافیہ باندھا گیاتھا۔شعر میں عشق کے ہاتھوں دل کی بربادی کا ذکر تھا۔ کسی دل جلے نے آواز لگائی : اختر صاحب، یہ پاش پا کیا لفظ ہے؟: اختر صاحب نے فرمایا : یہ پاش پاش کا مخفف ہے۔ ہم شاعر ہیں اور ہمیں ضرورت شعری کے تحت ایسے اجتہاد کا حق ہے۔: اس کے جواب میں آواز آئی : اوہو ! تو آپ شعر میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عشق میں آپ کا دل :ٹکڑے ٹکڑ : ہو گیا ! اس کے بعد محفل کے قہقہوں میں اختر صاحب کی آواز پھر سنائی نہ دی!
ڑ

مبتدی کی حیثیت سے ایک سوال بہرحال اٹھ رہا ہے کہ آخر ضرورتِ شعری کی کیا حدود ہیں؟ ایک مبتدی شعر لکھتے وقت یہ کیسے طے کرے گا کہ کون سا عیب اور کس حد تک ضرورتِ شعری کے تحت روا رکھا جا سکتا ہے؟
جزاک اللہ خیر
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مکرمی تابش صاحب: ضرورت شعری پر آپ کا سوال دلچسپ بھی ہے اور اتنا ہی ضروری بھی۔ مشکل جواب دینے میں پیش آتی ہے۔اُردو زبان وبیان و ادب کا ارتقا جس طرح ہوا وہ خود معجزہ سے کم نہیں۔ آپ کو علم ہوگا کہ اب تک اہل اردو یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ اُردو میں کتنے حروف تہجی ہیں! ہمارے یہاں کام ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہمارا تو کوئی ایسا ادارہ بھی نہیں جو شعرو ادب کو باضابطہ کر ے ، ادبی امور میں فیصلہ کن رائے دے اور ہم اس کی پیروی بھی کریں۔ جہاں تک مجھے علم ہے ضرورت شعری کی حدود اور اصول کا تعین کبھی نہیں کیا گیا اور شاید ہو بھی نہیں سکتا۔ہاں اساتذہ کے یہاں اس کی سیکڑوں مثالیں ضرورملتی ہیں لیکن اصول اور حد پرکوئی اظہار خیال نہیں کرتا۔ میں اپنے طور پرتحقیق کررہا ہوں۔کوئی نتیجہ بر آمد ہو ا تو آگاہ کروں گا۔
اہلِ اردو کی موجودہ صورتحال اور ان کی ترجیحات کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ امر تقریباً ناممکنات میں سے ہے کہ پاک و ہند میں کوئی ایسا مقتدر ادارہ قائم ہوجائے جو متنازع ادبی امور پر فیصلہ کن رائے دے سکے ۔ اول تو ایسے کسی ادارے کا قیام امرِ محال ہے ۔ لیکن بالفرضِ محال اگر ایسا کوئی ادارہ بن بھی جائے تو پھر سب بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس ادارے کی سفارشات کو مانے گا کون؟ اہلِ اردو کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ زبان اور ادب کے معاملے میں بھی ہم بٹے ہوئے ہیں ۔ کوئی کسی کی ماننے پر تیار ہی نہیں ۔ معقول اور مدلل بات کو تسلیم کرنا شاید ہماری سرشت میں ہی نہیں ہے۔
اردو املا کمیٹی اور اس کی سفارشات کی ایک زندہ مثال ہمارے سامنے ہے ۔ متعدد اہلِ علم اور ماہرینِ لسانیات ایک زمانے سے اردو املا کے مسائل پر کام کرتے چلے آرہے تھے ۔ بالآخر املا کمیٹی کی شکل میں انتہائی قابل اور ذی علم حضرات کا ایک مجمع اکٹھا ہوا ۔ اس کمیٹی نے برسوں پر محیط طویل تحقیق اور غور و فکر کے بعد اپنی سفارشات پیش کیں تاکہ اردو املا کے تفرقات کو ختم کرکے ایک معیاری املا کو رائج کیا جاسکے ۔( کمپیوٹر کے دور میں ایک معیاری املا کی اہمیت کو ہم اور آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں ۔) ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سفارشات کو قبول کیا جاتا ، ہر سطح پر ان کی تعمیل کی جاتی ۔ تعلیمی ادارے اپنی نصابی کتب میں ان سفارشات کواپناتے ، صحافتی دنیا میں ان کی ترویج کی جاتی ، سرکاری سطح پر ان کی تشہیر و ترویج کی جاتی ۔ نئی لغات کی اشاعت میں ان کا خیال رکھا جاتا۔ ان سفارشات پر مبنی کمپیوٹر پرگرام ، اسپیل چیکر وغیرہ بنائے جاتے لیکن ایسا کچھ اب تک تونہیں ہوااور مستقبل قریب میں بھی اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ حد یہ ہے کہ اکثر لوگ ابھی تک اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ۔ ان کے سامنے املا کمیٹی کی سفارشات کا حوالہ رکھا جائے تو پھر بھی اپنی ہی رائے پر اڑے رہتے ہیں ۔ اس گرانقدر تحقیقی اور تعمیری کام کی یہ ناقدری! افسوس!
اردو املا کمیٹی کی مثال میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ اردو کی ترقی کے لیے ہمیں سرکاری سرپرستی یا کسی یونیورسٹی و غیرہ پر انحصارنہیں کرنا چاہیے ۔ اردو کی ترقی کا کوئی بھی کام اب صرف اور صرف وہ محبانِ اردو کرسکتے ہیں کہ جو اردو کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں اور اس کی ترویج و ترقی کے لیے اپنی انا کو قربان کرتے ہوئے ، نام و نمود کی پرواہ کیے بغیر سنجیدہ کام کرنے پر تیار ہیں ۔ ایسا کوئی کام ایک دو لوگ ہی شروع کرتے ہیں لیکن بعد میں قافلہ بنتا جاتا ہے ۔
میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ شعری ضرورت کی تعریف ، اس کی حدود و قیود اور اس کے ممکنہ اطلاق پر سنجیدگی سے کام شروع کیا جائے ۔ محترم سروؔر صاحب پہلے ہی کچھ تحقیق کررہے ہیں ۔ میں بھی اس پر کچھ کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ پھر انہی صفحات پر تبادلۂ خیال ہوتا رہے تو اچھا ہے ۔ اگراس مسئلے پر اچھا خاصا کام ہوجائے تو ان کی روشنی میں بعد ازاں کچھ سفارشات بھی وضع کی جاسکتی ہیں ۔اس اہم مسئلے کے حل کی طرف یہ ایک اچھا قدم ثابت ہوگا۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تواور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
قافیے کے بارے میں چند سال پہلے میں نے کچھ کام شروع کیا تھا اور اچھا خاصا تحقیقی مواد جمع کرلیا تھا۔ میں نے علمِ قافیہ کی تسہیل کے لیے اصطلاحات کے ایک متبادل نظام کی اختراع بھی کی ہے ۔ یہ مقالہ ابھی تک ادھورا ہے ۔ لیکن اب میری کوشش ہوگی کہ سنجیدگی سے اسے کچھ وقت دے کر مکمل کیا جائے اور یہاں شائع کیا جائے تاکہ اس پر سنجیدہ گفتگو ہوسکے۔ اللہ کریم مجھے توفیق عطا فرمائیں ۔
 
مکرم بندہ ظہیر صاحب: سلام علیکم
آپ کی غزل پر اپنے خیالات کی دوسری قسط پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ تبصرہ مختصررکھنے کی کوشش کروں گا کہ سبھی آج کل عدیم الفرصت ہیں۔آپ کی محبت ہے کہ آپ میری معروضات برداشت کر لیتے ہیں۔ گستاخی میں دانستہ نہیں کرتا لیکن انسان ہونے کے ناتے بعض اوقات سرزدہو جاتی ہے ۔ امید ہے خیال نہیں کریں گے۔ آپ کی غزل دس سال پرانی ہے اور شاید اسی وجہ سے مختلف نکات بحث طلب نظر آرہے ہیں۔پرانی تخلیقات پر بھی اشاعت سے پہلے دشمن کی نگاہ ڈال لینا اچھا ہوتا ہے۔ یہ کہنا شاید ضروری نہیں کہ میری کسی رائے سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اب آمدم بر سر مطلب!
(1)یہ غزل بحر ہزج مثمن کی ایک مزاحف شکل میں ہے جسے اصطلاحا :ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف :کہتے ہیں(اللہ اکبر، کیا خوفناک نام ہے!) ۔ مرزا غالب کی یہ غزل بھی اسی بحرمیں ہے:
تو دوست کسی کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
اس کی تفعیل یوں ہے : مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعولُن
یہاں غزل کا مطلع اور اس کی تقطیع بطور وضاحت درج کرتا ہوں ۔ مصرعوں کی کتابت اصول تقطیع کے عین مطابق نہیں بلکہ آسانی کے لئے :کام چلائو :رکھی ہے جس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔
تاریک ۔۔ دیاروں میں -- اُجالےکا-- پتہ ہیں
مفعولُ -- مفاعیل ُ -- مفاعیل ُ -- فعولن
ہم لوگ -- محبت ہیں -- مروت کی -- ادا ہیں
اب اس وضاحت کی روشنی میں اس شعرکو دیکھئے :
ہم نطق ِ محبت میں ہیں الفاظ ِ پذیرائی
ہم چشم اُخوت میں عنایت کی نگاہیں
اس شعرکی تقطیع درجِ ذیل ہے :
ہم نطق --محبت میں --ہیں الفاظِ --پزیرائی
مفعولُ --مفاعیلُ--مفاعیل ُ --مفاعیلُن
ہم چشمِ --محبت میں--عنایت کی --نگاہیں
مفعولُ--مفاعیلُ--مفاعیلُ --فعولُن
گویا اس شعر کے پہلے مصرع کا وزن :مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ مفاعیلُن: ہے۔ یہ اسی بحر کی دوسری شکل ہےجو : بحر مثمن اخرب مکفوف: کہلاتی ہے ۔ دوسرا مصرع البتہ غزل کی اصل بحر میں ہے۔یہ صورت حال ناقص ہے اور نا قابل قبول ہے ۔ آپ کو علم ہے کہ غزل کا ایک ہی بحر میں ہونا شرط لازم ہے۔ اس غلطی کی وجہ یہ ہے کہ لفظ :پزیرا: کا وزن : پ،زی، را = فعولن: ہے: جب کہ :پزیرائی: کا وزن :پ-زی-را-ئی =مفاعیلن: ہے۔ پزیرائی کی :ئی: پوری طرح ملفوظ ہوتی ہے اور اسی طرح ادا بھی ہوتی ہےیعنی :ئی: کی تخفیف نہیں ہوسکتی ۔ اگر آپ پہلے مصرع کو یوں لکھیں : ہم نطق محبت میں ہیں الفاظ پزیرا: تو وزن درست ہو جاتاہے لیکن مصرع مہمل اور بے معنی قرار پاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ نے شاید :پزیرائی: کی قراءت میں :ئی: کو ہمزہ کی طرح پڑھا ہے اور اس سے یہ غلطی پیدا ہو گئی۔ اس شعر کو دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے۔ اسے پھر دیکھ لیں اور اگر میں غلطی پر ہوں تو بتا دیں تاکہ اصلاح کر لوں۔ انشا اللہ۔
(2) اگر آپ اشعار پر نمبر ڈال لیں تو تبصرے میں آسانی ہو جائے گی ۔ شکریہ۔ کیا یہ غزل مسلسل ہے؟ پڑھنے میں ایسا ہی تاثر ملتا ہے لیکن ربط و تسلسل مضمون کے حوالے سے اس میں تردد ہے۔میرے ذہن و نظر نے اس میں زور زبان اورتنوع تو دیکھا لیکن بیان میں اس کی کمی محسوس ہوئی۔ گستاخی معاف لیکن غزل مجموعی طور پر سپاٹ اور کمزور ہے اور دل پر بہت کم اثر کرتی ہے ۔دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ تغزل پر کم توجہ نظرآتی ہے اور کئی جگہ قافیہ پیمائی کا رنگ نمایا ں ہے جس سے ممکنہ احتراز مستحسن ہے۔مثلا شعر نمبر 5 دیکھئے :
ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پر اُس کے
سینہ بھی کشادہ ہے تو بازو بھی یہ وا ہیں
آپ کس کے نام پر سب کو گلے لگا رہے ہیں؟ اور کیوں؟ اس کا کوئی اشارہ شعر میں نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شعر:وا: کا قافیہ نبھانے کی خاطر کہا گیا ہے، شعر ۔2 کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ :بجھتے ہوئے خاموش ستارے :کیا چیز ہیں؟ ستارے تو ہمیشہ ہی خاموش رہتے ہیں خواہ وہ چمکتے ہوں یا بجھ چکے ہوں ۔چنانچہ یہاں :خاموش ستارے: بے معنی اور غیر ضروری فقرہ ہے۔مودبانہ عرض ہے کہ متعدد اشعار کے مصرعوں میں باہمی ربط یا تو مشکوک ہے یا معدوم ۔ ا شعار 3،6،7،8 مثال کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے معانی دریافت کرنے کی فکر و کوشش کے باوجود گوہر مقصود ہاتھ نہیں آتا۔مثلا ٍ آگ سے چیز جھلس سکتی ہے اور دھوپ سے چیز تپتی ہے ۔ :جھلسے ہوئے منظر: میں: سائے: کا تصور کیا معنی رکھتا ہے ؟کیسا سایااور کیوں سایا؟ جھلسنے کے بعد آگ باقی نہیں رہتی ہے اور جھلسے ہوئے ماحول میں تمازت نہیں ہوتی تو اس میں سائے کی تلاش تحصیل لا حاصل کے مترادف ہے۔غزل میں قاری تغزل، شعریت، حسن بیان، اثر پزیری، سلاست و بلاغت کی تلاش و امید رکھتا ہے لیکن یہاں اس تلاش کا خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا ہے ۔
(3) غزل میں پر شکوہ الفاظ وبیان اور گنجلک تراکیب کا استعمال اس کی نمایاں خصوصیت ہیں۔مثال کے طور پر :دست محبت، علمدار مساوات، نطق محبت، الفاظ پذیرائی، تاریکیء شب تار، تاراج محبت ، دیوار روایت: وغیرہ دیکھی جا سکتی ہیں ۔ ان تراکیب کا سیاق و سباق ہمیشہ واضح نہیں ہے اور ان کا استعمال و بندش مزید توجہ کے متقاضی ہیں۔اس پر شکوہ زبان اور طرز بیان سے قاری مرعوب ہو سکتا ہے لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ ایسی تراکیب کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ غزل کی معنی آفرینی، شعریت اور تغزل مجروح ومتاثر ہو سکتے ہیں۔ زیادہ تفصیل ضروری نہیں معلوم ہوتی۔ اہل نظرخود ہی تفصیلات پر سوچ سکتے ہیں۔
(4) غزل بڑی ظالم صنف سخن ہے اور اچھی غزل کہنا ایک نہایت مشکل اورصبر آزما کام ہے۔ اردو کےہر دور میں لاکھوں شاعر وں نے داد غزل دی ہے لیکن عظمت فن کا تاج معدودے چند شعرا کے سر کی زینت بن سکا ہے۔ ساتھ ہی غزل اپنی فطرت میں نہایت فراخ دل بھی ہے ار ہر ایک کو گاہے گاہے اچھا شعر کہنےکی اجازت دیتی رہتی ہے۔ مجھ کو جس شعر نے سب سے زیادہ متاثر کیا اس کا ذکر ضروری ہے ۔ شعردرج ذیل ہے:
کھل جائے گا اک باب اثر دل میں تمھارے
مانگو تو سہی ہم کو، ہمی حرف دعا ہیں
کیا خوب کہا ہے۔ سبحان اللہ۔ کیا مضمو ن اور کیا حسن بیان، ہر طور یہ شعر دل میں سماجاتا ہے۔ دلی داد قبول کیجئے اور دعائے خیر میں یاد رکھئے۔ جزاک اللہ خیرا۔
با وجود کوشش کے تبصرہ کچھ طویل ہو گیا ہے جس کے لئے معذر ت خوا ہ ہوں اور اگر کوئی گستاخی کہیں سرزد ہوگئی ہے تو اس کی معافی کا بھی خواستگار ہوں۔شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را

خاکسار: سرور عالم راز
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
۔آپ کی محبت ہے کہ آپ میری معروضات برداشت کر لیتے ہیں۔ گستاخی میں دانستہ نہیں کرتا لیکن انسان ہونے کے ناتے بعض اوقات سرزدہو جاتی ہے ۔ امید ہے خیال نہیں کریں گے۔ آپ کی غزل دس سال پرانی ہے اور شاید اسی وجہ سے مختلف نکات بحث طلب نظر آرہے ہیں۔پرانی تخلیقات پر بھی اشاعت سے پہلے دشمن کی نگاہ ڈال لینا اچھا ہوتا ہے۔ یہ کہنا شاید ضروری نہیں کہ میری کسی رائے سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
محترمی و مکرمی سرور صاحب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
میں تہِ دل سے ممنون و مشکور ہوں کہ آپ نے دس سال پرانی اس غزل پر توجہ فرمائی اور دقتِ نظر سے کام لیتے ہوئے اس پر مفصل تبصرہ فرمایا۔ میرا ایمان ہے کہ مثبت اور تعمیری تنقید کسی بھی فن اور ہنر کے لیے روشنی کا کام دیتی ہے۔ بالخصوص شاعری کے معاملے میں نقد و نظر سے استفادہ کیے بغیر کسی شاعر کا پختگی اور کمالِ فن کے درجے تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ سو اس کے لیے میں آپ کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ آئندہ بھی اسی طرح نظرِ کرم سے کام لیں گے۔
محترمی سرور بھائی ، آپ نے اپنے تجزیے میں کچھ جگہوں پر خطا کھائی ہے۔ میں نہایت ادب کے ساتھ ذیل میں ان کی نشاندہی کرتا ہوں۔اشعار کا دفاع نہیں بلکہ اپنے نقطۂ نظر کا اظہار مقصود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شعر و ادب پر تنقیدی گفتگو ہمیشہ ہی باہمی استفادے کا باعث ہوتی ہے ، سوچ کےکئی دریچے اس سے وا ہوتے ہیں ،کئی سوالات اٹھتے ہیں اور جوابات کی تلاش باہمی سیکھنے سکھانے کا ایک ذریعہ بنتی ہے۔

(1)یہ غزل بحر ہزج مثمن کی ایک مزاحف شکل میں ہے جسے اصطلاحا :ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف :کہتے ہیں(اللہ اکبر، کیا خوفناک نام ہے!) ۔ مرزا غالب کی یہ غزل بھی اسی بحرمیں ہے:
تو دوست کسی کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
اس کی تفعیل یوں ہے : مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعولُن
یہاں غزل کا مطلع اور اس کی تقطیع بطور وضاحت درج کرتا ہوں ۔ مصرعوں کی کتابت اصول تقطیع کے عین مطابق نہیں بلکہ آسانی کے لئے :کام چلائو :رکھی ہے جس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔
تاریک ۔۔ دیاروں میں -- اُجالےکا-- پتہ ہیں
مفعولُ -- مفاعیل ُ -- مفاعیل ُ -- فعولن
ہم لوگ -- محبت ہیں -- مروت کی -- ادا ہیں
اب اس وضاحت کی روشنی میں اس شعرکو دیکھئے :
ہم نطق ِ محبت میں ہیں الفاظ ِ پذیرائی
ہم چشم اُخوت میں عنایت کی نگاہیں
اس شعرکی تقطیع درجِ ذیل ہے :
ہم نطق --محبت میں --ہیں الفاظِ --پزیرائی
مفعولُ --مفاعیلُ--مفاعیل ُ --مفاعیلُن
ہم چشمِ --محبت میں--عنایت کی --نگاہیں
مفعولُ--مفاعیلُ--مفاعیلُ --فعولُن
گویا اس شعر کے پہلے مصرع کا وزن :مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ مفاعیلُن: ہے۔ یہ اسی بحر کی دوسری شکل ہےجو : بحر مثمن اخرب مکفوف: کہلاتی ہے ۔ دوسرا مصرع البتہ غزل کی اصل بحر میں ہے۔یہ صورت حال ناقص ہے اور نا قابل قبول ہے ۔ آپ کو علم ہے کہ غزل کا ایک ہی بحر میں ہونا شرط لازم ہے۔ اس غلطی کی وجہ یہ ہے کہ لفظ :پزیرا: کا وزن : پ،زی، را = فعولن: ہے: جب کہ :پزیرائی: کا وزن :پ-زی-را-ئی =مفاعیلن: ہے۔ پزیرائی کی :ئی: پوری طرح ملفوظ ہوتی ہے اور اسی طرح ادا بھی ہوتی ہےیعنی :ئی: کی تخفیف نہیں ہوسکتی ۔ اگر آپ پہلے مصرع کو یوں لکھیں : ہم نطق محبت میں ہیں الفاظ پزیرا: تو وزن درست ہو جاتاہے لیکن مصرع مہمل اور بے معنی قرار پاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ نے شاید :پزیرائی: کی قراءت میں :ئی: کو ہمزہ کی طرح پڑھا ہے اور اس سے یہ غلطی پیدا ہو گئی۔ اس شعر کو دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے۔ اسے پھر دیکھ لیں اور اگر میں غلطی پر ہوں تو بتا دیں تاکہ اصلاح کر لوں۔ انشا اللہ۔​
شعر کا مصرعِ اول بالکل وزن میں ہے اور عروضی لحاظ سے درست ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ مصرع کے آخری رکن پر اذالہ یا تسبیغ کا زحاف لگایا جاسکتا ہے اور یہ زحافات عام ہیں یعنی کسی خاص بحر سے مخصوص نہیں ہیں ۔ (اگر چہ یہاں یہ لکھنے کی ضرورت تو نہیں کہ اذالہ یا تسبیغ کیا ہوتے ہیں لیکن جس طرح آپ نے اپنے تبصرے میں عام قارئین کی سہولت اور تعلیم کے لیے اصطلاحات کے ساتھ ساتھ آسان زبان میں ان کی تعریف اور تفصیل اور اشعار کی تقطیع بھی لکھی ہے اس لیے میں بھی آپ کے تتبع میں طوعاً و کرہاً یہی طریقہ اختیار کرتا ہوں ۔) اذالہ یا تسبیغ کا مطلب یہ کہ مصرع کے آخر میں ایک ساکن حرف کا اضافہ کیا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے سے وزن متاثر نہیں ہوتا۔ اردو شاعری میں یہ ایک بہت ہی مسلّم اور عام عروضی رویہ ہے ۔ ایک اور عروضی اجازت جو مسلّم اور مستند ہے وہ یہ کہ جب مصرع کے آخر میں "ؤ ، ئی ،ئے" میں سے کوئی مصوتہ آجائے تو اسے ایک ساکن حرف کے برابر تقطیع کیا جاسکتا ہے۔ اس کی سینکڑوں مثالیں اساتذہ کے ہاں موجود ہیں۔ اختصار کی خاطر ذیل میں چند مثالوں پر اکتفا کرتا ہوں ۔

میر تقی میؔر:
لے گیا صبح کے نزدیک مجھے خواب اے وائے
آنکھ اس وقت کھلی قافلہ جب دور گیا
(فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلان\ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعِلن)
تو نہ ہووے تو نظمِ کل اٹھ جائے
سچے ہیں شاعراں خدا ہے عشق
(فاعلاتن مفاعلن فعلان\فاعلاتن مفاعلن فعلان)
شیخ قلاش ہے جوئے میں نہ لاؤ
یاں ہمارا رہے ہے مال پڑا
(فاعلاتن مفاعلن فعلان\فاعلاتن مفاعلن فعِلن)
آؤ یادِ بتاں پہ بھول نہ جاؤ
یہ تغافل شعار ہوتے ہیں
(فاعلاتن مفاعلن فعِلان\فاعلاتن مفاعلن فعلن)

مرزا غالبؔ:
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
(فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلان\فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
(فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلان/فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلان)

میر دردؔ :
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جس قدر بس چل سکے ساغر چلے
(فاعلاتن فاعلاتن فاعلان\فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

اشعار کی قرات کرتے وقت ئی ، ؤ اور ئے کو پورا پڑھا جاتا ہے لیکن تقطیع کرتے وقت انہیں بطور ایک ساکن حرف لیا جاتا ہے۔ چنانچہ میرے مصرع میں پذیرائی کی تقطیع کرتے وقت "ئی" کو ایک ساکن حرف کے بطور لیا جائے گا ۔ اور یہ صورت عروضی طور پر درست ہے۔ اس کا وزن یہ ہوگا: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولان۔

مثلا ٍ آگ سے چیز جھلس سکتی ہے اور دھوپ سے چیز تپتی ہے ۔ :جھلسے ہوئے منظر: میں: سائے: کا تصور کیا معنی رکھتا ہے ؟کیسا سایااور کیوں سایا؟ جھلسنے کے بعد آگ باقی نہیں رہتی ہے اور جھلسے ہوئے ماحول میں تمازت نہیں ہوتی تو اس میں سائے کی تلاش تحصیل لا حاصل کے مترادف ہے۔
جھُلسے ہوئے منظر میں ہیں سائے کی نشانی
گرتی ہوئی دیوارِ روایت کا پتہ ہیں
سرور بھائی ، یہ شعر تو بالکل صاف اور سیدھا سا ہے ۔ آپ کو اس شعر کی تفہیم میں اس لیے مشکل ہورہی ہے کہ آپ جھلسنے کا بالکل لغوی مطلب لے رہے ہیں یعنی آگ سے جلنا۔ جبکہ شاعری میں اکثر سامنے کے لغوی مطلب سے زیادہ مفہوم سے کام لیا جاتا ہے۔ اس شعر میں دھوپ کی شدت دکھانا مقصود ہے اور اس شدت کو آگ سے تعبیر کرتے ہوئے تمام منظر یا ماحول کو جھلسا ہوا کہا گیا ہے۔(دیوار کا سایا دھوپ ہی میں بنتا ہے۔) جھلسنے کے اس مفہوم کا استعمال تو اردو شعر و نثر میں عام ہے۔ آپ گوگل یا ریختہ کے سرچ انجن پر تلاش کیجیے تو درجنوں مثالیں نظم و نثر سے مل جائیں گی۔ مثلاً اگر غم سے جھلسے ہوئے چہرے کہا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدانخواستہ چہرے آگ سے جھلس گئے ہیں بلکہ یہاں مبالغے سے کام لیتے ہوئے غم کی شدت کو آگ کے درجے تک پہنچادیا گیا ہے۔ فیضؔ کی نظم "چند روز اور مری جان" کا یہ شعر دیکھیے:
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
اب اس شعر کی تفہیم کرتے وقت یہ اعتراض نہیں اٹھایا جائے گا کہ عرصۂ دہر کو کس آگ نے جھلسایا اور کیسے جھلسایا۔میرے شعر میں دھوپ کی شدت سے ماحول (یعنی معاشرے) کے جھلسنے کا ذکر ہے ۔ خود کو گرتی ہوئی دیوارِ روایت (کہ جس کا کچھ سایا ابھی باقی ہے ) کی نشانی کہا گیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہاں دھوپ اور سائے کے الفاظ لغوی معنوں کے بجائے علامات اور استعارے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں ۔ اردو شاعری ارتقا کی مختلف منازل طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اب علامات اور استعاروں کا استعمال بہت عام ہے۔ سو ڈیڑھ سو سال پہلے رات کا لفظ لغوی معنوں ہی میں استعمال ہوتا تھا لیکن اب رات سے مراد عرصۂ تاریکی ، عہدِ ظلم و ستم ، جبر و استبدال وغیرہ بھی لیے جاتے ہیں۔ ساحؔر کہتا ہے:
ان کالی صدیوں کے سر سے جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے جب سکھ کا ساگر چھلکے گا
علامات اور استعاروں کے استعمال کی ایک خوبصورت مثال فیضؔ کے ہاں سے دیتے ہوئے اس نکتے پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔
دشتِ تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں ترے پہلو کے سمن اور گلاب

کیا یہ غزل مسلسل ہے؟ پڑھنے میں ایسا ہی تاثر ملتا ہے لیکن ربط و تسلسل مضمون کے حوالے سے اس میں تردد ہے۔میرے ذہن و نظر نے اس میں زور زبان اورتنوع تو دیکھا لیکن بیان میں اس کی کمی محسوس ہوئی
یہ غزل مسلسل تو نہیں ہے لیکن اکثر اشعار کے مضامین ایک ہی رنگ میں اور ایک ہی ماحول کے عکاس ہیں یعنی مرتی ہوئی تہذیب و اقدار اور معاشرے کے منظر نامے سے آہستہ آہستہ رخصت ہوتے ہوئے محبتی اور خلیق یادگارِ زمانہ لوگ ان کا موضوع ہیں ۔
بجھتے ہوئے خاموش ستارے :کیا چیز ہیں؟ ستارے تو ہمیشہ ہی خاموش رہتے ہیں خواہ وہ چمکتے ہوں یا بجھ چکے ہوں ۔چنانچہ یہاں :خاموش ستارے: بے معنی اور غیر ضروری فقرہ ہے
مٹِتا ہوا اک نقش ہیں ہم لوحِ جہاں پر
بجھتے ہوئے خاموش ستاروں کی ضیا ہیں
معذرت کے ساتھ مؤدبانہ عرض ہے کہ آپ اس شعر تک نہیں پہنچ سکے۔ اگر یہ شعر پچاس ساٹھ سال پہلے پڑھا جاتا تو آپ کا اعتراض درست تھا لیکن عصرِ حاضر کے قاری کا علم وسیع ہوچکا ہے۔ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ اس کائنات(جہاں) میں پرانے ستارے دھماکوں کے ساتھ بکھرتے اور مرتے جارہے ہیں۔ بجھتے ہوئے یہ ستارے معدوم ہونے سے پہلے ایک طویل عرصے تک روشنی بکھیرتے رہتے ہیں اور پھر ایکسپلوڈ ہوجاتے ہیں۔ یہ شعر ان ستارہ نما ہستیوں کا نوحہ ہے جو روشنی تو دے رہی ہیں لیکن خاموشی کے ساتھ بجھتی بھی جارہی ہیں۔افسوس کہ ان ستاروں کے بکھرنے اور مرنے پر کہیں کوئی شور نہیں !

ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پر اُس کے
سینہ بھی کشادہ ہے تو بازو بھی یہ وا ہیں
آپ کس کے نام پر سب کو گلے لگا رہے ہیں؟ اور کیوں؟ اس کا کوئی اشارہ شعر میں نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شعر:وا: کا قافیہ نبھانے کی خاطر کہا گیا ہے،
ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پر اُس کے
سینہ بھی کشادہ ہے تو بازو بھی یہ وا ہیں
اگر میں یوں کہوں کہ "ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پہ تیرے "تو بات واضح ہوجائے گی ۔ روایتی شاعری میں جب شاعر تو ، تم یا آپ کا صیغہ استعمال کرتا ہے تو اس سے مراد محبوب ہوتا ہے ۔ مثلاً: تم مرے پاس ہوتے ہو گویا : جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ بعد کے شعر ا نے محبوب کے لیے صیغۂ مخاطب کے بجائے صیغۂ غائب کو بھی استعمال کیا ہے اور اس شعر میں "اُس" سے مراد محبوب ہی ہے ۔ لیکن اس شعر میں میں نے جان بوجھ کر ایک گونہ ابہام کی صورت رکھی ہے تاکہ اس شعر کا اطلاق محبوب کے بجائے دیگر مواقع پر بھی کیا جاسکے ۔ ایک سادہ سی مثال یہ دیکھ لیجیے کہ اگر کہیں اردو زبان کی بات ہورہی ہو اور میں یہ شعر پڑھوں تو مطلب یہ ہوگا کہ اردو کے نام پر مجھے ہر شخص عزیز ہے، جو بھی اردو سے محبت کرتا ہے میں اسے گلے لگاتا ہوں ۔ اب کوئی دوسرا قاری اردو کی جگہ کوئی اور چیز بھی ذہن میں رکھتے ہوئے اس شعر کا اطلاق کرسکتا ہے ۔ اس طرح کے ابہام کو شعر کی خوبی میں شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی شعر کا مطلب تو واضح ہے لیکن اس میں اتنا ابہام چھوڑدیا گیا ہے کہ اس کی خانہ پری قاری اپنے تجربے اور صورتحال کے حساب سے خود کرلے۔

۔غزل میں قاری تغزل، شعریت، حسن بیان، اثر پزیری، سلاست و بلاغت کی تلاش و امید رکھتا ہے لیکن یہاں اس تلاش کا خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا ہے ۔
محترمی سؔرور صاحب! یہ محاسن جوآپ نے بیان کیے ہیں ایک مثالی شعر کے محاسن ہیں ۔ اگر ان محاسن کی روشنی میں پرکھا جائے تو اردو شاعری کے تمام ذخیرے میں سے بہت ہی کم اشعار اس پر پورا اتریں گے۔ البتہ ہر اچھے شعر میں ان میں سے کچھ نہ کچھ عناصر ضرور پائے جاتے ہیں ۔ مجھے تو خیر اپنی شاعری کے بارے میں کسی بھی قسم کا کوئی دعویٰ نہیں ہے ، اسے تک بندی ہی کہتا ہوں لیکن یہ تمام محاسن تو میر و غالب سمیت کسی بھی شاعر کے ہر شعر میں نہیں ہوتے ۔ ہر غزل میں ایک دو اشعار ہی ہوتے ہیں کہ جنہیں حاصلِ غزل کہا جاسکے۔

با وجود کوشش کے تبصرہ کچھ طویل ہو گیا ہے جس کے لئے معذر ت خوا ہ ہوں اور اگر کوئی گستاخی کہیں سرزد ہوگئی ہے تو اس کی معافی کا بھی خواستگار ہوں۔شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
سرور بھائی ، براہِ کرم ایسا مت کہیے ۔ آپ کی طرف سے کسی گستاخی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ یوں تو کسی بھی عوامی فورم پر پیش کیے گئے ادب پارے پر تبصرہ ہر قاری کا حق ہے اور قلمکار پر اس کا احترام واجب ہے لیکن آپ جیسے اہلِ علم و ہنر کی طرف سے شعر پر نقد و نظر تو شاعر کے لیے بہت اہم ہوتی ہے ۔ میں آپ کے اس گرانقدر تجزیے پر نہایت شکرگزار ہوں ۔ کریم آپ کا سایا تادیر سلامت رکھے ، آپ کے علم و فضل میں اضافہ فرمائے اور آپ کا فیض جاری و ساری رکھے۔ آمین ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کھل جائے گا اک باب اثر دل میں تمھارے
مانگو تو سہی ہم کو، ہمی حرف دعا ہیں
کیا خوب کہا ہے۔ سبحان اللہ۔ کیا مضمو ن اور کیا حسن بیان، ہر طور یہ شعر دل میں سماجاتا ہے۔ دلی داد قبول کیجئے اور دعائے خیر میں یاد رکھئے۔ جزاک اللہ خیرا۔
آداب ، بہت نوازش! ممنونِ کرم ہوں ۔
محترم سرور بھائی ، مجھے خوشی ہوئی کہ آپ کو یہ شعر پسند آیا ۔ آپ کی تحسین سند ہے ۔ اللہ کریم آپ کو سلامت رکھے۔
 
عزیز مکرم ظہیر صاحب: تبصرے پر آپ کے تاثرات دیکھے ۔ شکریہ۔ ان پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ اتنا ضرور عرض کروں گا کہ بھائی نہ میں استاد ہوں اور نہ ہی کسی معنی میں سند۔ اس میں کوئی کسر نفسی نہیں ہے بلکہ یہ اظہار حقیقت ہے، از راہ بندہ نوازی مجھ کو ایسے القاب سے مخاطب کر کے شرمندہ نہ کیا کریں۔ دیگر احباب سے بھی یہی گزارش ہے ۔ ایک بات اورعرض کرنا چاہوں گا کہ آپ :مشکور: کو :ممنون: کے معنی میں لکحتے ہیں۔ مشکور تو مفعول کاصیغہ ہے اور اس کا مطلب وہ شخص ہونا چاہئے جس کا شکریہ ادا کیا جائے نہ کہ جو شکریہ ادا کرے۔ کیامیں غلطی پر ہوں؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہم دستِ محبت میں علمدارِ مساوات!
ہم دُور سے آتی ہوئی مانوس صدا ہیں
واہ ۔۔۔۔ کیا دبنگ شعر ہے۔۔۔۔ رقیب اور محبوب کی ایک قطار بنا دی ہے یا اپنی اور رقیب کی ایک قطار بنا لی ہے۔۔۔ بہرحال جو بھی ہے۔۔۔ جب دور سے آئیں گے تو قطار میں لگنا پڑے گا۔۔۔۔۔

ہم نطقِ محبت میں ہیں الفاظِ پذیرائی!
ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں !
اچھا تو یہ ہے وہ ۔۔۔۔نگا ۔۔۔۔۔ہیں۔۔۔۔ جن پر دوسرے دھاگے میں سب کی نگاہیں اٹھی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔ واہ واہ

قافیہ معمولہ کہلاتا ہے ۔
اگر یہ ممولا بھی ہوتا تو ہماری کیا مجال تھی کہ دم مارتے۔۔۔ دم زبر کے ساتھ۔۔۔۔


ویسے تفنن برطرف۔۔۔ بہت ہی خوبصورت غزل ہے۔۔۔۔ ظہیر بھائی۔۔۔ مزا آگیا۔۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
مکرم بندہ ظہیر صاحب: سلام علیکم
آپ کی غزل پر اپنے خیالات کی دوسری قسط پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ تبصرہ مختصررکھنے کی کوشش کروں گا کہ سبھی آج کل عدیم الفرصت ہیں۔آپ کی محبت ہے کہ آپ میری معروضات برداشت کر لیتے ہیں۔ گستاخی میں دانستہ نہیں کرتا لیکن انسان ہونے کے ناتے بعض اوقات سرزدہو جاتی ہے ۔ امید ہے خیال نہیں کریں گے۔ آپ کی غزل دس سال پرانی ہے اور شاید اسی وجہ سے مختلف نکات بحث طلب نظر آرہے ہیں۔پرانی تخلیقات پر بھی اشاعت سے پہلے دشمن کی نگاہ ڈال لینا اچھا ہوتا ہے۔ یہ کہنا شاید ضروری نہیں کہ میری کسی رائے سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اب آمدم بر سر مطلب!
(1)یہ غزل بحر ہزج مثمن کی ایک مزاحف شکل میں ہے جسے اصطلاحا :ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف :کہتے ہیں(اللہ اکبر، کیا خوفناک نام ہے!) ۔ مرزا غالب کی یہ غزل بھی اسی بحرمیں ہے:
تو دوست کسی کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
اس کی تفعیل یوں ہے : مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعولُن
یہاں غزل کا مطلع اور اس کی تقطیع بطور وضاحت درج کرتا ہوں ۔ مصرعوں کی کتابت اصول تقطیع کے عین مطابق نہیں بلکہ آسانی کے لئے :کام چلائو :رکھی ہے جس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔
تاریک ۔۔ دیاروں میں -- اُجالےکا-- پتہ ہیں
مفعولُ -- مفاعیل ُ -- مفاعیل ُ -- فعولن
ہم لوگ -- محبت ہیں -- مروت کی -- ادا ہیں
اب اس وضاحت کی روشنی میں اس شعرکو دیکھئے :
ہم نطق ِ محبت میں ہیں الفاظ ِ پذیرائی
ہم چشم اُخوت میں عنایت کی نگاہیں
اس شعرکی تقطیع درجِ ذیل ہے :
ہم نطق --محبت میں --ہیں الفاظِ --پزیرائی
مفعولُ --مفاعیلُ--مفاعیل ُ --مفاعیلُن
ہم چشمِ --محبت میں--عنایت کی --نگاہیں
مفعولُ--مفاعیلُ--مفاعیلُ --فعولُن
گویا اس شعر کے پہلے مصرع کا وزن :مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ مفاعیلُن: ہے۔ یہ اسی بحر کی دوسری شکل ہےجو : بحر مثمن اخرب مکفوف: کہلاتی ہے ۔ دوسرا مصرع البتہ غزل کی اصل بحر میں ہے۔یہ صورت حال ناقص ہے اور نا قابل قبول ہے ۔ آپ کو علم ہے کہ غزل کا ایک ہی بحر میں ہونا شرط لازم ہے۔ اس غلطی کی وجہ یہ ہے کہ لفظ :پزیرا: کا وزن : پ،زی، را = فعولن: ہے: جب کہ :پزیرائی: کا وزن :پ-زی-را-ئی =مفاعیلن: ہے۔ پزیرائی کی :ئی: پوری طرح ملفوظ ہوتی ہے اور اسی طرح ادا بھی ہوتی ہےیعنی :ئی: کی تخفیف نہیں ہوسکتی ۔ اگر آپ پہلے مصرع کو یوں لکھیں : ہم نطق محبت میں ہیں الفاظ پزیرا: تو وزن درست ہو جاتاہے لیکن مصرع مہمل اور بے معنی قرار پاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ نے شاید :پزیرائی: کی قراءت میں :ئی: کو ہمزہ کی طرح پڑھا ہے اور اس سے یہ غلطی پیدا ہو گئی۔ اس شعر کو دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے۔ اسے پھر دیکھ لیں اور اگر میں غلطی پر ہوں تو بتا دیں تاکہ اصلاح کر لوں۔ انشا اللہ۔
(2) اگر آپ اشعار پر نمبر ڈال لیں تو تبصرے میں آسانی ہو جائے گی ۔ شکریہ۔ کیا یہ غزل مسلسل ہے؟ پڑھنے میں ایسا ہی تاثر ملتا ہے لیکن ربط و تسلسل مضمون کے حوالے سے اس میں تردد ہے۔میرے ذہن و نظر نے اس میں زور زبان اورتنوع تو دیکھا لیکن بیان میں اس کی کمی محسوس ہوئی۔ گستاخی معاف لیکن غزل مجموعی طور پر سپاٹ اور کمزور ہے اور دل پر بہت کم اثر کرتی ہے ۔دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ تغزل پر کم توجہ نظرآتی ہے اور کئی جگہ قافیہ پیمائی کا رنگ نمایا ں ہے جس سے ممکنہ احتراز مستحسن ہے۔مثلا شعر نمبر 5 دیکھئے :
ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پر اُس کے
سینہ بھی کشادہ ہے تو بازو بھی یہ وا ہیں
آپ کس کے نام پر سب کو گلے لگا رہے ہیں؟ اور کیوں؟ اس کا کوئی اشارہ شعر میں نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شعر:وا: کا قافیہ نبھانے کی خاطر کہا گیا ہے، شعر ۔2 کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ :بجھتے ہوئے خاموش ستارے :کیا چیز ہیں؟ ستارے تو ہمیشہ ہی خاموش رہتے ہیں خواہ وہ چمکتے ہوں یا بجھ چکے ہوں ۔چنانچہ یہاں :خاموش ستارے: بے معنی اور غیر ضروری فقرہ ہے۔مودبانہ عرض ہے کہ متعدد اشعار کے مصرعوں میں باہمی ربط یا تو مشکوک ہے یا معدوم ۔ ا شعار 3،6،7،8 مثال کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے معانی دریافت کرنے کی فکر و کوشش کے باوجود گوہر مقصود ہاتھ نہیں آتا۔مثلا ٍ آگ سے چیز جھلس سکتی ہے اور دھوپ سے چیز تپتی ہے ۔ :جھلسے ہوئے منظر: میں: سائے: کا تصور کیا معنی رکھتا ہے ؟کیسا سایااور کیوں سایا؟ جھلسنے کے بعد آگ باقی نہیں رہتی ہے اور جھلسے ہوئے ماحول میں تمازت نہیں ہوتی تو اس میں سائے کی تلاش تحصیل لا حاصل کے مترادف ہے۔غزل میں قاری تغزل، شعریت، حسن بیان، اثر پزیری، سلاست و بلاغت کی تلاش و امید رکھتا ہے لیکن یہاں اس تلاش کا خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا ہے ۔
(3) غزل میں پر شکوہ الفاظ وبیان اور گنجلک تراکیب کا استعمال اس کی نمایاں خصوصیت ہیں۔مثال کے طور پر :دست محبت، علمدار مساوات، نطق محبت، الفاظ پذیرائی، تاریکیء شب تار، تاراج محبت ، دیوار روایت: وغیرہ دیکھی جا سکتی ہیں ۔ ان تراکیب کا سیاق و سباق ہمیشہ واضح نہیں ہے اور ان کا استعمال و بندش مزید توجہ کے متقاضی ہیں۔اس پر شکوہ زبان اور طرز بیان سے قاری مرعوب ہو سکتا ہے لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ ایسی تراکیب کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ غزل کی معنی آفرینی، شعریت اور تغزل مجروح ومتاثر ہو سکتے ہیں۔ زیادہ تفصیل ضروری نہیں معلوم ہوتی۔ اہل نظرخود ہی تفصیلات پر سوچ سکتے ہیں۔
(4) غزل بڑی ظالم صنف سخن ہے اور اچھی غزل کہنا ایک نہایت مشکل اورصبر آزما کام ہے۔ اردو کےہر دور میں لاکھوں شاعر وں نے داد غزل دی ہے لیکن عظمت فن کا تاج معدودے چند شعرا کے سر کی زینت بن سکا ہے۔ ساتھ ہی غزل اپنی فطرت میں نہایت فراخ دل بھی ہے ار ہر ایک کو گاہے گاہے اچھا شعر کہنےکی اجازت دیتی رہتی ہے۔ مجھ کو جس شعر نے سب سے زیادہ متاثر کیا اس کا ذکر ضروری ہے ۔ شعردرج ذیل ہے:
کھل جائے گا اک باب اثر دل میں تمھارے
مانگو تو سہی ہم کو، ہمی حرف دعا ہیں
کیا خوب کہا ہے۔ سبحان اللہ۔ کیا مضمو ن اور کیا حسن بیان، ہر طور یہ شعر دل میں سماجاتا ہے۔ دلی داد قبول کیجئے اور دعائے خیر میں یاد رکھئے۔ جزاک اللہ خیرا۔
با وجود کوشش کے تبصرہ کچھ طویل ہو گیا ہے جس کے لئے معذر ت خوا ہ ہوں اور اگر کوئی گستاخی کہیں سرزد ہوگئی ہے تو اس کی معافی کا بھی خواستگار ہوں۔شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را

خاکسار: سرور عالم راز
محترمی و مکرمی استاد گرامی سرور عالم راز صاحب
آداب

اردو محفل پر آپ کے شاعری سے متعلق کئی ایک تبصرہ جات پڑھنے کو ملے۔ ذہن کی کافی الجھنیں دور ہوئیں۔ میں بھی آپ کی شاعری کو پڑھ کر بہت حیران ہوتی تھی کہ آخر آپ اتنی سلیس و سادہ زبان کیوں استعمال کرتے ہیں۔ کئی شعراء کے مقفی و مسجع زبان امیں اشعار پڑھ کر بہت مرعوب ہو جاتی تھی۔ بلکہ اپنی اردو کی استعداد سے متعلق کافی شرمندگی ہونے لگتی تھی ۔ مجھے کچھ لوگوں کے اشعار کئی کئی بار پڑھنے کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ اگرچہ لغت کا سہارا لے کر میں الفاظ کے معانی جان لیتی تھی مگر خیال تک رسائی ایک خواب ہی رہتا تھا۔ آپ نے میرے واسطے جس طرح یہ عقدہ حل کیا ہے میں آپ کی ہمیشہ ممنون و متشکر رہوں گی۔ پچھلے دنوں چند اشعار کہے تو بار بار یہی کسک دل میں ہو رہی تھی کہ یہ تو انتہائی سادہ زبان میں ہیں ۔ ان کو کیسے بڑے بڑے الفاظ کے ذریعے متاثرکن بناؤں۔ ملاحظہ کیجیے
؎
ہم اپنے غم دل کا مداوا نہ کریں گے
چاہیں گے مگر ان کو بتایا نہ کریں گے

رہتے ہیں گریزاں وہ سر بزم تو ہم بھی
اب ان کو تصور میں بھی دیکھا نہ کریں گے

مگر آپ کی بات سے ایک ڈھارس بندھی ہے کہ خیالات کی آفرینی بھاری بھرکم الفاظ کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں ان اشعار کو جوں کا توں رہنے دیتی ہوں الا کہ ان میں کوئی ایسی غلطی ہو جو میری کوتاہ نظر نہ جان سکی ہو۔ شعر کے محاسن کے بارے میں آپ کے مزید ارشادات کی منتظر رہوں گی۔ اللہ آپ کو صحت و تندرستی اور طویل عمر عطا فرمائیں۔ آمین
 
آخری تدوین:
کئی شعراء کیے مقفع و مسجع زبان امیں
ہم سمجھ رہے کہ آپ کسے مراد لے رہی ہیں:)
میں آپ کی ہمیشہ مشکور رہوں گی
محترم سرور عالم راز کو آپ کا مشکور رہنا بالکل پسند نہیں آیا۔ ممنون رہیے تو رہیے :)
 
سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ اس کائنات(جہاں) میں پرانے ستارے دھماکوں کے ساتھ بکھرتے اور مرتے جارہے ہیں
تو گویا یہ سپر نووا اور بلیک ہول کی تشکیل کے درمیانی عرصہ کا بیان ہوا :)
لیکن یہ عرصہ تو اس قدر مختصر ہوتا ہے کہ اس کا مشاہدہ کرنا ہمارے شعرا کے بس کی بات نہیں :)
 
آپ :مشکور: کو :ممنون: کے معنی میں لکحتے ہیں۔ مشکور تو مفعول کاصیغہ ہے اور اس کا مطلب وہ شخص ہونا چاہئے جس کا شکریہ ادا کیا جائے نہ کہ جو شکریہ ادا کرے۔ کیامیں غلطی پر ہوں؟
استاذی، آپ کی یہ نصیحت اس خاکسار کو سن 2002 سے یاد ہے، جب آپ نے ebazm نامی ویب سائٹ پر اس بابت متنبہ کیا تھا، الحمداللہ تب سے اب تک میں ہمیشہ سب کا ممنون و متشکر ہی رہا ہوں :)
ویسے مجھے یاد پڑتا کہ اس محفل میں کسی دھاگے پر مکرمی ظہیر بھائی نے اس حوالے سے کچھ لکھا تھا شاید.
 

صابرہ امین

لائبریرین
معذرت میرے بھائی، آپ بالکل نہیں سمجھ رہے۔ :) استاذی ظہیراحمدظہیر کی شاعری تو ہماری انتہائی پسندیدہ ہے۔ خوب سمجھ میں آتی ہے۔ اتنی سمجھ میں آتی ہے کہ فورا قلم بےتاب ہو کر کچھ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج کل انہی وجوہات کے باعث خاکدان پڑھنے سے توبہ کی ہوئی ہے کہ کہیں اس کتاب کا ٰٰٰفیمیل ورژن ٰٰ نہ آ جائے۔ ایسی شاعری تو کسی بھی شاعر کا خواب ہو سکتی ہے۔

ویسے ہم نے بے دھیانی میں مقفیٰ کا املا غلط لکھا تھا۔ آپ کے اقتباس نے اس کی تصحیح کروا دی۔ شکریہ :)
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
محترم سرور عالم راز کو آپ کا مشکور رہنا بالکل پسند نہیں آیا۔ ممنون رہیے تو رہیے :)
ایک بار پھر شکریہ۔ اگر آپ جیسے مہربان اتنے اچھے انداز سے سمجھائیں گے تو ایک دن صحیح اردو آ ہی جائے گی۔ ممنون و متشکر :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک بات اورعرض کرنا چاہوں گا کہ آپ :مشکور: کو :ممنون: کے معنی میں لکحتے ہیں۔ مشکور تو مفعول کاصیغہ ہے اور اس کا مطلب وہ شخص ہونا چاہئے جس کا شکریہ ادا کیا جائے نہ کہ جو شکریہ ادا کرے۔ کیامیں غلطی پر ہوں؟
محترمی سرور صاحب! اس مسئلے پر تو بہت ہی طویل عرصے سے بحث چلی آرہی ہے اور میرا خیال تھاکہ کب کی فیصل ہوچکی ہے ۔ میں نےبچپن ہی سے مشکور اور ممنون دونوں کوتحریر و تقریر میں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے دیکھا ۔ پھر کئی سال پہلے یہ مباحث نظر سے گزرے کہ بعض لوگ اب بھی اس لفظ کے اصل عربی معنی پر اصرار کرتے ہیں ۔ بے شک عربی میں یہ مفعول کے لیے استعمال ہوتا ہے اور فاعل کے لیے شاکر کا لفظ مستعمل ہے ۔ لیکن یہ لفظ اردو میں آکر فاعل یعنی ممنون کے معنوں میں عام استعمال ہونے لگا ہے ۔یعنی یہ لفظ غلط العام کے درجے پر پہنچ چکا ہے ۔ لسانیات کا بنیادی قاعدہ تو یہی ہے کہ جو لفظ عربی فارسی یا کسی اور زبان سے اردو میں آکر جس طرح رائج ہوگیا وہ فصیح ہے ۔ تارید ہونے کے بعد اب اس لفظ پر اصل زبان کے قواعد یامعنی وغیرہ لاگو نہیں ہوں گے بلکہ اہلِ اردو کے استعمال کا اعتبار کیا جائے گا ۔ اردو میں ممنون اور مشکور ہم معنی استعمال ہوتے ہیں ۔ فرہنگ آصفیہ اور لغت کبیر نے بھی انہی معنوں میں درج کیا ہے ۔( نوراللغات اس وقت پاس نہیں ہے)۔ ویسے اس مسئلے پر بہت معرکۃ الآرا بحثیں ہو چکی ہیں ۔ میں بھی کچھ عرصہ اس بارے میں متذبذب رہا لیکن چند سال پہلے جب میں نے اس بارے میں شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کے موقف کو پڑھا تو قائل ہوگیا تھا۔ حال ہی میں سہیل احمد صدیقی صاحب نے اپنے کالم فہمِ زباں میں اس بارے میں ایک مفصل تحریر لکھی ہے کہ جس میں اس لفظ کے مذکورہ استعمال کے بارے میں مستند زبان دانوں کے حوالہ جات موجود ہیں ۔ وہ میں ذیل میں چسپاں کردیتا ہوں ۔
 
آخری تدوین:
Top