نایاب
لائبریرین
(74)
تھی جس میں ہریانہ کا تقریبا“ تمام علاقہ شامل تھا۔ انتظامی مرکز حصار منتقل ہونے کے حصار کو “ اقطاع “ کی حیثیت حاصل ہو گئی ۔ اور اس “ اقطاع “ میں ہانسی ، بروالہ ، اگروہہ ، فتح آباد ، سرسوتی ، وغیرہ کی “شقیں “ شامل تھیں ۔
ہنٹر کا بیان
ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی مشہور اور بڑی وقیع کتاب امپیریل گزیٹیر آف انڈیا میں حصار کے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ کہ یہ ایک ڈویژن کا صدر مقام ہے جس میں تین ضلعے حصار ، روہتک ، اورسرسہ شامل ہیں ۔ضلع حصار کے متعلق اس نے لکھا ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی شرقا“ غربا“ سینتالیس میل اور زیادہ سے زیادہ لمبائی شمالا“ جنوبا“ تراسی میل ہے ۔ پنجاب کے ضلعوں میں شملہ ، رہتک ، اور حصار ہی ایسے ضلعے ہیں جن سے کوئی دریا نہیں گزرتا ۔ ۱۸۸۱ کی مردم شماری کے مطابق اس ضلع کی آبادی ٥،٠٤،١٨٣ افراد پر مشتمل تھی ۔ اور اس کا علاقہ ٣٥٤٠ مربع میل تھا ۔
حصار شہر کے بارے میں ہنٹر نے لکھا ہے کہ یہ دہلی سے مغرب میں ایک سو دو میل کے فاصلہ پر نہر جمن غربی کے کنارے ٢٩ درجے ٩ فٹ ٥١ انچ شمالی عرض بلد اور ٧٥ درجے ٤٥ فٹ ٥٥انچ مشرقی طول بلد پر واقع ہے ۔ 1868کے اعدادوشمار کے مطابق اس کی آبادی ١٤،١٣٨ تھی اور 1881 کی مردم شماری کے مطابق ١٤،١٦٢ ہو گئی تھی ۔ اس میں ٩٠٣٩ ہندو ٥٠٨٠ مسلمان ٤ سکھ اور ٤٤ عیسائی شامل تھے ۔ یہ شہر 1354 میں فیروز شاہ تغلق نے آباد کیا تھا ۔ اس نے اس شہر تک پانی پہنچانے کے لئے ایک نہر بھی تعمیر کرائی تھی ۔ اس شہر نے جلد ہی فیروز شاہ تغلق کی پسندیدہ جگہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی ۔ اور اس طرح ضلع کا سیاسی اور انتظامی صدر مقام ہانسی سے منتقل ہو کر اس شہر میں آ گیا تھا ۔ جدید شہر کے جنوب میں پرانی عمارات کے ملبہ کے ڈھیر جگہ جگہ بکھرے نظر آتے ہیں ۔ مگر مزارات کے گنبد اور عبادت گاہیں اب تک سلامت ہیں ۔ اور شہر کے ماضی کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں ۔ اس شہر پر تباہی گذشتہ صدی کے دوران سکھوں اور دیگر لٹیروں کے مسلسل حملوں کے باعث نازل ہوئی ۔ اس کے بعد 1783 میں سن چالیس کے قحط کے دوران یہ شہر آبادی سے بالکل خالی ہو گیا تھا ۔ اس کے بعد 1796 میں یورپی مہم جو جارج تھامس نے اس پر قبضہ کر لیا ۔ اس نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا اور اس کی ازسرنو آبادی کی کوشش کی ۔ حصار کی گلیاں اور سڑکیں دوسری مقامی آبادی کے برخلاف فراخ اور کشادہ ہیں ۔ لیکن شہر کی فصیل کے باہر ایک ایسی آبادی ابھر آئی ہے جو زیادہ بہتر اور صاف ستھری نہیں ہے ۔ یہاں مویشیوں کا ایک بہت بڑا فارم ہے ۔ اور حصاری نسل کے جانور بہت قدروقیمت کے حامل خیال کیے جاتے ہیں ۔ (٤)
مفتی غلام سرور لاہوری کا بیان
مفتی غلام سرور لاہوری نے پنجاب کی تاریخ پر اردو میں سب سے پہلی کتاب لکھی ۔ اور ان کی کتاب کو اب تک مستند تسلیم کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٤) W.W.Hunter,imperial Gazetteer of India. london 1885.p.425,434
تھی جس میں ہریانہ کا تقریبا“ تمام علاقہ شامل تھا۔ انتظامی مرکز حصار منتقل ہونے کے حصار کو “ اقطاع “ کی حیثیت حاصل ہو گئی ۔ اور اس “ اقطاع “ میں ہانسی ، بروالہ ، اگروہہ ، فتح آباد ، سرسوتی ، وغیرہ کی “شقیں “ شامل تھیں ۔
ہنٹر کا بیان
ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی مشہور اور بڑی وقیع کتاب امپیریل گزیٹیر آف انڈیا میں حصار کے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ کہ یہ ایک ڈویژن کا صدر مقام ہے جس میں تین ضلعے حصار ، روہتک ، اورسرسہ شامل ہیں ۔ضلع حصار کے متعلق اس نے لکھا ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی شرقا“ غربا“ سینتالیس میل اور زیادہ سے زیادہ لمبائی شمالا“ جنوبا“ تراسی میل ہے ۔ پنجاب کے ضلعوں میں شملہ ، رہتک ، اور حصار ہی ایسے ضلعے ہیں جن سے کوئی دریا نہیں گزرتا ۔ ۱۸۸۱ کی مردم شماری کے مطابق اس ضلع کی آبادی ٥،٠٤،١٨٣ افراد پر مشتمل تھی ۔ اور اس کا علاقہ ٣٥٤٠ مربع میل تھا ۔
حصار شہر کے بارے میں ہنٹر نے لکھا ہے کہ یہ دہلی سے مغرب میں ایک سو دو میل کے فاصلہ پر نہر جمن غربی کے کنارے ٢٩ درجے ٩ فٹ ٥١ انچ شمالی عرض بلد اور ٧٥ درجے ٤٥ فٹ ٥٥انچ مشرقی طول بلد پر واقع ہے ۔ 1868کے اعدادوشمار کے مطابق اس کی آبادی ١٤،١٣٨ تھی اور 1881 کی مردم شماری کے مطابق ١٤،١٦٢ ہو گئی تھی ۔ اس میں ٩٠٣٩ ہندو ٥٠٨٠ مسلمان ٤ سکھ اور ٤٤ عیسائی شامل تھے ۔ یہ شہر 1354 میں فیروز شاہ تغلق نے آباد کیا تھا ۔ اس نے اس شہر تک پانی پہنچانے کے لئے ایک نہر بھی تعمیر کرائی تھی ۔ اس شہر نے جلد ہی فیروز شاہ تغلق کی پسندیدہ جگہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی ۔ اور اس طرح ضلع کا سیاسی اور انتظامی صدر مقام ہانسی سے منتقل ہو کر اس شہر میں آ گیا تھا ۔ جدید شہر کے جنوب میں پرانی عمارات کے ملبہ کے ڈھیر جگہ جگہ بکھرے نظر آتے ہیں ۔ مگر مزارات کے گنبد اور عبادت گاہیں اب تک سلامت ہیں ۔ اور شہر کے ماضی کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں ۔ اس شہر پر تباہی گذشتہ صدی کے دوران سکھوں اور دیگر لٹیروں کے مسلسل حملوں کے باعث نازل ہوئی ۔ اس کے بعد 1783 میں سن چالیس کے قحط کے دوران یہ شہر آبادی سے بالکل خالی ہو گیا تھا ۔ اس کے بعد 1796 میں یورپی مہم جو جارج تھامس نے اس پر قبضہ کر لیا ۔ اس نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا اور اس کی ازسرنو آبادی کی کوشش کی ۔ حصار کی گلیاں اور سڑکیں دوسری مقامی آبادی کے برخلاف فراخ اور کشادہ ہیں ۔ لیکن شہر کی فصیل کے باہر ایک ایسی آبادی ابھر آئی ہے جو زیادہ بہتر اور صاف ستھری نہیں ہے ۔ یہاں مویشیوں کا ایک بہت بڑا فارم ہے ۔ اور حصاری نسل کے جانور بہت قدروقیمت کے حامل خیال کیے جاتے ہیں ۔ (٤)
مفتی غلام سرور لاہوری کا بیان
مفتی غلام سرور لاہوری نے پنجاب کی تاریخ پر اردو میں سب سے پہلی کتاب لکھی ۔ اور ان کی کتاب کو اب تک مستند تسلیم کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٤) W.W.Hunter,imperial Gazetteer of India. london 1885.p.425,434