تاریخ بروالہ صفحہ 59 سے 63

نایاب

لائبریرین
۵۹
لیا۔ اور دہلی کو ہندوستان میں مسلمان حکومت کا صدر مقام قرار دے دیا۔ اس دن کے بعد سے تقسیم برصغیر تک دہلی اور ہانسی دونوں مقامات ہمیشہ مسلمانوں کے قبضے میں رہے ۔(5)
مسلم حکومت کا استحکام
اجمیر اور دہلی پر مسلمانوں کے قبضے کا عمل ؁۱۱۹۲کے آخر یا ؁۱۱۹۳کے آغاز میں مکمل ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی دہلی کو برصغیر کی مسلم حکومت کا صدر مقام قرار دے کر یہاں مسلمانوں کی بادشاہت کی بنیاد ڈال دی گئی تھی۔ اس قدر وسیع علاقہ کے مسلمانوں کے قبضہ میں ٓ جانے کے بعد بعض مورخین کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو اس وسیع علاقہ پر اپنی حکومت مستحکم کرتے کچھ وقت لگ گیا تھا۔ اور اس عبوری دور کا اثر ہریانہ کے علاقہ پر بھی پڑا تھا۔ چنانچہ اک مورخ نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کو اس پورے علاقہ میں ایک مستحکم حکومت قائم کرتے کچھ عرصہ لگا۔ شروع میں اکثر علاقوں کی حکومت ان ہندو راجوں کے سپرد کر دی گئی جنہوں نے مسلمانوں کا تابعدار اور باجگزار رہنے کی ذمہ داری قبول کر لی ۔ چنانچہ شہاب الدین غوری کے ہاتھوں ہانسی کی فتح کے بعد فوراً یہاں مسلمانوں کی حکومت کے قیام کا پتہ نہیں چلتا۔ بلکہ اس زمانہ میں یہ علاقہ راجپوتوں کے ایک قبیلہ جاٹو کے قبضہ میں چلا گیا ۔ یہ قبیلہ تنوار خاندان کی ایک شاخ تھی اور دہلی کے مسلمانوں کی باجگذاری کا دم بھرتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ مسلمان بادشاہوں نے اس علاقہ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ۔(6)
اس علاقہ پر مسلم حکومت کے استحکام میں شروع شروع میں یقیناً کچھ دقت پیش آئی ہو گی ۔ اور مقامی غیر مسلم حکمرانوں پر اعتماد کرنے کی ضرورت بھی رہی ہو گی ۔ لیکن پتہ چلتا ہے کہ یہ عبوری دور کچھ زیادہ طویل نہیں تھا۔ یہ صورت حال قطب الدین ایبک کے چند سالہ دور تک ہی محدود رہی ہو گی ۔ کیونکہ اس کے بعد شمس الدین التمش کے زمانہ کی معاصر تاریخ سے تو اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ اس وقت ہریانہ کے پورے علاقہ میں مسلمانوں کی حکومت کی بنیادیں پوری طرح مستحکم ہو چکی تھیں ۔ چنانچہ "طبقات ناصری" کے منصف منہاج سراج نے شمس الدین التمش کے دربار کے امراء کے حالات لکھتے وقت ملک نصیر الدین تائیسی کے الات میں لکھا ہے "ملک نصیر الدین تائیسی " سلطان شہید معزالدین سام کا غلام تھا۔ وہ بظاہر ایک کم رو ترک تھا۔ مگر اللہ نے اسے ہر نوع کی مردمی اور مردانگی سے آرائیش بخشی تھی ۔ اس کی بہادری ، دلاوری، اور جنگجوئی کمال پر پہنچی ہوئی تھی۔ وہ عقل کامل سے بہرہ مند تھا ۔ جس وقت راقم الحروف منہاج سراج بارگاہ شمسی میں پہنچا۔ نصیر الدین تائیسی جنید اور بروالہ کا جاگیردار تھا ۔ (7)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۵ ) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیر۔ ضلع حصار اور لوہارو سٹیٹ ۔ ؁۱۹۰۴
(۶) ایضاً
(۷) منہاج سراج۔ طبقات ناصری۔ترجمہ غلام رسول مہر۔ لاہور ؁۱۹۷۵۔ جلد دوم ص ۱۲
 

نایاب

لائبریرین
(۶۰)
اس اقتباس سے یہ بات بھی واضع ہوتی ہے کہ ہریانہ کے علاقہ پر مسلمانوں کی حکومت کے استحکام کے فوراً بعد کے زمانہ میں بھی اس علاقہ کے انتظام میں بر والہ کو اہم حیثیت حاصل تھی ۔ یہ بات اس لئے ممکن ہوئی کہ ہندو راجاؤ؂ں کے عہد میں بھی اس مقام کو اہمیت حاصل رہی تھی۔ نئی حکومت فوری طور پر انہی مقامات کو اہمیت دیا کرتی ہے جو اس سے قبل بھی اہمیت کے حامل رہے ہوتے ہیں ۔ اسی زمانہ کے حالات لکھتے ہوئے یہی منصف ٓگے چل کر بیان کرتا ہے ۔ " ملک ناصر الدین محمود اول ، سلطان شمس الدین التمش کا سب سے بڑا فرزند تھا ۔ وہ دانش مند عاقل اور صاحب ہوش و خرد تھا ۔ بہادری مردانگی بخشش او احسان میں اسے درجہ کمال حاصل تھا ۔ سلطان شمس الدین نے اس شہزادے کو سب سے پہلے ہانسی کی جاگیر عطا کی ۔ (۸(
ہانسی اور بر والہ کی ایک اور اہمیت
اس اقتباس سے ہانسی اور بر والہ کی اہمیت یہ پہلو سامنے ٓتا ہے کہ مسلمانوں کی حکومت کے ابتدائی دور سے ہی یہ طریقہ قائم ہو گیا تھا کہ ہندوستان کے مستقبل کے بادشاہ کو کاروبار حکومت میں تربیت حاصل کرنے کی خاطر سب سے پہلے ہانسی اور بر والہ کا انتظامی سربراہ بنا کر بھیجا جاتا تھا ۔ چنانچہ شمس الدین التمش ؁۱۲۱۱تا ؁۱۲۳۶ نے اپنے سب سے بڑے بیٹے کو یہ علاقہ جاگیر میں عطا کیا ۔ اور سب سے پہلے اسے اس علاقہ کے انتظام و انصرام کے فرائض سونپے گئے۔ تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ طریقہ بعد میں دیر تک قائم رہا۔ چنانچہ ناصر الدین محمود ( ؁۱۲۴۶ تا ؁۱۲۶۶ ) کے عہد میں غیاث الدین بلبن کو بھی ؁۱۲۵۴ تا ؁۱۲۵۵ میں اس علاقہ کی صوبیداری پر مقرر کر کے بھیجا گیا۔ اور اس نے انتظام سلطنت کی تربیت اسی جگہ رہ کر حاصل کی۔ اس زمانہ میں غیاث الدین بلبن کو دربار دہلی کے ایک بلند مرتبہ امیر کی حیثیت حاصل تھی ۔ اور وہ امیر الغ خاں کے نام سے معروف تھا۔ اس کی صوبیداری کے زمانہ میں اس علاقہ کے اہم شہر ہانسی کی علاوہ بر والہ ، سرسہ، اور جنید تھے ۔ اور ان شہروں کو اہم فوجی مراکز کی حیثیت حاصل تھی ۔ چنانچہ طبقات ناصری کا منصف بلبن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے ،
"خود الغ خاں تلپت سے ہانسی کی طرف گیا ۔ ۱۷ ذی قعدہ ٕٕ ۶۵۳ ہجری کو اتوار کے دن ہانسی پہنچا تو اس نے فوری طور پر فرمان صادر کیا ۔ سوالک ، ہانسی ، سرستی، جنید ، بر والہ، اور اطراف کے لشکر زیادہ سے زیادہ چودہ دن میں جمع ہو گئے" (۹)
اس اقتباس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں بر والہ ایک اہم فوجی مرکز تھا ۔ اور ہانسی کی قلعداری میں اسے ایک نمایاں مقام حاصل تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۸) منہاج سراج ۔ طبقات ناصری ۔ ترجمہ غلام رسول مہر ۔ لاہور ؁۱۹۷۵ ۔ جلد اول ص ۸۰۳
(۹) ایضاً جلد دوم ص ۷۷
 

نایاب

لائبریرین
(۶۱)
مسٹر جے ۔سی۔پاول پرائس کے بیان سے بلبن کی ہانسی کی صوبیداری کی مزید تفصیل مہیا ہوتی ہے ۔ سلطان ناصر الدین محمود کے زمانہ کے حالات بیان کرتے ہوئے بلبن کے متعلق لکھتے ہیں
"وہ ہر مہم میں کامیاب ہوتا تھا ۔ اور ایک لحاظ سے اس نے ہندوستان کو ناصر الدین کے لیے نئے سرے سے فتح کر لیا تھا ۔ حسب دستور اس کی ان کامیابیوں نے کچھ درباریوں کے دلوں میں اس کی جانب سے حسد پیدا کر دیا ۔ ایک نو مسلم ہندو امام الدین ریحان نے اس کے خلاف ایک سازش تیار کی اور ٓخر کار ؁۱۲۵۳ میں سلطان کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ اسے معزول کر دے ۔ چنانچہ وہ دہلی کے دربار سے الگ ہو کر اپنی ہانسی کی صوبیداری پر واپس آ گیا "۔ (۱۰)
اس طرح سے پتہ چلتا ہے کہ ہانسی کی صوبیداری بلبن کو پہلے سے حاصل تھی اور اسے خاص خدمات کی انجام دہی پر مقرر کیا گیا تو اس صوبیداری پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ۔ یہ جوں کی توں برقرار رہی ۔ اور جب دہلی کے دربار میں اس کے خلاف سازش ہوئی اور اسے خاص خدمات کے فرائض سے سبکدوش کر دیا گیا تو وہ اپنی صوبہ داری پر ہانسی واپس ٓ گیا ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بلبن ہانسی کے صوبیدار کی حیثیت سے کافی عرصہ یہاں مقیم رہا ہے ۔ طبقات ناصری کے ایک اور بیان سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ اس کتاب کا منصف ؁۱۱۹۳ (۵۸۹ھجری) میں پیدا ہوا تھا ۔ اور اس نے اپنی یہ کتاب سلطان ناصر الدین محمود کے دور میں لکھی تھی ۔ ایک مقام پر وہ اپنے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ۔
"اس جہاد کے حالات کو دعاگوئے صحت (یعنی منہاج سراج) نے نظم کر دیا تھا ۔ جو کاغذ کے پانچ چھ تختے پر آئی ۔ اس سفر میں جو حالات پیش آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ اس میں نظم کر دیا گیا ۔ سلطان کے نام پر اس کا نام "ناصری نامہ" رکھا گیا۔ اس صلے میں سلطان معظم نے میرے لیے مستقل سالانہ عطیہ منظور فرمایا ۔ خان معظم الغ خان اعظم نے ہانسی کے علاقہ میں ایک گاؤں میرے لیے مقرر کر دیا " (۱۱)
اوپر اک مقام پر ملک ناصر الدین تائیسی کے حالات میں بروالہ کا ذکر آیا ہے ۔ اس کے حاشیہ میں مترجم نے لکھا ہے
"بروالہ جنید کے قریب شمال مغرب میں ہے ۔ اکبر کے زمانہ میں ہانسی ، بروالہ، اور جنید سرکار حصار کے حصے تھے "(۱۲)
اسی طرح ایک اور مقام پر ایک بستی " باروتہ" یا "بروٹہ " کے بارے میں حاشیہ لکھتے وقت بیان کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱۰) جے ۔ سی ۔پاول پرائس A History of India لندن ؁۱۹۵۵ ص ۱۲۵
(۱۱) منہاج سراج ۔ طبقات ناصری ۔ ترجمہ غلام رسول مہر ۔ لاہور ۔ ؁۱۹۷۵ جلد اول ص ۸۴۲
(۱۲) ایضاً
 

نایاب

لائبریرین
(۶۲)
" باروتہ کے باب میں اختلاف ہے ۔ راورٹی نے لکھا ہے کہ "مرورتہ" نام ایک مقام بروالہ کے پرگنے میں ہے " (۱۴)
یہ اقتباسات یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ بروالہ کو اس علاقہ میں ہمیشہ ایک اہمیت حاصل رہی ہے ۔ مسلمانوں کی حکومت کے ابتدائی ایام سے لے کر طویل عرصہ تک یہ ایک اہم فوجی مرکز رہا ہے ۔ اور بعد میں بھی اسے پرگنہ کے صدر مقام اور دیگر حیثیتوں سے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے ۔
ہانسی کی اہمیت کا ایک اور پہلو
عہد سلاطین میں ہریانہ کے علاقہ کو بڑی اہمیت رہی ہے ۔ مستقبل میں بادشاہ بننے والے شہزادے کو ہانسی کی صوبیداری پر مقرر کرنے کی روایت تو مغلوں کے عہد تک جاری رہی ۔ اس کے علاوہ بھی عہد سلاطین کے حکمران اس علاقہ کو غیر معمولی اہمیت دیتے رہے تھے ۔ اس کی ایک وجہ تو اس کا محل وقوع تھا کہ دہلی کا دفاع کا انحصار اس علاقہ کی بہبود اور ہانسی کے قلعہ کی مضبوطی پر تھا ۔ ایک اور وجہ کی جانب انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں اشارہ کیا گیا ہے ۔
" دہلی کے سلاطین کی تاریخوں میں اس علاقہ کا ذکر اکثر اتا ہے ۔ کیونکہ یہ علاقہ دہلی کے دربار کے امراء کے " اقطاع " کی حیثیت رکھتا تھا ۔ یہ دہلی سے اتنا قریب تھا کہ کوئی باغی امیر یہاں خود مختاری کی کوشش نہیں کر سکتا تھا " (۱۴)
اسی کتاب میں دوسری جگہ اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔
"سلاطین کے عہد کی تاریخ میں ہانسی کا ذکر اکثر آتا ہے ۔ ایک تو اس لیے کہ یہ ایک اہم قلعہ تھا ۔ دوم اس لیے کہ متعدد امراء کو اس "اقطاع " کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ بادشاہ کے لیے اس قلعہ کا اپنے انتظام میں رکھنا بہت مفید تھا ۔ یہ دہلی سے اس قدر فاصلہ پر تھا کہ کسی امیر یا شہزادے کو دربار سے دور بھیجنے کے کام ٓ سکتا تھا ۔ مگر اتنا بھی دور نہیں تھا کہ یہاں کا حاکم دارالخلافہ کی فوجی قوت سے لاپرواہ ہو کر بغاوت یا خود مختاری کا خیال دل میں لا سکے " (۱۵)
اس قلعہ کے دہلی سے اس قدر قریب ہونے کے باعث ہی شاید مستقبل میں بادشاہ بننے والے شہزادوں کو یہاں انتظامی سربراہی پر بھیجا جاتا تھا ۔ تاکہ بادشاہ کی براہ راست نگرانی میں کاروبار حکومت کی تربیت حاصل کر سکیں ۔
ہانسی کے اس محل وقوع کا فائدہ دہلی کے حکمرانوں نے کبھی کبھار اس طریقہ سے بھی اٹھایا ہے کہ اپنے مخالفین کو قید کرنے کے لیے اس قلعہ کو استعمال کیا ہے ۔ چنانچہ اس کے دو مثالیں واضح طور پر مذکور ہیں ۔ ایک تو یہ کہ علاؤ الدین خلجی نے جب اپنے چچا جلال الدین خلجی کو دھوکے سے قتل کر کے دہلی کے تخت پر قبضہ کر لیا تو سب سے پہلے کام جو اس نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱۳) منہاج سراج ۔ طبقات ناصری ۔ ترجمہ غلام رسول مہر ۔ لاہور ۔ ؁۱۹۷۵ جلد دوم ص ۱۰۲
(۱۴) انسائیکلو پیڈیا آف اسلام (انگریزی) لیڈن ؁۱۹۷۹ جلد ۳ ص ۲۲۵
(۱۵) ایضاً
 

نایاب

لائبریرین
(۶۳)
نے کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ جلال الدین خلجی کے بیٹوں کے خلاف مہم روانہ کی تاکہ بعد میں کسی وقت وہ اس کے لیے مصیبت نہ بن سکیں اور جب انہیں گرفتار کر لیا گیا تو انہیں ہانسی کے قلعہ میں قید کر دیا گیا ۔ (۱۶)
دوسری مثال لودھی خاندان کے زمانہ کی ہے ۔ ابراہیم لودھی کے خلاف اس کے ایک نزدیکی عزیز جلال نے بغاوت کر دی تھی ۔ اس بغاوت کے باعث ابراہیم کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بغاوت پر قابو پانا اس کے لیے دشوار ہو گیا تھا ۔ مگر آخر کار وہ کامیاب ہو گیا اور جلال کو گرفتار کر لیا گیا ۔ ابراہیم نے جلال کو بھی ہانسی کے قلعہ میں قید کرنے کا حکم دیا تھا ۔ (۱۷)
ایک نادر مثال
اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہانسی کا قلعہ دہلی کے اس قدر قریب تھا کہ یہاں کا قلعہ دار تخت دہلی کے خلاف بغاوت کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا تھا ۔ مگر تاریخ میں اس کی بھی ایک مثال موجود ہے ۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔
"یہ علاقہ دہلی سے اس قدر قریب تھا کہ کوئی باغی امیر خود مختاری کی کوشش نہیں کر سکتا تھا ۔ اگرچہ ایک واقعہ پھر بھی اس قسم کا ہوا ۔ واقعہ یہ ہے محمد تغلق نے جب ؁۱۳۳۵ ( ۷۳۶ھ) میں دکن کا سفر اختیار کیا تو ان دنوں سید ابراہیم بن جلال الدین احسن ہریانہ کا گورنر تھا ۔ اس نے جب سنا کہ سلطان تلنگانہ کے مقام پر کسی وبا کا شکار ہو کر وفات پا گیا ہے تو اس نے خزانہ کا وہ حصہ قبضہ میں لے لیا جو سندھ سے دہلی لے جایا جا رہا تھا ۔ اور بہانہ یہ بنایا کہ راستہ محفوظ نہیں ہے ۔ مگر جب سلطان کی موت کی خبر جھوٹی ثابت ہوئی تو اس نے خزانہ لے جانے والے قافلہ کو دارالخلافہ کی جان سفر جاری رکھنے کی اجازت دے دی ۔ لیکن اس کاوائی کی اطلاع دربار میں پہنچ گئی اور اسے قتل کرا دیا گیا ۔ بظاہر ابراہیم کا مقصد ہریانہ کی خود مختاری کے بجائے دہلی کا تخت حاصل کرنا تھا ۔ کیونکہ ہریانہ کی خود مختاری کو تو شاہی فوجوں کے واپس دہلی آ جانے کے بعد دیر تک قائم نہیں رکھا جا سکتا تھا ۔ "(۱۸)
گویا بغاوت اور خود مختاری کی یہ کوشش ایک غلط خبر کی بنا پر ہوئی ۔ اگر بادشاہ کی وفات کی افواہ نہ پجیلتی تو ابراہیم کو ایسی کوشش کرنے کی جرات نہ ہوسکتی تھی ۔ اس قسم کی ایک مثال اس سے قبل التمش کے زمانہ میں بھی ملتی ہے ۔ اس کے بارے بیان کیا جاتا ہے کہ ؁۱۲۴۲ (۶۴۰ھجری) میں غیاث الدین بلبن کو اس " اقطاع" کی عملداری سونپی گئی ۔ ؁۱۲۵۲،۵۳ (۶۵۰ھجری) میں اس کے خلاف دہلی کے دربار میں ایک سازش ہوئی تو اسے ہانسی میں پابند کر دیا گیا ۔۔ مگر اس سازش نے اسے یہاں بھی چین نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱۶) ضیاءالدین برنی ۔ تاریخ فیروز شاہی ۔ ترجمہ ڈاکٹر سید معین الحق ۔ لاہور ؁۱۹۶۹ ص ۳۷۴
(۱۷) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرز ضلع حصار اور لوہارو سٹیٹ ؁۱۹۰۴ ص ۲۰
(۱۸) انسائیکلو پیڈیا آف اسلام (انگریزی) لیڈن ؁۱۹۷۹ جلد ۳ ص ۲۲۵
 
Top