سید عمران
محفلین
ولادت باسعادت
سرزمین ہندوستان میں جن بزرگوں کے فیض قدوم سے شمع اسلام فروزاں ہوئی ان میں سے ایک حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ بھی تھے۔حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی ایران کے صوبہ خراسان کے دارالحکومت سمنان میں ۷۰۷ھ میں پیدا ہوئے۔
والد ماجد
سلطان سید ابراہیم حکومتِ سمنان کے سربراہ تھے، آپ بیدار مغز حکمران ہی نہیں بلکہ متقی و پرہیز گار عالم باعمل بھی تھے۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ دین و دنیا کی دولت سے مالا مال ایسی مکرم و محترم شخصیت کے فرزند ارجمند تھے۔
والدہ ماجدہ
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ کا نام ’’سید ہ خدیجہ بیگم‘‘ تھا۔آپ نہایت عابدہ صالحہ، تلاوتِ قرآن کریم، ادائے نوافل اور وظائف میں شب و روز بسرکرتیں، اکثر شب بیداری کرتیں اور دن کوروزہ رکھتیں، آپ کی نماز تہجد بھی قضا نہیں ہوتی تھی۔حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ نے فرمایا کہ ہماری سلطنت کا سلسلہ ہمیں اپنی والدہ کی میراث سے ملا تھا کیوں کہ ہماری والدہ کے اجداد سلاطین سامانیہ سے تھے جنہوں نے دو سو سال عراق و خراسان میں حکومت کی۔
دینی تعلیم
سلطان خراسان سلطان سید ابراہیم نے اپنے فرزند کی تعلیم حفظ قرآن سے شروع کروائی اور تربیت پر بطور خاص توجہ دی۔ سات سال کی عمر میں حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے بفضل خدا قرآن کریم مع سات قرأت کے حفظ کیا اور چودہ سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ میں عبور حاصل کر لیا ۔حضرت مخدوم سمنانی کمسنی ہی میں حضرت شیخ رکن الدین علاء الدولہ سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور صاحب کشف کرامت بزرگ تھے۔جب آپ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو آپ کے والد ماجد وصال فرما گئے ۔ اس طرح کم عمری میں سلطنت سمنان کی ذمہ داری کا بار گراں آپ کے کندھوں پر آگیا۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایسا بہترین نظام چلایا کہ لوگ حیران رہ گئے ۔
کارِ ترکِ دنیا
آپ نے۷۲۷ ھ سے۷۳۷ھ تک دس سال نہایت عدل و انصاف سے حکومت کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو حضرت مخدوم سمنانی کے ذریعہ مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کا کام لینا تھا، اسی وجہ سے آپ کا دل امور سلطنت سے اچاٹ رہنے لگا اور راہِ سلوک و معرفت کی طرف طبیعت مائل ہونے لگی۔ آخر وہ وقت آگیا جب آپ کو دنیا کی حکومت سے دستبردار ہو کر روحانیت کی بادشاہت پر سرفراز ہونا تھا۔ ۲۷ رمضان المبارک۷۳۷ ھ کی شب حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا ’’حجاب تخت و تاج دور کر کے لذت وصل الٰہی کے لئے تیار ہو جاؤ، حضرت علاؤ الدین گنج نبات تمہارے منتظر ہیں ۔صبح ہوتے ہی آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سید اعراف کی تخت نشینی کا اعلان کیا اور خود ہمیشہ کے لئے تخت و تاج سے دستبردار ہو گئے ،اس وقت آپکا سن ۲۵ سال تھا۔
آپ نے والدہ محترمہ سے سفر کی اجازت لی تو انہوں نے فرمایا بیٹا اس طرح نہ جاؤ لوگ کیا کہیں گے کہ سمنان کا بادشاہ تن تنہا جا رہا ہے، شہر سے نکلتے وقت وزراء امراء اور کچھ محافظ ساتھ رکھو تاکہ رعایا سمجھے کہ بادشاہ کسی مہم پر جا رہا ہے ۔ والدہ محترمہ کے حکم پر آپ نے وزراء امراء اور کچھ محافظوں کو اپنے ساتھ لیا اور شہر سمنان سے نکل کھڑے ہوئے، کچھ دور چلنے کے بعد آپ نے تمام وزیروں اور محافظوں کو واپس کر دیا اور خود تن تنہا منزل مقصود کی جانب روانہ ہو گئے۔
سلوک طے کرنا
آپ سب سے پہلے ملتان کے نواح میں قصبہ اوچ شریف میں وارد ہوئے جہاں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اﷲ علیہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ جب حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی اوچ شریف پہنچے تو حضرت مخدوم اس وقت اپنے مریدین کو تعلیم دے رہے تھے اچانک انہوں نے فرمایا ’’بوئے یار می آید‘‘ مجھے اپنے دوست کی خوشبو آرہی ہے یہ کہہ کر تیزی سے خانقاہ کے دروازے پر آئے۔ اسی وقت حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی وہاں پہنچے تو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے آگے بڑھ کر آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا، سینے سے لگایا اور فرمایا :’’سرداری و سیادت کے باغ میں ایک مدت بعد نسیم بہار آئی ہے۔ ‘‘ پھر فرمایا عزیز جلدی راہ سلوک میں قدم رکھو برادرم علاؤالدین تمہارے منتظر ہیں ۔ کچھ عرصے اپنی خانقاہ میں عرصہ ٹھہرایا۔ خرقۂ خلافت عطا فرمانے کے بعد فرمایا اب تک جن اکابرین سے میں نے استفادہ کیا ہے وہ سب تمہیں عطا کر دیا ۔
ان تمام نعمتوں سے سرفراز ہوکر آپ پا پیادہ یہاں سے روانہ ہوئے اور دہلی سے ہوتے ہوئے بہار پہنچے۔ وہاں مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری رحمۃ اﷲ علیہ کا جنازہ رکھا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی نماز جنازہ وہی شخص پڑھائے گا جو صحیح النسب سید ہو، تارک السلطنت ہو اور سات قرأت کا قاری ہو، وہ مغرب کی طرف سے کالا کمبل اوڑھے نمودار ہوگا۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے حضرت مخدوم کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کی۔سید اشرف جہانگیر سمنانی یہاں سے روانہ ہوئے ۔جہاں رات ہوتی وہاں فجر تک عبادت میں مصروف رہتے، صبح ہوتے ہی روانہ ہو جاتے ۔ سینکڑوں میل کی دشوار گزار راہیں طے کر کے سر زمین بنگال میں قدم رکھا اور پنڈوا شریف کے قریب پہنچ گئے جہاں شیخ علاؤ الدین علاؤ الحق گنج نبات رحمۃ اﷲ علیہ رشد و ہدایت کے جواہر لٹا رہے تھے۔
حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی نے آپ کا استقبال کیا اور بکمالِ اعزاز آپ کو اپنی خانقاہ میں لائے اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت کیا ۔ سید اشرف جہانگیر اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں بارہ سال رہے اور سخت ریاضت و مجاہدے کیے۔بعد ازاں حضرت شیخ نے اپنے اس مرید کو اجازت و خلافت سے نوازا۔
تکمیل سلوک کے بعد اپنے شیخ کے حکم سے مخدوم سمنانی رشد وہدایت کے لئے بنگال سے جونپور پہنچے۔ جونپور میں ان دنوں سلطان ابراہیم شرقی کی حکومت تھی اور سلطان کی علماء نوازی و مشائخ دوستی کی بنیاد پر جونپورعلماء و مشائخ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم جونپور پہنچے تو وہاں پر سلطان ابراہیم شرقی اور علامہ قاضی شہاب الدین دولت آبادی اور دیگر علماء و مشائخ نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا، کثیر تعداد میں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا اور گمراہوں و فاسقوں نے اپنی گمراہی اور فسق و فجور سے توبہ کی۔ خود سلطان آپ کا معتقد ہوا اور اپنے اہل خانہ کو آپ سے مرید کروادیا۔ قاضی شہاب الدین دولت آبادی مخدوم سمنانی کے علم و معرفت سے حد درجہ متاثر ہوئے اور آپ کے معتقد ہوگئے۔بعد ازاں بنارس کے راستے اجودھیا کے قریب مقام کچھوچھہ (جواس وقت یوپی کے ضلع جونپور میں تھا اور اب ضلع امبیڈکرنگر میں ہے ) پہنچے اور۸۳۲ ھ میں کچھوچھہ میں اپنی خانقاہ قائم کی ۔
تصنیفات
آپ نے صرف تقریر پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تحریری کام بھی جاری رکھا۔ آپ نے اکتیس کتابیں تصنیف فرمائیں جو مرور ایام کے ساتھ ساتھ ناپید ہو گئیں ، لیکن اب بھی ۱۰ کتابیں ایسی ہیں جو صحیح حالت میں ہیں اور عالم اسلام کی مختلف جامعات میں محفوظ ہیں۔ اکثر کتابیں فارسی میں تھیں بعد میں آپ نے ان کا عربی میں ترجمہ کیا۔ ایک کتاب ’’فوائد العقائد‘‘ فارسی میں تھی، اس کا عربی میں ترجمہ کیا گیا ۔ آپ کے خلیفہ و جانشین حضرت سید عبدالرزاق نورالعین فرماتے ہیں کہ جب آپ عرب تشریف لے گئے اور بدوؤں نے تصوف کے مسائل جاننے کی خواہش کی تو آپ نے ’’فوائد العقائد‘‘ کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ آپ کی تصانیف میں ’’لطائف اشرفی‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس میں آپ نے تصوف کے بڑے اہم اسرار و رموز بیان فرمائے ہیں۔ طریقت کے تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ یہ کتاب دیگر جامعات کے علاوہ جامعہ کراچی کی لائبریری میں بھی محفوظ ہے اور اس کا ’’اخلاق و تصوف‘‘ کے نام سے ۷۵۸ھ مطابق ۱۳۰۸ ھ میں اُردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس لحاظ سے سید اشرف جہانگیر سمنانی صرف عربی اور فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ اُردو زبان کے پہلے ادیب بھی مانے جاتے ہیں، یہ اردو میں سب سے پہلی نثری تصنیف ہے جس کے ۲۸ صفحات ہیں۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنی زندگی سیاحت و تبلیغ دین میں گزاری اور سیاحت کے دوران کئی سو بزرگان دین سے فیض حاصل کیا۔مولف لطائف اشرفی،خلیفہ حضرت مخدوم سمنانی ،حضرت نظام الدین یمنی نے لکھا ہے کہ حضرت مخدوم سمنانی نے راہ سلوک میں ۳۰ سال سیر و سیاحت کی اور پانچ سو اولیاء ومشایخ وقت سے علوم معرفت و فیوض و برکات حاصل کیے۔
ہندوستان کے مشہورقدیم ہندی وفارسی ادیب ملک محمد جائسی کا قول ہے کہ امت محمدیہ کے صدقین میں سے دو شخص ترک سلطنت کے لحاظ سے تمام اولیاء پر فضیلت رکھتے ہیں۔ ایک سلطان التارکین ابراہیم بن ادہم اور دوسرے سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہما ۔
آپ نے ۲۸ محرم الحرام ۸۰۸ھ کو داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ آپ کی قبر ہندوستان کے صوبے یو پی کے شہر کچھوچھہ میں ہے۔
سرزمین ہندوستان میں جن بزرگوں کے فیض قدوم سے شمع اسلام فروزاں ہوئی ان میں سے ایک حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ بھی تھے۔حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی ایران کے صوبہ خراسان کے دارالحکومت سمنان میں ۷۰۷ھ میں پیدا ہوئے۔
والد ماجد
سلطان سید ابراہیم حکومتِ سمنان کے سربراہ تھے، آپ بیدار مغز حکمران ہی نہیں بلکہ متقی و پرہیز گار عالم باعمل بھی تھے۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ دین و دنیا کی دولت سے مالا مال ایسی مکرم و محترم شخصیت کے فرزند ارجمند تھے۔
والدہ ماجدہ
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ کا نام ’’سید ہ خدیجہ بیگم‘‘ تھا۔آپ نہایت عابدہ صالحہ، تلاوتِ قرآن کریم، ادائے نوافل اور وظائف میں شب و روز بسرکرتیں، اکثر شب بیداری کرتیں اور دن کوروزہ رکھتیں، آپ کی نماز تہجد بھی قضا نہیں ہوتی تھی۔حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ نے فرمایا کہ ہماری سلطنت کا سلسلہ ہمیں اپنی والدہ کی میراث سے ملا تھا کیوں کہ ہماری والدہ کے اجداد سلاطین سامانیہ سے تھے جنہوں نے دو سو سال عراق و خراسان میں حکومت کی۔
دینی تعلیم
سلطان خراسان سلطان سید ابراہیم نے اپنے فرزند کی تعلیم حفظ قرآن سے شروع کروائی اور تربیت پر بطور خاص توجہ دی۔ سات سال کی عمر میں حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے بفضل خدا قرآن کریم مع سات قرأت کے حفظ کیا اور چودہ سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ میں عبور حاصل کر لیا ۔حضرت مخدوم سمنانی کمسنی ہی میں حضرت شیخ رکن الدین علاء الدولہ سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور صاحب کشف کرامت بزرگ تھے۔جب آپ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو آپ کے والد ماجد وصال فرما گئے ۔ اس طرح کم عمری میں سلطنت سمنان کی ذمہ داری کا بار گراں آپ کے کندھوں پر آگیا۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایسا بہترین نظام چلایا کہ لوگ حیران رہ گئے ۔
کارِ ترکِ دنیا
آپ نے۷۲۷ ھ سے۷۳۷ھ تک دس سال نہایت عدل و انصاف سے حکومت کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو حضرت مخدوم سمنانی کے ذریعہ مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کا کام لینا تھا، اسی وجہ سے آپ کا دل امور سلطنت سے اچاٹ رہنے لگا اور راہِ سلوک و معرفت کی طرف طبیعت مائل ہونے لگی۔ آخر وہ وقت آگیا جب آپ کو دنیا کی حکومت سے دستبردار ہو کر روحانیت کی بادشاہت پر سرفراز ہونا تھا۔ ۲۷ رمضان المبارک۷۳۷ ھ کی شب حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا ’’حجاب تخت و تاج دور کر کے لذت وصل الٰہی کے لئے تیار ہو جاؤ، حضرت علاؤ الدین گنج نبات تمہارے منتظر ہیں ۔صبح ہوتے ہی آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سید اعراف کی تخت نشینی کا اعلان کیا اور خود ہمیشہ کے لئے تخت و تاج سے دستبردار ہو گئے ،اس وقت آپکا سن ۲۵ سال تھا۔
آپ نے والدہ محترمہ سے سفر کی اجازت لی تو انہوں نے فرمایا بیٹا اس طرح نہ جاؤ لوگ کیا کہیں گے کہ سمنان کا بادشاہ تن تنہا جا رہا ہے، شہر سے نکلتے وقت وزراء امراء اور کچھ محافظ ساتھ رکھو تاکہ رعایا سمجھے کہ بادشاہ کسی مہم پر جا رہا ہے ۔ والدہ محترمہ کے حکم پر آپ نے وزراء امراء اور کچھ محافظوں کو اپنے ساتھ لیا اور شہر سمنان سے نکل کھڑے ہوئے، کچھ دور چلنے کے بعد آپ نے تمام وزیروں اور محافظوں کو واپس کر دیا اور خود تن تنہا منزل مقصود کی جانب روانہ ہو گئے۔
سلوک طے کرنا
آپ سب سے پہلے ملتان کے نواح میں قصبہ اوچ شریف میں وارد ہوئے جہاں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اﷲ علیہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ جب حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی اوچ شریف پہنچے تو حضرت مخدوم اس وقت اپنے مریدین کو تعلیم دے رہے تھے اچانک انہوں نے فرمایا ’’بوئے یار می آید‘‘ مجھے اپنے دوست کی خوشبو آرہی ہے یہ کہہ کر تیزی سے خانقاہ کے دروازے پر آئے۔ اسی وقت حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی وہاں پہنچے تو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے آگے بڑھ کر آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا، سینے سے لگایا اور فرمایا :’’سرداری و سیادت کے باغ میں ایک مدت بعد نسیم بہار آئی ہے۔ ‘‘ پھر فرمایا عزیز جلدی راہ سلوک میں قدم رکھو برادرم علاؤالدین تمہارے منتظر ہیں ۔ کچھ عرصے اپنی خانقاہ میں عرصہ ٹھہرایا۔ خرقۂ خلافت عطا فرمانے کے بعد فرمایا اب تک جن اکابرین سے میں نے استفادہ کیا ہے وہ سب تمہیں عطا کر دیا ۔
ان تمام نعمتوں سے سرفراز ہوکر آپ پا پیادہ یہاں سے روانہ ہوئے اور دہلی سے ہوتے ہوئے بہار پہنچے۔ وہاں مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری رحمۃ اﷲ علیہ کا جنازہ رکھا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی نماز جنازہ وہی شخص پڑھائے گا جو صحیح النسب سید ہو، تارک السلطنت ہو اور سات قرأت کا قاری ہو، وہ مغرب کی طرف سے کالا کمبل اوڑھے نمودار ہوگا۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے حضرت مخدوم کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کی۔سید اشرف جہانگیر سمنانی یہاں سے روانہ ہوئے ۔جہاں رات ہوتی وہاں فجر تک عبادت میں مصروف رہتے، صبح ہوتے ہی روانہ ہو جاتے ۔ سینکڑوں میل کی دشوار گزار راہیں طے کر کے سر زمین بنگال میں قدم رکھا اور پنڈوا شریف کے قریب پہنچ گئے جہاں شیخ علاؤ الدین علاؤ الحق گنج نبات رحمۃ اﷲ علیہ رشد و ہدایت کے جواہر لٹا رہے تھے۔
حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی نے آپ کا استقبال کیا اور بکمالِ اعزاز آپ کو اپنی خانقاہ میں لائے اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت کیا ۔ سید اشرف جہانگیر اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں بارہ سال رہے اور سخت ریاضت و مجاہدے کیے۔بعد ازاں حضرت شیخ نے اپنے اس مرید کو اجازت و خلافت سے نوازا۔
تکمیل سلوک کے بعد اپنے شیخ کے حکم سے مخدوم سمنانی رشد وہدایت کے لئے بنگال سے جونپور پہنچے۔ جونپور میں ان دنوں سلطان ابراہیم شرقی کی حکومت تھی اور سلطان کی علماء نوازی و مشائخ دوستی کی بنیاد پر جونپورعلماء و مشائخ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم جونپور پہنچے تو وہاں پر سلطان ابراہیم شرقی اور علامہ قاضی شہاب الدین دولت آبادی اور دیگر علماء و مشائخ نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا، کثیر تعداد میں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا اور گمراہوں و فاسقوں نے اپنی گمراہی اور فسق و فجور سے توبہ کی۔ خود سلطان آپ کا معتقد ہوا اور اپنے اہل خانہ کو آپ سے مرید کروادیا۔ قاضی شہاب الدین دولت آبادی مخدوم سمنانی کے علم و معرفت سے حد درجہ متاثر ہوئے اور آپ کے معتقد ہوگئے۔بعد ازاں بنارس کے راستے اجودھیا کے قریب مقام کچھوچھہ (جواس وقت یوپی کے ضلع جونپور میں تھا اور اب ضلع امبیڈکرنگر میں ہے ) پہنچے اور۸۳۲ ھ میں کچھوچھہ میں اپنی خانقاہ قائم کی ۔
تصنیفات
آپ نے صرف تقریر پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تحریری کام بھی جاری رکھا۔ آپ نے اکتیس کتابیں تصنیف فرمائیں جو مرور ایام کے ساتھ ساتھ ناپید ہو گئیں ، لیکن اب بھی ۱۰ کتابیں ایسی ہیں جو صحیح حالت میں ہیں اور عالم اسلام کی مختلف جامعات میں محفوظ ہیں۔ اکثر کتابیں فارسی میں تھیں بعد میں آپ نے ان کا عربی میں ترجمہ کیا۔ ایک کتاب ’’فوائد العقائد‘‘ فارسی میں تھی، اس کا عربی میں ترجمہ کیا گیا ۔ آپ کے خلیفہ و جانشین حضرت سید عبدالرزاق نورالعین فرماتے ہیں کہ جب آپ عرب تشریف لے گئے اور بدوؤں نے تصوف کے مسائل جاننے کی خواہش کی تو آپ نے ’’فوائد العقائد‘‘ کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ آپ کی تصانیف میں ’’لطائف اشرفی‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس میں آپ نے تصوف کے بڑے اہم اسرار و رموز بیان فرمائے ہیں۔ طریقت کے تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ یہ کتاب دیگر جامعات کے علاوہ جامعہ کراچی کی لائبریری میں بھی محفوظ ہے اور اس کا ’’اخلاق و تصوف‘‘ کے نام سے ۷۵۸ھ مطابق ۱۳۰۸ ھ میں اُردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس لحاظ سے سید اشرف جہانگیر سمنانی صرف عربی اور فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ اُردو زبان کے پہلے ادیب بھی مانے جاتے ہیں، یہ اردو میں سب سے پہلی نثری تصنیف ہے جس کے ۲۸ صفحات ہیں۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنی زندگی سیاحت و تبلیغ دین میں گزاری اور سیاحت کے دوران کئی سو بزرگان دین سے فیض حاصل کیا۔مولف لطائف اشرفی،خلیفہ حضرت مخدوم سمنانی ،حضرت نظام الدین یمنی نے لکھا ہے کہ حضرت مخدوم سمنانی نے راہ سلوک میں ۳۰ سال سیر و سیاحت کی اور پانچ سو اولیاء ومشایخ وقت سے علوم معرفت و فیوض و برکات حاصل کیے۔
ہندوستان کے مشہورقدیم ہندی وفارسی ادیب ملک محمد جائسی کا قول ہے کہ امت محمدیہ کے صدقین میں سے دو شخص ترک سلطنت کے لحاظ سے تمام اولیاء پر فضیلت رکھتے ہیں۔ ایک سلطان التارکین ابراہیم بن ادہم اور دوسرے سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہما ۔
آپ نے ۲۸ محرم الحرام ۸۰۸ھ کو داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ آپ کی قبر ہندوستان کے صوبے یو پی کے شہر کچھوچھہ میں ہے۔
آخری تدوین: