"ب" سے بچ کر رہنا

عثمان

محفلین
ہمارے گھر کے کچھ دور ایک نجومی صاحب نے ڈیرا جما رکھا تھا۔ ایک روز میں نے سوچا کہ ان سے اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھنا چاہیے۔ چنانچہ میں ان کے پاس گیا۔ انہوں نے میرا ہاتھ دیکھا اور فرمانے لگے، "زندگی میں ہمیشہ "ب" سے بچ کر رہنا۔ مطلب یہ کہ اگر تمہیں زندگی پیاری ہے تو "ب" سے شروع ہونے والی چیزوں سے بچنا۔"
یہ سن کر میرا سر چکرانے لگا اور پہلی دفعہ دن میں تارے نظر آنے کا مطلب سمجھ آیا۔
میں وہاں سے کسی نہ کسی طرح اٹھا اور گھر آ کر "بستر" کے بجائے فرش پر لیٹ گیا۔ امّی نے دیکھا تو کہا، "بیٹا! کیا ہوا؟"
"کچھ نہیں امّی! وہ ذرا سر چکرا رہا ہے اور ہاں برائے مہربانی مجھے بیٹا نہ کہیے گا۔"
"لیکن کیوں؟ کیا تم میرے بیٹے نہیں ہو؟" امّی نے حیرت سے کہا۔
"ہوں تو، لیکن مجھے لڑکا کہیے۔" میں نے ہاتھ جوڑتے ہوے کہا۔ ابھی میری اور امّی کی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ باجی کالج سے آ گئیں۔ ان کا موڈ خراب تھا۔ مجھے دیکھتے ہی برس پڑیں، "ارے! یہ تم فرش پر کیوں لیٹے ہو؟"
"بس آپا! ذرا گرمی لگ رہی تھی۔" میں نے بہانہ بنایا۔
"ایں! اسے کیا ہو گیا؟ یہ مجھے باجی سے آپا کہہ رہا ہے؟" انہوں نے غصے سے کہا۔
بہرحال، میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا، کیوں کہ "بیٹھنا" تو میرے نصیب میں نہ تھا۔ پھر امّی سے پوچھا، "امّی! آج کیا پکایا ہے؟"
انہوں نے کہا، "بھنڈی اور بکرے کا گوشت۔"
یہ سن کر مجھے رونا آ گیا۔ "ب" والی چیز کھانا تو دور کی بات، میں انہیں دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ خیر جناب! میں ہوٹل میں آ گیا اور دو سموسوں کا آرڈر دیا۔ بیرا سموسے رکھ کر چلا گیا۔ میرے ساتھ میز پر بیٹھا ایک شخص "برفی" کھا رہا تھا۔ اسے دیکھ کر میرا دماغ خراب ہو گیا اور میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔
مہینے کی "بارہ" "بیس" اور "بائیس" تاریخیں میرے لیے منحوس تھیں۔ دن میں جب بھی "بارہ" بجتے دل میں ایک ہول سا اٹھنے لگتا۔ "بادام" کی آئس کریم تو میری جان کی دشمن ہو گئی۔ ہفتے میں "بدھ" کے دن محتاط رہنا پڑتا کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آ جائے۔ کتابوں کو اب "بستے" کے بجائے ہاتھوں میں لے جانے لگا۔ اب تو "بس" میں جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ روز پیدل ہی اسکول جاتا تھا۔
سر کے "بال" جو مجھے بےحد عزیز تھے ناچار منڈوانے پڑے۔ کچھ دن پہلے ابّو نے ایک "بیکری" خریدی تھی۔ شام کے وقت وہاں بیٹھتا تھا، لیکن اب میں نے ابّو سے صاف کہہ دیا کہ مجھے معاف کر دیں، میں بیکری پر نہیں بیٹھ سکتا۔
"بقر عید" کے دنوں میں ہر طرف "بکروں" کو دیکھ کر مجھے سانس اوپر نیچے ہوتا محسوس ہوا۔ "بلال" اور "باسط" جیسے دوستوں سے دوستی چھوڑنی پڑی۔
کوئی "باتونی" شخص آ جاتا تو گھبراہٹ سی ہونے لگتی اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ "برسات" جیسے موسم سے الجھن ہونے لگتی۔ "بارش" سے اب جان کے لالے پڑ گئے۔ "بلّی" بھی جان کی دشمن ہو گئی۔
انہی دنوں میرے دوست "بابر" کی شادی تھی۔ لازمی بات ہے "برات" بھی جانی تھی اور وہ بھی "بہاول پور"۔ ابّو نے کہا، "بیٹا! تم بہت دنوں سے کہیں نہیں گئے۔ "بابر" تمہارا دوست بھی ہے۔ چلے جاؤ۔"
اب میں ابّو کو کیا بتاتا کہ وہاں تو اتنی سارے "ب" جمع ہیں۔ بھلا آپ ہی بتائیے کہ اتنی بہت سی "ب" کے درمیان میں کیسے زندہ رہ سکتا تھا۔
"بدھ" کے روز امّی نے "بکرے" کی "بریانی" پکائی۔ "بریانی" دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا، کیوں کہ بریانی مجھے بہت پسند ہے۔ اب تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔ نجومی کو جا کر گردن سے پکڑ لیا کہ یہ تم نے کیسی مصیبت میں پھنسا دیا ہے۔ اس نے کہا، "ارے بھئی! غلطی ہو گئی۔ تمہارے ستارے کہتے ہیں "ن" سے پرہیز کرنا ہے۔
اب آپ بتائیے میں کیا کروں۔۔۔
یہ تحریر اس ربط کے مطابق سید خرم ریاض کی ہے جو ماہنامہ نونہال کے اکتوبر ۱۹۹۳ کے شمارے میں شائع ہوئی۔
یہ ضروری ہے کہ اگر آپ کوئی تحریر محفل میں شئیر کریں تو مصنف کا نام اور حوالہ ضرور لکھیں۔ نیز اسے درست زمرے میں شائع کریں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
انیس بھائی لاجواب انتخاب ہے۔

نونہال اور ہم ایسے نونہالوں سے آپ کی محبت پر قربان ہونے کو دل چاہتا ہے۔ :) :) :)

ویسے میں سوچتا ہوں کہ ایسی عمدہ کہانیاں نونہال کا ہی خاصہ ہوا کرتی تھیں۔
 
Top