بے ہنر شہر میں کیا کوئی سخنور ابھرے - ریحان اعظمی

حسان خان

لائبریرین
بے ہنر شہر میں کیا کوئی سخنور ابھرے
جب زباں کھولی تو تنقید کے خنجر ابھرے
داد کے دوش پہ ابھرے تو کوئی بات نہیں
حرف تو وہ ہے جو قرطاس کے اوپر ابھرے
تشنہ لب رہ کے کیا ارض و سما کو سیراب
ہم وہ خورشید کہ جو نوکِ سناں پر ابھرے
جو تھے ناواقفِ امواجِ سخن ڈوب گئے
ہم کہ دریائے سخن کے تھے شناور ابھرے
میری آنکھوں میں کبھی اشک نہ آتے لیکن
تیری خواہش تھی کہ صحرا سے سمندر ابھرے
ایک پیاسے کی مصیبت پہ گرے تھے آنسو
مثلِ گوہر وہی آنسو لبِ کوثر ابھرے
جتنے حق گو تھے ترے شہر میں معتوب ہوئے
جتنے کم ظرف تھے سب بر سرِ منبر ابھرے
جب درِ آلِ محمد پہ قلم کو رکھا
ملک میں تب کہیں ریحان کے جوہر ابھرے
(ریحان اعظمی)
 

طارق شاہ

محفلین
تشنہ لب رہ کے کِیا ارض و سما کو سیراب
ہم وہ خورشید، کہ جو نوکِ سناں پر اُبھرے
جتنے حق گو تھے ترے شہر میں معتوب ہوئے
جتنے کم ظرف تھے سب بر سرِ منبر اُبھرے
ایک پیاسے کی مصیبت پہ گِرے تھے آنسو
مثلِ گوہر وہی آنسو لبِ کوثر اُبھرے
بہت ہی خوب​
تشکّر یہاں شیئر کرنے پر​
بہت شاداں و فرحاں رہیں​
 
Top