بے نسب درہم و دینار کا ورثہ کیسا

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بے نسب درہم و دینار کا ورثہ کیسا
ہم نہ اپنائیں جو میراث تو حصہ کیسا

نام کی تختی لگانے سے نہ ہوگا ثابت
تم جو گھر پر نہیں موجود تو قبضہ کیسا

دوستی آگ سے کاغذ کی جلادےگی شہر
پھول رکھئے کف قرطاس پہ شعلہ کیسا​

میں فقط میں ہوں مجھے نسبتِ الفاظ سے جان
مسلکِ لوح و قلم میں کوئی فرقہ کیسا

دو دو چہرے ہیں مگر کوئی پرکھتا ہی نہیں
چل رہا ہے سر ِ بازار یہ سکہ کیسا

حرفِ حق پر نہ کٹے گردنِ پندار تو پھر
سجدۂ شب کا جبیں پر کوئی دھبہ کیسا

پُر فتن عہد ہے، بس روح کو رکھنا آباد
جان جانی ہے تو پھر جان کا خطرہ کیسا

بات پرکھو ، لبِ گفتار نہ پرکھو لوگو !
بات سچی ہے تو سچائی کا شجرہ کیسا

ظلم جو بھی کرے تردید ضروری ہے ظہیر
ظلم اندھیرا ہے تو پھر ظلم کا چہرہ کیسا

ظہیراحمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۰
فاتح سید عاطف علی کاشف اختر محمد تابش صدیقی
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ بہت خوب حضور۔۔۔
اس شعر کے تو کیا ہی کہنے
حرفِ حق پر نہ کٹے گردنِ پندار تو پھر
سجدۂ شب کا جبیں پر کوئی دھبہ کیسا
 
Top