بےزبان مظلوم

pakistan-child-sexual-abuse-molestation-1.jpg

تصویری خاکہ۔ خدا بخش ابڑو۔

طاہر کو آج بھی وہ بھیانک رات اچھی طرح یاد ہے جب چند سال قبل تین پولیس اہلکاروں نے اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، “ہم لڑکوں کا ایک گروہ فرش پر سویا ہوا تھا کہ اسی لمحے ایک پولیس موبائل ہمارے پاس آ کر رکی اور ہمیں وہاں سے جانے کا کہا ، انہوں نے تمام لڑکوں میں سے صرف مجھے چنا، وہ مجھے پولیس اسٹیشن لے کر گئے اور کہا کہ اگر میں چلاؤں گا تو کوئی میری مدد نہ کر سکے گا لیکن اگر میں ان سے تعاون کروں گا تو یہ میرے حق میں بہتر ہو گا”۔ وہ اس وقت گیارہ برس کا تھا، کراچی کی سڑکوں پر رہنے والا ایک بھگوڑا۔

اقوام متحدہ کی 2005 میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں میں 12 سے 15 لاکھ بچے سڑکوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور اس تعداد میں گزشتہ کچھ برسوں میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ شمالی علاقہ جات کے سنگین حالات ہیں جس کی اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کی ایک بڑی تعداد مجبوراً دوسرے علاقوں خصوصاً کراچی ہجرت کر چکی ہے جبکہ تباہ کن سیلاب نے زرعی معیشت سے وابستہ افراد کو وہاں نکلنے پر مجبور کر دیا اور شہری علاقوں میں غربت کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔

ان کے بچے سڑکوں پر کام کرنے پر مجبور کر دیا اور بہت سے کیسز میں یہ بچے آسان شکار کی تلاش میں سرگرداں بھیڑیوں کے پنجوں میں جکڑے گئے۔

سڑکوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور بچوں کیلیے وہ سب سے بڑا خطرہ جنسی زیادتی ہے جس کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے، ہیومن ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن کے رانا آصف حبیب نے بتایا کہ عام طور پر ایک بچے کو پہلی رات کسی پرانے بچے یا بڑے بچوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ دباؤ کی صورت میں، سڑک پر رہنے والا بچہ جنسی زیادتی کے عمل میں تھوڑی بہت مزاحمت کرتا ہے۔

سڑکوں پر رہنے والے بچوں کی اکثریت یتیم، گھر سے نکالے گئے یا گھر سے بھاگے ہوئے ہوتے ہیں، ان کیلیے تحفظ کا واحد ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی گیند یا جرائم پیشہ گروہ سے منسلک ہو جائیں۔ اس طرھ کے گینگ عام طور پر لڑکوں پر مشتمل ہوتے ہیں، آزاد فاؤنڈیشن کے علی بلگرامی نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ “ہماری معاشرتی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ لڑکیاں عام طور پر سڑکوں پر نظر نہیں آتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ گھر سے نکل بھی جائیں تو ان کے گھر والے انہیں واپس لے جاتے ہیں یا پھر انہیں اسمگل کر دیا جاتا ہے۔

سڑک پر کھیلتے بچے مختلف قسم کے شکاریوں کا جنسی طور پر باآسانی نشانہ بن سکتے ہیں جیسے ایک پرانا بچہ جو گینگ کا سربراہ ہوتا ہے، بڑے سردار جو مختلف علاقوں میں بچوں کے متعدد گینگ کو کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں، مقامی پولیس جو اس ورے نیٹ ورک کی کرتا دھرتا ہوتی ہے اور اس ک علاوہ بھی دیگر کوئی لوگ شامل ہیں۔

میں نے اپنا نمبر مالیشیے کو دیا ہوا ہے جو اچھے خریداروں کو میری تمام تفصیلات فراہم کر دیتا ہے، مشکی یا گندمی رنگت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ مانگ 11 سے 14 سال کے عمر کے بچوں کی ہوتی ہے خصوصاً ان کی جن کی ڈھاڑی نہ آئی ہو۔
یہ لڑکے بھیک مانگ کر، منشیات بیچنے اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں جس کے بعد یہ پولیس کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اسپارک کے عبداللہ لانا کے مطابق یہ بچے، ریلوے اسٹیشن، فٹ پاتھوں، کار پارکنگ اور مزاروں وغیرہ پر سوتے ہیں، یہ سڑک کنارے لگے اسٹالز کے مالکوں کی مدد سے اپنی سونے کی جگہ اور کمائی محفوظ کر لیتے ہیں اور پھر وہ اسی چیز کا فائدہ اٹھا کر ان سے جنسی مراسم قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ بچے کبھی کبھی جنسی طور پر بچوں سے رغبت رکھنے والے افراد کا شکار بھی بن جاتے ہیں جو مزاروں، ہوٹلوں اور ایسی جگہیں جہاں کھانا مفت بٹتا ہو، وہاں موجود رہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایسی جگہوں پر بھی پائے جاتے ہیں جہاں بچے کام کرتے ہوں جیسے چائے کا ڈھابہ وغیرہ۔ یہ انہیں کپڑے دلانے، ویڈیو گیم کھلانے یا فلم دکھانے کا جھانسہ دے کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ انہیں صرف 20 روپے کے ٹکٹ والے سینما میں لے جاتے ہیں جہاں پورن فلمیں دکھائی جاتی ہیں جو کراچی کی کچی آبادیوں مثلاً مچھر کالونی جیسے علاقوں میں کافی تعداد میں موجود ہیں۔

جنسی زیادتی جو ان کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے اور کسی حد تک ان کی بقا کا مسئلہ بھی، سڑکوں پر رہنے والے یہ بچے بعض اوقات کچھ روپوں کیلیے اپنا جسم بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں خصوصاً منشیات کا عادی ہونے یا پکڑے جانے کے بعد۔ طاہر بھی جب 16 سال کا ہوا تو اس نے جنسی تجارت کا کام شروع کر دیا۔

انہوں نے حقیقت بتاتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس والے، ٹیکسی ڈرائیور اور دیگر لوگ بلاخوف ہمارا استعمال کرتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ میں بھی اس سے کچھ نہ کچھ کما لیتا ہوں۔ میں نے اپنا نمبر مالیشیے کو دیا ہوا ہے جو اچھے خریداروں کو میری تمام تفصیلات فراہم کر دیتا ہے، طاہر کے مطابق مشکی یا گندمی رنگت ۔۔۔۔ جو نہ زیادہ گوری ہو نہ کالی، کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ مانگ 11 سے 14 سال کے عمر کے بچوں کی ہوتی ہے خصوصاً ان کی جن کی ڈھاڑی نہ آئی ہو۔

جس ٹرمینل جیسے راوالپنڈی میں پیر وڑھائی، عوامی پارک جیسے کراچی کا جہانگیر پارک اور سستے ہوٹل وہ عام طور پر وہ خاص مقامات ہیں جہاں بچوں سے جنسی زیادتی کی جاتی ہے، پیر وڑھائی ان کے گندے ہوٹلوں کے گڑھ میں سے ایک ہے جہاں ایک رات گزارنے کا بستر کا کرایہ صرف 30 روپے ہے۔

جس سے بچوں کے جنسی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ گزشتہ سال حکومت سندھ سڑک پر رہنے والے 26 بچوں کا سروے کیا تھا اور ان میں سے 10 ایڈز کے مریض تھے۔

جہاں جنسی زیادتی بقا کا ایک بہانہ اور قانون کے رکھوالے خود ہی اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہوں تو اس صورت میں اسٹریٹ چلڈرن کیلئے قانونی مدد کا کوئی جواز ہی نہیں رہتا۔ اس ظالم سماج میں وہ ہمیشہ پسے رہتے ہیں اور حقیقی معنوں میں وہ بے زبان ہوتے ہیں۔
اسی سلسلے میں دو تحاریر
خوف کی چاردیواری

مدد کی طلب

بہ شکریہ ڈان اردو
 
اس اسٹوری کو پڑھنے کے بعد میرے اوپر کیا کیفیت گذری بیان نہیں کر سکتا ۔کبھی کبھی کسی مسئلہ ،کہانی،معاملہ،خبر یا اور بھی اس طرح کی چیزوں پر کچھ کہنے کے لئے جیسے الفاظ تنگ پڑ جاتے ہیں ،زبان گنگ ہو جاتی ہے اور کچھ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا کہا جائے کیا کیا جائے ٹھیک وہی کیفیت میرے ساتھ ہے ۔بس خداوند سے دعاگو ہوں خدایا !!تو اپنی امت پر رحم فرما !خدایا تو نے ہمیں کتنی بڑی ذمہ داری دیکر دنیا میں بھیجا تھا اور ہم کہاں کھو گئے ،ہمارے کردار ،ہمارے اعمال کس قدر گھناونے ہو گئے ۔ابھی میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور میرے آنکھوں کے سامنے صبح کے اخبار کی خبر گر دش کر رہی ہے جس میں ایک درندہ صفت انسان نے دہلی کی ایک معصوم پانچ سالہ بچی کو اپنی ہوس کا شکار بنایا ۔آخر اس طرح کی حرکت کرتے ہوئے انسان کو شرم کیوں نہیں آتی ،ایسی حرکت تو جانور بھی نہیں کرتا ۔خدایا تو تیرا بندہ انسان اتنا ذلیل ہو گیا ہے ۔تو نے تو اسے اشرف المخلوقات بنایا تھا ۔لیکن وہ ارزل المخلوقات ہو گیا ۔بار الہا تو رحم فرما ،ہدایت دے سیدھی راہ۔۔۔۔۔
 
Top