بیگم کا پکوان!

عرفان سعید

محفلین
بیگم کا پکوان!

کیسے بیان کروں ترے ذوقِ پکوان کو
رشک سے دیکھوں خیال کی اڑان کو

حُسن کریدے راز جو تری نظرِجمال میں
فن چاہے بلندیاں جو تری فکرِ کمال میں

گلشن کے لہلہاتے پھولوں کو بھی یہ جستجو
کہاں سے آخر لے آتی ہے تویہ خوشبو


اک ادائے نزاکت سےکھانےتو سجائے
خورشیدِ درخشاں کی تابانیوں کو جو گہنائے


ہر نوالے کی لذّت کا کوئی حساب نہیں!
میٹھے کی حلاوت کا کوئی جواب نہیں!


لقمے لقمے سے جھلکے تیری عرق ریزی
مجھے یہ تو بتا، اور کیا ہے برق ریزی؟

چرچا تری پکوائی کا بہشتِ بریں میں
گھر کی زینت مستورطعامِ رنگیں میں

دیکھ نہ پائے خُلوص ترا عالمِ مدہوشی
حوریں تری بابت کرتی ہیں سرگوشی

روح کے ترانوں کو تری نذر کرتے ہیں
دل کی گہرائیوں سے تری قدر کرتے ہیں

یوں آج اپنی کہانی ہم تمام کرتے ہیں
محبت کا ہر افسانہ ترے نام کرتے ہیں
(عرفان)
 
Top