بیوقوفانہ فتوے

زیک

مسافر
فارن پالیسی میگزین نے اپنی ویب‌سائٹ پر کچھ عجیب و غریب فتوے اکٹھے کئے ہیں۔ ان میں سے دو پڑھ کر بہت ہنسی آئی۔

1۔ رشاد حسن خلیل نے جنوری 2006 میں فتوٰی دیا تھا کہ اگر میاں بیوی شادی کے نتیجے میں حلال ہونے والا عمل کرتے ہوئے مکمل ننگے ہوں تو ان کے نکاح کی تنسیخ ہو جاتی ہے۔ اس پر کافی شور اٹھا تو جامعہ الاظہر کی فتوٰی کمیٹی کے انچارج عبداللہ نے کہا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو ننگا دیکھ سکتے ہیں مگر انہیں چاہیئے کہ ایک دوسرے کے عضو تنسال پر نظر نہ ڈالیں اور اپنا کام اگر کمبل کے اندر کریں تو بہتر ہے۔ (مگر اگر نظر نہ ڈالی جائے تو نشانہ خطا ہونے کا کون ذمہ‌دار ہو گا؟ ;) )

2۔ الاظہر ہی کے ایک لیچکرار نے مردوں اور عورتوں کے ساتھ ساتھ دفتر میں کام کرنے کا ایک عجیب و غریب طریقہ نکالا۔ وہ یہ کہ اگر ان عورتوں کے ساتھ کام کرنے والے مرد عورتوں کے رضاعی بچے بن جائیں تو پھر وہ محرم ہو جائیں گے اور مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔ اس فتوے کے نتیجے میں اس لیکچرار کو الاظہر سے سسپینڈ کر دیا گیا اور انہیں یہ فتوٰی واپس لینا پڑا۔

اور اب ہم چلتے ہیں آیت اللہ سیستانی کے ایک فتوے پر۔ جناب فرماتے ہیں کہ شطرنج حرام ہے چونکہ اس سے جوا کھیلا جا سکتا ہے۔ کیا کسی نے واقعی شطرنج سے جوا کھیلا؟ کیا یہ جوا مشکل نہیں؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
مجھے اس آرٹیکل کا مقصد سمجھ نہیں آیا۔ مضمون کے آغاز میں لکھا ہوا ہے:

No central authority controls doctrine in Islam, one of the world’s great religions. The result? A proliferation of bizarre religious edicts against targets ranging from Salman Rushdie to polio vaccinations. FP collects some of the worst examples here.

اس سے شاید مضمون نگار کی مراد یہ ہے کہ مسلمانوں میں کوئی پوپ موجود نہیں ہے۔ مضمون میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ فتوے زیادہ تر جنسی معاملات پر جاری کیے جاتے ہیں۔

مجھے یہ مضمون کسی نام نہاد orientalist کا لکھا لگتا ہے جس کی تحقیق کا مقصد اس طرح کی مثالیں ڈھونڈھ کر اسلام کی تضحیک کا سامان پیدا کرنا ہے۔
 

سید ابرار

محفلین
فارن پالیسی میگزین نے اپنی ویب‌سائٹ پر کچھ عجیب و غریب فتوے اکٹھے کئے ہیں۔ ان میں سے دو پڑھ کر بہت ہنسی آئی۔
جھاں تک فارن پالیسی میگزین کی بات ہے تو میری اطلاعات کے مطابق یہ میگزین کارینگی انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہوتا ہے ، اور ”بین الاقوامی مسائل و موضوعات پر” امریکی ماہرین “کے قلم سے اس میں مضامین شائع ہوتے ہیں ،اور تعداد اشاعت کے اعتبار سے بھی یہ کوئی قابل ذکر میگزین نھیں ہے ، اب ظاھر ہے ”کھسیانی بلی کھمبا نوچے “کے مصداق جب اسلام کے خلاف کوئی مواد نھیں ملا تو ان نام نھاد ”محققین “ نے سوچا ہوگا کہ چلو، اسلامی فتووں ہی کو نشانہ بنایا جائے ، تاکہ ”جگ ھنسائی “ ہوسکے ،اور ”علماء کرام“ پر جو مسلمانوں کا اعتماد ہے ، اسے ختم کیا جاسکے ،
بھر حال ان ”امریکی ماہرین “ کی خدمت میں عرض ہے کہ فتوی یہ اسلامک لاء کا ایک حصہ ہوتے ہیں ، جو مفتیان کرام زمانے ، اشخاص ، اور حالات کے مد نظر اپنے ”علم “ کی روشنی میں دیتے ہیں ، اگر کسی فتوی میں کوئی” قابل اعتراض “بات ہو، یا کچھ ”غلطی “ ہوجائے ؛ تب بھی ان فتووں کی اصلاح کا حق بھر حال انھی مفتیان کرام کو ہوگا ؛ جن کے پاس ”افتاء“ کی ڈگری ہوگی ؛ان ”امریکی ماھرین “ کوبھر حال ان میں ”اصلاح“ یا ”نکتہ چینی “ کے نام پر ”دخل“ دینے کی کوئی ”ضرورت “ نھیں ہے ،
اور ویسے بھی ہم ان ”لوگوں “ میں سے نھیں ہیں ؛ جو ان نام نھاد ”محققین “ کے ”ارشادات“ کو ”وحی “ کادرجہ دے کر بلا سوچے سمجھے اس پر ”ایمان “ لے آتے ہیں ،
جھاں تک میرا خیال ہے ؛ یہ ”محققین “ ادھر ادھر ”جھانکنے “کی بجائے اپنے ہی ”گھر “ میں بھڑکنے والی آگ کی اگر فکر کرلیں‌ تو زیادہ ”مناسب“ ہوگا ، ”اسقاط حمل“ ، شادی کے بغیر ”جنسی تعلقات“ ، ہم جنس پرستی ، نیز ”ہم جنس پرستوں “ کے درمیان ”شادی “ ، جیسے عجیب ”نمونے “ آپ کو امریکن لاء کے تحت نہ صرف ”جائز “ نظر آئیں گے ، بلکہ بعض ”پادریوں “کے نزدیک بھی ،
اللہ کا شکر ہے کہ کم از کم ایسے ”عجائبات “ سے نہ صرف ہمارا اسلامک لاء ”محفوظ“ ہے ، بلکہ ہمارے علماء بھی ابھی تک اس قسم کی ”روشن خیالی “ سے کافی دور ہیں ،
 

سید ابرار

محفلین
[
1۔ رشاد حسن خلیل نے جنوری 2006 میں فتوٰی دیا تھا کہ اگر میاں بیوی شادی کے نتیجے میں حلال ہونے والا عمل کرتے ہوئے مکمل ننگے ہوں تو ان کے نکاح کی تنسیخ ہو جاتی ہے۔ اس پر کافی شور اٹھا تو جامعہ الاظہر کی فتوٰی کمیٹی کے انچارج عبداللہ نے کہا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو ننگا دیکھ سکتے ہیں مگر انہیں چاہیئے کہ ایک دوسرے کے عضو تنسال پر نظر نہ ڈالیں اور اپنا کام اگر کمبل کے اندر کریں تو بہتر ہے۔ (مگر اگر نظر نہ ڈالی جائے تو نشانہ خطا ہونے کا کون ذمہ‌دار ہو گا؟ ;) )
اب پتہ نھیں رشاد صاحب نے یہ فتوی کن ”اصولوں“ کی روشنی میں‌ دیا ہے ، بھر حال جن مفتیان کرام سے ہم نے اس بار ے میں پوچھا ، ان کا تو یھٰی کھنا تھا کہ اس قسم کی کوئی بات نھیں‌ ہے ؛ بلکہ شوھر اور بیوی دونوں کے لئے ایک دوسرے کے بدن کو مکمل دیکھنا ”جائز “ہے ، اور اس کی صراحت ”احادیث “ میں‌ ہے ، البتہ ”احادیث“ کی روشنی میں” مناسب “ اور ”بھتر“ وہی ہے ؛ جس کا ذکر جامعہ ازھر کی فتوی کمیٹی کے انچارج مفتی عبداللہ نے کیا ہے
 

سید ابرار

محفلین
[

1۔ رشاد حسن خلیل نے جنوری 2006 میں فتوٰی دیا تھا کہ اگر میاں بیوی شادی کے نتیجے میں حلال ہونے والا عمل کرتے ہوئے مکمل ننگے ہوں تو ان کے نکاح کی تنسیخ ہو جاتی ہے۔ اس پر کافی شور اٹھا تو جامعہ الاظہر کی فتوٰی کمیٹی کے انچارج عبداللہ نے کہا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو ننگا دیکھ سکتے ہیں مگر انہیں چاہیئے کہ ایک دوسرے کے عضو تنسال پر نظر نہ ڈالیں اور اپنا کام اگر کمبل کے اندر کریں تو بہتر ہے۔ (مگر اگر نظر نہ ڈالی جائے تو نشانہ خطا ہونے کا کون ذمہ‌دار ہو گا؟ ;) )
بریکٹ کے درمیان جو ”استھزائیہ “ جملہ ہے ؛ اگر یہ زکریا صاحب نے اپنی طرف سے کھا ہے تو یہی کہ سکتے ہیں‌کہ یہ ایک ”قابل افسوس“ چیز ہے ؛ مفتی عبداللہ صاحب نے جو بات کہی ہے ؛ وہ اپنی طرف سے نھیں کھی ، بلکہ بعینہ یھی ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ زکریا صاحب کو جناب رشاد صاحب کے فتوی کو پڑھ کر ”غلط فھمی “ ہوگئی ہوگی کہ مفتی عبداللہ کا فتوی بھی اس قسم کا ہوگا ؛ حالانکہ ایسی بات نھیں‌ ہے ؛بلکہ مفتی عبد اللہ صاحب نے جو بات کھی ہے بعینہ وہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی منقول ہے ، امید ہے کہ اس وضاحت کے بعد جناب زکریا صاحب اپنا جملہ واپس لے لیں‌ گے
 

سید ابرار

محفلین
[
2۔ الاظہر ہی کے ایک لیچکرار نے مردوں اور عورتوں کے ساتھ ساتھ دفتر میں کام کرنے کا ایک عجیب و غریب طریقہ نکالا۔ وہ یہ کہ اگر ان عورتوں کے ساتھ کام کرنے والے مرد عورتوں کے رضاعی بچے بن جائیں تو پھر وہ محرم ہو جائیں گے اور مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔ اس فتوے کے نتیجے میں اس لیکچرار کو الاظہر سے سسپینڈ کر دیا گیا اور انہیں یہ فتوٰی واپس لینا پڑا۔
موصوف نے واقعی ”عجیب و غریب “ طریقہ نکالا ہے ، در اصل اسلامک لاء‌ کو اصل خطرہ اسی قسم کے ”روشن خیال “ علماء سے ہے ؛ جو اسلام کو بھی ”مغربیت زدہ “ بنانے کی اپنی طرف سے پوری ”کوششیں “ کرتے ہیں‌ ؛ لیکن بے چارے ”رد عمل “ دیکھ کر اپنا منہ لے کر رہ جاتے ہیں‌،
اب زیر بحث مسئلہ ہی ملاحظہ فرمائیں ؛ کہ اھل مغرب نے خواتین کو گھروں‌ سے نکالنے کے لئے جو ”کامیاب پروپیگنڈہ “کیا ہے جس کے نتیجہ میں مغرب کا معاشرتی اور خاندانی نظام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ، لگتا ہے موصوف بھی اسی قسم کے پروپیگنڈہ کا ”شکار “ ہوگئے ہیں ، حالانکہ مسئلہ کا حل تو یہ ہے کہ خواتین ”آفس جاب “ کی بجائے ، اپنی ”ھوم جاب “ پر بھر پور توجہ دیں ، جو 24 گھنٹے کی ایک ”فل ٹائم ڈیوٹی“ ہے ،
ویسے بر سبیل تذکرہ ایک بات کہ دوں کہ اس قسم کے ”جدت پسند“ اور ”روشن خیال“ علماء عرب اور مغرب میں‌ تو نظر آجاتے ہیں‌؛ مگر بر صغیر میں اس قسم کے علماء کا ملنا دشوار ہے
 

سید ابرار

محفلین
[
اور اب ہم چلتے ہیں آیت اللہ سیستانی کے ایک فتوے پر۔ جناب فرماتے ہیں کہ شطرنج حرام ہے چونکہ اس سے جوا کھیلا جا سکتا ہے۔ کیا کسی نے واقعی شطرنج سے جوا کھیلا؟ کیا یہ جوا مشکل نہیں؟
آیت اللہ سیستانی کی بات تو اپنی جگہ ہے ؛ لیکن فقہ حنفی کے علماء کی بھی یھی رائے ہے کہ اگر شطرنج جوا کے ساتھ ہو تو حرام ہے جس زمانے میں یہ فتوی دیا گیا ہے اس زمانے میں شطرنج کے ساتھ جوا کھیلنا ایک عام بات تھی ،
 

سید ابرار

محفلین
مجھے اس آرٹیکل کا مقصد سمجھ نہیں آیا۔ مضمون کے آغاز میں لکھا ہوا ہے:

No central authority controls doctrine in Islam, one of the world’s great religions. The result? A proliferation of bizarre religious edicts against targets ranging from Salman Rushdie to polio vaccinations. FP collects some of the worst examples here.

اس سے شاید مضمون نگار کی مراد یہ ہے کہ مسلمانوں میں کوئی پوپ موجود نہیں ہے۔ مضمون میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ فتوے زیادہ تر جنسی معاملات پر جاری کیے جاتے ہیں۔

مجھے یہ مضمون کسی نام نہاد orientalist کا لکھا لگتا ہے جس کی تحقیق کا مقصد اس طرح کی مثالیں ڈھونڈھ کر اسلام کی تضحیک کا سامان پیدا کرنا ہے۔
جھاں تک یہ بات ہے کہ فتوی زیادہ تر جنسی معاملات پر جاری کئے جاتے ہیں‌ ؛ اس سے ان امریکی محققین کی ”تحقیق“ کا پول کھل جاتا ہے ؛ اس لئے کہ فتوی کا تو مطلب ہی یھی ہوتا ہے کہ کسی نے کسی مفتی صاحب سے آکر کوئی بات پوچھی تو انھوں‌ نے قرآن وحدیث اور فقھی اصولوں کی روشنی میں اس کا جواب دے دیا ؛ اب ظاھر ہے کہ جیسا سوال ہوگا ویسا جواب ہوگا ،
ویسے ان ”محققین “ کی ” معلومات “ میں اضافہ کے لئے یہ بتاتا چلوں کہ ہر سال لاکھوں‌ فتاوی دئے جاتے ہیں اور ان پر ”عمل “ بھی کیا جاتا ہے ،
اور زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق فتاوی دئے جاتے ہیں‌ ؛ جس میں‌ نماز ، روزہ ، حج سے لےکر تجارت ، نکاح ، وراثت اور دیگر امور ہیں‌،
 

سید ابرار

محفلین
مجھے اس آرٹیکل کا مقصد سمجھ نہیں آیا۔ مضمون کے آغاز میں لکھا ہوا ہے:

No central authority controls doctrine in Islam, one of the world’s great religions. The result? A proliferation of bizarre religious edicts against targets ranging from Salman Rushdie to polio vaccinations. FP collects some of the worst examples here.

اس سے شاید مضمون نگار کی مراد یہ ہے کہ مسلمانوں میں کوئی پوپ موجود نہیں ہے۔ مضمون میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ فتوے زیادہ تر جنسی معاملات پر جاری کیے جاتے ہیں۔

مجھے یہ مضمون کسی نام نہاد orientalist کا لکھا لگتا ہے جس کی تحقیق کا مقصد اس طرح کی مثالیں ڈھونڈھ کر اسلام کی تضحیک کا سامان پیدا کرنا ہے۔
جھاں تک ارٹیکل کے ”مقصد “کی بات ہے تو اس میں مختلف رائیں‌ ہوسکتی ہیں‌ ، لیکن جھاں‌تک میں‌ سمجھتا ہوں‌ ؛ گلوبلائزیشن کی جو تحریک امریکہ اور یورپ چلارہے ہیں‌ اس میں‌ سب سے بڑی رکاوٹ ”مسلمانوں کا اپنے علماء پر اعتماد“ اور ہر دینی مسئلہ میں‌ ان سے رجوع کرنا ہے ، لھذا کئی سالوں سے پروپیگنڈہ کے ذریعہ یہ کوششیں کی جارہی ہیں‌ کہ اس ”اعتماد “ کو کسی طرح ختم کیا جاسکے ؛ مذکورہ مضمون بھی اسی پروپیگنڈہ کا ایک حصہ لگتا ہے ؛
 

نبیل

تکنیکی معاون
ابرار، زکریا کی پوسٹ کا مقصد فقہی مسائل پر بحث نہیں تھا۔

مجھے صرف یہ بات پسند نہیں آئی تھی کہ پورے عالم اسلام میں سے چن کر ان موضوعات کو نمایاں کیا جائے جس کا مقصد اس کی تضحیک ہو۔ جہاں تک علما پر اعتماد کا تعلق ہے تو مغرب کو اس کے خاتمے کے لیے کوئی بڑی مہم چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ آج کے مسلمان ان علماء کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حقِ زن و شوئی پردے یا چادر کے اندر ادا کرنا ایسی کوئی مضحکہ خیز بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایک صرف اور صرف اور مذہبی مسئلہ ہے۔

یہ ایک اخلاقی، معاشرتی اور نفسیاتی مسئلہ بھی ہے اور ان پہلوؤں کو بھی مدِ نظر رکھئیے :

-آج بھی کروڑوں مسلمان بالخصوص اور اربوں افراد بالعموم، ایک ہی کمرے میں اپنی ساری زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ میاں بیوی کیلیے علیحدہ "بیڈ رومز" مہیا نہیں ہیں، ایسے میں کمبل کی ہی حد تک پردے کا اہتمام کرنے میں کیا قباحت ہے؟

-مڈل کلاس طبقے میں جن میاں بیوی کو علیحدہ کمرہ دستیاب بھی ہے، وہاں بھی عموماً یہی ہوتا ہے کہ ایک ہی بیؕڈ پر میاں بیوی بھی استراحت فرما رہے ہیں اور وہیں انکے دو تین بچے بھی سوئے ہوئے ہیں۔

میں ایک ایسے خاندان کو جانتا ہوں، جنہیں صرف اسی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ ہوا یوں کہ انکا چار، پانچ سالہ بیٹا، اپنے والدین کی رات کی روداد وہاں کے نوجوانوں کو سنا دیتا تھا کہ وہ اسے چھوٹا سمجھ کے اس سے پردے کا اہتمام نہیں کرتے تھے، پھیلتے پھیلتے بات ان میاں بیوی تک بھی پہنچ گئی، سبکی اور شرم کے مارے انہوں نے وہ جگہ ہی چھوڑ دی۔

بعینہ اسی معاشرتی مسئلے اور اس سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کے مطلق، سعادت حسن منٹو کا مشہور افسانہ "ننگی آوازیں" اگر آپ پڑھ سکیں تو بات مزید واضح ہو جائے گی۔

"نشانہ خطا ہونا" تو عذرِ گناہ بد تر از گناہ والی بات ہے۔ :)

جہاں تک دوسرے فتوے کی بات ہے، تو اسکا صرف تاریک پہلو دکھایا گیا ہے، دوسرا پہلو روشن اور زیادہ اہم ہے کہ عالمِ اسلام میں ایسے لوگ ابھی موجود ہیں جنہوں نے نہ صرف اس بیوقوفانہ فتوے کو کالعدم قرار دیا بلکہ اس ناہنجار مولوی کو فارغ بھی کردیا۔ اس لیکچرار کو اپنا فتوی ثابت کرنے کا پورا موقع دیا گیا تھا کہ اپنے فتوے کے حق میں استدلال لائے اور جب وہ ثابت نہ کرسکا تو فارغ ہو گیا۔

نبیل صاحب نے بہت اچھی بات کی ہے کہ "چن چن" کر ایسے ہی موضوعات کو نمایاں کیوں کیا جارہا ہے جن سے صرف تضحیک ہی ہوتی ہے، واقعی سوچنے کی بات ہے؟
 
Top