بیاں سے اس لئے بھی آج ماورا دکھ ہے، غزل، احمد وصال

احمد وصال

محفلین
بیاں سے اس لئے بھی آج ماورا دکھ ہے
تمھیں پتہ ہی نہیں یار مجھ کو کیا دکھ ہے!

گریز مجھ سے ترا تو سمجھ میں آتا ہے
رقیب سے یہ مگر تیرا رابطہ ، دکھ ہے!

تمھاری ذرّہ نوازی سے ہے فراوانی
ہمارے شہر میں اب ملتا جابجا دکھ ہے

یہ کڑوا کڑوا سا جو ذائقہ ہے اشکوں کا
نمک نہیں ہے فقط، اس میں تیرتا دکھ ہے

کوئی ہے مرتا گھٹن سے، تو یاں کسی کے لئے
دیے بجھاتی یہ چلتی ہوئی ہوا دکھ ہے

مجھے سمجھتا تہی دست ہے تو کیوں آخر ؟
ذرا یہ جھولی میں دیکھو کہ بے بہا دکھ ہے

جہاں میں کوئی نہیں شے بھی جو ابد تک ہو
ترے ستم کی نہیں کوئی انتہا ، دکھ ہے

وصال جانتے ہیں سارے ہم مزاج مرے
یہ میں نہیں مرے لہجے میں بولتا دکھ ہے
 
Top